گواہی

کہانیوں میں پڑھنا اور بات ہے لیکن جو آنکھوں دیکھی ہو یا خود پر گزری ہو اس کے بارے میں کوئی کیا کہے۔۔۔


Tariq Mahmood Mian July 27, 2013
[email protected]

کہانیوں میں پڑھنا اور بات ہے لیکن جو آنکھوں دیکھی ہو یا خود پر گزری ہو اس کے بارے میں کوئی کیا کہے۔ زندگی کی حیرتیں محض حسن اتفاق تو نہیں ہوسکتیں۔ اس نظام کے ایک ایک ملی سیکنڈ کی پروگرامنگ کو دیکھ کے نگاہ آسمان کی جانب اٹھتی ہے اور گم ہوجاتی ہے۔

انیس بھائی کو میں بہت عرصے سے جانتا ہوں۔ وہ ایک مشہور ایئرلائن میں کام کرتا تھا۔ آج کل ایک ٹریول ایجنسی چلا رہا ہے۔ ایک زمانے میں اس کی رہائش صدر میں بوہری بازار سے ذرا آگے تیسری منزل کے ایک فلیٹ میں تھی۔ یہ علاقہ دن میں بے حد پر رونق ہوتا ہے۔ رات میں فقط چند گھنٹے خاموشی ہوتی ہے۔ اس وقت بہت سے ٹھیلوں والے اور فٹ پاتھ پر دکان سجانے والے فٹ پاتھ پر ہی چارپائیاں لگا کے سو رہتے ہیں۔ ان کا مال تجارت قدموں کے پاس باندھ کے رکھا ہوتا ہے اور ساری نقدی تکیے کے نیچے۔ ایک روز انیس بھائی نے مجھے ایک واقعہ سنایا۔ کہنے لگا ''گزشتہ رات مجھے بہت دیر تک نیند نہیں آئی۔ کچھ پریشانی چل رہی تھی مگر ایسی بھی نہیں کہ نیند ہی اڑجائے۔

بہرحال تمام گھر والے سوگئے تھے اور میں کروٹیں بدل رہا تھا۔ کبھی آواز بند کرکے ٹی وی لگالیتا اور کبھی کوئی کتاب اٹھالیتا۔ آخر تھک کے خاموش لیٹ گیا۔ اچانک بے چینی اتنی بڑھی کہ کمرے میں گھٹن محسوس ہونے لگی۔ میں ایک دم اٹھا اور باہر بالکنی میں آگیا۔ ہر طرف اندھیرا تھا۔ میں وہاں لمبے لمبے سانس لے رہا تھا کہ اچانک نیچے سڑک پر نظر پڑی دیکھا تو ایک آدمی چپکے چپکے آیا اور چارپائی پر سوئے ہوئے ایک شخص کے تکیے کے نیچے سے کچھ نکالنے لگا۔ میں نے فوراً اسے زور سے للکارا۔ وہاں سوئے ہوئے لوگ بھی جاگ گئے اور اسے پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے دوڑے۔ میں اندر کمرے میں لوٹ آیا اور اگلے ہی لمحے اتنی گہری نیند آگئی کہ کچھ نہ پوچھو''۔

اسی طرح ایک اور واقعہ سناتا ہوں۔ ریاض میرا تیس سال پرانا دوست ہے۔ ایک زمانے میں وہ حیدرآباد میں رہتا تھا۔ اس کے والد ریلوے پولیس میں تھے اور ان کی رہائش ریلوے کالونی کے سرکاری مکانات میں تھی۔ ان دنوں وہ اسکول کا طالب علم تھا۔ ایک سہ پہر وہ ایک لائبریری میں کچھ وقت گزار کے گھر آیا تو اس کی امی نے بتایا کہ اس کا دوست وقار آیا تھا۔ وہ کہہ کر گیا ہے کہ ساڑھے پانچ بجے جہاں میں نے کہا تھا وہاں آجائے۔ ساڑھے پانچ سے کچھ پہلے ریاض ریلوے اسٹیشن کی طرف چل دیا۔ یہ گھر سے دور نہیں تھا۔ وہاں پہنچ کے اس نے گیٹ کے اندر قدم رکھا ہی تھا تو دیکھا کہ ایک بوڑھی عورت، ایک گٹھڑی ہاتھ میں لیے پلیٹ فارم کے کنارے پر ٹانگیں نیچے لٹکائے بیٹھی ہے۔ وہ شاید یہاں سے ریلوے لائن کے اس پار جانا چاہ رہی تھی۔ اسی وقت اسی پلیٹ فارم پر ایک ٹرین بھی داخل ہورہی تھی۔ ریاض تیر کی طرح اس بڑھیا کی طرف بڑھا اور ایک دم جپھا مار کے اسے واپس پلیٹ فارم کے اوپر کھینچ لیا۔ اسی لمحے ٹرین کا انجن وہاں سے گزر گیا۔۔۔۔ اور پھر اسی وقت ریاض کو یاد آیا کہ وقار نے تو اسے آج کھیل کے میدان میں ملنے کو کہا تھا۔ یہاں تو وہ غلطی سے آگیا تھا۔

اب میں آپ کو ایک اپنا واقعہ سناتا ہوں۔ یہ بات تو چھوٹی سی ہے مگر اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب کار کا دروازہ ریموٹ کے ذریعے نہیں بلکہ چابی کے ذریعے کھولا جاتا لیکن اسے بند کرنے کے لیے عموماً لوگ جلدی میں ہینڈل اوپر اٹھا کے دروازہ بند کردیتے تھے۔ یہ بڑا غلط طریقہ ہے کیونکہ اس طرح بعض اوقات کار کی چابی اندر ہی رہ جاتی ہے۔ میرے ساتھ بھی دو ایک بار ایسا حادثہ ہوچکا ہے۔ جب بار بار دروازہ کھلوانے کے لیے خوار ہونا پڑا تو میں نے ایکسٹرا چابیاں بنوا کے اپنے بٹوے کے ایک خانے میں رکھ لی تھیں۔ اب آئیے اصلی واقعے کی طرف۔

میں اس روز نیوچالی کی ایک عمارت میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا۔ سہ پہر کے تین بجے تھے۔ ان دنوں میرے والد صاحب بھی کراچی آئے ہوئے تھے اور اس وقت میرے پاس موجود تھے۔ انھیں غالباً کسی بینک وغیرہ میں کوئی کام تھا۔ وہاں سے فارغ ہوکے وہ میرے پاس آگئے تھے۔ وہ تھوڑی ہی دیر کے بعد بولے ''تم نے تو پانچ بجے کے بعد آنا ہوگا۔ میں جاتا ہوں اور گھر جاکے آرام کرتا ہوں''۔ اتنا کہا اور اٹھ کے چلے گئے۔ ویسے بھی ہم نے الگ الگ ہی جانا تھا کیونکہ وہ اپنی گاڑی پر آئے تھے۔ ان کے جانے کے کوئی نصف گھنٹے کے بعد مجھے بھی خیال آیا کہ چلو میں بھی چلتا ہوں۔ رستے میں کوئی ایک آدھ کام ہی کرتا جاؤں گا۔ بلڈنگ کے گیٹ سے نکلا تو سوچا کہ چلو ریگل کی طرف سے چلتا ہوں۔ وہاں ذرا رک کے نئے رسالے وغیرہ دیکھتا ہوں۔ خصوصاً ادبی رسائل آسانی سے بس وہیں ملتے ہیں۔ وہاں پہنچا تو پارکنگ کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ رسالوں کی دکانوں کے پاس بارہ پندرہ گاڑیاں پارک کرنے کی جگہ ہے اور وہ فل تھی۔ میں کچھ دیر وہاں رک کے انتظار کرتا رہا پھر ارادہ ترک کرکے آگے بڑھ گیا۔

اب مجھے بائیں طرف مڑ کے بندر روڈ کی طرف جانا تھا لیکن اچانک خیال آیا کہ وقت تو کافی ہے کیوں نہ پینٹ شرٹ خریدتا چلوں بہت دنوں سے ارادہ کر رہا ہوں ، سو میں زیب النساء اسٹریٹ پر دائیں طرف مڑگیا۔ زینب مارکیٹ کے قریب جو بوہری ریسٹورینٹ ہے اس کے سامنے والی ایک دکان سے میں عموماً کپڑے خریدتا تھا۔ وہاں پہنچ کے دیکھا تو پریس کلب کی طرف سے آنے والی ٹریفک کا ایک ہجوم تھا اور وہاں بھی پارکنگ کی جگہ دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ اس لیے سگنل کھلا تو میں یہ ارادہ بھی ترک کرکے سیدھا ہی چلا گیا۔ پینوراما سینٹر کے سامنے گاڑیاں آڑی ترچھی کھڑی تھیں اور ٹریفک بہت سلو تھی۔ اچانک میں نے دیکھا ان ہی گاڑیوں میں ہماری گاڑی بھی کھڑی ہے اور میرے والد صاحب کچھ پریشان سے اس کے پاس کھڑے ہیں، ان کی چابی کار میں لاک ہوگئی تھی۔ میں پاس جاکے رکا تو ایک دم سے بولے ''ارے بھئی! نکالو نکالو۔۔۔۔ تمہارے پاس ڈپلیکیٹ چابی ہوتی ہے۔ جلدی نکالو''۔ میرے پاس ان کی چابی بھی تھی۔ میں نے بٹوہ کھولا اور چابی نکال کے دے دی۔

گھر پہنچے تو انھوں نے بتایا کہ پہلے ان کا ارادہ سیدھے گھر جانے کا تھا لیکن پھر خیال آیا کہ اپنے اکاؤنٹنٹ سے ملتا جاؤں۔ اسی لیے وہ پینوراما سینٹر گئے تھے۔ میں وہاں کیوں گیا تھا اور وقت کے عین اس لمحے میں مجھے کون لے گیا تھا؟ زندگی کی یہی وہ حیرتیں ہیں جو محض حسن اتفاق نہیں ہوسکتیں۔ یہ انتظام اسی نے کیا تھا جس نے اس رات انیس بھائی کو بالکونی میں کھڑا کردیا تھا اور جس نے ریاض کو غلطی سے ریلوے اسٹیشن پہنچا دیا تھا۔ یہ وہ گواہیاں ہیں جو دنیا میں ہر جا دکھائی دیتی ہیں۔ اس نظام کے ایک ایک ملی سیکنڈ کی پروگرامنگ کو دیکھ کے نگاہ آسمان کی جانب اٹھتی ہے، گم ہوتی ہے اور پھر سر جھک جاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں