کامیابی کے لئے سیکھنا شرط ہے

6 اُصول جنہیں اپنا کر سیکھنے کے عمل کو سہل بنایا جاسکتا ہے


Syed Samar Ahmed July 28, 2013
6 اُصول جنہیں اپنا کر سیکھنے کے عمل کو سہل بنایا جاسکتا ہے۔ فوٹو: فائل

MUMBAI: سیکھتے چلے جانا ترقی جبکہ سیکھنے سے رک جانا ترقی معکوس کی علامت ہے۔

ایک سکول نے اخبار میں اساتذہ کے لئے اشتہار دیا جس میں لکھا...ہمیں سیکھنے والے استاد چاہئیں، سیکھے ہوئے استاد نہیں (We need learning teachers not learned teachers) ہم جس دور میں جی رہے ہیں اسے علم کی صدی(Knwoledge century ) کہا جاتا ہے۔ آج وہ فرد، گروہ یا قوم ترقی کرے گی جس کے پاس علم کی طاقت ہوگی اور یہ طاقت صرف ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو سیکھنے کا سچا جذبہ رکھتے ہیں۔ فادر ہنری داس ہندوستان آئے، وہ ایک مشنری شخص تھے، ایسے شخص کے لیے معلمی سے بہتر پیشہ اور کون سا ہوسکتا ہے؟ انٹرویو میں پوچھا گیا آپ کیا پڑھائیں گے؟ جواب دیا، ہندوستانی تاریخ۔ سوال پھر ہوا، آپ ہندوستانی تاریخ کے بارے میں کتنا جانتے ہیں؟ کہا، کچھ نہیں۔

آواز میں حیرت شامل ہوئی، تو پھر آپ پڑھائیں گے کیسے؟ عرض کی، پڑھوں گا، سیکھوں گا اور پڑھائوں گا۔ دنیا جانتی ہے کہ یہ آنے والے دنوں میں ہندوستانی تاریخ کے مشہور تاریخ دان بنے۔ یہ کوئی انسانی صلاحیت کا واحد معجزہ نہیں جسے استثنائی (Exceptional) کہہ کر رد کردیا جائے۔ ایسے کتنے Learning miracles دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ آخری دم تک سیکھنے اور اپنے پر احتسابی نظر ڈالنے والے لوگ انسانی عظمتوں سے آشنا ہوتے ہیں۔ ان کی عزت اور عظمت کے پیچھے مسلسل سیکھنے کی یہ جستجو بھٹی کا کام کرتی ہے، جس سے یہ خام سے کندن بن جاتے ہیں۔

یہاں اب ہم وہ اہم ترین اصول تحریر کر رہے ہیں جو سیکھنے والوں کی زندگی کی کایا پلٹ سکتے ہیں، اعلیٰ درجے کی کامیابی کا حصول ممکن بناسکتے ہیں۔

بچے بن جائیں (Be A Child)

سیکھنے کے خواہش مند بچے بن جائیں کیونکہ بڑے سیکھا نہیں کرتے۔ جن کے دماغوں میں بڑا پن آجائے وہاں سے سیکھنا learning attitude رخصت ہوجاتاہے۔ جہاں نخوت و تکبر کا کیڑا پڑ جائے وہاں گلنے سڑنے کا عمل نمو پاتاہے۔ ہر چیز، ہر انداز، ہرایک سے،ہرجگہ،ہروقت بچے سیکھتے ہیں۔ ہر نئی چیز کی تلاش میں رہنا اور گہرے مشاہدے کے ساتھ پھر عمل کرنا۔اگر کسی کو بچوں سے کچھ سیکھنا ہے تو ایک نہایت اہم بات سیکھے اوروہ ہے ہروقت سیکھنے میں مصروف رہنا۔لہذا ان کی نشوونما حیرت انگیز تیزی کے ساتھ ہوتی ہے۔ایک شخص کی 70% زندگی کی طرز کی تشکیل اسی بنا پر سات سال کی عمر تک ہوچکتی ہے۔لیکن خدا نے انسان کو زبردست صلاحیت یہ دے رکھی ہے کہ وہ جب چاہے اپنے حالات کو بدلنے کا آغاز کرسکتا ہے ۔لوگوں کے اندازے غلط کرسکتا ہے اور ایک نیا انسان بن کے دنیا کو حیران کر سکتا ہے۔

مثبت ہوجائیں (Be Positive)

مختلف تجزیات کے مطابق60 سال بعد ہمارے انفرادی و ملکی مسائل کی بنیاد منفی ذہنیت ہے۔ ہم لوگوں کی خامیاں نوٹ کرتے ہیں، نقائص تلاش کرتے ہیں، Dark portions ڈھونڈتے ہیں۔خوبیاں نوٹ نہیں کرتے ، بہتری نہیں دیکھتے ، Bright portions سامنے نہیں لاتے۔اگر کہیں کسی کی تعریف ہورہی ہو تو یہ جملہ عام سننے کو مل جاتاہے کہ...ہاں ،ٹھیک ہے لیکن...یہ یہ خرابی بھی ہے ان صاحب میں۔یعنی آدھے گلاس کا پہلے خالی حصہ دیکھتے ہیں بعد میں بھرا ہوا۔ اس سوچ نے ہمیں شخصی طور پر کھوکھلا کردیا ہے۔ یہاں تک کہ شہر میں کوئی وبائی مرض پھوٹ پڑے تو یہ منفی ذہنیت رکھنے والے سب سے پہلے اس کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ ان کا اعصابی نظام ناکارہ ہوجاتا ہے۔ یہ بے چارے لوگوں، معاشرے، ملک،حالات کے شکوے کرتے نظرآئیں گے۔ آپ ان کے منہ سے کوئی امید بھرا جملہ نہیں سنیں گے۔انہیں ہر طرف اندھیرے نظر آتے ہیں۔یہ مایوسیوں کے پیامبر ہوتے ہیں۔خود بھی افسردہ رہتے ہیں اور زندگی سے بھی۔



خواب دیکھیں (Dreaming)

خواب دیکھنے پہ کوئی پابندی نہیں،کوئی ٹیکس نہیں تو خواب کیوں نہیں دیکھتے۔ یہ ہمارے منفی طرزِعمل کا حصہ ہے۔میں اپنے شرکا سے پوچھتا ہوں کہ آپ سوچ ہی لیں کہ ہم خوش رہیں گے۔جواب ایک طنزیہ اور شکست خوردہ مسکراہٹ کے ساتھ ملتا ہے 'کیوں خواب دکھاتے ہیں' میرا اصرار ہوتا ہے کہ سوچنے میں کیا حرج ہے۔چلیں آپ کی ہی مان لیں تو بھی تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی لیکن غمِ زندگی سے چھٹکارا پا لینے میں کیا حرج ہے۔ جب ہم اس حقیقت کو قبول کرتے ہیں کہ اسباب ہمارے لیے ہیں اور ہم انہیں تسخیر کرسکتے ہیں تو پھر بات کامیابی کے اگلے مرحلے تک چلتی ہے۔

میں ایسے شخص کو زندوںمیں کیا شمار کروں

جو سوچتا بھی نہیں ،خواب دیکھتا بھی نہیں

عملی ہوجائیں (Be Practical)

خواب سے اگلا مرحلہ خاکے میں رنگ بھرنا ہے۔ اگر پڑھا اور پڑھ کے گزر گئے تو یہ باتیں غیر موثر ہو جائیں گی۔ انہیں عمل میں لائیے۔ کسی نے خوبصورت بات کہی کہ میں پہلے دنیا کوتبدیل کرنا چاہتا تھا اور ناکام تھا۔ اب میں اپنے آپ کو تبدیل کر رہا ہوں اور کامیاب ہوں۔خوب سوچیں،مثبت لوگوں سے مشاورت کریں،منصوبہ بنائیں اورجُت جائیں۔عمل شروع کریں گے تو نتائج ملیں گے۔یہ نتائج موافق بھی ہوسکتے ہیں اور ناموافق بھی۔اگر خدانخواستہ ناموافق بھی ہوگئے تو بھی آپ کو صحیح راستے کی نشان دہی کردیں گے۔ ایڈیسن نے ایک ہزار غلط تجربات کیے تو کہیں جاکے بلب بنا۔ اس سے کسی نے پوچھا تم نے تو وقت ضائع کردیا ۔ اس نے جواب دیا وقت ضائع نہیں کیا ، مجھے 998وہ طریقے معلوم ہیں جن سے بلب نہیں بنتا۔ ہر ناکامی مجھے صحیح طرف کا راستہ بتا رہی تھی۔

غیر روایتی ہوجائیں (Be Unconventional)

لکیر کے فقیر عا م طور پہ مسائل حل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ہم جس صدی میں زندہ ہیں۔ اس میں معلومات اور چیلنجز کا ایک سیلاب روز چڑھائی کرتا ہے۔ روایتی سوچ رکھنے والے لوگ ان چیلنجز کا جواب دینے سے قاصر رہتے ہیں۔الیس ہووے 1819 میں پیدا ہوا اور صرف 40 سال زندہ رہا لیکن اس نے دنیا کو سلائی مشین جیسی ایک حیران کن ایجاد دی جس کے وجہ سے ہم اس کے ہمیشہ ممنون رہیں گے۔

مسکرائیں (Smiling)

کسی نے لکھا کہ مسکراہٹ اس چیز کی علامت نہیں ہوتی کو مسکرانے والے کومشکلات کا سامنا نہیں ہے۔ بلکہ یہ اس چیز کی علامت ہوتے ہیںکہ مسکرانے والا مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔ ستے ہوئے سنجیدہ چہرے کسی کو پسند نہیں آتے۔ رجعت پسندوں کے ساتھ کوئی جیون نہیں بِتاناچاہتا۔ خالق ِ کائنات نے بھی اس کو ناپسند کیا ہے۔ اس لیے آخری درخواست ہے کو دنیا کو ایک دفعہ مسکرا کے دیکھیں ،ہر طرف بہار آجائے گی۔زندگی گل و گلزار ہوجائے گی۔ مسکراہٹ:

٭آپ کے اعصاب کو سکون بخشتی ہے۔

٭چہرے پہ شگفتگی و معصومیت برقرار رکھتی ہے۔

٭مشکل ترین صورتحال میں قابو میں رکھتی ہے۔

٭جسمانی بے چینی و اضطراب سے دور رکھتی ہے۔

٭آپ کامیاب اور پرکشش کہلائے جاتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |