شہدائے یوم القدس

رمضان المبارک کا آخری جمعہ یعنی جمعۃ الوداع کی آمد ہے اور اس دن کے آتے ہی دنیا بھر میں حریت پسند یک۔۔۔

رمضان المبارک کا آخری جمعہ یعنی جمعۃ الوداع کی آمد ہے اور اس دن کے آتے ہی دنیا بھر میں حریت پسند یک آواز اور یک جان ہو کر مسلم امہ کے سلگتے ہوئے مسئلے اور دنیا بھر میں مظلوم و محروم کردیے جانے والے مظلوموں کی حمایت و نصرت میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور یوم القدس مناتے ہیں تاکہ دنیا کی ظالم اور مظلوم قوتوں کے درمیان فرق واضح ہوجائے۔ یوم القدس دراصل ظالموں، فاسقوں، فاجروں اور لٹیروں کو منظر عام پر لانے کا دن ہے، یعنی یہ وہ دن ہے کہ جس دن دنیا میں دو لوگوں میں تمیز کی جاسکتی ہے یعنی ظالم اور مظلوم، یوم القدس مظلوموں کا دن ہے، اس دن کی خاص بات یہ ہے کہ جہاں اس کو دنیا بھر میں مسلمان مناتے ہیں وہاں مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے عیسائی اور وہ یہودی جو صہیونزم کے خلاف ہیں اس دن کو مناکر فلسطین کی تحریک آزادی میں اپنا حصہ ادا کرتے ہیں۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان کے گوش و کنار میں جمعۃ الوداع کو عالمی یوم القدس کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس دن فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی اور قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کے لیے بعد نماز جمعہ احتجاجی ریلیاں اور مظاہرے کیے جاتے ہیں اور پینسٹھ برس سے ظلم کی چکی میں پسنے والے فلسطینیوں سے اظہار ہمدردی کرنے کو اپنا شرعی فریضہ سمجھتے ہوئے امریکا اور اسرائیل کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے۔

سر زمین پاکستان میں یوم القدس سے ہٹ کر بھی بات کی جائے تو یہاں پر بسنے والی غیرت مند پاکستانی قوم دنیا بھر کے مسلمانوں کے دکھ درد میں برابر کی شریک رہتی ہے اور دنیا میں کسی بھی خطے میں سامراجی اور شیطانی عزائم کا شکار ہونے والے مسلمانوں کے حق میں پاکستان کے بہادر اور غیور عوام اپنی آواز کو بلند کرنے اور صدائے احتجاج کرنے میں نہ صرف فخر محسوس کرتے ہیں بلکہ اسے اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ اسی طرح جمعۃ الوداع یوم القدس کے دن بھی پاکستان کے عوام دنیا کے مسلمانوں سے کسی طور پیچھے نہیں رہتے، حتیٰ کہ پاکستان خود دہشت گردی اور کئی دیگر مسائل کا شکار ہے لیکن سلام ہو ان دلیروں پر کہ جو اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی اور ہمدردی کے لیے اور قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کے لیے سڑکوں پر نکل کھڑے ہوتے ہیں اور یقیناً ہونا بھی یہی چاہیے۔

یوم القدس کے دن قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کے لیے نکالی جانے والی القدس ریلی میں سب سے پہلے بلوچستان کے شہر کوئٹہ کی سر زمین پر بسنے والے عظیم فرزندان اسلام نے اپنے لہو سے بیت المقدس کی آزادی کا پروانہ لکھا۔ کوئٹہ جس کے بارے میں ہرپاکستانی اچھی طرح جانتا ہے کہ وہاں کس طرح اسرائیلی ایجنٹ دہشت گردوںکا راج ہے، کوئٹہ جہاںآئے روز درجنوں افراد کو موت کی نیند سلا دیا جاتا ہے اور حکومت بے بس تماشا ہی دیکھتی رہتی ہے، اسی کوئٹہ کے باضمیر و شجیع عوام نے انھی سخت ترین حالات میں بھی اپنی مصیبتوںکو پس پشت ڈالتے ہوئے ہمیشہ فلسطین کاز کی حمایت کی ہے اور قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی کو اپناشرعی اور اخلاقی فریضہ سمجھا اور یوم القدس کے دن ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنے گھروں سے ہمیشہ کی طرح نکلے۔


یہ سال 2010 کی بات ہے جب فرزندان اسلام کوئٹہ کی سڑکوں پر یوم القدس مناتے ہوئے القدس ریلی میں شریک تھے اور فلسطینیوںسے اظہار ہمدردی اور یکجہتی میں مصروف عمل تھے، ایسے حالات میں کہ پاکستان ان دنوں سیلاب کی تباہ کاریوں میں ڈوبا ہوا تھا، لیکن پاکستان کے غیور عوام ان تمام تر مسائل کے باوجود فلسطین کے مسئلے کو فراموش نہ کرسکے اور اپنی شرعی ذمے داری کی ادائیگی میں مصروف عمل تھے کہ دہشت گردوں نے القدس ریلی میں خودکش حملہ کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے درجنوں افراد موت کی آغوش میں چلے گئے، سیکڑوں زخمی ہوئے۔

اس دھماکے کے نتیجے میں 70 افراد نے جام شہادت نوش کیا، جب کہ سو سے زائد زخمی ہوئے، شہید ہونے والوں میں ہر طبقہ فکر اور شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے ساتھ ساتھ معصوم بچے بھی بیت المقدس پر اپنی جان نچھاور کرگئے۔ القدس ریلی میں ہونے والا دھماکا دراصل یہ پیغام تھا کہ پاکستان میں اسرائیل کے مقامی ایجنٹ موجود ہیں جن کا مقصد مسلم امہ کے درمیان تفریق پیدا کرنا ہے اور فلسطینیوں کی مدد و نصرت کو پاکستان سے روکنا ہے۔ سلام پیش کرتا ہوں ان شہداء پر کہ جنھوں نے یوم القدس کو اپنے سرخ اور پاکیزہ لہو سے زندہ کیا، اے شہیدان القدس کوئٹہ! ہم آپ کے لہو سے تجدید عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنے خون کے آخری قطرے تک القدس کی آزادی کی جدوجہد کرتے رہیں گے خواہ اس راستے میں ہمیں کسی بھی قسم کی قربانی کیوں نہ دینا پڑے ہم دریغ نہیں کریں گے۔

شہدائے القدس کوئٹہ کے بارے میں اسلامی مزاحمتی تحریکوں حماس اور حزب اﷲ سمیت جہاد اسلامی نے اپنے بیانات میں کہا تھا کہ یہ شہدائے القدس کوئٹہ دراصل راہ آزادی القدس کے شہداء ہیں، جب کہ یہ آزادی فلسطین کی راہ کے عظیم شہداء میں شامل ہیں۔

گزشتہ برس کی بات ہے کہ امریکا اور اسرائیل کے مقامی دہشت گرد ایجنٹوں نے ایک مرتبہ پھر کوشش کی کہ پاکستان میں یوم القدس کو سبوتاژ کیا جائے۔ کراچی میں مرکزی القدس ریلی میں شرکت کے لیے آنے والی ایک مسافر بس پر دہشت گردانہ حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں تین افراد شہید ہوئے اور ایک درجن سے زائد زخمی ہوگئے، لیکن دہشت گرد قوتیں یہ بھول گئی تھیں کہ القدس کی آزادی کی راہ میں نکلنے والے اور یوم القدس میں شریک ہونے والے دراصل اپنے گھروں سے سر پر کفن پہن کر روانہ ہوتے ہیں اور اس عزم مصمم کے ساتھ نکلتے ہیں کہ قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کے لیے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔

آج ایک مرتبہ پھر یوم القدس اپنی آب و تاب کے ساتھ ہمارے درمیان آنے کو ہے، ہمیں ہرگز اپنے ان شہداء کو فراموش نہیں کرنا چاہیے جنھوں نے بیت المقدس کی آزادی کی راہ میں اپنی قیمتی ترین چیز یعنی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور اپنے سرخ لہو سے القدس اور یوم القدس کو زندہ کیا۔ ہمارا سلام ہو شہدائے القدس کوئٹہ اور کراچی پر کہ جن کے مقدس لہو کی نسبت سے پاکستانی قوم کا سر بھی فخر سے بلند ہے کہ دنیا کی دیگر اقوام کی طرح پاکستانی قوم کا لہو بھی آزادی بیت المقدس کی راہ میں شامل ہے جسے دنیا کبھی فراموش نہیں کر سکے گی۔
Load Next Story