شرح خواندگی میں اضافہ اور تعلیمی پالیسیاں

غیر متعلقہ افراد کے بنائے گئے منصوبے شعبہ تعلیم میں بہتری نہیں لا سکتے

غیر متعلقہ افراد کے بنائے گئے منصوبے شعبہ تعلیم میں بہتری نہیں لا سکتے۔ فوٹو: فائل

قائداعظم محمدعلی جناح ؒ کا فرمان ہے ''تعلیم پاکستان کیلئے زندگی اور موت کامسئلہ ہے۔

دنیا اتنی تیزی سے ترقی کر رہی ہے کہ اگرہم نے تعلیمی میدان میں خاطرخواہ ترقی نہیں کی تونہ صرف یہ کہ ہم دوسرے ملکوں سے پیچھے رہ جائیں گے بلکہ شائد ہماراوجودہی قائم نہ رہے۔'' افسوس کہ ہمارے اس عظیم قائدؒ نے جو وژن ہمیں 66 سال پہلے دیاتھا ہم آج تک اسے کسی خاطر میں نہ لائے، یہی وجہ ہے کہ تعلیم کے میدان میں ہماری حالت انتہائی قابل رحم ہے۔ دنیاکی ساتویں اورمسلم دنیاکی واحدایٹمی قوت ہونے کے باوجود ہم اکیسویں صدی میں اس بات کاجشن منارہے ہیں کہ ہماری سات یونیورسٹیاں دنیاکی 250 جامعات کی فہرست میں شامل ہو گئی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے آج کا نوجوان پاکستان کا مستقبل ہے۔ اگر آپ ایک خوشحال پاکستان چاہتے ہیں توایک چیز یاد رکھیے کہ ہمیں اس کی بنیاد علم پر رکھنا ہوگی۔ خوشحال پاکستان کاخواب اسی وقت پوار ہوگا جب آپ علم دوست بنیں گے، آپ کے ہر مسئلے کاحل اسی میں پوشیدہ ہے۔

کسی مفکرنے کہاتھاکہ بحرانوں کاشکارکسی بھی قوم کی امیدیں اس بات سے وابستہ ہوتی ہیں کہ وہ اپنے نوجوانوں کوتعلیم کے بہتر سے بہترموقع فراہم کرے، لیکن افسوس کامقام ہے کہ پاکستان نوجوانوں میں شرح خواندگی کے اعتبارسے سب سے نیچے ہے جوکہ 70.7 فیصد ہے۔ پاکستان میں 15سے24سال تک کی عمر کے 79 فیصدلڑکے اور 61 فیصد لڑکیاں خواندہ ہیں، یہ اعداد و شمار گھٹن زدہ ماحول میں عالمی سطح پر ملکی یونیورسٹیوں کی ریٹنگ میں بہتری کیلئے تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند تو ہو سکتے ہیں لیکن یہ کسی طور باعث اطمینان نہیں ہے۔ ماضی میں ہمارے ارباب اختیار کی ترجیحات میں تعلیم کا شعبہ انتہائی نچلے درجے پر رہا ہے جس کا اندازہ اس رپورٹ سے لگایا جا سکتاہے کہ حکومتی دعووں کے برعکس گزشتہ چند عشروں کے دوران پاکستان کا تعلیمی بجٹ 2.6 فیصد سے کم ہوکر2.3فیصد پر آگیا (حالیہ بجٹ سے قبل تک) اور یوں پاکستان دنیاکے تعلیمی انڈیکس میں شامل 120 ممالک میں 113نمبرپرہے۔

اب دیر آید درست آید کے مصداق وفاقی اورصوبائی حکومتوں نے تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس شعبے کے لیے بجٹ میں ماضی کے مقابلے میں خاطرخواہ وسائل مختص کیے ہیں۔ یہ حکومتی اعلانات دعووں اور وعدوں کی حد تک تو انتہائی پرکشش اور سحر انگیز دکھائی دیتے ہیں، اگر ان پر یقین کر لیا جائے تو تعلیم کے شعبے میں انقلاب برپا ہو سکتا ہے لیکن۔۔۔ مر ہی نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔۔۔ کیونکہ کاغذوں سے نکل کرجب انہیں عملی شکل دینے کی باری آتی ہے تو ہر مرحلے پر رکاوٹ در رکاوٹ کاایسا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتاہے کہ تخیل میں کھڑے ہونے والے محل اور سنائی دینے والے انقلابی نعرے حقیقت میں بنجر زمین اور پہاڑوں میں گونجتی آوازیں ہی رہ جاتی ہیں۔

وائس چانسلر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد القمہ کا کہنا ہے اس خرابی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہر آ نے والا حکمران اپنی سوچ کے مطابق تعلیمی انقلاب کا علم تو بلند کر دیتاہے لیکن پالیسی مرتب کرتے ہوئے سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔ تعلیم کے شعبے میں سٹیک ہولڈرز یقینی طور پر ٹیچر ہیں کیونکہ وہ اس بات کا عملی تجربہ رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ پالیسی بنانے والا وزیر تعلیم ہوتا ہے یا ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ جس میں ایک بیوروکریٹ بیٹھ کر فیصلے کر رہا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے بیوروکریسی کے بابوؤں کی صلاح سے ترتیب دئیے گئے پروگرام کاحقیقت سے دوردور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا، نتیجہ پھر وہی صفر جمع صفر ہی نکلتا ہے۔




اس کی ایک مثال پاکستان کاآبادی کے لحاظ سے سب سے بڑاصوبہ پنجاب ہے جہاں شہبازشریف جیسا متحرک وزیراعلیٰ پچھلے پانچ سال کے دوران ہر کوشش کر چکا، جس کا اعتراف مختلف فورمز پر کیا جاتا رہا ہے،لیکن اس کے باوجود ظاہری طور پر نظر آنے والی تبدیلی کاحقیقت سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ پنجاب میں سکول داخل نہ کرائے جانے والے بچوں کی شرح سب سے زیادہ 61فیصد ہے جبکہ سندھ میں 53 فیصد، خیبرپختونخوا میں 51 فیصد اور بلوچستان میں 47 فیصد بچے سکولوں سے باہر ہیں جنہیں سکولوں میں لاناسب کے لیے چیلنج ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تعلیم کے میدان میں اگر آپ کامیابیاں حاصل کرنا چاہتے تو سکول ایجوکیشن کو سب سے زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔آپ ہمیں اچھے سکول دیں، پاکستان کے تمام مسائل خودبخود حل ہوتے چلے جائیں گے۔ حکومت کو چاہئے کہ یونیورسٹیز میں سبسڈی دینے کے بجائے انہیں خومختاری دے اور یہی پیسہ سکولوں کی بہتری پر صَرف کیا جائے، اس اقدام کے نتائج انتہائی دورس اور دیر پاہوں گے۔

ایک رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ پنجاب کے 12.5فیصد پرائمری سکول پینے کے صاف پانی سہولت سے محروم ہیں جبکہ42 فیصدمیں بجلی دستیاب نہیں، 18.9 فیصد چار دیواری اور 18 فیصد بیت الخلاسے محروم ہیں۔ پنجاب حکومت کے لیے اس وقت سب سے بڑاچیلنج وہ 93 لاکھ بچے ہیں جو سکولوں سے باہر ہیں، جنہیں انرولمنٹ ایمرجنسی پروگرام کے تحت اگلے دس سالوں کے دوران سکولز میں لانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے لیکن 10 لاکھ بچوں کوسالانہ سکولز میں لانامحکمہ تعلیم کے ذمہ داران کے لئے درد سر بنا ہوا ہے کیونکہ اتنی بڑی تعداد میں بچوں کے داخلے کا مطلب ہے کہ آپ کو ہر سال25 سو نئے اساتذہ اوراتنی ہی تعداد میں سکولوں میں نئے کمرے بھی تعمیر کرنا ہوں گے جس کے لیے فنڈزکی کمی آڑے آرہی ہے۔

یہی نہیں 10لاکھ بچوں کومفت کتابوں اورسٹیشنری کی فراہمی کے لیے بھی کوئی انتظامات نہیں کئے گئے ہیں، جبکہ پہلے سے موجود 42 لاکھ بچوں کوبھی اب تک کتابیں فراہم نہیں کی جا سکی ہیں، ایسے میں انرولمنٹ ایمرجنسی پروگرام کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔اگرہم ان چیلنجزسے نمٹنا چاہتے ہیں تو ہمیں وسائل کودرست طور پر استعمال کرنا ہو گا کیونکہ پنجاب میں گزشتہ سال کے سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے کل ترقیاتی بجٹ جوکہ 23ہزار5سو ملین تھامیں سے صرف 7فیصد یعنی ایک ہزار سات سو سولہ ملین خرچ کیاگیا۔ ان اعدادوشماکوسامنے رکھیں تو یہ بات وضح ہوجاتی ہے کہ ہماری تعلیمی پسماندگی کے ذمہ دار حکمرانوں سے بھی زیادہ محکمہ تعلیم کے وہ ارباب اختیار ہیںجنہوں نے فنڈزکواستعمال نہیں کیا ورنہ اس رقم کو بروقت اورمنصوبہ بندی کے ساتھ خرچ کیا جاتا تو ہمیں پرائمری سکولزکی سطح پر ایسا مضبوط اور مربوط ڈھانچہ میسر آجاتا جس سے ہمارے نصف سے زیادہ مسائل حل ہو جاتے۔

اگرہم تیزی سے ترقی کرتی قوموں کے حالات کا جائزہ لیں توا نہوں نے اپنی ناکامیوں سے سبق سیکھا اور خوداحتسابی کے عمل کو جاری رکھتے ہوئے کبھی اپنی غلطیوں کو نہیں دہرایا۔ ماہرین کے مطابق تعلیمی میدان میں ہماری ناکامیوں اوراس شعبہ کے زوال کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے اساتذہ زیادہ تر غیر تدریسی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں، کبھی پولیومہم، کبھی ڈینگی آگاہی مہم، کبھی امتحانات میں ڈیوٹیاں یا پھر کسی اور سرکاری کام میں مصروف رہتے ہیں، جس کی وجہ سے بچوں کی پڑھائی بری طرح متاثرہوتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اساتذہ کوکسی بھی غیرتدریسی عمل میں شریک کرنے کے بجائے ان کاموں کے لیے الگ سے بھرتیاں کی جائیں تاکہ اساتذہ اپنے کام پرپوری توجہ دے سکیں، نہیں توہمارامعیارتعلیم پست سے پست ہوتا چلا جائے گا۔
Load Next Story