کھیل اور مذہب
ہاکی کے کھلاڑی شکیل عباسی کو روزہ رکھ کر پریکٹس کرنے پر کیمپ سے نکال دیا گیا، کوچ اختر رسول کا کہناہے کہ ایشیا ۔۔۔
ہاکی کے کھلاڑی شکیل عباسی کو روزہ رکھ کر پریکٹس کرنے پر کیمپ سے نکال دیا گیا، کوچ اختر رسول کا کہناہے کہ ایشیا کپ ہمارے لیے اہم ہے اور کھلاڑیوںسے طے ہوا تھا کہ وہ روزہ نہیں رکھیں گے۔ شکیل کا کہنا ہے کہ انھوں نے کوئی رعایت نہیں مانگی تھی۔ حنیف خان نے کہا کہ شکیل اہم کھلاڑی ہے اور انھیں نکالا نہیں جانا چاہیے، مشہور اولمپئن نے کہا کہ ماضی میں ہاکی و کرکٹ کے کھلاڑی بھی روزہ رکھ کر اہم ٹورنامنٹ کھیل چکے ہیں۔
فنکاروں و کھلاڑیوں کے مذہب کی جانب رجحان نے دنیا دار طبقہ کو پریشان کردیا ہے، یہ ایک نظریاتی جنگ ہے جو ہر محاذ پر لڑی جارہی ہے۔ کرکٹ میں سعید احمد پہلے کھلاڑی تھے جو مذہب کی جانب متوجہ ہوئے، حنیف محمد کے بعد کپتان بننے والے کھلاڑی ریٹائرمنٹ کے بعد تبلیغ سے منسلک ہوئے تھے، یہ ابتدائی دور تھا اور ماڈل و لبرل طبقے نے اس جانب توجہ نہیں کی، قاسم عمر دوسرے کھلاڑی تھے وہ بھی ٹیم میں جگہ نہ ملنے کے بعد اس طرف گئے، لہٰذا ان پر بھی سیکولر طبقہ زیادہ نہ چونکا، سعید انور اپنے عروج کے دور میں نماز روزے کے پابند ہوئے، شرعی داڑھی اور شاندار کھیل، بس یوں سمجھیں کہ آزاد خیال لوگ دل ہی دل میں تلملانے لگے لیکن کچھ کہہ نہیں سکتے تھے۔ انضمام الحق کی کپتانی، مکمل مذہبی گیٹ اپ نے سیکولر طبقے کو سیریس کردیا۔ ملتان کے سلطان کی کامیاب قیادت ہر ایک کو چپ رہنے پر مجبور کررہی تھی، ٹیم کی کامیابی میں کپتان کے ٹھیک ٹھاک حصے نے زبانوں پر تالے لگادیے۔ لبرل طبقے کو برا اس وقت لگا جب جیت کے بعد انٹرویو دے رہے ہوتے۔
اﷲ کے نام سے بات کی ابتدا اور اس کے شکر کی ادائیگی بہت سوں کو پسند نہ تھی۔ کامیابی انضمام کا نصیب تھی اور ہر کوئی چپ تھا، جب کرکٹ کے چند مشہور کھلاڑیوں کی تصویر شائع ہوئی تو زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے جانے لگے، چند کھلاڑیوں کی نماز کی باجماعت ادائیگی کی تصویر کو انگریزی دانوں نے ناگواری سے دیکھا۔ انضمام پر کرکٹ میں مذہب کو لانے کا الزام لگایا گیا، ان سے سوال کیا گیا کہ دوران پرواز آپ کھلاڑیوں کو اپنے قریب بلاکر مذہبی کتابیں پڑھتے ہیں۔ سوال تھا تو کیا اس طرح آپ کھیل کے وقت میں دوسری سرگرمیوں کا ارتکاب نہیں کرتے ہیں؟ انضمام کا جواب تھا کہ دوران پرواز ہم کھیل کی پریکٹس تو کرنے سے رہے، لایعنی گفتگو اور ہنسی مذاق سے بہتر نہیں کہ ہم کسی اچھی کتاب کا مطالعہ کریں۔ اس جواب نے سوال کرنے والے کو لاجواب کردیا، کھلاڑیوں کی آوارگی پر چپ رہنے اور پاکیزہ ماحول بنانے پر تنقید کرنے والوں کے ذہن پر ماتم نہ کریں تو کیا کریں۔
یوسف یوحنا کا اسلام قبول کرکے محمد یوسف بن جانا ہمارے لبرل طبقے پر ناگوار گزرا، اتنا برا شاید مسیحیوں یا یورپ والوں نے نہیں منایا ہوگا جتنا پاکستان کے آزاد خیال طبقے نے منایا ہوگا۔ داڑھی، ٹوپی، روزہ، نماز، مکمل مذہبی شخصیت اور عمدہ ترین کھیل۔ ایک کلینڈر ایئر میں سب سے زیادہ رنز کا ریکارڈ، یہ وہ دور تھا جب پاکستان کی بیٹنگ کا ستر فیصد بوجھ انضمام اور یوسف پر تھا۔ ایک طرف دین کی جانب رجحان اور دوسری طرف دنیاوی کامیابیاں، ترقی پسند دانشور اس پر کہاں تک چپ رہتے لیکن مسلسل کامیابیوں نے زبان بند رکھنے پر مجبور کردیا تھا۔
مذہبی روپ میں ڈھل جانے والے سعید احمد، قاسم عمر، سعید انور، انضمام اور یوسف تک معاملہ ہوتا تو ترقی پسند طبقہ اسے نصف درجن کھلاڑیوں کا ذاتی عمل قرار دے کر برداشت کرجاتا، مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ایک عام نوجوان اور کلین شیو کھلاڑی سینچری بناکر سجدہ شکر بجالاتا ہے۔ دنیا بھر کے اربوں لوگ ٹی وی پر ایسے نظارے کرچکے ہوں گے، وہ ضرور سوچتے ہوں گے یہ کیا ہے؟ پھر انھیں علم ہوتا ہوگا کہ یہ سجدہ شکر بجا لایا جارہا ہے۔ بھارتی کھلاڑی گواسکر اور ٹنڈولکر اکثر سنچریاں بناکر آسمان کی طرف دیکھتے ہیں، یہ اشارہ ہوتا ہے کہ کوئی اوپر والا ہے جو کائنات کو چلارہا ہے، اس بات کو خدا کو نہ ماننے والوں کے سوا تمام لوگ مانتے ہیں، سجدہ اس سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ یقیناً بیرونی دنیا سوچتی ہوگی کہ سنچری بناکر یہ مشہور کھلاڑی کیا کررہا ہے؟ انھیں اندازہ ہوتا ہوگا کہ یہ اپنی انا اور نفس کی سب سے بلند شے یعنی اپنا سر جھکا رہا ہے، کہاں جھکا رہا ہے؟ زمین پر کس کے آگے؟ اپنے رب کے آگے۔ اسے اسلام کی بالواسطہ تبلیغ سمجھ کر لبرل طبقہ یقیناً برا مناتا ہوگا۔
جنید جمشید جیسے مشہور فنکار کی اسلام پسندی اور اکثر چینلز پر آمد پر بھی ناگواری ظاہر کی جاتی ہے، اس سے قبل سیکولر طبقے کا مقابلہ صرف عام مذہبی علما سے تھا جو انگریزی سے ناواقف ہوتے تھے، یہ ساٹھ کے عشرے کی بات ہے۔ پھر کالجز اور یونیورسٹیوں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اسلام کا مکمل علم رکھنے والوں سے ماڈرن طبقے کا واسطہ پڑا، 70 اور 80 کے عشرے میں جنگ جاری تھی، کوئی مشہور شخصیت، کوئی بین الاقوامی کھلاڑی یا بڑا فنکار اسلام کی بات نہ کرتا کہ اس دور کے سارے پاکستانی کھلاڑی اور فنکار ترقی پسندی کے دعوے دار ہوا کرتے تھے۔ اب جب مشہور شخصیات وہ باتیں کررہی ہیں جنھیں عوام سننا اور دیکھنا چاہتے ہیں تو ناگواری تو لازم ہے، یہ بات صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ دوسرے ممالک کے کھلاڑیوں کا مذہب کے معاملے میں طاقتور حلقوں سے ٹکرائو دیکھا جاسکتا ہے۔
ہاشم آملہ نے شراب بنانے والی کمپنی کا لوگو استعمال کرنے سے انکار کردیا۔ اس انکار کی قیمت بھاری مالی نقصان ہوتا ہے، اب ایک اور کھلاڑی نے ایسا انکار کرکے ٹیم سے بے دخلی کی سزا بھگتی ہے۔ ایران اور سعودی عرب کی خواتین فٹبال ٹیموں کا مکمل لباس میں کھیلنا بھی مذہب کا کھیل میں رہنمائی کا مظہر ہے۔
مذہب انسان کے جسم میں نہیں بلکہ روح تک میں سمایا ہوا ہے، پیدائش پر کان میں اذان یا کچھ اور سے لے کر تدفین یا جلانے تک یعنی آخری مذہبی رسومات تک کمیونزم نے مذہب میں مداخلت کرکے خود اپنی قبر کھودی۔ اگر وہ صرف سماجی انصاف تک محدود رہتے تو یہ حشر نہ ہوتا۔ سرمایہ دارانہ نظام نے عورت کو اشتہار بناکر مذہب سے ٹکرانے کی کوشش کی، ہمارے ملک کے ترقی پسند طبقے نے آنکھ بند کرکے دونوں نظاموں کو قبول کرلیا، خواتین کی این جی اوز کو ملک کی بنیادوں سے ٹکرانے کے لیے ڈالرز اور پائونڈز دیے گئے، وہ جب مکمل حجاب میں پوزیشن ہولڈر طالبات دیکھتی ہیں تو انھیں اچھا نہیں لگتا۔ مذہب اور لادینیت کی جنگ زیادہ پرانی نہیں لیکن پاکستان میں یہ طویل عرصے تک جاری رہے گی۔ ہاکی کے کھلاڑی شکیل عباسی کے دوران پریکٹس روزہ رکھنے جیسے واقعات انھیں آگے بڑھاتے رہیں گے۔ کالم کی اشاعت تک یہ مسئلہ حل ہوچکا ہوگا لیکن پھر کوئی اور مسئلہ پیدا ہوگا اور پھر کوئی اور کالم نگار اپنی تحریر لکھے گا جس کا عنوان ہوگا کھیل اور مذہب۔
فنکاروں و کھلاڑیوں کے مذہب کی جانب رجحان نے دنیا دار طبقہ کو پریشان کردیا ہے، یہ ایک نظریاتی جنگ ہے جو ہر محاذ پر لڑی جارہی ہے۔ کرکٹ میں سعید احمد پہلے کھلاڑی تھے جو مذہب کی جانب متوجہ ہوئے، حنیف محمد کے بعد کپتان بننے والے کھلاڑی ریٹائرمنٹ کے بعد تبلیغ سے منسلک ہوئے تھے، یہ ابتدائی دور تھا اور ماڈل و لبرل طبقے نے اس جانب توجہ نہیں کی، قاسم عمر دوسرے کھلاڑی تھے وہ بھی ٹیم میں جگہ نہ ملنے کے بعد اس طرف گئے، لہٰذا ان پر بھی سیکولر طبقہ زیادہ نہ چونکا، سعید انور اپنے عروج کے دور میں نماز روزے کے پابند ہوئے، شرعی داڑھی اور شاندار کھیل، بس یوں سمجھیں کہ آزاد خیال لوگ دل ہی دل میں تلملانے لگے لیکن کچھ کہہ نہیں سکتے تھے۔ انضمام الحق کی کپتانی، مکمل مذہبی گیٹ اپ نے سیکولر طبقے کو سیریس کردیا۔ ملتان کے سلطان کی کامیاب قیادت ہر ایک کو چپ رہنے پر مجبور کررہی تھی، ٹیم کی کامیابی میں کپتان کے ٹھیک ٹھاک حصے نے زبانوں پر تالے لگادیے۔ لبرل طبقے کو برا اس وقت لگا جب جیت کے بعد انٹرویو دے رہے ہوتے۔
اﷲ کے نام سے بات کی ابتدا اور اس کے شکر کی ادائیگی بہت سوں کو پسند نہ تھی۔ کامیابی انضمام کا نصیب تھی اور ہر کوئی چپ تھا، جب کرکٹ کے چند مشہور کھلاڑیوں کی تصویر شائع ہوئی تو زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے جانے لگے، چند کھلاڑیوں کی نماز کی باجماعت ادائیگی کی تصویر کو انگریزی دانوں نے ناگواری سے دیکھا۔ انضمام پر کرکٹ میں مذہب کو لانے کا الزام لگایا گیا، ان سے سوال کیا گیا کہ دوران پرواز آپ کھلاڑیوں کو اپنے قریب بلاکر مذہبی کتابیں پڑھتے ہیں۔ سوال تھا تو کیا اس طرح آپ کھیل کے وقت میں دوسری سرگرمیوں کا ارتکاب نہیں کرتے ہیں؟ انضمام کا جواب تھا کہ دوران پرواز ہم کھیل کی پریکٹس تو کرنے سے رہے، لایعنی گفتگو اور ہنسی مذاق سے بہتر نہیں کہ ہم کسی اچھی کتاب کا مطالعہ کریں۔ اس جواب نے سوال کرنے والے کو لاجواب کردیا، کھلاڑیوں کی آوارگی پر چپ رہنے اور پاکیزہ ماحول بنانے پر تنقید کرنے والوں کے ذہن پر ماتم نہ کریں تو کیا کریں۔
یوسف یوحنا کا اسلام قبول کرکے محمد یوسف بن جانا ہمارے لبرل طبقے پر ناگوار گزرا، اتنا برا شاید مسیحیوں یا یورپ والوں نے نہیں منایا ہوگا جتنا پاکستان کے آزاد خیال طبقے نے منایا ہوگا۔ داڑھی، ٹوپی، روزہ، نماز، مکمل مذہبی شخصیت اور عمدہ ترین کھیل۔ ایک کلینڈر ایئر میں سب سے زیادہ رنز کا ریکارڈ، یہ وہ دور تھا جب پاکستان کی بیٹنگ کا ستر فیصد بوجھ انضمام اور یوسف پر تھا۔ ایک طرف دین کی جانب رجحان اور دوسری طرف دنیاوی کامیابیاں، ترقی پسند دانشور اس پر کہاں تک چپ رہتے لیکن مسلسل کامیابیوں نے زبان بند رکھنے پر مجبور کردیا تھا۔
مذہبی روپ میں ڈھل جانے والے سعید احمد، قاسم عمر، سعید انور، انضمام اور یوسف تک معاملہ ہوتا تو ترقی پسند طبقہ اسے نصف درجن کھلاڑیوں کا ذاتی عمل قرار دے کر برداشت کرجاتا، مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ایک عام نوجوان اور کلین شیو کھلاڑی سینچری بناکر سجدہ شکر بجالاتا ہے۔ دنیا بھر کے اربوں لوگ ٹی وی پر ایسے نظارے کرچکے ہوں گے، وہ ضرور سوچتے ہوں گے یہ کیا ہے؟ پھر انھیں علم ہوتا ہوگا کہ یہ سجدہ شکر بجا لایا جارہا ہے۔ بھارتی کھلاڑی گواسکر اور ٹنڈولکر اکثر سنچریاں بناکر آسمان کی طرف دیکھتے ہیں، یہ اشارہ ہوتا ہے کہ کوئی اوپر والا ہے جو کائنات کو چلارہا ہے، اس بات کو خدا کو نہ ماننے والوں کے سوا تمام لوگ مانتے ہیں، سجدہ اس سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ یقیناً بیرونی دنیا سوچتی ہوگی کہ سنچری بناکر یہ مشہور کھلاڑی کیا کررہا ہے؟ انھیں اندازہ ہوتا ہوگا کہ یہ اپنی انا اور نفس کی سب سے بلند شے یعنی اپنا سر جھکا رہا ہے، کہاں جھکا رہا ہے؟ زمین پر کس کے آگے؟ اپنے رب کے آگے۔ اسے اسلام کی بالواسطہ تبلیغ سمجھ کر لبرل طبقہ یقیناً برا مناتا ہوگا۔
جنید جمشید جیسے مشہور فنکار کی اسلام پسندی اور اکثر چینلز پر آمد پر بھی ناگواری ظاہر کی جاتی ہے، اس سے قبل سیکولر طبقے کا مقابلہ صرف عام مذہبی علما سے تھا جو انگریزی سے ناواقف ہوتے تھے، یہ ساٹھ کے عشرے کی بات ہے۔ پھر کالجز اور یونیورسٹیوں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اسلام کا مکمل علم رکھنے والوں سے ماڈرن طبقے کا واسطہ پڑا، 70 اور 80 کے عشرے میں جنگ جاری تھی، کوئی مشہور شخصیت، کوئی بین الاقوامی کھلاڑی یا بڑا فنکار اسلام کی بات نہ کرتا کہ اس دور کے سارے پاکستانی کھلاڑی اور فنکار ترقی پسندی کے دعوے دار ہوا کرتے تھے۔ اب جب مشہور شخصیات وہ باتیں کررہی ہیں جنھیں عوام سننا اور دیکھنا چاہتے ہیں تو ناگواری تو لازم ہے، یہ بات صرف پاکستان تک محدود نہیں بلکہ دوسرے ممالک کے کھلاڑیوں کا مذہب کے معاملے میں طاقتور حلقوں سے ٹکرائو دیکھا جاسکتا ہے۔
ہاشم آملہ نے شراب بنانے والی کمپنی کا لوگو استعمال کرنے سے انکار کردیا۔ اس انکار کی قیمت بھاری مالی نقصان ہوتا ہے، اب ایک اور کھلاڑی نے ایسا انکار کرکے ٹیم سے بے دخلی کی سزا بھگتی ہے۔ ایران اور سعودی عرب کی خواتین فٹبال ٹیموں کا مکمل لباس میں کھیلنا بھی مذہب کا کھیل میں رہنمائی کا مظہر ہے۔
مذہب انسان کے جسم میں نہیں بلکہ روح تک میں سمایا ہوا ہے، پیدائش پر کان میں اذان یا کچھ اور سے لے کر تدفین یا جلانے تک یعنی آخری مذہبی رسومات تک کمیونزم نے مذہب میں مداخلت کرکے خود اپنی قبر کھودی۔ اگر وہ صرف سماجی انصاف تک محدود رہتے تو یہ حشر نہ ہوتا۔ سرمایہ دارانہ نظام نے عورت کو اشتہار بناکر مذہب سے ٹکرانے کی کوشش کی، ہمارے ملک کے ترقی پسند طبقے نے آنکھ بند کرکے دونوں نظاموں کو قبول کرلیا، خواتین کی این جی اوز کو ملک کی بنیادوں سے ٹکرانے کے لیے ڈالرز اور پائونڈز دیے گئے، وہ جب مکمل حجاب میں پوزیشن ہولڈر طالبات دیکھتی ہیں تو انھیں اچھا نہیں لگتا۔ مذہب اور لادینیت کی جنگ زیادہ پرانی نہیں لیکن پاکستان میں یہ طویل عرصے تک جاری رہے گی۔ ہاکی کے کھلاڑی شکیل عباسی کے دوران پریکٹس روزہ رکھنے جیسے واقعات انھیں آگے بڑھاتے رہیں گے۔ کالم کی اشاعت تک یہ مسئلہ حل ہوچکا ہوگا لیکن پھر کوئی اور مسئلہ پیدا ہوگا اور پھر کوئی اور کالم نگار اپنی تحریر لکھے گا جس کا عنوان ہوگا کھیل اور مذہب۔