ننھی گلوکارہ ہادیہ نے موسیقی کے میدان میں لمبی اننگز کھیلنے کا سگنل دے دیا
ننھی گلوکارہ ہادیہ ہاشمی میوزک کے شعبے میں نام بنانے کے ساتھ ڈاکٹر بھی بنناچاہتی ہیں
ملکہ ترنم نور جہاں کی دیوانی 8 سالہ ہادیہ ہاشمی نے چھوٹی سی عمر میں گائیکی میں پختگی دکھا کر موسیقی کے میدان میں لمبی اننگز کھیلنے کا گرین سگنل دے ڈالا۔
چھوٹی عمر میں بلند آواز کی مالکہ ہادیہ ہاشمی پانچویں جماعت کی طالبہ ہیں لیکن گھر میں والد کے ٹیپ ریکارڈر پر ملکہ ترنم نور جہاں کے بجنے والے گیت اور ملی ترانوں نے اسے اتنا متاثر کیا کہ وہ انہی کے انداز میں گنگنانے لگی۔ ہادیہ ہاشمی کے شوق اور لگن کو مدنظر رکھتے ہوئے والد ضیاء الدین ہاشمی نے انہیں میوزک اکیڈمی میں تربیت کیلئے داخل کروایا۔
ایکسپریس کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے ہادیہ ہاشمی نے کہا کہ گھر میں نہ کوئی گاتا تھا اور نہ کوئی گنگناتا تھا لیکن میرے ابو ملکہ ترنم نور جہاں کے گیت بڑے شوق سے سنتے تھے۔ ایک دن جب میں نے پوچھا تو پتہ لگا کہ یہ ہمارے ملک کی نہیں بلکہ دنیا کی عظیم گلوکارہ ہیں۔ میں نے ان کا ملی نغمہ یاد کیا اور اسکول میں ہونے والے مقابلے میں حصہ لیا۔ میری گائیکی نے سب کو متاثر کیا اور مجھے پہلا انعام ملا۔
دوسری جانب میری جیت پر مجھے امی اور ابو سے سرپرائز گفٹ ملتے ہیں۔ ڈول ہاؤس مجھے پسند ہے، اس کے علاوہ جیت کر گھر آتی ہوں تو بریانی بھی کھلائی جاتی ہے جو میری پسندیدہ ڈش ہے۔ ہادیہ ہاشمی نے انٹرویو کے دوران جہاں گائیکی میں اپنا ہنر دکھایا وہیں بتایا کہ مجھے زندگی میں دو کام کرنے ہیں ایک تو میوزک کے شعبے میں کام کرکے اپنا نام بنانا ہے اور دوسرا تعلیم حاصل کرکے ڈاکٹر بننا ہے، تاکہ لوگوں کا علاج کرسکوں۔
ہادیہ ہاشمی کے والد سید ضیاء الدین ہاشمی کہتے ہیں کہ میں پیشے کے اعتبار سے درزی ہوں، ہماری فیملی میں گانے بجانے کا رجحان نہیں ہے۔ لیکن یہ خدا کی عطا ہی ہے کہ میری بیٹی نے گانا شروع کیا اس پر میں اور میری بیگم تو خوش ہیں لیکن فیملی میں تنقید کا سامنا ہے۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں لیکن میوزک کے شعبے میں آکر مجھے اندازہ ہوا کہ جو کچھ سن رکھا تھا ایسا کچھ نہیں ہے۔
ہادیہ ہاشمی کے استاد ضیاء الحق نے بتایا کہ ہادیہ جب میرے پاس آئی اور میں نے اس کو سنا اور فیصلہ کیا کہ چھوٹی سی عمر میں اس بچی کو بڑی گلوکارہ بنانا ہے۔ میں نے اس کے ساتھ دن رات محنت کی اور ہادیہ نے بھی اس میں اپنی لگن دکھائی۔ جس کی بدولت آج ہر طرف اس کے چرچے ہورہے ہیں۔ جس طرح اس کے والدین خوش ہیں اسی طرح میں بھی بہت خوش ہو۔ ہادیہ ہاشمی سے ہمیں بہت توقعات وابستہ ہیں اور امید ہے کہ وہ اپنے والدین، اساتذہ اور اکیڈمی کانام بہت روشن کرے گی۔
چھوٹی عمر میں بلند آواز کی مالکہ ہادیہ ہاشمی پانچویں جماعت کی طالبہ ہیں لیکن گھر میں والد کے ٹیپ ریکارڈر پر ملکہ ترنم نور جہاں کے بجنے والے گیت اور ملی ترانوں نے اسے اتنا متاثر کیا کہ وہ انہی کے انداز میں گنگنانے لگی۔ ہادیہ ہاشمی کے شوق اور لگن کو مدنظر رکھتے ہوئے والد ضیاء الدین ہاشمی نے انہیں میوزک اکیڈمی میں تربیت کیلئے داخل کروایا۔
ایکسپریس کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے ہادیہ ہاشمی نے کہا کہ گھر میں نہ کوئی گاتا تھا اور نہ کوئی گنگناتا تھا لیکن میرے ابو ملکہ ترنم نور جہاں کے گیت بڑے شوق سے سنتے تھے۔ ایک دن جب میں نے پوچھا تو پتہ لگا کہ یہ ہمارے ملک کی نہیں بلکہ دنیا کی عظیم گلوکارہ ہیں۔ میں نے ان کا ملی نغمہ یاد کیا اور اسکول میں ہونے والے مقابلے میں حصہ لیا۔ میری گائیکی نے سب کو متاثر کیا اور مجھے پہلا انعام ملا۔
دوسری جانب میری جیت پر مجھے امی اور ابو سے سرپرائز گفٹ ملتے ہیں۔ ڈول ہاؤس مجھے پسند ہے، اس کے علاوہ جیت کر گھر آتی ہوں تو بریانی بھی کھلائی جاتی ہے جو میری پسندیدہ ڈش ہے۔ ہادیہ ہاشمی نے انٹرویو کے دوران جہاں گائیکی میں اپنا ہنر دکھایا وہیں بتایا کہ مجھے زندگی میں دو کام کرنے ہیں ایک تو میوزک کے شعبے میں کام کرکے اپنا نام بنانا ہے اور دوسرا تعلیم حاصل کرکے ڈاکٹر بننا ہے، تاکہ لوگوں کا علاج کرسکوں۔
ہادیہ ہاشمی کے والد سید ضیاء الدین ہاشمی کہتے ہیں کہ میں پیشے کے اعتبار سے درزی ہوں، ہماری فیملی میں گانے بجانے کا رجحان نہیں ہے۔ لیکن یہ خدا کی عطا ہی ہے کہ میری بیٹی نے گانا شروع کیا اس پر میں اور میری بیگم تو خوش ہیں لیکن فیملی میں تنقید کا سامنا ہے۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں لیکن میوزک کے شعبے میں آکر مجھے اندازہ ہوا کہ جو کچھ سن رکھا تھا ایسا کچھ نہیں ہے۔
ہادیہ ہاشمی کے استاد ضیاء الحق نے بتایا کہ ہادیہ جب میرے پاس آئی اور میں نے اس کو سنا اور فیصلہ کیا کہ چھوٹی سی عمر میں اس بچی کو بڑی گلوکارہ بنانا ہے۔ میں نے اس کے ساتھ دن رات محنت کی اور ہادیہ نے بھی اس میں اپنی لگن دکھائی۔ جس کی بدولت آج ہر طرف اس کے چرچے ہورہے ہیں۔ جس طرح اس کے والدین خوش ہیں اسی طرح میں بھی بہت خوش ہو۔ ہادیہ ہاشمی سے ہمیں بہت توقعات وابستہ ہیں اور امید ہے کہ وہ اپنے والدین، اساتذہ اور اکیڈمی کانام بہت روشن کرے گی۔