ورنہ خونی انقلاب آجائے گا
پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان نے اپنے ایک ریمارکس میں کہا ہے کہ حکومت اور ریاستی ادارے ناکام ہوچکے ہیں۔۔۔
پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان نے اپنے ایک ریمارکس میں کہا ہے کہ حکومت اور ریاستی ادارے ناکام ہوچکے ہیں، خدا جانے نئی حکومت کون سی نئی دنیا بنانے جارہی ہے اگر یہی صورتحال رہی تو ملک میں خونی انقلاب آجائے گا۔ یہ بات نہ کوئی پیشہ ور سیاستدان کہہ رہا ہے نہ کوئی انقلابی رومانیت پسند کہہ رہا ہے بلکہ یہ بات ایک ایسا شخص کہہ رہا ہے جو اعلیٰ عدالت کے ایک اعلیٰ عہدے پر بیٹھا ہوا ہے اور روز حکومت کی کارکردگی کا مشاہدہ کررہا ہے۔
پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے جس نئی حکومت کا اپنے ریمارکس میں ذکر کیا ہے اس نئی حکومت کے نئے اور پرانے وزیر اعلیٰ شہباز شریف ن لیگ کی انتخابی مہم کے دوران بار بار ''اشرافیہ'' کو وارننگ دیتے رہے ہیں کہ وہ سدھر جائیں ورنہ ملک میں ''خونی انقلاب آجائے گا'' شہباز شریف اور پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان کی وارننگ یا پیشن گوئی میں یہ فرق ہے کہ شہباز شریف کا انتباہ محض انتخابی مہم کا ایک روایتی نعرہ تھا اور پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کا انتباہ ملک کے انتہائی خطرناک معروضی حالات کے پس منظر میں ایک ایسی وارننگ ہے جس کا نوٹس حکمرانوں نے نہیں لیا تو انھیں اس ناخوشگوار بلکہ خوفناک صورتحال کا جلد یا بدیر سامنا کرنا پڑے گا جس کی نشاندہی چیف جسٹس صاحب نے کی ہے۔
خونی انقلاب اب کوئی رومانی تصویر یا خالی خولی دھمکی نہیں جو عموماً اپوزیشن حکمران طبقے کو دیتی رہی ہے بلکہ ایک ایسی زندہ حقیقت ایک ایسی سچائی ہے جس کا مشاہدہ دنیا مشرق وسطیٰ میں کہہ رہی ہے۔ پاکستان جس قسم کے حالات سے گزر رہا ہے یہ حالات ان حالات سے زیادہ بدترین ہیں جو مشرق وسطیٰ میں فوجی انقلابات کا باعث بنے ہیں اور اب بھی بن رہے ہیں۔ ملک بھر میں قانون اور انصاف کی تذلیل ہورہی ہے، ریاستی مشینری مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے، مجرموں کے چھوٹے چھوٹے گروہ حکومت کو ناک رگڑوارہے ہیں، پنجاب میں چھوٹو گینک، ڈاکوئوں کے ایک گروہ نے 8 پولیس اہلکاروں کو یرغمال بناکر دس بارہ روز تک پولیس کو ناکوں چنے چبواتا رہا ملک کے 18 کروڑ عوام پر وز ٹی وی اسکرین پر پولیس کا ''آپریشن'' دیکھتے رہے ۔
اور پھر عوام نے ٹی وی اسکرین پر یہ حوصلہ افزا خبریں بھی سنیں کہ چھوٹو گینگ نے اپنی تمام شرائط منوانے کے بعد مغوی پولیس اہلکاروں کو رہا کردیا، کراچی میں ایک چھوٹا سا علاقہ لیاری عشروں سے چند چھوٹے چھوٹے جرائم پیشہ گروہوں کا یرغمال بنا ہوا ہے پولیس اور رینجرز کو اتنی جرأت نہیں کہ وہ مجرموں کی گلیوں میں داخل ہوسکے۔ ان مجرم گروہوں کے مظالم سے تنگ آکر کچھی برادری کے ہزاروں خاندان سندھ کے اندرونی علاقوں میں بھاگ رہے ہیں۔ کراچی میں ہرروز اوسطاً 10 افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن رہے ہیں، کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کے عوام کا قتل عام جاری ہے، کوئٹہ کے علمبردار روڈ اورکیرانی روڈ پر سیکڑوں جنازے رکھ کر ہزارہ کمیونٹی کے لوگ تین تین چار چار دن دھرنے دیتے رہے ہیں۔ ایک تازہ لیکن انتہائی ہولناک دہشت گردی میں کالج کی 14 لڑکیوں کو بارود سے زندہ جلادیا گیا اور 19 لڑکیاں اس سانحے میں زخمی ہوگئیں۔ خیبر پختونخواہ میں ہر روز بازاروں، شاہراہوں ، بسوں پر خود کش حملے کرکے سیکڑوں بے گناہ انسانوں کو شہید کیا جارہا ہے۔
مسجدوں میں نمازیوں اور نماز جنازہ کے شرکاء کو خودکش حملوں میں اسی طرح قتل کیا جارہا ہے کہ ان کی لاشوں کی شناخت ممکن نہیں۔ شمالی وزیرستان میں فوجی قافلوں ، فوجی چوکیوں ، پولیس موبائلوں، پولیس افسروں اور اہلکاروںپر بارودی حملے کرکے ان کا خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔ مہران ، کامرہ اور جی ایچ کیو جیسے فوجی اداروں پر حملے کرکے انھیں شدید نقصان پہنچایا جارہا ہے، جیلوں سے سیکڑوں دہشت گردوں کو فرار کرایا جارہا ہے۔ اغوا برائے تاوان اور بھتے کا عالم یہ ہے کہ ملک کے ایک سابق وزیر اعظم اور سابق گورنر کے بیٹے اغوا ہورہے ہیں اور اب تک اغوا کاروں کی تحویل میں ہیں، حکومت بے بس ہے ریاستی مشینری ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ بڑی بڑی بینک ڈکیتیوں میںکروڑوں روپے لوٹے جارہے ہیں اور دہشت گردوں کو بھیجے جارہے ہیں۔ بھتہ خوروں کے گروہ دن دہاڑے تاجروں، صنعتکاروں کو پرچیاں بانٹ رہے ہیں اور خوفزدہ افراد، غیر محفوظ تاجر اور صنعتکار ہاتھوں ہاتھ بھتہ دے رہے ہیں یا اپنا کاروبار بند کرکے ''محفوظ پنجاب''کا رخ کررہے ہیں۔ دہشت گرد عدالتوں سے فرار ہورہے ہیں قانو کھڑ اتماشہ دیکھ رہا ہے۔
پہلے پانچ سالہ دور کی نااہلیوں سے تنگ آئے ہوئے عوام نے 11 مئی 2013 اس امید میں ن لیگ کو ووٹ دیے تھے کہ اس قیادت عوام کو مہنگائی ، غربت، بے روزگاری ، بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ ، اربو کھربوں کی کرپشن ، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، اغواء برائے تاوان، بھتہ خوری جیسے عذابو ں سے نجات دلانے کے وعدے کررہی ہے، لیکن اے بسا آرزو کے خاک شد ، آج صورتحال یہ ہے کہ نئی حکومت کے بجٹ نے مہنگائی میں آگ لگادی ہے بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ کا عذاب پہلے سے بڑھ گیا ہے، لیاری کا حال یہ ہے کہ کچھی برادری کے ہزاروں لوگ اندرون سندھ جاچکے ہیں، سپریم کورٹ کے ایک بنچ نے اپنے تازہ ریمارکس میں کہا ہے کہ جو حکومت لیاری میں امن قائم نہ کرسکی وہ کراچی میں کیا امن قائم کرے گی۔
بھتہ خوری کا عالم یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے کاروباری بھی اس کی زد میں ہیں، قانون اور انصاف کی ناک کے نیچے بھتہ خور بھتے کی پرچیوں کے ساتھ تاجروں ، صنعتکاروِںِِ ڈاکٹروں اور وکیلوں کو گولیاں پکڑا رہے ہیں، ھتہ نہ دینے والوں کو اغوا کیا جارہا ہے قتل کیا جارہا ہے، رمضان ایک ایسا مقدس مہینہ ہے کہ دنیا بھر میں اس مہینے کے احترام میں اشیا صرف کی قیمتوں مٰں کمی کردی جاتی ہے ہندوستان میں رمضان میں اشیا صرف کی قیمتیں کم کردی جاتی ہیں لیکن جسے اسلام کا قلعہ کہاجاتا ہے وہاں لوٹ مار کا عالم یہ ہے کہ سبزی 100 روپے کلو سے زیادہ قیمت میں فروخت ہورہی ہیں، ناقص پھل 2 سو روپے کلو تک پہنچ گئے ہیں، کپڑوں اور جوتوں کی قیمت عام آدمی کو چھوڑیے مڈل کلاس کی پہنچ سے دور ہوگئی ہے، لیڈیز کے ایک عام سوٹ کی قیمت 5 ہزار سے 15-20 ہزار تک پہنچادی گئی ہے، جوتے عوام کے سروں پر اس طرح پڑ رہے ہیں کہ مڈل کلاس لنڈا کے جوتوں کی طرف بھاگ رہی ہے۔
دہشت گردی ، ٹارگٹ کلنگ کا حال یہ ہے کہ ہر روز ہر شہر کی ہر گلی سے جنازے اٹھ رہے ہیں، کرپشن کی حالت یہ ہے کہ ایک ادارے اوگرا کے سربراہ 82 ارب روپوں کی کرپشن کررہا ہے اور ملک کے بڑے بڑے اداروں میں ہر روز اربوں کی کرپشن کے انکشافات سامنے آرہے ہیں۔ ایک سابق وزیر اعظم کہہ رہے تھے کہ چیف جسٹس صاحب پہلے اپنے بیٹے کے اثاثے سامنے لائیں پھر ہم سے اثاثے طلب کریں۔
1978 میں انقلاب فرانس سے پہلے فرانس میں جو حالات تھے ان سے کئی گناہ بدتر حالات پاکستان میں موجود ہیں۔ ہر شہر ہر سڑک گیس، بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف پرتشدد مظاہرین سے اٹی پڑی ہے۔مہینوں سے تنخواہوں سے محروم ملازمین پیٹ پر روٹیاں باندھے سڑکوں پر کھڑے ہیں۔ لیاری کے عوام جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف وزیر اعلیٰ کے محل پر کھڑے فریاد کررہے ہیں ۔ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے متاثرین خیبر سے کراچی تک شدید اضطراب اور اشتعال کا شکار ہیں کیا ان حالات میں پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان کے یہ ریمارکس کہ حالات اگر یہی رہیں گے تو ''خونی انقلاب آجائے گا'' ایک حقیقت پسندانہ انتباہ نہیں ہے۔؟
فرانس کے عوام فرانس کے جاگیرداروں اور ان کے حواریوں کے مظالم سے تنگ آکر گھروں سے نکلے اور چن چن کر ظالموں، جاگیرداروں اور ان کے حواریوں کو اس طرح قتل کیا کہ فرانس کی سڑکیں سرخ ہوگئیں۔ پاکستان کے حالات 1789کے فرانس سے بدترہیں اگر خدانخواستہ پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے خدشات درست ثابت ہوتے ہیں جس کے امکانات بہت واضح نظر آرہے ہیں تو کیا یہ انقلاب، انقلاب فرانس کی طرح انارکی کا شکار ہوجائے گا یا اس ملک میں ایسی طاقتیں سامنے آئیں گی جو اس ممکنہ انقلاب کو ایک مثبت سمت دیں گی؟ اور خون خرابے اور مشرق وسطیٰ جیسی انارکی سے ملک کو بچائیں گی؟
پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے جس نئی حکومت کا اپنے ریمارکس میں ذکر کیا ہے اس نئی حکومت کے نئے اور پرانے وزیر اعلیٰ شہباز شریف ن لیگ کی انتخابی مہم کے دوران بار بار ''اشرافیہ'' کو وارننگ دیتے رہے ہیں کہ وہ سدھر جائیں ورنہ ملک میں ''خونی انقلاب آجائے گا'' شہباز شریف اور پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان کی وارننگ یا پیشن گوئی میں یہ فرق ہے کہ شہباز شریف کا انتباہ محض انتخابی مہم کا ایک روایتی نعرہ تھا اور پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کا انتباہ ملک کے انتہائی خطرناک معروضی حالات کے پس منظر میں ایک ایسی وارننگ ہے جس کا نوٹس حکمرانوں نے نہیں لیا تو انھیں اس ناخوشگوار بلکہ خوفناک صورتحال کا جلد یا بدیر سامنا کرنا پڑے گا جس کی نشاندہی چیف جسٹس صاحب نے کی ہے۔
خونی انقلاب اب کوئی رومانی تصویر یا خالی خولی دھمکی نہیں جو عموماً اپوزیشن حکمران طبقے کو دیتی رہی ہے بلکہ ایک ایسی زندہ حقیقت ایک ایسی سچائی ہے جس کا مشاہدہ دنیا مشرق وسطیٰ میں کہہ رہی ہے۔ پاکستان جس قسم کے حالات سے گزر رہا ہے یہ حالات ان حالات سے زیادہ بدترین ہیں جو مشرق وسطیٰ میں فوجی انقلابات کا باعث بنے ہیں اور اب بھی بن رہے ہیں۔ ملک بھر میں قانون اور انصاف کی تذلیل ہورہی ہے، ریاستی مشینری مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے، مجرموں کے چھوٹے چھوٹے گروہ حکومت کو ناک رگڑوارہے ہیں، پنجاب میں چھوٹو گینک، ڈاکوئوں کے ایک گروہ نے 8 پولیس اہلکاروں کو یرغمال بناکر دس بارہ روز تک پولیس کو ناکوں چنے چبواتا رہا ملک کے 18 کروڑ عوام پر وز ٹی وی اسکرین پر پولیس کا ''آپریشن'' دیکھتے رہے ۔
اور پھر عوام نے ٹی وی اسکرین پر یہ حوصلہ افزا خبریں بھی سنیں کہ چھوٹو گینگ نے اپنی تمام شرائط منوانے کے بعد مغوی پولیس اہلکاروں کو رہا کردیا، کراچی میں ایک چھوٹا سا علاقہ لیاری عشروں سے چند چھوٹے چھوٹے جرائم پیشہ گروہوں کا یرغمال بنا ہوا ہے پولیس اور رینجرز کو اتنی جرأت نہیں کہ وہ مجرموں کی گلیوں میں داخل ہوسکے۔ ان مجرم گروہوں کے مظالم سے تنگ آکر کچھی برادری کے ہزاروں خاندان سندھ کے اندرونی علاقوں میں بھاگ رہے ہیں۔ کراچی میں ہرروز اوسطاً 10 افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن رہے ہیں، کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کے عوام کا قتل عام جاری ہے، کوئٹہ کے علمبردار روڈ اورکیرانی روڈ پر سیکڑوں جنازے رکھ کر ہزارہ کمیونٹی کے لوگ تین تین چار چار دن دھرنے دیتے رہے ہیں۔ ایک تازہ لیکن انتہائی ہولناک دہشت گردی میں کالج کی 14 لڑکیوں کو بارود سے زندہ جلادیا گیا اور 19 لڑکیاں اس سانحے میں زخمی ہوگئیں۔ خیبر پختونخواہ میں ہر روز بازاروں، شاہراہوں ، بسوں پر خود کش حملے کرکے سیکڑوں بے گناہ انسانوں کو شہید کیا جارہا ہے۔
مسجدوں میں نمازیوں اور نماز جنازہ کے شرکاء کو خودکش حملوں میں اسی طرح قتل کیا جارہا ہے کہ ان کی لاشوں کی شناخت ممکن نہیں۔ شمالی وزیرستان میں فوجی قافلوں ، فوجی چوکیوں ، پولیس موبائلوں، پولیس افسروں اور اہلکاروںپر بارودی حملے کرکے ان کا خون پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔ مہران ، کامرہ اور جی ایچ کیو جیسے فوجی اداروں پر حملے کرکے انھیں شدید نقصان پہنچایا جارہا ہے، جیلوں سے سیکڑوں دہشت گردوں کو فرار کرایا جارہا ہے۔ اغوا برائے تاوان اور بھتے کا عالم یہ ہے کہ ملک کے ایک سابق وزیر اعظم اور سابق گورنر کے بیٹے اغوا ہورہے ہیں اور اب تک اغوا کاروں کی تحویل میں ہیں، حکومت بے بس ہے ریاستی مشینری ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی ہے۔ بڑی بڑی بینک ڈکیتیوں میںکروڑوں روپے لوٹے جارہے ہیں اور دہشت گردوں کو بھیجے جارہے ہیں۔ بھتہ خوروں کے گروہ دن دہاڑے تاجروں، صنعتکاروں کو پرچیاں بانٹ رہے ہیں اور خوفزدہ افراد، غیر محفوظ تاجر اور صنعتکار ہاتھوں ہاتھ بھتہ دے رہے ہیں یا اپنا کاروبار بند کرکے ''محفوظ پنجاب''کا رخ کررہے ہیں۔ دہشت گرد عدالتوں سے فرار ہورہے ہیں قانو کھڑ اتماشہ دیکھ رہا ہے۔
پہلے پانچ سالہ دور کی نااہلیوں سے تنگ آئے ہوئے عوام نے 11 مئی 2013 اس امید میں ن لیگ کو ووٹ دیے تھے کہ اس قیادت عوام کو مہنگائی ، غربت، بے روزگاری ، بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ ، اربو کھربوں کی کرپشن ، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، اغواء برائے تاوان، بھتہ خوری جیسے عذابو ں سے نجات دلانے کے وعدے کررہی ہے، لیکن اے بسا آرزو کے خاک شد ، آج صورتحال یہ ہے کہ نئی حکومت کے بجٹ نے مہنگائی میں آگ لگادی ہے بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ کا عذاب پہلے سے بڑھ گیا ہے، لیاری کا حال یہ ہے کہ کچھی برادری کے ہزاروں لوگ اندرون سندھ جاچکے ہیں، سپریم کورٹ کے ایک بنچ نے اپنے تازہ ریمارکس میں کہا ہے کہ جو حکومت لیاری میں امن قائم نہ کرسکی وہ کراچی میں کیا امن قائم کرے گی۔
بھتہ خوری کا عالم یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے کاروباری بھی اس کی زد میں ہیں، قانون اور انصاف کی ناک کے نیچے بھتہ خور بھتے کی پرچیوں کے ساتھ تاجروں ، صنعتکاروِںِِ ڈاکٹروں اور وکیلوں کو گولیاں پکڑا رہے ہیں، ھتہ نہ دینے والوں کو اغوا کیا جارہا ہے قتل کیا جارہا ہے، رمضان ایک ایسا مقدس مہینہ ہے کہ دنیا بھر میں اس مہینے کے احترام میں اشیا صرف کی قیمتوں مٰں کمی کردی جاتی ہے ہندوستان میں رمضان میں اشیا صرف کی قیمتیں کم کردی جاتی ہیں لیکن جسے اسلام کا قلعہ کہاجاتا ہے وہاں لوٹ مار کا عالم یہ ہے کہ سبزی 100 روپے کلو سے زیادہ قیمت میں فروخت ہورہی ہیں، ناقص پھل 2 سو روپے کلو تک پہنچ گئے ہیں، کپڑوں اور جوتوں کی قیمت عام آدمی کو چھوڑیے مڈل کلاس کی پہنچ سے دور ہوگئی ہے، لیڈیز کے ایک عام سوٹ کی قیمت 5 ہزار سے 15-20 ہزار تک پہنچادی گئی ہے، جوتے عوام کے سروں پر اس طرح پڑ رہے ہیں کہ مڈل کلاس لنڈا کے جوتوں کی طرف بھاگ رہی ہے۔
دہشت گردی ، ٹارگٹ کلنگ کا حال یہ ہے کہ ہر روز ہر شہر کی ہر گلی سے جنازے اٹھ رہے ہیں، کرپشن کی حالت یہ ہے کہ ایک ادارے اوگرا کے سربراہ 82 ارب روپوں کی کرپشن کررہا ہے اور ملک کے بڑے بڑے اداروں میں ہر روز اربوں کی کرپشن کے انکشافات سامنے آرہے ہیں۔ ایک سابق وزیر اعظم کہہ رہے تھے کہ چیف جسٹس صاحب پہلے اپنے بیٹے کے اثاثے سامنے لائیں پھر ہم سے اثاثے طلب کریں۔
1978 میں انقلاب فرانس سے پہلے فرانس میں جو حالات تھے ان سے کئی گناہ بدتر حالات پاکستان میں موجود ہیں۔ ہر شہر ہر سڑک گیس، بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف پرتشدد مظاہرین سے اٹی پڑی ہے۔مہینوں سے تنخواہوں سے محروم ملازمین پیٹ پر روٹیاں باندھے سڑکوں پر کھڑے ہیں۔ لیاری کے عوام جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف وزیر اعلیٰ کے محل پر کھڑے فریاد کررہے ہیں ۔ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے متاثرین خیبر سے کراچی تک شدید اضطراب اور اشتعال کا شکار ہیں کیا ان حالات میں پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان کے یہ ریمارکس کہ حالات اگر یہی رہیں گے تو ''خونی انقلاب آجائے گا'' ایک حقیقت پسندانہ انتباہ نہیں ہے۔؟
فرانس کے عوام فرانس کے جاگیرداروں اور ان کے حواریوں کے مظالم سے تنگ آکر گھروں سے نکلے اور چن چن کر ظالموں، جاگیرداروں اور ان کے حواریوں کو اس طرح قتل کیا کہ فرانس کی سڑکیں سرخ ہوگئیں۔ پاکستان کے حالات 1789کے فرانس سے بدترہیں اگر خدانخواستہ پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے خدشات درست ثابت ہوتے ہیں جس کے امکانات بہت واضح نظر آرہے ہیں تو کیا یہ انقلاب، انقلاب فرانس کی طرح انارکی کا شکار ہوجائے گا یا اس ملک میں ایسی طاقتیں سامنے آئیں گی جو اس ممکنہ انقلاب کو ایک مثبت سمت دیں گی؟ اور خون خرابے اور مشرق وسطیٰ جیسی انارکی سے ملک کو بچائیں گی؟