سسٹرز ڈے بہن ہوگی تیری
سب ایک جانب رکھیے اور اہلخانہ کے ساتھ اعتماد، محبت اور برداشت کا کلچر فروغ دیجیے، اپنی سماجیات کی دنیا سے نکلیے
لاہور:
چند ماہ پہلے بھارتی فلم ''بہن ہوگی تیری'' دیکھنے کا اتفاق ہوا، جس میں محلے کی لڑکیاں نوجوان لڑکوں کی شرارتوں سے بچنے کےلیے رکھشا بندھن پر انہیں راکھی باندھ دیتی تھیں۔ فلم میں لڑکے اس راکھی بینڈ سے بچنے کی کوششوں میں مگن رہتے ہیں۔ فلم کا ہیرو ہر بار راکھی بینڈ سے بچ نکلتا تھا۔ لیکن اسی دوران لڑکے کا باپ اسے ہیروئن سے راکھی بندھوانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ فلم ویلنٹائنز ڈے کی آمد کے ساتھ ہی مجھے بہت یاد آنے لگی۔ وجہ فیصل آباد یونیورسٹی کی جانب سے ''سسٹرز ڈے'' کا اعلان تھا۔
لاکھ کوشش کے باوجود اس دن کے منانے اور نہ منانے کے حوالے سے خود کو قائل نہ کرسکا۔ حیران ہوں کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے ایسا اعلان کیوں کیا؟ ابتدا میں انتظامیہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن رابطہ نہ ہوسکا۔ بعد ازاں یونیورسٹی ترجمان سے گفتگو ہوئی جن کا کہنا تھا کہ ویلنٹائنز ڈے ہماری ثقافت، تہذیب اور روایات کے خلاف ہے، جو معاشرے میں بے حیائی کے فروغ کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ اپنی روایات کے تحفظ کےلیے کوشش کررہی ہے۔ اسی لیے ویلنٹائنز ڈے کی جگہ ''سسٹرز ڈے'' منایا جائے گا اور اس دن طالبات کو حجاب اور عبایا دینے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
کپڑے کی صنعت سے وابستہ اس شہر کےلیے یقیناً یہ ایک اچھی خبر ہوگی کیوں کہ جتنی زیادہ تعداد میں عبایا اور حجاب فروخت ہوں گے، مقامی صنعت کو اتنا ہی فائدہ ہوگا۔ میں چونکہ لاہور میں مقیم ہوں اس لیے فیصل آباد کے تاجروں کی رائے نہیں جان سکا۔ احمد بٹ لاہور میں پھولوں کا کاروبار کرتے ہیں۔ موصوف پندرہ دنوں سے گلاب کا ذخیرہ کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اب کی بار اچھے منافعے کی امید ہے۔ بٹ صاحب یوں تو کھانے کے شوقین ہیں اور ایک وقت میں اچھا خاصا کھانا ذخیرہ کرلیتے ہیں، لیکن انہوں نے گلا ب ذخیرہ کرکے نئی روایت کو فروغ دیا ہے۔
خیر، بات ہورہی تھی سسٹرز ڈے کی۔ تو جناب سوشل میڈیا پر اس دن کا بری طرح تمسخر اڑایا گیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کو برا بھلا کہا گیا۔ نئی نئی آراء دی گئیں، غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ کا مؤقف بھی درست ہے۔ مشرق میں رہتے ہوئے مغرب کے تہوار کو کیوں فروغ دیا جائے؟ ثقافتی جنگ اور تہذیبوں کے تصادم میں اپنی روایات کا قتل عام کیوں کیا جائے؟ بہن اور بھائی کا رشتہ یقیناً بے لوث محبت پر مبنی ہوتا ہے۔ اگر معاشرے میں اس مقدس رشتے کے تقدس کا خیال رکھا جائے تو کئی مسائل سے جان چھڑائی جاسکتی ہے۔
مجھے گزشتہ سال 14 فروری کا واقعہ یاد آرہا ہے۔ یونیورسٹی سے کلاس اٹینڈ کرنے کے بعد کلمہ چوک پہنچا۔ وہاں کچھ گل فروش، نازک ٹہنیوں والے مرجھائے ہوئے پھول فروخت کر رہے تھے۔ پاس ہی چند نجی اور سرکاری کالجز کے لڑکے وہ پھول خرید کر بس اسٹاپ پر گاڑی کا انتظار کرتی لڑکیوں کو دے رہے تھے۔ لڑکیاں چیخ اور چلا رہی تھیں لیکن کوئی مدد کو نہیں آرہا تھا۔ پاس ہی ڈولفن فورس اور پی آر یو کے پولیس اہلکار موجود تھے۔ مگر مجال ہے کہ ان لڑکوں کو ٹس سے مس ہوتی۔ لگتا تھا کہ وہاں پولیس اہلکار بھی گھی پی کر سو رہے تھے۔ ایسے ہی واقعات میں نے لاہور کے مختلف پارکس میں دیکھے۔ شاید آپ میں سے کئی افراد بھی ان واقعات کے عینی شاہد ہوں گے لیکن بوجوہ آپ بھی خاموش رہتے ہوں گے۔
ویلنٹائز ڈے کی حمایت میں دلائل آتے ہیں کہ محبت کا فروغ لازمی ہے۔ وہ بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کےلیے ہی نہیں بلکہ ماں باپ، بہن بھائی، خاوند اور بیوی کےلیے بھی ہوسکتا ہے۔ جناب اس بات سے متفق ہوں، محبت کا اظہار صرف پریمی جوڑوں کےلیے ہی مختص نہیں۔ لیکن جناب ماں، باپ، بہن، بھائی اور خاوند بیوی کے اظہار محبت کےلیے سڑکیں، گلیاں، پارک اور چوراہے نہیں ہوتے، اور یہ اظہار صرف ایک دن کےلیے نہیں ہوتا۔ ماں اپنے بیٹے کو ایک بار سینے سے لگا کر تمام تکالیف بھلا دیتی ہے۔ بہن کو بس ایک بار پیار سے پکاریئے، وہ دل و جان سے آپ پر فد ا ہوجائے گی۔ بیگم کو وقت دیجیے، اس کے ساتھ گفتگو کیجیے۔ یقین مانیے کہ تمام جھگڑے ہی ختم ہوجاتے ہیں۔
دوسری جانب عورت کی آزادی اور عورت کو حیا کا درس دینے والے احباب بھی ایک بار سوچ لیں۔ عورت کو خود مختار بنا کر مارکیٹنگ کاذریعہ بنایا جاتا ہے تو دوسری جانب عورت کی حیا کو کچھوے کے خول سے مشابہت دی جاتی ہے کہ کچھوا اپنے خول میں محفوظ رہتا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ مرد اور سانپ جب تک اپنی کینچلی میں رہتے ہیں، تب تک عورت کو خطرہ نہیں ہوتا۔ اس لیے کسی بھی تہوار کو متنازعہ بنانے سے احتیاط برتنا ہوگا۔
سسٹرز ڈے منانا ہے، ضرورمنائیے۔ حیا ڈے کی تقاریب کا انعقاد کرنا ہے تو کوئی مائی کا لعل آپ کو روک نہیں سکتا۔ ویلنٹائنز ڈے کی تقاریب کی تشہیر پر عدالت نے پابندی لگا رکھی ہے مگر آپ اس دن کو انفرادی طور پر منا سکتے ہیں۔ لیکن اپنی محبت کے اظہار کی خاطر دوسروں کےلیے اذیت کا سامان تو پیدا نہ کیجیے۔ انفرادی سطح پر دن منا کر خوش رہیے لیکن خدارا معاشرے کے بگاڑ کا باعث نہ بنیے کیونکہ قوموں کی تباہی معاشرے میں شکست و ریخت کے باعث ہی وقوع پذیر ہوئی ہے۔
درآمدی تہواروں کے بجائے اپنی تہذیب و ثقافت سے ہی جڑے رہنے میں اپنی بقا اور کامیابی ہے۔ اور ہاں! سسٹرز ڈے کو فی الحال رکھشا بندھن کا تہوار ہی سمجھیے اور اس دن بہنوں کو حیا کی چادر بطور انعام دے کر جواب میں ''راکھی'' ضرور بندھوا لیجیے۔ خاوند اور بیوی کی محبت کےلیے ''کروا چوتھ'' کا تہوار ہے۔ لیکن بھائی ان تہواروں کو چھوڑیئے، سب ایک جانب رکھیے، بس اہل خانہ کے ساتھ باہمی اعتماد، محبت اور برداشت کے کلچر کو فروغ دیجیے۔ اپنی سماجیات کی دنیا سے نکلیں۔
تھری جی اور فورجی کے کلچر کو بس ایک گھنٹے کےلیے پس پشت ڈالیے۔ باپ کی قدم بوسی کیجیے، ماں کے سینے سے لگ کر دعائیں لیجیے، بیٹے اور بیٹی کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھیے۔ بہن کےلیے تحائف خریدیئے، بھائی کے ساتھ گفتگو کیجیے اور اپنی اہلیہ کو ایک دن کھانا بنا کر کھلائیے۔ یقین جانیے کہ آپ کو کبھی سسٹرز ڈے، رکھشا بندھن، کروا چوتھ، ویلنٹائنز ڈے اور حیا ڈے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
بس شکست و ریخت کے شکار اس معاشرے کو بدل کر رکھ دیجیے۔ صرف اپنا کردار ادا کیجیے، معاشرہ خود بخود بدل جائے گا؛ کیونکہ موسلا دھار بارش کی ابتداء صرف ایک قطرے سے ہوتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
چند ماہ پہلے بھارتی فلم ''بہن ہوگی تیری'' دیکھنے کا اتفاق ہوا، جس میں محلے کی لڑکیاں نوجوان لڑکوں کی شرارتوں سے بچنے کےلیے رکھشا بندھن پر انہیں راکھی باندھ دیتی تھیں۔ فلم میں لڑکے اس راکھی بینڈ سے بچنے کی کوششوں میں مگن رہتے ہیں۔ فلم کا ہیرو ہر بار راکھی بینڈ سے بچ نکلتا تھا۔ لیکن اسی دوران لڑکے کا باپ اسے ہیروئن سے راکھی بندھوانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ فلم ویلنٹائنز ڈے کی آمد کے ساتھ ہی مجھے بہت یاد آنے لگی۔ وجہ فیصل آباد یونیورسٹی کی جانب سے ''سسٹرز ڈے'' کا اعلان تھا۔
لاکھ کوشش کے باوجود اس دن کے منانے اور نہ منانے کے حوالے سے خود کو قائل نہ کرسکا۔ حیران ہوں کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے ایسا اعلان کیوں کیا؟ ابتدا میں انتظامیہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن رابطہ نہ ہوسکا۔ بعد ازاں یونیورسٹی ترجمان سے گفتگو ہوئی جن کا کہنا تھا کہ ویلنٹائنز ڈے ہماری ثقافت، تہذیب اور روایات کے خلاف ہے، جو معاشرے میں بے حیائی کے فروغ کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ اپنی روایات کے تحفظ کےلیے کوشش کررہی ہے۔ اسی لیے ویلنٹائنز ڈے کی جگہ ''سسٹرز ڈے'' منایا جائے گا اور اس دن طالبات کو حجاب اور عبایا دینے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
کپڑے کی صنعت سے وابستہ اس شہر کےلیے یقیناً یہ ایک اچھی خبر ہوگی کیوں کہ جتنی زیادہ تعداد میں عبایا اور حجاب فروخت ہوں گے، مقامی صنعت کو اتنا ہی فائدہ ہوگا۔ میں چونکہ لاہور میں مقیم ہوں اس لیے فیصل آباد کے تاجروں کی رائے نہیں جان سکا۔ احمد بٹ لاہور میں پھولوں کا کاروبار کرتے ہیں۔ موصوف پندرہ دنوں سے گلاب کا ذخیرہ کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اب کی بار اچھے منافعے کی امید ہے۔ بٹ صاحب یوں تو کھانے کے شوقین ہیں اور ایک وقت میں اچھا خاصا کھانا ذخیرہ کرلیتے ہیں، لیکن انہوں نے گلا ب ذخیرہ کرکے نئی روایت کو فروغ دیا ہے۔
خیر، بات ہورہی تھی سسٹرز ڈے کی۔ تو جناب سوشل میڈیا پر اس دن کا بری طرح تمسخر اڑایا گیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کو برا بھلا کہا گیا۔ نئی نئی آراء دی گئیں، غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ کا مؤقف بھی درست ہے۔ مشرق میں رہتے ہوئے مغرب کے تہوار کو کیوں فروغ دیا جائے؟ ثقافتی جنگ اور تہذیبوں کے تصادم میں اپنی روایات کا قتل عام کیوں کیا جائے؟ بہن اور بھائی کا رشتہ یقیناً بے لوث محبت پر مبنی ہوتا ہے۔ اگر معاشرے میں اس مقدس رشتے کے تقدس کا خیال رکھا جائے تو کئی مسائل سے جان چھڑائی جاسکتی ہے۔
مجھے گزشتہ سال 14 فروری کا واقعہ یاد آرہا ہے۔ یونیورسٹی سے کلاس اٹینڈ کرنے کے بعد کلمہ چوک پہنچا۔ وہاں کچھ گل فروش، نازک ٹہنیوں والے مرجھائے ہوئے پھول فروخت کر رہے تھے۔ پاس ہی چند نجی اور سرکاری کالجز کے لڑکے وہ پھول خرید کر بس اسٹاپ پر گاڑی کا انتظار کرتی لڑکیوں کو دے رہے تھے۔ لڑکیاں چیخ اور چلا رہی تھیں لیکن کوئی مدد کو نہیں آرہا تھا۔ پاس ہی ڈولفن فورس اور پی آر یو کے پولیس اہلکار موجود تھے۔ مگر مجال ہے کہ ان لڑکوں کو ٹس سے مس ہوتی۔ لگتا تھا کہ وہاں پولیس اہلکار بھی گھی پی کر سو رہے تھے۔ ایسے ہی واقعات میں نے لاہور کے مختلف پارکس میں دیکھے۔ شاید آپ میں سے کئی افراد بھی ان واقعات کے عینی شاہد ہوں گے لیکن بوجوہ آپ بھی خاموش رہتے ہوں گے۔
ویلنٹائز ڈے کی حمایت میں دلائل آتے ہیں کہ محبت کا فروغ لازمی ہے۔ وہ بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کےلیے ہی نہیں بلکہ ماں باپ، بہن بھائی، خاوند اور بیوی کےلیے بھی ہوسکتا ہے۔ جناب اس بات سے متفق ہوں، محبت کا اظہار صرف پریمی جوڑوں کےلیے ہی مختص نہیں۔ لیکن جناب ماں، باپ، بہن، بھائی اور خاوند بیوی کے اظہار محبت کےلیے سڑکیں، گلیاں، پارک اور چوراہے نہیں ہوتے، اور یہ اظہار صرف ایک دن کےلیے نہیں ہوتا۔ ماں اپنے بیٹے کو ایک بار سینے سے لگا کر تمام تکالیف بھلا دیتی ہے۔ بہن کو بس ایک بار پیار سے پکاریئے، وہ دل و جان سے آپ پر فد ا ہوجائے گی۔ بیگم کو وقت دیجیے، اس کے ساتھ گفتگو کیجیے۔ یقین مانیے کہ تمام جھگڑے ہی ختم ہوجاتے ہیں۔
دوسری جانب عورت کی آزادی اور عورت کو حیا کا درس دینے والے احباب بھی ایک بار سوچ لیں۔ عورت کو خود مختار بنا کر مارکیٹنگ کاذریعہ بنایا جاتا ہے تو دوسری جانب عورت کی حیا کو کچھوے کے خول سے مشابہت دی جاتی ہے کہ کچھوا اپنے خول میں محفوظ رہتا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ مرد اور سانپ جب تک اپنی کینچلی میں رہتے ہیں، تب تک عورت کو خطرہ نہیں ہوتا۔ اس لیے کسی بھی تہوار کو متنازعہ بنانے سے احتیاط برتنا ہوگا۔
سسٹرز ڈے منانا ہے، ضرورمنائیے۔ حیا ڈے کی تقاریب کا انعقاد کرنا ہے تو کوئی مائی کا لعل آپ کو روک نہیں سکتا۔ ویلنٹائنز ڈے کی تقاریب کی تشہیر پر عدالت نے پابندی لگا رکھی ہے مگر آپ اس دن کو انفرادی طور پر منا سکتے ہیں۔ لیکن اپنی محبت کے اظہار کی خاطر دوسروں کےلیے اذیت کا سامان تو پیدا نہ کیجیے۔ انفرادی سطح پر دن منا کر خوش رہیے لیکن خدارا معاشرے کے بگاڑ کا باعث نہ بنیے کیونکہ قوموں کی تباہی معاشرے میں شکست و ریخت کے باعث ہی وقوع پذیر ہوئی ہے۔
درآمدی تہواروں کے بجائے اپنی تہذیب و ثقافت سے ہی جڑے رہنے میں اپنی بقا اور کامیابی ہے۔ اور ہاں! سسٹرز ڈے کو فی الحال رکھشا بندھن کا تہوار ہی سمجھیے اور اس دن بہنوں کو حیا کی چادر بطور انعام دے کر جواب میں ''راکھی'' ضرور بندھوا لیجیے۔ خاوند اور بیوی کی محبت کےلیے ''کروا چوتھ'' کا تہوار ہے۔ لیکن بھائی ان تہواروں کو چھوڑیئے، سب ایک جانب رکھیے، بس اہل خانہ کے ساتھ باہمی اعتماد، محبت اور برداشت کے کلچر کو فروغ دیجیے۔ اپنی سماجیات کی دنیا سے نکلیں۔
تھری جی اور فورجی کے کلچر کو بس ایک گھنٹے کےلیے پس پشت ڈالیے۔ باپ کی قدم بوسی کیجیے، ماں کے سینے سے لگ کر دعائیں لیجیے، بیٹے اور بیٹی کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھیے۔ بہن کےلیے تحائف خریدیئے، بھائی کے ساتھ گفتگو کیجیے اور اپنی اہلیہ کو ایک دن کھانا بنا کر کھلائیے۔ یقین جانیے کہ آپ کو کبھی سسٹرز ڈے، رکھشا بندھن، کروا چوتھ، ویلنٹائنز ڈے اور حیا ڈے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
بس شکست و ریخت کے شکار اس معاشرے کو بدل کر رکھ دیجیے۔ صرف اپنا کردار ادا کیجیے، معاشرہ خود بخود بدل جائے گا؛ کیونکہ موسلا دھار بارش کی ابتداء صرف ایک قطرے سے ہوتی ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔