نیا زمانہ‘ نئے تندور‘ نئی چپاتیاں

کیسے پتے کی بات جوگندر نے کل کہی۔ خیر جوگندر نے جو پتے کی بات کہی وہ تو علامہ اقبال بتائیں گے۔ ہم اس وقت محمد۔۔۔

rmvsyndlcate@gmail.com

کیسے پتے کی بات جوگندر نے کل کہی۔ خیر جوگندر نے جو پتے کی بات کہی وہ تو علامہ اقبال بتائیں گے۔ ہم اس وقت محمد یوسف نانبائی کی بات کر رہے ہیں۔ اس نے کیسے پتے کی بات کہی کہ آٹا اچھا ہو' پوری طرح اور صحیح طریقے سے گوندھا گیا ہو تب روٹی اچھی بنتی ہے۔ مگر اس میں وقت درکار ہے اور محنت کرنی پڑتی ہے۔ اور پھر تندور کو پوری طرح گرم ہونا چاہیے۔ گرمی کے موسم میں گرم تندور پر کھڑے ہو کر پیڑے بنانا جو خود ایک ہنر ہے اور جو مشق چاہتا ہے قیامت ہے۔

ارے یہی تو میرؔ نے کہا تھا۔ آخر شاعری کا معاملہ بھی اس سے ایسا مختلف تو نہیں ہے۔ تو میرؔ نے کہا تھا کہ ؎

خشک سیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتا ہے

تب کہیں ہوتی ہے اک مصرعۂ ترکی صورت

اصل میں ابھی کل پرسوں ہم نے محمود الحسن کے ایکسپریس میں چھپے ایک فیچر میں لاہور کے ایک نانبائی محمد یوسف کا بیان پڑھا ہے۔ اس نے بتایا ہے کہ تندوری روٹی بنانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ آٹا کتنے مراحل سے گزرتا ہے اور پھر گول روٹی کی شکل میں تندور میں اترتا ہے اور تندور گرم ہونے میں خود کتنے مراحل سے گزرتا ہے اور ہر مرحلہ کتنا محنت طلب ہے۔ ان مراحل سے بخیر و خوبی گزرنے کے بعد تندور سے گرم گرم روٹی برآمد ہوتی ہے۔ انھیں مراحل کی طرف تو میرؔ نے اشارہ کیا ہے۔

اس سے ہم نے یہ جانا کہ شاعری اور تندوری روٹی کا معاملہ یکساں ہے۔ دونوں کام ریاض مانگتے ہیں۔ کاتا اور لے دوڑی کے ٹوٹکے سے نہ اچھی روٹی پکتی ہے نہ اچھی شاعری برآمد ہوتی ہے۔

مت تعجب کیجیے کہ کجا نانبائی اور کجا میرؔ ایسا شاعر۔ اس برصغیر کے کتنے بڑے شاعر انھیں چھوٹے پیشوں سے برآمد ہوئے ہیں۔ بھگتی تحریک کتنی بڑی تحریک تھی اس سے کیسے بڑے بڑے سنت سادھو اور قلندر برآمد ہوئے۔ پھر ایسے شاعر کہ آج بھی ان کے شعر ان کے دوہے خلقت کے حافظہ کا حصہ ہیں اور لوگوں کی زبانوں پر رواں ہیں۔ مگر ان کے پیشے کیا تھے۔ کوئی درزی' کوئی موچی' کوئی جولاہا۔ کبیرؔ جولاہا تھا۔ سوت موٹا کاتتا تھا۔ شاعر باریک بین تھا۔ دوہوں میں حکمت کے موتی بکھیرتا تھا۔ اصل میں یہ پیشے خود عوامی زندگی سے اتنے جڑے ہوئے تھے کہ ان پیشوں کے واسطے سے انھیں انسانی زندگی کے نشیب و فراز اور خلقت کے دکھ سکھ کے بارے میں بصیرت حاصل ہو جاتی تھی۔ اسی لیے تو کبیر کے دوہوں میں کتنے استعارے تشبیہیں اسی پیشے سے برآمد ہوتے نظر آتے ہیں۔

یہ کچھ زمانے زمانے کی بات ہے' کچھ قسمت کا پھیر ہے کہ محمد یوسف تندور پر کھڑا رہ گیا اور کبیر کے مقام تک نہ پہنچ سکا۔ مگر تندور پہ چوبیس پچیس برس تک مستقل کھڑے رہنا اور یکسوئی سے اس آگ میں تپتے رہنا اور روٹیاں لگاتے رہنا ضایع تو نہیں گیا۔ اس فن شریف میں اس نے کمال حاصل کر لیا اور اس تجربے سے اس نے جو سیکھا اور اپنے بیان میں بتایا ہے اس کی معنویت تندور کی روٹیوں تک نہیں ہے' اس سے آگے بھی اس کے معنی نکلتے نظر آتے ہیں۔ اس نے بتایا ہے کہ جب سے اس نے تندور جھونکنا شروع کیا ہے تب سے اب تک کتنا فرق پڑ گیا ہے۔ اس وقت ایندھن کے نام پر لکڑیاں جلائی جاتی تھیں۔ لکڑیاں کبھی گیلی' کبھی سیلی' برسات میں تو ادبدا کر ان کی یہی صورت ہوتی تھی۔ سو کتنی مشکل سے سلگتی تھیں۔ پھر ان لکڑیوں کے سلگنے سے دھواں بہت اٹھتا تھا جو بہت پریشان کرتا تھا۔ مگر اب تو سوئی گیس آ گئی ہے۔ چولہا جلدی گرم ہو جاتا ہے۔ دھوئیں سے نجات مل گئی۔ آنچ آسانی سے تیز اور دھیمی کی جا سکتی ہے۔ پھر آٹا گوندھنے میں بھی اب سہولت ہو گئی ہے۔ اب مشین کے ذریعہ آٹا گوندھا جا سکتا ہے۔ سو تندور کا کام آسان ہو گیا ہے مگر اسی حساب سے روٹی کی کوالٹی میں فرق آ گیا ہے۔ ہاتھ سے گوندھے ہوئے آٹے سے بنائی ہوئی روٹی کی بات ہی کچھ اور تھی۔ مشین سے گوندھے ہوئے آٹے کی روٹی میں وہ بات کہاں۔

مگر یہ صورت تندور تک تو محدود نہیں ہے۔ گھروں کے باورچی خانوں میں پہلے مٹی کے چولہے ہوتے تھے۔ ان میں لکڑیاں سلگتی تھیں۔ یہاں بھی وہی صورت تھی کہ لکڑیاں ذرا بھی سیلی ہوتی تھیں تو آگ کتنی مشکل سے جلتی تھی اور پھر اس پر دھواں مستزاد۔ روٹی تو ے پر پکتی تھی۔ اور بھوبھل پہ رکھ کر سینکی جاتی تھی۔ مگر جب گیس کے چولہے آ گئے تو روٹی کتنی آسانی سے پک جاتی ہے۔ مگر گیس کے چولہے کی آمد کے ساتھ دھواں ہی رخصت نہیں ہوا۔ ساتھ میں بھوبھل یا راکھ جو بھی کہو وہ غائب ہو گئی۔ بس پھر روٹی میں وہ ذائقہ بھی نہ رہا۔

مگر ہنڈیا کا سالن بھی اب تو ویسا نہیں رہا۔ ہنڈیاں بھی مشینی آ گئیں۔ چٹ ہنڈیا چڑھائی۔ پٹ ہنڈیا دم میں آ گئی۔ سالن تیار مگر دھیمی آنچ میں پکی ہنڈیا کے سالن کا جو ذائقہ تھا وہ غائب ہو گیا۔


الیکٹرونک میڈیا کی آمد اور فروغ کے ساتھ ادھر بھی نئے تندور لگ گئے ہیں۔ ہر چینل پر ایک بڑا سا تندور جسے ایندھن کی ضرورت ہے۔ سو اب یہاں بھی اس نسخہ سے تو کام نہیں چل سکتا کہ

خشک سیرون تنِ شاعر کا لہو ہوتا ہے

تب کہیں ہوتی ہے اک مصرعہ ترکی صورت

مگر خیر ان تندوروں کو اپنے ایندھن کے لیے شاعری کی ضرورت نہیں ہے۔ انھیں ڈراموں کے اسکرپٹ چاہئیں اور ان میں اتنی لچک ہونی چاہیے کہ وقت ضرورت وہ سیریل بن جائیں اور سیریل میں یہ صفت ہونی چاہیے اور اتنی لچک کہ اسے جتنی قسطوں تک کھینچنا چاہو کھینچتے چلے جائو۔ بس اسی حساب سے تحریر بھی کھوکھلی ہوتی چلی جائے گی۔ مگر بیشک ہو جائے۔ تندور کی مانگ تو پوری ہوتی ہے۔

بظاہر شاعری' افسانہ' ناول امن میں ہیں کہ ٹی وی چینلوں کے تندوروں کا وہ ایندھن نہیں بن سکتے۔ مگر ادھر پرنٹنگ پریس نے بھی تو تیزی پکڑ لی ہے اور چھپائی کا سلسلہ اتنا تیز ہو گیا ہے کہ بیچ میں سے کاتب غائب ہو گیا تو وہ زمانہ گیا کہ کاتب صاحب روں روں کر کے قلم چلا رہے ہیں اور مسودے کی کتابت کا عمل لمبا ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اب مشینی خوش نویسی شروع ہو گئی۔ ادھر مسودہ کمپوز ہوا۔ ادھر پریس میں گیا۔ چشم زدن میں کتاب چھپ گئی۔

ویسے تو پچھلے دور میں بھی جب ابھی ناشر اور مصنف کاتب کے محتاج تھے وقت ضرورت مال فوری طور پر تیار ہو جاتا تھا۔ تقسیم کے تھوڑے سالوں بعد ایک سکھ عاشق بوٹا سنگھ کے نام سے لاہور شہر' میں نمودار ہوا تھا۔ جب اسے کامیابی کی صورت نظر نہ آئی تو اس نے ریل کی پٹڑی پہ سر رکھ کر جان دیدی۔ اخباروں کی چاندی ہو گئی۔ لمبے لمبے فیچر لکھے گئے۔ اخبار خوب بکے۔ ایک ناشر کو خیال آیا تو اس نے اپنے ناول نگار سے فرمائش کی کہ دو دن کے اندر اندر اس موضوع پر ناول کا مسودہ مجھے ملنا چاہیے۔ برق رفتار قلم رواں ہو گیا۔ مسودہ تیار۔ کتنے کاتبوں کو کام پر لگا کر دو دن میں کتابت بھی ہو گئی۔ اگلے دو ڈھائی دن میں ناول چھپ گیا اور مارکیٹ میں آ کر بیسٹ سیلر بن گیا۔ مگر جس تیزی سے نمودار ہوا تھا اسی تیزی سے پردہ اخفا میں چلا گیا۔

مگر اب تیز رو ناشروں اور ناول نگاروں کو کسی بوٹا سنگھ کی محتاجی نہیں ہے۔ زمانے نے اتنی رفتار پکڑ لی ہے کہ حسب ضرورت ہر کام برق رفتاری سے ہوتا ہے۔ بیسٹ سیلر ناول بھی اسی پھرتی سے برآمد کیا جا سکتا ہے۔

یہ پرانے زمانے کی مثل ہے کہ جلدی کا کام شیطان کا۔ عجلت میں کام خراب ہوتا ہے مگر یہ تو زمانہ ہی عجلت پسند ہے۔ ع

دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

دوڑو ورنہ پیچھے رہ جائو گے
Load Next Story