ولی عہد محمد بن سلمان کا دورۂ پاکستان
پاک، سعودی دیرینہ تعلق اقتصادی پارٹنر شپ میں ڈھل رہا ہے!
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان دو روزہ دورے پر 16 فروری کو پاکستان آرہے ہیں۔ ان کے اس دورے کے دوران پاکستان میں تقریباً 20 ارب ڈالر کی سعودی سرمایہ کاری کی خبریں گردش کر رہی ہیں جس کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ اب پاک سعودی عرب تعلقات کا ایک نیا باب کھلے گا جو اکنامک پارٹنرشپ ہوگا۔
سعودی ولی عہد کے اس اہم دورے پر دنیا بھر کی نظریں لگی ہوئی ہیں جبکہ ہر پاکستانی بھی اس بارے میں متجسس ہے۔ اس دورے کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ''سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان اور اس کے اثرات'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی (سابق نگران وزیر اعلیٰ پنجاب و ماہر امور خارجہ )
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کی وجہ سے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات پر سب کی توجہ بڑھ گئی ہے۔ یہ تعلقات بہت دیرینہ ہیں یعنی قیام پاکستان کے فوری بعد ہی پاکستان اور سعودی عرب میں تعلقات استوار ہوئے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں وسعت پیدا ہوئی۔ دونوں ممالک کے مابین دفاعی امور میں تعاون کا سلسلہ فیلڈ مارشل (ر) جنرل ایوب خان کے دور میں 1965ء کے بعد شروع ہوا اور ان تعلقات کو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں وسعت ملی۔ 1972ء کے بعد سعودی عرب نے پاکستان کی اقتصادی مدد کی اور یہاں سرمایہ کاری بھی کی۔
دفاعی معاملات میں جہاں سعودی عرب اور پاکستان علاقائی امور پر گفت و شنید کر تے رہتے ہیں، وہاں پاکستان کی آرمی اور ایئر فورس نے سعودی عرب کی فوج کو تربیت دی، اسی طرح دونوں ممالک کی افواج ایک دوسرے کے ملک میں ٹریننگ کے لیے جاتی رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً سعودی عرب کی اندرونی سکیورٹی کیلئے بھی حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی بھیجے جاتے ہیں۔ البتہ پاکستان کی ایک پالیسی بالکل واضح ہے کہ افواج پاکستان عربوں کے اندرونی لڑائی، جھگڑوں میں حصہ نہیں لیں گی مگر سعودی عرب کے تحفظ کیلئے ہردم تیار ہیں۔
فروری 1974ء میں لاہور شہر میں دوسری اسلامی کانفرنس منعقد ہوئی جسے کروانے میں سعودی عرب کے شاہ فیصل نے بنیادی کردار ادا کیا کیونکہ سعودی عرب چاہتا تھا کہ دنیا کو یہ پیغام دیا جائے کہ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے باوجود مسلم امہ پاکستان کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔ سعوودی عرب نے ہمیں اقتصادی امداد مہیا کی جس میں سب سے بڑی مدد یہ تھی کہ 1998 ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کو موخر ادائیگی پر تیل مہیا کیا اور بعد ازاں اس میں سے کچھ رقم ہمیں معاف بھی کر دی۔ موجودہ حالات میں بھی سعودی عرب بڑھ چڑھ کر پاکستان کی مدد کر رہا ہے تاکہ ہم بین الاقوامی قرضوں کے بوجھ سے نمٹ سکیں۔ اس سلسلے میں 3 ارب ڈالر پاکستان کو وقتی طور پر مہیا کیے گئے۔ اس کے علاوہ 3 بلین ڈالر کا تیل موخر ادائیگی کے اصول کے تحت آئندہ چند سالوں میں مہیا کیا جائے گا۔
اب سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان جب پاکستان تشریف لارہے ہیں تو ان کے ساتھ عرب سرمایہ کاروں کا وفد بھی ہوگا۔ اس دورے کے دوران پاکستان اور سعودی عرب کئی معاہدوں پر دستخط کریں گے جس کے تحت سعودی عرب کے سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے۔ ان میں سب سے اہم سرمایہ کاری گوادر میںآئل ریفائنری ہے جسے قائم کرنے میں چند سال لگیں گے مگر اس پر 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی۔ اس طرح پاکستان اور سعودی عرب میں اقتصادی تعلقات کو مزید وسعت ملے گی۔اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب نوکریوں کے سلسلے میں بھی ہمارے ساتھ تعاون کرے گا۔ میرے نزدیک شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان سود مند ثابت ہوگا اور اس سے پاکستان کی اقتصادی صورتحال کو بہتر کرنے میں مدد ملے گی۔
جنرل (ر) غلام مصطفی (دفاعی تجزیہ نگار)
پاک سعودی عرب تعلقات کی تاریخ انتہائی اہم ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر آزاد ہوا لہٰذا سعودی عرب کے ساتھ ہمارا مذہبی اور روحانی تعلق ہے ۔ پاکستان پر جب بھی مشکل گھڑی آئی، سعودی عرب نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ہماری مدد کی۔ اسی طرح جب سعودی عرب کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو پاکستان نے سعودی عرب کے تحفظ کیلئے اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے سٹرٹیجک تعلقات دیکھیں تو 70ء کی دہائی میں سعودی افواج ترتیب دینے میں پاکستان نے سہولیات دیں اور ہمارے فوجی وہاں جا کر ٹریننگ دیتے رہے۔
صدام حسین کے دور حکومت میں جب سعودی عرب کو خطرہ محسوس ہوا تو اس وقت بھی پاکستان نے سعودی عرب میں اپنی فوج بھیج کر اس کا دفاع کیا۔پاکستان میں جب زلزلہ آیا تو اس وقت شاہ فیصل نے خزانوں کا منہ کھول دیا اور پاکستان کی مدد کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اسلامی ممالک کی کانفرنس پاکستان میں منعقد ہوا جسے یہاں منعقد کرانے میں شاہ فیصل نے کلیدی کردار ادا کیا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے مضبوط تعلقات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب نے اس وقت تک بنگلہ دیش کو تسلیم نہیں کیا جب تک پاکستان نے نہیں کیا بلکہ انہوں نے ہمارے کہنے پر ہی بنگلہ دیش کو تسلیم کیا۔ اس پس منظر سے ثابت ہوتا ہے کہ پاک سعودی عرب تعلقات دیرینہ اور انتہائی مضبوط ہیں۔
سعودی عرب پاکستان کی اہمیت کو بخوبی سمجھتا ہے اور یہ تسلیم کر چکا ہے کہ پاکستان ایک ابھرتی ہوئی معیشت اور طاقت ہے۔ اب سعودی شہزادہ محمد بن سلمان پاکستان آرہے ہیں جو بہت بڑا بریک تھرو ہوگا، اس سے دونوں ممالک کے اقتصادی تعلقات کو فروغ ملے گا اور سعودی سرمایہ کاری سے پاکستان کی معیشت مستحکم ہوگی۔ سعودی عرب سی پیک کا حصہ بنے گا ، اس طرح اب چین، پاکستان اور سعودی عرب، سی پیک منصوبے کے تین فریق ہوں گے۔ میرے نزدیک شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان کی ترقی میں سنگ میل ثابت ہوگا۔ افغان طالبان پر سعودی عرب کا اثر و رسوخ ہے اور اس کے مسئلے کے حل میں سعودی عرب ہماری مدد کر رہا ہے۔
اگر افغانستان میں امن قائم ہوجائے تو اس سے سی پیک منصوبے کو بھی فائدہ ہوگا جو پاکستان کیلئے بہتر ہوگا۔ اسلامی دنیا کے مسائل سے نمٹنے کیلئے اسلامی فوجی اتحاد بنایا گیا ہے جس کا ہیڈ کوارٹر سعودی عرب میں ہے اور سعودی عرب ہی اس کی فنڈنگ کر رہا ہے۔ اس فوج کے سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف ہیں جو پاکستان کے لیے اعزاز ہے، اس سے پاک سعودی عرب تعلقات مزید گہرے ہوں گے۔
مولانا طاہر محمود اشرفی (چیئرمین پاکستان علماء کونسل )
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات لازوال ہیں جس کی نوعیت سیاسی یا سفارتی نہیں بلکہ عقیدہ اور ایمان کی ہے۔ سعودی عرب کے سربراہ شاہ عبد العزیز کے صاحبزادے شاہ سعود کی اپنے بھائیوں کے ساتھ کراچی آمد سے محبت و اخوت کا شروع ہونے والا سلسلہ اتنا طاقتور اور عظیم ہے کہ کسی بھی حکومت یا سیاسی موقف سے یہ دوستی کمزور نہیں ہوتی ۔ شاہ فیصل نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگوں کے موقع پر یہ اعلان کیا تھا کہ ہم کھجور اور قہوہ پر گزارہ کر لیں گے لیکن اپنے بھائی پاکستان کو کمزور نہیں ہونے دیں گے۔ پاکستان میں قدرتی آفات کے دوران بھی سعودی عرب ہمیشہ مدد کرتا ہے۔
الحمدللہ! آج پاکستان ایٹمی قوت ہے۔ دنیا اسلام میں پاکستان کے ایٹمی قوت بننے پر جس خوشی کا اظہار سعودی عرب میں کیا گیا تھا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد جس طرح پوری دنیا خصوصاً امریکہ اور برطانیہ نے پاکستان پر پابندیاں لگا دی تھیں، ان حالات میں سعودی عرب وہ واحد ملک تھا جس نے عالمی پابندیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پاکستان کو نہ صرف تیل دیا بلکہ دیگر شعبوں میں بھی بھرپور تعاون کیا۔
ہندوستان نے یمن جنگ کے بعد ہر ممکن طریقے سے عرب ممالک کو پاکستان سے دور کرنے کی کوشش کی مگر سعودی عرب کے سربراہ خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز نے عرب ممالک کے ذمہ داران کو اس بات کا احساس دلایا کہ پاکستان ہمارا بھائی ہے اورہم اسے خود سے جدا نہیں کر سکتے۔ اس وقت خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیزاور ان کے ولی عہدامیر محمد بن سلمان نے مجھے ایک جملہ کہا کہ پاکستان ہمارے دل میں بستا ہے اور شاہ سلمان کے دل کا طبیب بھی پاکستانی ہے۔ سعودی ولی عہد امیر محمد بن سلمان اِس وقت عالم اسلام اور بالخصوص عالم عرب کے نوجوانوں کے قائد کے طور پر ابھر ے ہیں۔
محمد بن سلمان عالم اسلام کے مسائل کے حل کیلئے ہر لمحہ سنجیدہ اور پر وقار انداز اپنائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ریاض بلا کر تمام اسلامی ممالک کی قیادت کو جمع کرکے یہ پیغام دیا کہ اسلامی اور عرب ممالک کا انتہا پسندی اور دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ریاض کانفرنس کے بعد امریکی صدر نے دوبارہ اسلام اور مسلمانوں کا دہشت گردی سے تعلق کے متعلق کبھی بیان جاری نہیں کیا ہے۔مختصر وقت میں امیر محمد بن سلمان نے عالمی اسلامی عسکری اتحاد قائم کیا جس کی سربراہی جنرل (ر) راحیل شریف کر رہے ہیں جو پاکستان کے لیے فخر ہے۔
اس عالمی اسلامی عسکری اتحاد کا مقصد انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ساتھ ساتھ اسلامی ممالک کو دفاعی اعتبار سے بھی مضبوط بنانا ہے۔ سعودی ولی عہد امیر محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان اس وقت پوری دنیا میں زیر بحث ہے۔ سعودی عرب کو 2030ء تک ایک نئے ویژن، سوچ اور فکر کے ساتھ آگے لے جانے والے محمد بن سلمان خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی قیادت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ ترقی کی ان منازل کو طے کرنے والے، سعودی عرب کی خواہش ہے کہ پاکستان بھی اسی طرح ترقی میں آگے بڑھے۔14 ارب ڈالر سے زائد کی پاکستان میں سرمایہ کاری اسی ویژن اور سوچ کا آغاز ہے جو امیر محمد بن سلمان کا سعودی عرب اور اسلامی ممالک کے لیے ہے۔
عالمی معاشی اور اقتصادی ماہرین یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اس دورہ سے پاکستان کو معاشی اور اقتصادی طور پر مضبوطی ملے گی۔ امیر محمد بن سلمان کے ساتھ سعودی عرب کے ایک ہزار سے زائد ذمہ داران پاکستان آرہے ہیں اور اس دورے میں تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان ہونے والا ہے۔ پاکستان کو آئی ایم ایف کے ظالمانہ پیکیج سے بچانے کیلئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پہلے بھی بہت سارے عملی اقدامات اٹھا چکے ہیں۔
پاکستانی قوم کی خواہش ہے کہ وہ سڑکوںپر نکل کر امیر محمد بن سلمان کا استقبال کرے اور امیر محمد بن سلمان کسی بڑی جگہ پر پاکستانی قوم سے مخاطب ہوں لیکن سکیورٹی وجوہات کی بناء پر یہ ممکن نہ ہوسکے گا۔ اس کے باوجود تمام پاکستانی امیر محمد بن سلمان کواپنے وطن میں خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔
سلمان عابد (دانشور)
سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات محض دو حکومتوں کے تعلقات نہیں ہیں بلکہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان بھی اخوت کا رشتہ ہے۔ پاکستان میں چاہے سیاسی حکومت ہو یا فوجی حکومتیں، مذہبی جماعتیں ہو یا سیاسی جماعتیں، سب ہی سعودی عرب کے بارے میں اچھے جذبات رکھتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں جب بھی مشکل وقت آیا، سعودی عرب نے ہمیشہ دل کھول کر محبت کا اظہار کیا۔ ماضی میں زلزلوں کے دوران بھی سعودی حکومت نے جس مثالی جذبے سے پاکستان کا ساتھ دیا اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ خاص طور پر اقتصادی معاملات میں جب بھی مشکل وقت پڑا، سعودی عرب نے ہمیں مایوس کرنے کے بجائے ایک بڑے بھائی کے طور پر کردار ادا کیا۔
اس وقت بھی داخلی اور خارجی مسائل ودیگر بحرانوں سے پاکستان کو نکالنے کیلئے سعودی عرب نے سب سے پہلے آگے بڑھ کر ہمارا ہاتھ تھاما ہے۔ پاکستان کی نئی حکومت کے پاس معاشی حالت بہتر کرنے کیلئے واحد حل آئی ایم ایف تھا مگر وزیراعظم عمران خان نے دوست ممالک اور بالخصوص سعودی عرب کی حمایت حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ گزشتہ چند ماہ میں جن دوست ممالک نے پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ اقتصادی و سماجی معاملات میں مدد کی ، ان میں سعودی عرب پیش پیش ہے۔ سعودی عرب نے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو ہمیشہ باور کرایا کہ پاکستان کسی بھی مشکل میں خود کو تنہا نہ سمجھے، ہم اس کے پیچھے کھڑے ہیں۔اس طریقے سے امریکا، افغانستان اور بھارت کی جانب سے جب بھی دباؤ کی سیاست کا سامنا کرنا پڑا، سعودی عرب نے سفارتی سطح پر پاکستان کی حمایت کی۔
افغانستان کے حالیہ بحران کے حل میں بھی سعودی عرب پاکستان کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ پاکستان کا اس وقت بڑا انحصار سعودی عرب سمیت عرب ممالک پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں متحدہ عرب امارات و دیگر عرب ممالک کی حمایت بھی حاصل ہورہی ہے اور اس میں سعودی عرب کا کردار اہم ہے۔ پاکستان نے بھی ہمیشہ سعودی عرب کے داخلی بحران میں اہم اور بڑے فریق کا کردار ادا کیا جس کا مقصد سعودی عرب کو مستحکم کرنا ہے۔ اسلامی عسکری اتحاد میں پاکستان کا کردار قابل تعریف ہے۔ سعودی عرب بھی اسے اپنی خارجہ پالیسی میں خصوصی اہمیت دیتا ہے۔
اسی طرح سعودی عرب نے پاکستان میں ایسے کئی ترقیاتی منصوبے دیے ہیںجن کا مقصد یہاں کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنا ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ایک بڑے تجارتی وفد کے ساتھ پاکستان آ رہے ہیں جس کا مقصد صرف مالی امداد نہیں بلکہ دو طرفہ تجارتی تعلقات کے امکانات کو بھی فروغ دینا ہے۔ سعودی عرب ایسے نازک موقع پر پاکستان میں زیادہ تجارتی معاہدے اور سرمایہ کاری کرکے مضبوط معاشی بنیاد فراہم کرنے کا خواہشمند ہے۔ اس وقت پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور دونوں مشترکہ لائحہ عمل کے تحت سعودی عرب کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، اس سے اسلامی دنیا میں پاکستان کا امیج بہتر ہو ا ہے۔
شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان میں سعودی حکومت پاکستان کے ساتھ سرمایہ کاری کے لیے دو ارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط کررہی ہے جو پاکستان کی معاشی ترقی میں اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔اس دورہ میں فرٹیلائزر کے علاوہ آئل ریفائنری و دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کی جائے گی۔
سعودی ولی عہد کے اس اہم دورے پر دنیا بھر کی نظریں لگی ہوئی ہیں جبکہ ہر پاکستانی بھی اس بارے میں متجسس ہے۔ اس دورے کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ''سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان اور اس کے اثرات'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی (سابق نگران وزیر اعلیٰ پنجاب و ماہر امور خارجہ )
سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان کی وجہ سے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات پر سب کی توجہ بڑھ گئی ہے۔ یہ تعلقات بہت دیرینہ ہیں یعنی قیام پاکستان کے فوری بعد ہی پاکستان اور سعودی عرب میں تعلقات استوار ہوئے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں وسعت پیدا ہوئی۔ دونوں ممالک کے مابین دفاعی امور میں تعاون کا سلسلہ فیلڈ مارشل (ر) جنرل ایوب خان کے دور میں 1965ء کے بعد شروع ہوا اور ان تعلقات کو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں وسعت ملی۔ 1972ء کے بعد سعودی عرب نے پاکستان کی اقتصادی مدد کی اور یہاں سرمایہ کاری بھی کی۔
دفاعی معاملات میں جہاں سعودی عرب اور پاکستان علاقائی امور پر گفت و شنید کر تے رہتے ہیں، وہاں پاکستان کی آرمی اور ایئر فورس نے سعودی عرب کی فوج کو تربیت دی، اسی طرح دونوں ممالک کی افواج ایک دوسرے کے ملک میں ٹریننگ کے لیے جاتی رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً سعودی عرب کی اندرونی سکیورٹی کیلئے بھی حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی بھیجے جاتے ہیں۔ البتہ پاکستان کی ایک پالیسی بالکل واضح ہے کہ افواج پاکستان عربوں کے اندرونی لڑائی، جھگڑوں میں حصہ نہیں لیں گی مگر سعودی عرب کے تحفظ کیلئے ہردم تیار ہیں۔
فروری 1974ء میں لاہور شہر میں دوسری اسلامی کانفرنس منعقد ہوئی جسے کروانے میں سعودی عرب کے شاہ فیصل نے بنیادی کردار ادا کیا کیونکہ سعودی عرب چاہتا تھا کہ دنیا کو یہ پیغام دیا جائے کہ 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے باوجود مسلم امہ پاکستان کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔ سعوودی عرب نے ہمیں اقتصادی امداد مہیا کی جس میں سب سے بڑی مدد یہ تھی کہ 1998 ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کو موخر ادائیگی پر تیل مہیا کیا اور بعد ازاں اس میں سے کچھ رقم ہمیں معاف بھی کر دی۔ موجودہ حالات میں بھی سعودی عرب بڑھ چڑھ کر پاکستان کی مدد کر رہا ہے تاکہ ہم بین الاقوامی قرضوں کے بوجھ سے نمٹ سکیں۔ اس سلسلے میں 3 ارب ڈالر پاکستان کو وقتی طور پر مہیا کیے گئے۔ اس کے علاوہ 3 بلین ڈالر کا تیل موخر ادائیگی کے اصول کے تحت آئندہ چند سالوں میں مہیا کیا جائے گا۔
اب سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان جب پاکستان تشریف لارہے ہیں تو ان کے ساتھ عرب سرمایہ کاروں کا وفد بھی ہوگا۔ اس دورے کے دوران پاکستان اور سعودی عرب کئی معاہدوں پر دستخط کریں گے جس کے تحت سعودی عرب کے سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے۔ ان میں سب سے اہم سرمایہ کاری گوادر میںآئل ریفائنری ہے جسے قائم کرنے میں چند سال لگیں گے مگر اس پر 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی۔ اس طرح پاکستان اور سعودی عرب میں اقتصادی تعلقات کو مزید وسعت ملے گی۔اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب نوکریوں کے سلسلے میں بھی ہمارے ساتھ تعاون کرے گا۔ میرے نزدیک شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان سود مند ثابت ہوگا اور اس سے پاکستان کی اقتصادی صورتحال کو بہتر کرنے میں مدد ملے گی۔
جنرل (ر) غلام مصطفی (دفاعی تجزیہ نگار)
پاک سعودی عرب تعلقات کی تاریخ انتہائی اہم ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر آزاد ہوا لہٰذا سعودی عرب کے ساتھ ہمارا مذہبی اور روحانی تعلق ہے ۔ پاکستان پر جب بھی مشکل گھڑی آئی، سعودی عرب نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے ہماری مدد کی۔ اسی طرح جب سعودی عرب کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو پاکستان نے سعودی عرب کے تحفظ کیلئے اپنا سب کچھ نچھاور کر دیا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے سٹرٹیجک تعلقات دیکھیں تو 70ء کی دہائی میں سعودی افواج ترتیب دینے میں پاکستان نے سہولیات دیں اور ہمارے فوجی وہاں جا کر ٹریننگ دیتے رہے۔
صدام حسین کے دور حکومت میں جب سعودی عرب کو خطرہ محسوس ہوا تو اس وقت بھی پاکستان نے سعودی عرب میں اپنی فوج بھیج کر اس کا دفاع کیا۔پاکستان میں جب زلزلہ آیا تو اس وقت شاہ فیصل نے خزانوں کا منہ کھول دیا اور پاکستان کی مدد کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اسلامی ممالک کی کانفرنس پاکستان میں منعقد ہوا جسے یہاں منعقد کرانے میں شاہ فیصل نے کلیدی کردار ادا کیا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے مضبوط تعلقات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب نے اس وقت تک بنگلہ دیش کو تسلیم نہیں کیا جب تک پاکستان نے نہیں کیا بلکہ انہوں نے ہمارے کہنے پر ہی بنگلہ دیش کو تسلیم کیا۔ اس پس منظر سے ثابت ہوتا ہے کہ پاک سعودی عرب تعلقات دیرینہ اور انتہائی مضبوط ہیں۔
سعودی عرب پاکستان کی اہمیت کو بخوبی سمجھتا ہے اور یہ تسلیم کر چکا ہے کہ پاکستان ایک ابھرتی ہوئی معیشت اور طاقت ہے۔ اب سعودی شہزادہ محمد بن سلمان پاکستان آرہے ہیں جو بہت بڑا بریک تھرو ہوگا، اس سے دونوں ممالک کے اقتصادی تعلقات کو فروغ ملے گا اور سعودی سرمایہ کاری سے پاکستان کی معیشت مستحکم ہوگی۔ سعودی عرب سی پیک کا حصہ بنے گا ، اس طرح اب چین، پاکستان اور سعودی عرب، سی پیک منصوبے کے تین فریق ہوں گے۔ میرے نزدیک شہزادہ محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان کی ترقی میں سنگ میل ثابت ہوگا۔ افغان طالبان پر سعودی عرب کا اثر و رسوخ ہے اور اس کے مسئلے کے حل میں سعودی عرب ہماری مدد کر رہا ہے۔
اگر افغانستان میں امن قائم ہوجائے تو اس سے سی پیک منصوبے کو بھی فائدہ ہوگا جو پاکستان کیلئے بہتر ہوگا۔ اسلامی دنیا کے مسائل سے نمٹنے کیلئے اسلامی فوجی اتحاد بنایا گیا ہے جس کا ہیڈ کوارٹر سعودی عرب میں ہے اور سعودی عرب ہی اس کی فنڈنگ کر رہا ہے۔ اس فوج کے سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف ہیں جو پاکستان کے لیے اعزاز ہے، اس سے پاک سعودی عرب تعلقات مزید گہرے ہوں گے۔
مولانا طاہر محمود اشرفی (چیئرمین پاکستان علماء کونسل )
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات لازوال ہیں جس کی نوعیت سیاسی یا سفارتی نہیں بلکہ عقیدہ اور ایمان کی ہے۔ سعودی عرب کے سربراہ شاہ عبد العزیز کے صاحبزادے شاہ سعود کی اپنے بھائیوں کے ساتھ کراچی آمد سے محبت و اخوت کا شروع ہونے والا سلسلہ اتنا طاقتور اور عظیم ہے کہ کسی بھی حکومت یا سیاسی موقف سے یہ دوستی کمزور نہیں ہوتی ۔ شاہ فیصل نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگوں کے موقع پر یہ اعلان کیا تھا کہ ہم کھجور اور قہوہ پر گزارہ کر لیں گے لیکن اپنے بھائی پاکستان کو کمزور نہیں ہونے دیں گے۔ پاکستان میں قدرتی آفات کے دوران بھی سعودی عرب ہمیشہ مدد کرتا ہے۔
الحمدللہ! آج پاکستان ایٹمی قوت ہے۔ دنیا اسلام میں پاکستان کے ایٹمی قوت بننے پر جس خوشی کا اظہار سعودی عرب میں کیا گیا تھا اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد جس طرح پوری دنیا خصوصاً امریکہ اور برطانیہ نے پاکستان پر پابندیاں لگا دی تھیں، ان حالات میں سعودی عرب وہ واحد ملک تھا جس نے عالمی پابندیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پاکستان کو نہ صرف تیل دیا بلکہ دیگر شعبوں میں بھی بھرپور تعاون کیا۔
ہندوستان نے یمن جنگ کے بعد ہر ممکن طریقے سے عرب ممالک کو پاکستان سے دور کرنے کی کوشش کی مگر سعودی عرب کے سربراہ خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز نے عرب ممالک کے ذمہ داران کو اس بات کا احساس دلایا کہ پاکستان ہمارا بھائی ہے اورہم اسے خود سے جدا نہیں کر سکتے۔ اس وقت خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیزاور ان کے ولی عہدامیر محمد بن سلمان نے مجھے ایک جملہ کہا کہ پاکستان ہمارے دل میں بستا ہے اور شاہ سلمان کے دل کا طبیب بھی پاکستانی ہے۔ سعودی ولی عہد امیر محمد بن سلمان اِس وقت عالم اسلام اور بالخصوص عالم عرب کے نوجوانوں کے قائد کے طور پر ابھر ے ہیں۔
محمد بن سلمان عالم اسلام کے مسائل کے حل کیلئے ہر لمحہ سنجیدہ اور پر وقار انداز اپنائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ریاض بلا کر تمام اسلامی ممالک کی قیادت کو جمع کرکے یہ پیغام دیا کہ اسلامی اور عرب ممالک کا انتہا پسندی اور دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ریاض کانفرنس کے بعد امریکی صدر نے دوبارہ اسلام اور مسلمانوں کا دہشت گردی سے تعلق کے متعلق کبھی بیان جاری نہیں کیا ہے۔مختصر وقت میں امیر محمد بن سلمان نے عالمی اسلامی عسکری اتحاد قائم کیا جس کی سربراہی جنرل (ر) راحیل شریف کر رہے ہیں جو پاکستان کے لیے فخر ہے۔
اس عالمی اسلامی عسکری اتحاد کا مقصد انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ساتھ ساتھ اسلامی ممالک کو دفاعی اعتبار سے بھی مضبوط بنانا ہے۔ سعودی ولی عہد امیر محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان اس وقت پوری دنیا میں زیر بحث ہے۔ سعودی عرب کو 2030ء تک ایک نئے ویژن، سوچ اور فکر کے ساتھ آگے لے جانے والے محمد بن سلمان خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی قیادت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ ترقی کی ان منازل کو طے کرنے والے، سعودی عرب کی خواہش ہے کہ پاکستان بھی اسی طرح ترقی میں آگے بڑھے۔14 ارب ڈالر سے زائد کی پاکستان میں سرمایہ کاری اسی ویژن اور سوچ کا آغاز ہے جو امیر محمد بن سلمان کا سعودی عرب اور اسلامی ممالک کے لیے ہے۔
عالمی معاشی اور اقتصادی ماہرین یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اس دورہ سے پاکستان کو معاشی اور اقتصادی طور پر مضبوطی ملے گی۔ امیر محمد بن سلمان کے ساتھ سعودی عرب کے ایک ہزار سے زائد ذمہ داران پاکستان آرہے ہیں اور اس دورے میں تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان ہونے والا ہے۔ پاکستان کو آئی ایم ایف کے ظالمانہ پیکیج سے بچانے کیلئے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پہلے بھی بہت سارے عملی اقدامات اٹھا چکے ہیں۔
پاکستانی قوم کی خواہش ہے کہ وہ سڑکوںپر نکل کر امیر محمد بن سلمان کا استقبال کرے اور امیر محمد بن سلمان کسی بڑی جگہ پر پاکستانی قوم سے مخاطب ہوں لیکن سکیورٹی وجوہات کی بناء پر یہ ممکن نہ ہوسکے گا۔ اس کے باوجود تمام پاکستانی امیر محمد بن سلمان کواپنے وطن میں خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔
سلمان عابد (دانشور)
سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات محض دو حکومتوں کے تعلقات نہیں ہیں بلکہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان بھی اخوت کا رشتہ ہے۔ پاکستان میں چاہے سیاسی حکومت ہو یا فوجی حکومتیں، مذہبی جماعتیں ہو یا سیاسی جماعتیں، سب ہی سعودی عرب کے بارے میں اچھے جذبات رکھتے ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں جب بھی مشکل وقت آیا، سعودی عرب نے ہمیشہ دل کھول کر محبت کا اظہار کیا۔ ماضی میں زلزلوں کے دوران بھی سعودی حکومت نے جس مثالی جذبے سے پاکستان کا ساتھ دیا اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ خاص طور پر اقتصادی معاملات میں جب بھی مشکل وقت پڑا، سعودی عرب نے ہمیں مایوس کرنے کے بجائے ایک بڑے بھائی کے طور پر کردار ادا کیا۔
اس وقت بھی داخلی اور خارجی مسائل ودیگر بحرانوں سے پاکستان کو نکالنے کیلئے سعودی عرب نے سب سے پہلے آگے بڑھ کر ہمارا ہاتھ تھاما ہے۔ پاکستان کی نئی حکومت کے پاس معاشی حالت بہتر کرنے کیلئے واحد حل آئی ایم ایف تھا مگر وزیراعظم عمران خان نے دوست ممالک اور بالخصوص سعودی عرب کی حمایت حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ گزشتہ چند ماہ میں جن دوست ممالک نے پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ اقتصادی و سماجی معاملات میں مدد کی ، ان میں سعودی عرب پیش پیش ہے۔ سعودی عرب نے پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کو ہمیشہ باور کرایا کہ پاکستان کسی بھی مشکل میں خود کو تنہا نہ سمجھے، ہم اس کے پیچھے کھڑے ہیں۔اس طریقے سے امریکا، افغانستان اور بھارت کی جانب سے جب بھی دباؤ کی سیاست کا سامنا کرنا پڑا، سعودی عرب نے سفارتی سطح پر پاکستان کی حمایت کی۔
افغانستان کے حالیہ بحران کے حل میں بھی سعودی عرب پاکستان کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ پاکستان کا اس وقت بڑا انحصار سعودی عرب سمیت عرب ممالک پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں متحدہ عرب امارات و دیگر عرب ممالک کی حمایت بھی حاصل ہورہی ہے اور اس میں سعودی عرب کا کردار اہم ہے۔ پاکستان نے بھی ہمیشہ سعودی عرب کے داخلی بحران میں اہم اور بڑے فریق کا کردار ادا کیا جس کا مقصد سعودی عرب کو مستحکم کرنا ہے۔ اسلامی عسکری اتحاد میں پاکستان کا کردار قابل تعریف ہے۔ سعودی عرب بھی اسے اپنی خارجہ پالیسی میں خصوصی اہمیت دیتا ہے۔
اسی طرح سعودی عرب نے پاکستان میں ایسے کئی ترقیاتی منصوبے دیے ہیںجن کا مقصد یہاں کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنا ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ایک بڑے تجارتی وفد کے ساتھ پاکستان آ رہے ہیں جس کا مقصد صرف مالی امداد نہیں بلکہ دو طرفہ تجارتی تعلقات کے امکانات کو بھی فروغ دینا ہے۔ سعودی عرب ایسے نازک موقع پر پاکستان میں زیادہ تجارتی معاہدے اور سرمایہ کاری کرکے مضبوط معاشی بنیاد فراہم کرنے کا خواہشمند ہے۔ اس وقت پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور دونوں مشترکہ لائحہ عمل کے تحت سعودی عرب کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، اس سے اسلامی دنیا میں پاکستان کا امیج بہتر ہو ا ہے۔
شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ پاکستان میں سعودی حکومت پاکستان کے ساتھ سرمایہ کاری کے لیے دو ارب ڈالر کے معاہدوں پر دستخط کررہی ہے جو پاکستان کی معاشی ترقی میں اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔اس دورہ میں فرٹیلائزر کے علاوہ آئل ریفائنری و دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کی جائے گی۔