گورنر راج کا واویلا

سندھ کے سابق گورنر اور مسلم لیگ کے رہنما ممتازعلی بھٹو نے صوبے میں بدامنی کی لہر پر گورنر راج کے نفاذ ۔۔۔


Muhammad Saeed Arain July 28, 2013

سندھ کے سابق گورنر اور مسلم لیگ کے رہنما ممتازعلی بھٹو نے صوبے میں بدامنی کی لہر پر گورنر راج کے نفاذ کا مطالبہ کیا ہے جس پر سندھ حکومت کے بعض وزراء اور پیپلز پارٹی کے رہنمائوں امین فہیم نے بدامنی کی بنیاد پر صرف ایک صوبے میں گورنر راج کے نفاذ کے مطالبے کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی نے کراچی کے حالیہ دورے میں وفاقی حکومت کی طرف سے سندھ میں گورنر راج کی باتوں کو مستردکردیا ہے اور واضح کیا ہے کہ وفاقی سطح پر ایسی کوئی بات نہیں ہورہی اور بدامنی پر قابو پانے کی کوشش میں وفاقی حکومت سندھ کی حکومت سے مکمل تعاون کرے گی اور ہر ممکن مدد فراہم کرے گی۔

نئے انتخابات کے بعد سندھ حکومت دو ماہ قبل ہی دوبارہ اقتدار میں آئی ہے جس میں زیادہ تر اہم چہرے وہی ہیں جو پی پی پی کی پہلی حکومت میں تھے اور صرف فرق یہ ہے کہ سندھ کی نئی کہلانے والی حکومت جس کے وزیر اعلیٰ بھی قائم علی شاہ ہیں اپنے اتحادیوں سے محروم ہے اور صرف پیپلز پارٹی ہی کی حکومت ہے جس میں شمولیت کے لیے پی پی رہنما متعدد بار ایم کیو ایم کو دعوت دے چکے ہیں اور وہ بھرپور کوشش کررہے ہیں کہ متحدہ حکومت میں شامل ہوجائے مگر فوری طور پر ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔

پیپلز پارٹی اپنی سندھ حکومت میں متحدہ کو شامل کرنے کے لیے کیوں بے چین ہے اس کی وجہ سندھ میں گورنر راج کے خطرے سے نجات حاصل کرنا ہے اور یہ نجات صرف متحدہ پی پی پی کی حکومت کو دلاسکتی ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کے بعد متحدہ دوسری بڑی پارلیمانی قوت ہے جو پی پی کی گزشتہ وفاقی اور صوبائی حکومت میں 5 سال شامل رہی ہے اور متحدہ اقتدار میںہونے کے باوجود پی پی حکومت سے سندھ میں بلدیاتی انتخابات نہ کرا سکی اور دو سال تک پی پی متحدہ کور کمیٹی کا ڈرامہ چلتا رہا اور آخر میں پی پی نے متحدہ سے مل کر ایک ایسا بلدیاتی نظام منظور کرایا جسے سندھ میں انتخابی ضرورت کے لیے استعمال کرنے کے لیے ماضی کی حکومتی حلیف جماعتوں فنکشنل لیگ، اے این پی، ق لیگ اور این پی پی نے منظور نہیں کیا تھا اور قوم پرستوں سے مل کر اسے متنازعہ بنادیا تھا۔ یہ پی پی حکومت کی ایک کامیاب چال تھی جس کی وجہ سے حکومت نے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے اور اپوزیشن کو بھی بلدیات کے اس دہرے نظام پر سیاست کرنے کا انتخابی ایشو مل گیا تھا۔ متحدہ نے اپنے منصوبے کے تحت انتخابات سے ایک ماہ قبل ہی حکومت سے علیحدگی اختیار کی اور پی پی کو پیپلز لوکل گورنمنٹ نظام 2012 منسوخ کرنے کا موقع مل گیا تھا۔

متحدہ نے پی پی کی حکومت میں رہتے ہوئے اپنے بعض تحفظات کی وجہ سے کئی بار علیحدگی کا اعلان کیا ان کے گورنر نے بھی استعفیٰ دیا جسے رحمن ملک نے ہمیشہ اپنا جادو دکھا کر متحدہ کو رام کرلیا اور متحدہ واپس حکومت میں لوٹتی رہی جس کی وجہ سے متحدہ کا ملک بھر میں مذاق اڑایا گیا ا ور تنقید کی گئی ۔سیاسی حلقوں میں متحدہ کی ایسی علیحدگی مذاق بن کر رہ گئی اور اس کی علیحدگی کو ڈرامہ قرار دیا جاتا رہا اور متحدہ مخالفین کا کہنا تھا کہ متحدہ اقتدار کے بغیر رہ ہی نہیں سکتی۔ متحدہ کے بار بار حکومت چھوڑنے اور واپس آنے سے کراچی میں بلاشبہ متحدہ کی مقبولیت کم ہوئی اور متحدہ مانے نہ مانے مگر یہ حقیقت ہے کہ متحدہ کا ووٹ بینک متاثر ہوا جس کا ثبوت 11 مئی کے انتخابات ہیں۔

پیپلز پارٹی کی گزشتہ 5 سال کی سیاست موقع پرستی اور سیاسی مفاد پرستی کی سیاست رہی ہے، جسے مفاہمت کی پالیسی کا نام دیا گیا جو حکومت بچانے کے لیے پی پی کی مجبوری تھی۔ وفاق میں اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے پی پی کو حلیفوں کی ضرورت تھی مگر سندھ میں ایسا نہیں تھا اور اسی وجہ سے سابق سندھ حکومت میں پی پی کی من مانیاں عروج پر رہیںاور متحدہ سمیت دیگر حکومتی حلیف بھی سندھ حکومت سے خوش نہیں تھے اور انتخابات قریب دیکھ کر سب حلیف حکومت سے علیحدہ ہوگئے اور پی پی اپنے حلیفوں کا اعتماد کھو بیٹھی ، سندھ میں پی پی پر اب اس کے سابقہ حلیف اعتماد نہیں کررہے اور متحدہ پی پی کی سندھ حکومت میں آنے کو تیار نہیں ہورہی۔

سندھ میں پیپلز پارٹی صرف متحدہ کو حکومت میں شامل کرنا چاہ رہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پی پی کو پتہ ہے کہ وفاقی حکومت سندھ میں پی پی کی حکومت کو زیادہ عرصہ برداشت نہیں کرے گی اور پی پی کی طرف سے وفاق کے ساتھ محاذ آرائی جاری رکھی جائے گی کیونکہ پی پی کی سیاسی بقا کے لیے ایسا کرنا ضروری ہوگا۔ ستمبر میں صدر زرداری کی مدت مکمل ہونے کے بعد یہ محاذ آرائی بڑھے گی ، کراچی میں پیپلز پارٹی کا گڑھ لیاری اب پی پی کا گڑھ نہیں رہا بلکہ لیاری پر اب پیپلز امن کمیٹی کا قبضہ ہے جسے پی پی نے متحدہ کی خوشنودی کے لیے کالعدم قرار دیا تھا مگر دل سے وہ ایسا کرنا نہیں چاہتی تھی مگر متحدہ کو ساتھ رکھنے کے لیے پی پی کو یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑا تھا مگر پی پی اب بھی دل سے پیپلز امن کمیٹی کے ساتھ ہے اور یہ ساتھ پی پی کی مجبوری بن گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے وزراء نے وفاقی حکومت اور ن لیگ کے خلاف دوبارہ اقتدار میں آتے ہی بیان بازی شروع کردی تھی اور نیا مخالفانہ بیان صوبائی وزیر تعلیم نثار کھوڑو کا ہے جنھوں نے ن لیگ پر سندھیوں کو نظر انداز کرنے اور زیادتیوں کا الزام لگایا ہے اور کراچی کے اردو بولنے و الے ن لیگ کے صدارتی امیدوار ممنون حسین کی نامزدگی کو ن لیگ کی موقعہ پرستی قرار دیا ہے جب کہ ایم کیو ایم ، مسلم لیگ ن کے امیدوار کو ووٹ دیگی اور متحدہ کی ترجیح ممنون حسین ہیں۔

اگر پیپلز پارٹی کی ن لیگ کے خلاف محاذ آرائی سے سندھ میں گورنر راج کی نوبت آئی اور سندھ اسمبلی معطلی کے بعد دوبارہ بحال ہوئی تو پی پی میں فارورڈ بلاک وجود میں آجائے گا کیونکہ ماضی میں بھی پی پی ارکان اسمبلی کی حمایت سے ہی جام صادق، مظفر شاہ اور لیاقت جتوئی پی پی کے مخالف گروپ تشکیل دیکر وزیر اعلیٰ بنے تھے۔ گورنر راج کے بعد سندھ میں متحدہ کی مدد کے بغیر حکومت نہیں بنائی جاسکے گی اس لیے پیپلز پارٹی متحدہ کو ساتھ ملانے کی کوشش کررہی ہے۔

سندھ میں پی پی نے خود گورنر راج کے نفاذ کی فضا ہموار کرنا شروع کررکھی ہے اور گورنر راج کا واویلا بھی کیا جارہا ہے اور سندھ میںاپنی بقا کے لیے ایسا کرنا پی پی نے اپنی مجبوری بنالیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں