بھاگ رومیو بھاگ
حال ہی میں ایک انڈین فلم’’بھاگ ملیکا بھاگ‘‘ریلیز ہوئی۔ فلم ایک ہندوستان ایتھلیٹ ملیکا سنگھ کی زندگی پر بنائی گئی ہے۔۔۔
حال ہی میں ایک انڈین فلم ''بھاگ ملیکا بھاگ''ریلیز ہوئی۔ فلم ایک ہندوستان ایتھلیٹ ملیکا سنگھ کی زندگی پر بنائی گئی ہے جو 1960 میں ''فلائنگ سکھ'' کے نام سے جانا جاتا تھا۔
کسی بھی ریس میں 6 سے 8 ایتھلیٹ کم از کم بھاگتے ہیں اور کسی بین الاقوامی سطح پر ہونے والی دوڑ میں سارے ہی کھلاڑی اپنے اپنے ملک کی نمائندگی کرتے باقی کھلاڑیوں کو ہرانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس فلم میں باقی سارے ایتھلیٹس کو چھوڑ کر صرف پاکستانی کھلاڑی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔
فلم دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے ریس صرف ملیکا سنگھ اور پاکستانی رنر کے بیچ ہورہی ہے، غصہ میں بھرا چہرہ زور کی جیوزک آنکھوں کے کلوز اپ سے سیدھا سادھا پاکستانی ایتھلیٹ خوامخواہ ولن لگنے لگتا ہے جب کہ اپنے ملک کو جتانے کے لیے اس کھلاڑی کا تیز بھاگنا اس کی پازیٹو بات ہے لیکن اس فلم میں پوائنٹ نیگٹو نظر آتا ہے جب کہ فلم میں فیلڈ مارشل ایوب خان، اس وقت کے صدر پاکستان ملیکا سنگھ کی تعریف کرتے بھی نظر آتے ہیں پھر بھی پاکستان فلم میں غلط ہی رہتا ہے۔
جس طرح ''بھاگ ملیکا بھاگ'' فلم میں صحیح کام کرنے کے باوجود پاکستان... ہندوستانی سوچ کے حساب سے ولن ہی رہتا ہے ویسے ہی کچھ دن پہلے ایک اور ہندوستانی رنر کی وجہ سے پاکستان خبروں میں ولن لگنے لگا، لیکن یہ ''رنر'' کسی ریس میں اپنے ملک کے لیے نہیں دوڑ رہا تھا بلکہ یہ اپنے عشق سے مجبور ہوکر ہندوستان کے بارڈر سے پاکستان کے بارڈر کی طرف غیر قانونی طریقے سے بھاگ رہا تھا۔
ممبئی میں رہنے والے ہندوستانی مینجمنٹ ٹیچر کو انٹرنیٹ پر ایک پاکستانی لڑکے سے پیار ہوگیا جب کہ یہ بات بہت زیادہ عام ہے کہ دنیا بھر میں لوگ غلط ناموں سے جھوٹی تصویریں دکھاکر غلط بائیو ڈیٹا استعمال کرکے لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں۔ اس کے باوجود سب کچھ جانتے بوجھتے چھبیس سالہ ہندوستانی نژاد حامد نہال انصاری کو انٹرنیٹ پر پاکستانی۔ جو کہ شاید ''لڑکی''تھی سے پیار ہوگیا۔ پیار اندھا ہوتا ہے کی مثال حامد نے پوری طرح ثابت کی۔ اس عشق میں اندھے کے ساتھ دماغ میں بھوسہ بھرا ہوا ہے کا ثبوت حامد نے تب دیا جب انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے انٹرنیٹ والے پیار کو حاصل کرنے پاکستان جائیں گے۔
حامد سے بات کرنے والی لڑکی کراچی یا لاہور کے ڈیفنس کے علاقے میں نہیں رہتی بلکہ پختونخواہ صوبے کے نارتھ ویسٹ میں واقع کوہاٹ سے تعلق رکھتی تھی جب کہ حامد کو اچھی طرح علم ہوگا کہ وہاں کے حالات اور سوچ کیسے ہے اس کے باوجود وہ خود کو فلم ''ویرزارا'' کے شاہ رخ خان منوانے پر تل گئے۔ ویر زارا جس میں ہیرو انڈیا سے پاکستان لڑکی کو حاصل کرنے آتا ہے۔
حامد جس ''لڑکی'' سے بات کرتے تھے اس نے ایک Chat پر بتایا کہ اس کے گھر والوں کو پتہ چل گیا ہے اور اب وہ چیٹ نہیں کرپائے گی جس کے بعد حامد نے کوہاٹ میں رہنے والے ہر اس شخص سے جو انھیں فیس بک پر ملا اس لڑکی کے بارے میں معلومات حاصل کرنی شروع کردی جس کے بعد کئی لوگوں نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ خود کوہاٹ جاکر لڑکی کو ڈھونڈیں۔
حامد نے کئی بار پاکستان کے ویزے کے لیے درخواست دی لیکن جہاں اپنے قریبی رشتے داروں سے ملنے کے لیے ویزا جاری نہیں ہوتا وہاں ''مجھے ایک انجان لڑکی کو ڈھونڈنے جانا ہے'' کے جواز پر ویزا لگنا ناممکن تھا، حامد کا ویزا کئی بار مسترد کیا گیا لیکن وہ پھر بھی باز نہیں آیا اور انھوں نے تہیہ کیا کہ اگر انھیں ملیکا سنگھ کی طرح بھاگ کر چھپ چھپاکر بھی جانا پڑا تو وہ جائیں گے اور انھوں نے بالکل ایسا ہی کیا۔
پلان کے مطابق حامد کسی طرح افغانستان جائیں گے اور پھر وہاں سے پیدل پاکستان میں کسی نہ کسی بہانے سے گھس جائیں گے۔
4نومبر 2012 کو حامد نے ممئی سے کابل کی فلائیٹ لی جہاں وہ کسی ایئرلائن کو جاب انٹرویو دینے جارہے تھے ان کے ٹکٹ کے حساب سے نومبر پانچ کو ہی انھیں واپس انڈیا آجانا تھا لیکن ایسا نہ ہوا نہ ہی انھوں نے فون کا جواب دیا نہ ہی ای میل کا۔ پریشان ہوکر گھروالوں نے جب ان کا کمپیوٹر کھولا تو پتہ چلا کہ حامد کی تو پلاننگ ہی کچھ اور تھی جس علاقے میں ان کا جانے کا پلان تھا وہ علاقہ طالبان کے زیر اثر وزیرستان کے بہت قریب ہے۔
نومبر 4 کے بعد سے حامد لاپتہ ہیں اور ان کے بارے میں کسی کو کسی بھی طرح کی کوئی معلومات نہیں ہیں۔
حامد کے والدین کے مطابق اُن کے خلاف سازش کی گئی ہے جس میں انھیں ایک پلاننگ کے تحت باقاعدہ پھنسایا گیا ہے ساتھ ہی ہندوستان کے میڈیا کا ایک بڑا سیکشن پاکستان میں ہندوستانی لڑکوں کے غٓائب ہونے پر پاکستان کو بُرا بھلا کہہ رہا ہے۔کئی لوگ اسے ایک دکھی بھری ''لواسٹوری'' کی طرح بیان کررہے ہیں جس کا انجام برا ہوا، کئی جگہ پر یہ بھی لکھا جارہا ہے کہ پاکستان کو صرف نفرت کرنی آتی ہے اور کئی دوسری مثالوں کو بھی سامنے لایا جارہا ہے جس میں لڑکا اور لڑکی انڈیا اور پاکستان کے ہیں اور ان کے ایک ہونے کا واحد طریقہ کسی دوسرے ملک جاکر شادی کرنا ہے۔
انڈین میڈیا شاید بھول گیا کہ جب ثانیہ مرزا کی شادی پاکستان میں ہوئی تھی تو پورے پاکستان نے اس شادی پر جشن منایا تھا، پنجاب میںجگہ جگہ بڑے بڑے فنکشن ہوئے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ ثانیہ مرزا نے قانونی طریقے سے شادی کی تھی وہ چھپ چھپاکر کسی رومیو کی طرح ہمارے بارڈر کو پار کرنے کی کوشش نہیں کررہی تھیں۔
لڑکے کے گھر والوں سے پوچھا گیا تو پتہ چلا کہ لڑکی کی تو شادی ہوچکی ہے اور گھر والوں یا لڑکی کو حامد کے ارادوں کا کوئی علم نہیں تھا۔
وہ لوگ جو حامد کی اس سلسلے میں مدد کررہے تھے اور اس سے رابطے بھی کیے ان کے مطابق حامد کو پاکستانی ایجنسیز نے غیر قانونی طریقے سے بارڈر کراس کرتے ہوئے پکڑلیا ہے۔
پاکستانی انڈین یپپلز فورم فارپیس اینڈ ڈیموکریسی کے مسٹر ڈیسائی سمیت کئی ہندوستانی میڈیا اور ان کے گھر والوں نے اپیل کی ہے کہ ان کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے۔
سچ تو یہ ہے کہ حامد کے ساتھ انصاف ہی ہورہا ہے ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی بھی پاکستانی لڑکا ہندوستان میں یا کوئی بھی لڑکا کسی بھی ملک میں چھپ چھپاکر بغیر ویزے کے پکڑا جائے تو اس کے ساتھ کیا سلوک ہوگا اور جب اس کے دشمن ملک کا جاسوس ہونے کے خدشات بھی ہوں جیسے ''بھاگ ملیکا بھاگ'' میں ہم غلط نظر آرہے تھے ویسے ہی اس رومیو کے غیر قانونی طریقے سے بھاگ کر پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کو روکنے پر بھی ہم ولن ہی رہے۔