مصر کی افسوسناک صورتحال

مصرکےدارالحکومت قاہرہ میں معزول صدرمرسی کےحامیوں اورمخالفین کی ریلیوں کےدوران تصادم میں150سےزیادہ افرادجاں بحق ہوگئے..

مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں معزول صدر مرسی کے حامیوں اور مخالفین کی ریلیوں کے دوران تصادم میں 150سے زیادہ افراد جاں بحق ہو گئے۔ فوٹو: رائٹرز

مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں معزول صدر مرسی کے حامیوں اور مخالفین کی ریلیوں کے دوران تصادم میں 150سے زیادہ افراد جاں بحق ہو گئے جب کہ زخمیوں کی تعداد ہزاروں میں بتائی گئی ہے۔ مصری فوج کے سربراہ جنرل السیسی کی جانب سے اپنے حامیوں سے مظاہروں کی اپیل کے بعد قاہرہ اور اسکندریہ سمیت دیگر چھوٹے بڑے شہروں میں معزول صدر محمد مرسی کے حامیوں اور فوج کے حامیوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق معزول صدر کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان ہونے والی شدید جھڑپوں میں ہلاکتوں اور زخمی ہونے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ مصر میں فوجی بغاوت کے ذریعے منتخب صدر کا تختہ الٹنے کے بعد حالات فوج کے کنٹرول سے بھی باہر ہو رہے ہیں۔ جب کہ اس مشکل وقت میں اخوان کے حلقوں میں داخلی اختلافات کی خبریں بھی منظر عام پر آ رہی ہیں۔ ادھر عبوری صدر نے الیکشن سے پہلے آئین میں ترمیم اور ریفرنڈم کی شرط عائد کر کے انتخابات کے انعقاد کو مشکوک بنا دیا ہے۔

مصر میں پہلی فوجی بغاوت 1950ء کی دہائی کے اوائل میں کرنل جمال عبدالناصر کی قیادت میں کی گئی۔ پھر ساٹھ کی دہائی میں ناصر کی وفات کے بعد ان کے نائب انوار السادات نے اقتدار سنبھال لیا لیکن اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کرنے کی پاداش میں انھیں قومی دن کی تقریب میں فوجیوں نے گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ اور تب سے زمام اقتدار حسنی مبارک کے ہاتھ میں آ گئی جنھیں زبردست عوامی تحریک کے نتیجے اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ عبوری انتظامیہ نے عام انتخابات کرائے جن میں اخوان المسلمون کے رہنما ڈاکٹر محمد مرسی کامیاب ہوئے۔ وہ مصر کے پہلے منتخب صدر تھے۔ اب آرمی چیف جنرل السیسی نے اقتدار پر قبضہ جما لیا ہے لیکن یہ پہلا موقع ہے جب اس فوجی بغاوت کی زبردست عوامی مزاحمت کی جا رہی ہے۔ اخباری خبروں کے مطابق قاہرہ میں ربا الداویہ مسجد کے قریب مرسی کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان شدید جھڑپوں کی وجہ سے علاقہ میدان جنگ بن گیا اور سڑکیں خون آلود ہو گئیں۔ اخوان المسلمون نے کہا ہے کہ ان کے ہزاروں حامی مصری فوج کے ساتھ تصادم میں جاں بحق اور زخمی ہو گئے ہیں۔


فوج سے یہ تصادم شمالی قاہرہ میں اخوان المسلمون کے حامیوں کے ایک ماہ سے جاری دھرنے کو توڑنے کی کوشش میں شروع ہوا۔ اخوان المسلمون کے حامیوں نے ایک فوٹیج میں متعدد زخمیوں کو عارضی اسپتال لے جاتے ہوئے دکھایا ہے۔ یہ عارضی اسپتال دھرنے والی جگہ کے پاس ہی ایک مسجد میں بنایا گیا ہے۔ اخوان المسلمون کے ترجمان کے مطابق پولیس نے ریلی پر براہ راست فائرنگ کر دی جس سے ساڑھے چار ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے جب کہ بیسیوں جان سے گزر گئے۔ ممکن ہے کہ اخوان اعداد وشمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہے ہوں لیکن یہ حقیقت ہے کہ مصر میں محمد مرسی کے حامیوں اور ان کے مخالفین میں جھڑپیں ہوئیں جس کے نتیجے میں بیسیوں افراد جاں بحق ہو گئے جب کہ زخمیوں کی تعداد سیکڑوں میں بتائی گئی ہے۔ محمد مرسی کے حامی اور مخالفین نے ملک بھر میں ہزاروں کی تعداد میں ریلیاں نکالیں۔

مصر میں فوج کی جانب سے نامزد وزیر داخلہ محمد ابراہیم نے سرکاری ٹی وی چینل الاہرام سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک ماہ سے جاری مرسی کے حامیوں کے دھرنے کو جلد از جلد قانونی طریقے سے ختم کیا جائے گا۔ مصر میں جاری تشدد پر ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کیترین ایشٹن نے حالیہ تشدد کو ناقابل برداشت قرار دیا ہے جب کہ برطاینہ کے وزیرِ خارجہ ولیم ہیگ نے مصری حکام پر تشدد فوری طور پر ختم کرنے کے لیے زور دیا ہے۔ مصر میں وہی کچھ ہونے جا رہا ہے' جس کے خدشے کا اظہار ان ہی سطور میں کیا گیا تھا کہ اس ملک میں صورتحال کو سنبھالا نہ گیا تو تصادم ہو سکتا ہے۔ صدر مرسی کے حامی پہلے ہی سڑکوں پر تھے' جب مصری فوج کے سربراہ السیسی نے بھی اپنے حامیوں کو باہر آنے کی اپیل کی تو تصادم یقینی ہو گیا تھا' اگلے روز مصر میں جو کچھ ہوا' وہ قابل افسوس ہے' پاور گیم میں بے گناہ افراد مارے گئے۔ اگر فریقین نے صبروتحمل اور معاملہ فہمی کا ثبوت نہ دیا تو یہاں بھی شام اور یمن جیسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے جو ایک المیہ ہوگا۔

مصر مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کو ملانے والا اہم ترین ملک ہے' اگر یہاں بھی شام جیسی لڑائی ہوتی ہے تو اس کے براہ اثرات فلسطینیوں پر بھی پڑیں گے اور پورا مشرق وسطیٰ بدامنی کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ تیونس سے شروع ہونے والی عرب بہار نے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں جمہوریت کو فروغ دینے کے بجائے تصادم کو ہوا دی ہے۔ اس تصادم میں جہاں مسلمانوں کے مختلف گروہ نظریاتی بنیادوں پر ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں' وہاں غیر ملکی قوتیں بھی اپنے مفادات کا کھیل کھیل رہی ہیں۔ مصر' شام' یمن اور صومالیہ میں مسلمانوں کے نظریاتی گروہوں نے کوئی درمیانہ راستہ نکالنے کے بجائے ایک دوسرے کو کچلنے کی راہ اختیار کی جس کا نتیجہ جنگ وجدل کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔ ہم پہلے بھی ان ہی سطور میں کہہ چکے ہیں کہ عرب لیگ اور آئی سی ان معاملات میں متحرک کردار ادا کرے اور جنگ زدہ اور نظریاتی خلفشار والے مسلم ممالک میں جمہوری ہم آہنگی بڑھانے کی کوشش کرے' اس طریقے سے ہی مصر سمیت دیگر عرب مسلم ممالک میں امن قائم ہو سکتا ہے۔
Load Next Story