بہترین زندگی کا نسخہ
صحابہ کرامؓ میں سے دوشخص آپس میں ملتے تواس وقت تک جدا نہ ہوتے جب تک ان میں سے ایک دوسرے کے سامنے سورۃ العصرنہ پڑھ لے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، مفہوم: '' قسم ہے زمانے کی کہ ہر انسان خسارے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کیے۔ اور جنہوں نے آپس میں حق بات کی وصیت کی اور صبر کی نصیحت کی۔'' (سورۃ العصر)
سورۃ العصر قرآن کریم کی مختصر سی سورت ہے، لیکن ایسی جامع ہے کہ بہ قول حضرت امام شافعیؒ کہ اگر لوگ اس سورۃ کو غور و فکر اور تدبر کے ساتھ پڑھ لیں تو دین و دنیا کی درستی کے لیے کافی ہو جائے۔
حضرت عبداللہ ابن حصینؒ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے دو شخص آپس میں ملتے تو اس وقت تک جدا نہ ہوتے جب تک ان میں سے ایک دوسرے کے سامنے سورۃ العصر نہ پڑھ لے۔ (طبرانی)
اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے العصر کی قسم کھائی ہے، جس سے مراد زمانہ ہے، کیوں کہ انسان کے تمام حالات، اس کی نشو و نما، اس کی حرکات و سکنات، اعمال اور اخلاق سب زمانے کے لیل و نہار میں ہی ہوں گے۔ جہاں تک قسم کا تعلق ہے، اللہ تعالیٰ کے کلام میں قسم کے بغیر بھی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ بندوں پر رحم فرما کر، کسی حکم کی خصوصی تاکید اور اس کی اہمیت کی وجہ سے قسم کھا کر کوئی حکم بندوں کو کرتا ہے، تاکہ بندے اس حکم کی اہمیت کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوں اور حکم بجا لانے میں کوئی کوتاہی نہ کریں۔
سورۃ العصر کی روشنی میں خسارے سے صرف وہی لوگ بچ سکتے ہیں، جن کے اندر یہ چار صفات موجود ہوں۔ پہلی صفت ایمان کی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لائیں، اور اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی تمام تعلیمات پر ایمان لائیں۔ پھر اللہ کے حکم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق نیک عمل کریں۔ ایمان لانے اور نیک عمل کرنے والے لوگ، ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کریں۔ اسی طرح ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے رہیں۔
دین و دنیا کے خسارے سے بچنے اور نفع عظیم حاصل کرنے کے لیے اس قرآنی نسخے میں پہلے دو اجزاء ایمان و اعمال صالحہ اپنی ذات کی اصلاح کے متعلق ہیں۔ دوسرے دو جز دوسروں کی ہدایت و اصلاح سے متعلق ہیں۔ یعنی ہم اپنی ذات سے بھی اللہ تعالیٰ کے احکامات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق بجا لائیں اور ساتھ میں یہ کوشش اور فکر کریں کہ میری اولاد، میرے رشتے دار اور میرے پڑوسی سب اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے والے بنیں، تاکہ ہم سب بڑے خسارے سے بچ کر ہمیشہ کی کام یابی حاصل کرنے والے بن جائیں۔
ہر شخص اپنی زندگی کا جائزہ لے کہ اس کے اندر یہ چار اوصاف موجود ہیں یا نہیں؟ قرآن کریم کے اس واضح اعلان سے معلوم ہوا کہ اگر یہ چار اوصاف یا ان میں سے کوئی ایک وصف بھی ہمارے اندر موجود نہیں ہیں تو ہم دنیا و آخرت میں ناکامی اور بڑے خسارے کی طرف جارہے ہیں۔ لہٰذا ابھی وقت ہے، موت کب آجائے، کسی کو نہیں معلوم، ہم سب پختہ ارادہ کریں کہ دنیا و آخرت کی کام یابی حاصل کرنے اور بڑے خسارے سے بچنے کے لیے یہ چار اوصاف اپنی زندگی میں آج، بل کہ ابھی سے لانے کی مخلصانہ کوشش کریں گے۔
اللہ ہم سب کو زندگی کے باقی ایام ان چار اوصاف سے متصف ہوکر گزارنے والا بنائے۔ آمین
سورۃ العصر قرآن کریم کی مختصر سی سورت ہے، لیکن ایسی جامع ہے کہ بہ قول حضرت امام شافعیؒ کہ اگر لوگ اس سورۃ کو غور و فکر اور تدبر کے ساتھ پڑھ لیں تو دین و دنیا کی درستی کے لیے کافی ہو جائے۔
حضرت عبداللہ ابن حصینؒ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے دو شخص آپس میں ملتے تو اس وقت تک جدا نہ ہوتے جب تک ان میں سے ایک دوسرے کے سامنے سورۃ العصر نہ پڑھ لے۔ (طبرانی)
اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ نے العصر کی قسم کھائی ہے، جس سے مراد زمانہ ہے، کیوں کہ انسان کے تمام حالات، اس کی نشو و نما، اس کی حرکات و سکنات، اعمال اور اخلاق سب زمانے کے لیل و نہار میں ہی ہوں گے۔ جہاں تک قسم کا تعلق ہے، اللہ تعالیٰ کے کلام میں قسم کے بغیر بھی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ بندوں پر رحم فرما کر، کسی حکم کی خصوصی تاکید اور اس کی اہمیت کی وجہ سے قسم کھا کر کوئی حکم بندوں کو کرتا ہے، تاکہ بندے اس حکم کی اہمیت کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوں اور حکم بجا لانے میں کوئی کوتاہی نہ کریں۔
سورۃ العصر کی روشنی میں خسارے سے صرف وہی لوگ بچ سکتے ہیں، جن کے اندر یہ چار صفات موجود ہوں۔ پہلی صفت ایمان کی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لائیں، اور اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی تمام تعلیمات پر ایمان لائیں۔ پھر اللہ کے حکم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق نیک عمل کریں۔ ایمان لانے اور نیک عمل کرنے والے لوگ، ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کریں۔ اسی طرح ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے رہیں۔
دین و دنیا کے خسارے سے بچنے اور نفع عظیم حاصل کرنے کے لیے اس قرآنی نسخے میں پہلے دو اجزاء ایمان و اعمال صالحہ اپنی ذات کی اصلاح کے متعلق ہیں۔ دوسرے دو جز دوسروں کی ہدایت و اصلاح سے متعلق ہیں۔ یعنی ہم اپنی ذات سے بھی اللہ تعالیٰ کے احکامات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق بجا لائیں اور ساتھ میں یہ کوشش اور فکر کریں کہ میری اولاد، میرے رشتے دار اور میرے پڑوسی سب اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے والے بنیں، تاکہ ہم سب بڑے خسارے سے بچ کر ہمیشہ کی کام یابی حاصل کرنے والے بن جائیں۔
ہر شخص اپنی زندگی کا جائزہ لے کہ اس کے اندر یہ چار اوصاف موجود ہیں یا نہیں؟ قرآن کریم کے اس واضح اعلان سے معلوم ہوا کہ اگر یہ چار اوصاف یا ان میں سے کوئی ایک وصف بھی ہمارے اندر موجود نہیں ہیں تو ہم دنیا و آخرت میں ناکامی اور بڑے خسارے کی طرف جارہے ہیں۔ لہٰذا ابھی وقت ہے، موت کب آجائے، کسی کو نہیں معلوم، ہم سب پختہ ارادہ کریں کہ دنیا و آخرت کی کام یابی حاصل کرنے اور بڑے خسارے سے بچنے کے لیے یہ چار اوصاف اپنی زندگی میں آج، بل کہ ابھی سے لانے کی مخلصانہ کوشش کریں گے۔
اللہ ہم سب کو زندگی کے باقی ایام ان چار اوصاف سے متصف ہوکر گزارنے والا بنائے۔ آمین