19فروری دشمنِ پاکستان کے مقدمے کی سماعت

پاکستان دشمنی میں بھارتی میڈیا کے الفاظ یہ تھے:’’پاکستان نے ملاقات کے پردے میں بھارت سے دھوکا کیا ہے۔‘‘


Tanveer Qaisar Shahid February 15, 2019
[email protected]

لاہور: قطعِ نظر اس کے کہ پی ٹی آئی کے دو مقتدر لیڈروں نے اپنے اپنے انٹرویوز میں کلبھوشن یادیو کے بارے کیا کہا ہے ، اصل بات وہی ہے جو ہمارے وزیر خارجہ نے کہی ہے۔چند دن پہلے شاہ محمودقریشی نے برطانیہ کے شہر ''مانچسٹر'' میں پاکستانی نژاد بزنس کمیونٹی سے خطاب کرتے ہُوئے کہا: ''بھارتی دہشتگرد ، کلبھوشن یادیو، نے پاکستان میں تخریب کاری کا اعتراف کیا ہے۔19فروری2019ء کو عالمی عدالت انصاف میں اس بھارتی جاسوس کے خلاف پاکستان اپنا مضبوط کیس پیش کرے گا۔''

سچی بات یہ ہے کہ ہم سب کی نظریں دشمنِ پاکستان ، کلبھوشن یادیو ، کے مقدمے پر لگی ہیں۔ بھارت بھی اِس کیس پر گہری نگاہ رکھے ہُوئے ہے ۔بھارتی وزیر اعظم ، نریندر مودی ، تو یہ مقدمہ ہر صورت جیتنے کے خواہشمند ہیں تاکہ اِسے رواں برس مئی میں ہونے والے عام انتخابات میں اپنی فتح کے لیے بطورِ ہتھیار بروئے کار لا سکیں۔یہ محض مودی جی کا خواب ہے اور خواب بمشکل ہی پورے ہُوا کرتے ہیں۔

بھارتیوں نے کلبھوشن بارے پاکستان کی فوجی عدالت سے سزائے موت پانے کے خلاف ہر جگہ بڑا واویلا مچایا تھا۔ کوئی بھی مگر بھارتی واویلے پر کان نہیں دھر رہا ۔ کلبھوشن سے پہلے بھی نصف درجن بھارتی جاسوس پاکستان میں رنگے ہاتھوں گرفتار ہُوئے تھے۔بھارت مگر اپنی غلیظ حرکتوں سے باز نہیں آیا۔ بھارتی وزیرخارجہ، سشما سوراج، پاکستان کو دھمکی دیتے ہُوئے کہہ چکی ہیں کہ اگر کلبھوشن یادیو کو پھانسی پر لٹکایا گیا تو یہ '' منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا قتل '' قرار دیا جائے گا۔اِس دھمکی کی مگر کیا حیثیت ہے؟

کلبھوشن کی گلو خلاصی کروانے اور اُسے معصوم ثابت کرنے کے لیے بھارتی حکومت دنیا بھر کے دروازوں پر دستک دے رہی ہے لیکن کوئی بھی اُسے سچا ماننے پر تیار نہیں ہے۔ اپنے مصدقہ جاسوس کو بچانے کے لیے بھارت ہی یہ مقدمہ ''ہیگ''میں بروئے کار عالمی عدالت انصاف میں لے گیا تھا۔اب فروری کے تیسرے ہفتے اس مقدمے کی سماعت ہو رہی ہے۔ پندرہ ججوں پر مشتمل اِس وقت عالمی عدالتِ انصاف کا سربراہ ایک صومالی مسلمان( عبدالقوی یوسف) ہے ۔

اِسی عدالت میں ایک بھارتی نژاد ہندو جج (دلویر بھنڈاری) بھی بیٹھا ہے۔یہ مگر ممکن نہیں ہے کہ کسی بھی شکل و صورت میں یہ دونوں افراد (عبدالقوی اور بھنڈاری ) کلبھوشن کے مقدمے میں ڈنڈی مار سکیں۔پاکستان کا کیس مضبوط ہے، شائد اِسی کارن کلبھوشن کے حوالے سے اب بھارت کے اندر سے بھی کئی سوالات ابھرنے لگے ہیں ۔ سوال اُٹھانے والوں میں کرن تھاپر سرِ فہرست ہیں۔ تھاپر صاحب بھارتی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا معروف نام ہیں۔وہ سابق بھارتی آرمی چیف ، جنرل(ر)پران تھاپر، کے صاحبزادے ہیں۔

عالمی شہرت یافتہ بھارتی تاریخ دان ،ڈاکٹر رومیلا تھاپر،اُن کی فرسٹ کزن ہیں۔ گزشتہ تین عشروں سے بھارتی میڈیا میں اُن کے نام اور کام کا بڑا چرچا ہے۔ ایک معروف بھارتی انگریزی اخبار میں اپنے ایک مفصل آرٹیکل میںکرن تھاپر نے یوں سوالات اٹھائے ہیں :'' کلبھوشن یادیو کے پاس دو پاسپورٹ کیوں تھے؟ ایک کلبھوشن یادیو کے نام کا اور دوسرا حسین پٹیل کے نام کا۔ آخر کیوں؟ایک پاسپورٹ کا نمبر E6934766 اور دوسرے کا نمبرL9630722 ہے۔

حسین پٹیل کے نام کا پاسپورٹ 2003ء میں جاری کیا گیا جب کہ 2014ء میں اس کی تجدید کی گئی۔ جب (دو مختلف نام والے پاسپورٹوں کے بارے میں) بھارتی وزارتِ خارجہ سے پوچھا جاتا ہے تو سیدھا جواب دینے کے بجائے بین السطور جواب دیا جاتا ہے۔''کرن تھاپر نے اسی سلسلے میں مزید بنیادی سوال اٹھائے ہیں۔ مثال کے طور پر:''(بھارتی) حکومت کا دعویٰ ہے کہ کلبھوشن کو زبردستی ایران سے اغوا کر کے بلوچستان لایا گیا، تو کیا بھارت نے اس سلسلے میں ایران سے کچھ پوچھا؟ ایران نے پھر کیا جواب دیا؟ ''۔

کرن تھاپر نے مزید سوال اٹھاتے ہُوئے لکھا ہے:''اگر بھارت کا یہ دعویٰ مان لیا جائے کہ پاکستان نے کلبھوشن کو ایران سے اغوا کیا تھا تو سوال یہ ہے کہ آخر پاکستانی ایجنسیوں کی نظریں کلبھوشن ہی پر کیوں مرکوز ہُوئیں؟اُس میں کیا ایسی خاص بات تھی کہ اُسے اٹھا لیا گیا؟ایران میں تو اور بھی 4ہزار بھارتی کام کر رہے ہیں لیکن اغوا کنندگان کا ہاتھ اُن پر کیوں نہ پڑا؟''بھارتی حکومت مگر کسی ایک بھی سوال کا جواب دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔

کلبھوشن یادیو کو بجا طور پر ''پاکستان کے خلاف بھارتی دہشتگردی کا بھیانک چہرہ'' قرار دیا گیا ہے۔یہ پاکستان کا بڑا پَن ہے کہ پاکستان کے خلاف کئی جرائم کے مرتکب اس شخص کو25دسمبر2017ء کو پاکستان میں اُس کی والدہ (آونتی) اور اہلیہ(چیتنا کول یادیو) سے ملاقات کی اجازت بھی دی۔ محض انسانیت کے ناتے۔ کلبھوشن کی بلوچستان سے گرفتاری کے 21مہینوں بعد یہ ملاقات اسلام آباد میں وزارتِ خارجہ کے مرکزی دفاتر میں ہُوئی تھی۔

ملاقات تقریباً چالیس منٹ کی تھی۔چاہیے تو یہ تھا کہ بھارت اور بھارتی عوام اِس ملاقات کے حوالے سے پاکستان کے ممنونِ احسان ہوتے، اُلٹا پاکستان کی مخالفت کی گئی۔یوں بھارت اور بھارتی عوام احسان فراموش ثابت ہُوئے۔ بھارتی اخبار ''انڈین ایکسپریس''نے لکھا کہ ''بھارتی حکام اُس جرمن ڈاکٹر ( اووی یوحنا نیلسن)کی تلاش میں ہیں جس نے 22دسمبر کو کلبھوشن کا اسلام آباد میں طبّی معائنہ کیا تھا۔''

توکیا بھارت ڈاکٹر مذکور کوڈھونڈ کر کوئی ''راز''حاصل کرنے کا متمنی ہے تاکہ اُسے عالمی عدالتِ انصاف میں پاکستان کے خلاف بطورِ ہتھیاراستعمال کیاجاسکے؟ پاکستان نے کلبھوشن یادیو ایسے خطرناک بھارتی جاسوس کی خاندان سے ملاقات کروائی تھی لیکن افسوس کہ بھارتی میڈیا نے بھارتی حکام کے اشاروں پر ،اِس ملاقات کے حوالے سے، پاکستان کے خلاف نہایت منفی اور دل آزار پروپیگنڈہ کیا ۔

پاکستان دشمنی میں بھارتی میڈیا کے الفاظ یہ تھے:''پاکستان نے ملاقات کے پردے میں بھارت سے دھوکا کیا ہے۔''کیا یہ الفاظ شرمناک نہیں کہے جائیں گے؟یہ صلہ ملا تھاپاکستان کو انسانی ہمدردی پر عمل کرنے کا؟بھارتی میڈیا نے اِسی پر بس نہیں کی بلکہ سربجیت سنگھ (بھارتی جاسوس جو 2013ء میں لاہور جیل میں مرگیا تھا)کی بہن (دلبیر کور) کے پاکستان مخالف بیان کو بار بار نشر کیا گیا۔

بھارتی راجیہ سبھا(سینیٹ) میں بی جے پی کے رکن سبرامینین سوامی اور کانگریسی لیڈر منیش تیواڑی نے تو پاکستان کے خلاف نہایت غیر اخلاقی زبان استعمال کی ۔ اِن دل آزار الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ بھارت اُسی وقت پاکستان سے خوش ہوگا جب وہ کلبھوشن کی سزا معاف کر دے اور اُس کے گلے میں گلابوں کے ہار ڈال کراُسے واہگہ بارڈر پر بھارتی حکام کے حوالے کردے ۔ ایسا کرنا شائد ممکن نہیں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر کلبھوشن یادیو کی جگہ پاکستان کا کوئی فرد بھارت کے ہتھے چڑھا ہوتا تو بھارت انسانی ہمدردی دکھانے کے بجائے اُسے پھانسی دے کر کب کا تہاڑ جیل کے اندر ہی دفن کر چکا ہوتا۔

کیا بھارت نے دو کشمیری حریت پسندوں( مقبول بٹ اور افضل گرو) کو بیدردی سے پھانسیاں دے کر دہلی کی تہاڑ جیل ہی کے اندر دفن نہیں کر دیا تھا؟اُن پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ پاکستان کے حمایت یافتہ ہیں۔آج تک ان شہیدوں کی میتیں اُن کے وارثوں کو نہیں دی گئیں۔ ابھی چند دن پہلے 9فروری کو افضل گرو کی چھٹی اور11فروری کو مقبول بٹ کی 35ویں برسی منائی گئی ہے۔ سارا مقبوضہ کشمیر ان کے غم میں شریک تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔