پاکستانی مانچسٹر کی حالتِ زار اور پولیس کا کردار

’’کدی ساڈی وی چنگی جئی خبر لا دیو‘‘ فیصل آباد پولیس کی یہ فرمائش سن سن کر صحافیوں کے کان پک جاتے ہیں۔

فوٹو : فائل

''کدی ساڈی وی چنگی جئی خبر لا دیو'' فیصل آباد پولیس کی یہ فرمائش سن سن کر صحافیوں کے کان پک جاتے ہیں۔

یہاں چالیس تھانے ہیں، پولیس کی نفری بھی بھاری ہے لیکن جرائم کا کیا عالم ہے؟ کچھ مت پوچھیے! نہ زندگی کی کوئی ضمانت ہے نہ جان و مال کی اور نہ ہی عزت و ناموس کی، عین ممکن ہے کہ آپ اپنی دہلیز سے قدم آگے بڑھائیں اور کوئی آپ کی کن پٹی پر پستول کی نالی رکھ دے اور سب کچھ چھین چھان کر یہ جا وہ جا ہوجائے، اگر آپ کا آخری وقت نہیں آن پہنچا تو آپ یقیناً مزاحمت نہیں کریں گے۔

ذرا اندازہ کیجے! گذشتہ 7 ماہ میں ڈکیتی، راہ زنی اور چوری کی5144 وارداتوں میں 2343 موٹر سائیکل، 418 کاریں، 274 گھر، جیولرز کی12 دوکانیں لٹیں، مزاحمت پر21 افراد قتل اور 109 کو زخمی ہوئے۔

اجمال ملاحظہ ہو! جنوری میں 446 چوری کی وارداتیں ہوئیں جن میں 257 موٹر سائیکل 74 کاریں شامل ہیں۔ فروری کے مہینے میں 338 چوریاں، 142 موٹر سائیکل اور60 کاریں شامل، مارچ میں 275 چوریاں، 177 موٹر سائیکل اور33 کاریں شامل، اپریل میں 420 چوریاں، 263 موٹر سائیکل 57 کاریں اور5 کیری ڈبے شامل، مئی اور جون میں 735 چوریاں، 494 موٹر سائیکل 123 کاریں اور 2 ڈالے شامل، جولائی میں چوری کی 300 وارداتیں، جن میں 201 موٹر سائیکلیں اور 30 کاریں چوری ہوئیں۔

سال کے پہلے ہی مہینے میں ڈکیتی کی 383 وارداتیں ، 119 موٹر سائیکلیں اور 5 کاریں چھینی گئیں۔ اسی ماہ گھروں میں گھس کر ڈکیتی کی وارداتیں 46 ہوئیں جن میں مزاحمت پر افراد جان سے گئے اور 22 زخمی ہوئے۔ فروری میں 228 ڈکیتیاں ہوئیں، پینسٹھ موٹر سائیکلیں اور تین کاریں چھنیں، گھروں میں انتالیس ڈاکے پڑے، مزاحمت میں زخمی ہونے والے چودہ تھے، جیولرز کی دو دکانیں بھی لوٹی گئیں۔ مارچ میں تین سو نو ڈکیتیاں ہوئیں جن میں تریسٹھ موٹرسائیکلیں، چار کاریں چھنیں، گھریلو وارداتوں کی تعداد اڑتیس رہی اور مزاحمت پر دس افراد زخمی دو قتل۔

اسی ماہ جیولرز کی پانچ دکانوں پر ڈکیتی کی خطرناک وارداتیں ہوئیں۔ اپریل میں چھوٹی بڑی چار سو ستائیس ڈکیتیاں، جن میں ایک سو پچپن موٹر سائیکل اور گیارہ کاریں چھینی گئیں، سینتیس گھر بھی لٹے، ڈکیتییوں کی کارروائی میں زخمی ہونے والوں کی تعداد بائیس اور قتل ہونے والوں کی تعداد تین رہی، جیولرز کی دو دکانیں بھی لوٹی گئیں۔ مئی میں چار سو چھہتر ڈکیتیاں، جن میں ایک سو انسٹھ مو ٹر سائیکلیں اور نو کاریںچھینیں، چونتیس گھریلو وارداتیں، ڈکیتیوں میں زخمیوں کی تعداد دس اور قتل ہونے والوں کی تعداد چار رہی۔ جون میں چار سو سات ڈکیتیاں ہوئیں جن میں ایک سو اڑتالیس موٹر سائیکلیں، تین کاریں گئیں، چالیس گھریلوں ڈکیتیاں، خمیوں کی تعداد سولہ اور قتل ہونے والوں کی تعداد تین رہی۔ جولائی میں ڈکیتی کی 400 وارداتیں ہوئیں جن میں 100 موٹر سائیکل 6 کاریں 40 گھر لوٹے گئے، مزاحمت پر ایک شخص قتل اور 16 افراد زخمی ہوئے۔ اس ماہ ایک پولیس مقابلہ بھی ہوا جس میں ایک ڈاکو ہلاک اور ایک زخمی ہوا۔


سال 2013 میں جرائم، دیرینہ دشمنی، معمولی لڑائی جھگڑوں، فسادات کی بنیاد پر قتل ہونے والوں کی تعداد دو سو بتیس رہی ۔ اب تک چھ ماہ میں 56 خواتین اور 176 مردوں کو قتل کیا جاچکاہے۔

جنوری میں نو عورتیں اور چھیالیس مرد، فروری میں دس عورتیں اور اٹھارہ مرد، مارچ میں دس عورتیں، بتیس مرد، اپریل میں گیارہ عورتیں اور سترہ مرد، مئی اور جون میں سولہ عورتیں اور انہتر مرد مارے گئے۔

شہریوں، ٹریفک وارڈنز اور انتظامیہ کی غفلت کی باعث گذشتہ چھے ماہ میں ایک سو بتیس افراد جاں بہ حق ہوئے، جن میںاٹھائیس عورتیں اور ایک سو چار مرد شامل ہیں۔
فیصل آباد ایک صنعتی شہر ہے جو لاکھوں لوگوں کو روزگار مہیا کر رہا ہے لیکن روز بروز جرائم میں شدت سے اضافے کے باعث شہریوں میں شدید خوف و ہراس پھیل رہا ہے جس کی وجہ سے شہری گھروں سے باہر نکلنے سے ڈرتے ہیںاور شہریوں کا جینا محال ہو گیا ہے۔ جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح پولیس کی غفلت کی نشاندہی کر رہی ہے۔ علاوہ ازیں ڈی ایس پی ہیڈ کوارٹر، ڈی ایس پی نشاط آباد اور اے ایس پی جڑانوالہ کی سیٹیں خالی ہیں۔

فیصل آباد میں غلطی سے ایک سی پی او عبدالزاق چیمہ لگ گیا ہے جو سیاست دانوں کے ناجائز کام نہیں کرتا جس پر سیاست دانوں کا یہ ''پریشرگروپ اس کے خلاف وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے کان بھرتا رہتا ہے حتیٰ کہ پنجاب سیکریٹیریٹ سے مراسلہ بھی جاری کروا لیا کہ ان منتخب نمائندوں کے کام ترجیحاً کیے جائیں مگر سی پی او ڈٹا ہوا ہے البتہ ڈنگ ٹپاؤ کی پالیسی کے تحت نوکری کے دن پورے کر رہا ہے۔ سی پی او صاحب نے نہ تو شہر سے جرائم ختم کرنے کے لیے کوئی اقدامات کیے، نہ پولیس کا مورال بلند کرنے کی کوئی پالیسی وضع کی۔

ذرائع کے مطابق فیصل آباد میں نئے تعینات ہونے والے ڈی ایس پیز میں سے چند ایک نے چارج لیا ہے باقی آنے کو تیار نہیں، سی پی او عبدالزاق چیمہ کا رویہ نان کوآپریٹو اور ماتحت مخالف ہے، جس سی پی اور کے ساتھ افسران کام نہیں کرنا چاہتے اسے فیصل آباد جیسے بڑے شہر کا سی پی او تعینات کرکے جانے اس شہر کو کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے۔

صورت یہ ہے کہ مجرم تو ایک طرف پولیس خود شہریوں کے لیے خوف کی علامت بنی ہوئی ہے۔ شہر بھر میں ناکے لگے ہیں، جن پر آج تک کوئی مجرم تو پکڑا نہیں گیا البتہ پولیس اہل کار چار سے پانچ موٹر سائیکل روک کر سائیڈ پر لیجا کر معلوم نہیں کیا کھسرپھسر کرتے ہیں اور تھوڑی دیر بعد موٹر سائیکل سوار مزے سے جارہے ہوتے ہیں۔ فیصل آباد صنعتی شہر ہے، وزیر اعلیٰ پنجاب کو اس پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔
Load Next Story