روشن خیال مزدور شاعر
بابا نجمی کی غزلوں اور نظموں کے چار مجموعے آچکے ہیں اور ان کے کئی ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔
ISLAMABAD:
80ء کی دہائی میں ترقی پسند ادب سے تعلق رکھنے والے شاعروں اور ادیبوں نے اپنے قلم سے آمریت کے خلاف جو مزاحمت کی اُس کی مثال شاید ہی مل سکے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب تمام تر پابندیوں کے باوجود مختلف زبانوں سے تعلق رکھنے والے ادیب اور شاعر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوکر مارشل کے خلاف ڈٹے ہوئے تھے۔
کراچی میں اسلم اظہر، علی احمد، اسماعیل یوسف، شیما کرمانی اور منصور سعید جیسے قد آور نام اسٹریٹ تھیٹر کے ذریعے عوام کی ذہنی تربیت کر رہے تھے تو انجمن ترقی پسند مصنفین سے جڑے لکھاری اور شاعر اپنی تحریروں سے روشن خیالی کے چراغ روشن کیے ہوئے تھے۔ بھٹہ مزدوروں کے استحصال کے خلاف بھی کام ہو رہا تھا اور اقلیتوں کے مسائل پر بھی لکھا جا رہا تھا۔
مشکلات کے باوجود پاک و ہند کی ثقافتی اور ادبی تنظیموں سے جڑے ادیبوں، شاعروں اور فن کاروں کا بھی آنا جانا لگا رہتا تھااور پاک ہند دوستی بھی موضوع بحث رہتی۔ اُن دنوں بھارت سے علی سردار جعفری، کیفی اعظمی، مجروح سلطان پوری، بشیر بدر، کنور مہندر سنگھ بیدی اور ترقی پسند تحریک سے جڑے دوسرے قد آور شعرا کا مختلف تقریبات اور مشاعروں میںآنا جانا بھی معمول کی بات تھی۔
کراچی میں منعقدہ بعض مشاعرے جہاں سامعین کی تعداد اور شعرا کے منفرد کلام کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے وہاں اُن مشاعروں میں اپنی انقلابی نظمیں پڑھنے والے بابا نجمی کو بھی لوگ اب تک نہیں بھولے جو اُس وقت ہر مشاعرے کی ضرورت بن چکے تھے۔ بائیں بازو کی سیاسی پارٹیوں اور مزدور تنظیموں کی طرف سے منعقد کیے جانے والے مشاعروں میں شرکت کے لیے جب حبیب جالبؔ کراچی تشریف لاتے تو مجاہد بریلوی سب سے پہلے بابا نجمی اور ایس ایم انعام مرحوم کو ان کی آمد کی خبر دیتے جس کے بعد بابا نجمی کام سے چھٹی کرتے اور تب تک جالبؔ صاحب کے ساتھ رہتے جب تک وہ دوبارہ لاہور روانہ نہ ہو جاتے۔
بابا نجمی دن بھر محنت کرنے کے بعد جب کسی بڑے مشاعرے میں کلام سنانے کے لیے جاتے تو انھی کپڑوں کے ساتھ اسٹیج پر براجمان ہوتے جنھیں پہن کر وہ دن بھرگاڑیوں کو پالش کر نے میں مصروف نظر آتے، مگر یہ مت سمجھیے کہ وہ خوش لباس نہیں یا انھیں میلے کچیلے کپڑوں میں رہنے کی عادت ہے، اگر عام زندگی میں کبھی آپ کا اور ان کا سامنا ہو تو کلف لگے سفید کرتے پاجامے ،کالی واسکٹ اور تلے دار جوتوں کے ساتھ منہ میں رکھا پان چباتے ہوئے انھیں دیکھ کر آپ کو لگے گا کہ ہم کسی فلمی ہیرو سے مل رہے ہیں۔
بابا نجمی سترکی دہائی میں لاہور سے کراچی منتقل ہوئے۔ وہ صبح سویرے کام کے لیے روانہ ہوتے اور شام کو اس وقت واپس گھر لوٹتے جب اس بات کی امید دم توڑ دیتی کہ آج مزید کوئی بھی شخص اُن سے کام کروانے کے لیے نہیں آئے گا۔ انھوں نے زندگی کی ابتدا لاہور کی فلم انڈسٹری سے کی اور کافی عرصے تک اس سے وابستہ ر ہے مگرجب کراچی پہنچے تویہاں کی فلم انڈسٹری دم توڑ چکی تھی۔ اُن کا اٹھنا بیٹھنا ایسے افراد کے ساتھ رہا جن کا تعلق ادب اور فنون لطیفہ سے تھا یا جو بائیں بازوکی سیاست اور مزدوروں کے حقوق کی بات کرتے تھے۔
انھوں نے بائیں بازو کی کسی سیاسی پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کی، ہاں پیپلزپارٹی کی محبت میں انھوں نے جو وقت برباد کیا وہ شاید انھیں دوبارہ نہ مل سکے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پیپلز پارٹی کے راہنما ان کی اس وابستگی سے واقف نہیں رہے یا انھوں نے بابا نجمی کو وہ عزت نہیں دی جس کے وہ حق دار تھے۔ ہم نے اُن کے ساتھ ایسے کئی مشاعرے پڑھے جن کی صدارت نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو نے کی اور انھیں خوب داد بھی دی گئی، مگر انھیں پارٹی کی پالیسیوں سے اختلاف ہوتا تو اس کا کھل کر اظہار بھی کرتے۔
سچ بولنے کی وجہ سے ایک دفعہ انھیں تب مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب معروف مزدور رہنما حبیب الدین جنیدی نے کراچی پریس کلب میں ایک مشاعرے کا ہتما م کیا جس میں پاک وہند کے سرکردہ شاعر شامل تھے اور اسٹیج پر اُس وقت کے وزیر اعلیٰ سندھ عبداللہ شاہ کے ساتھ مخدوم امین فہیم اور خورشید شاہ بھی مشاعرے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ جب بابا نجمی نے اپنی مشہور نظم
آٹا ست روپیے سیر
بی بی رانی بڑا ہنیر
پڑھی تو ہر طرف سناٹا چھا گیا ۔ اسی دوران اچانک لائٹ چلی گئی تو انھیں کچھ دوستوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے جیالے آپ کی پٹائی بھی کر سکتے ہیں مگر ایسا نہیں ہوا ۔
کراچی میں بابا نجمی نے انتہائی آزمائش کے دن گزارے وہ یہاں کی مشہور شاہراہ بندر روڈ پر واقع گاڑیوں کے کشن، کمانیاں، ٹائر ٹیوب اور رنگ روغن کا کام کرنے والے مزدوروں کے ساتھ دن بھر گاڑیوں کو چمکاتے اور شام کے وقت مختلف ادبی پروگراموں میں شمولیت کے بعد دیرگئے گھر کا رخ کرتے۔ کچھ لوگ پہلی دفعہ اُن سے متعارف ہوتے تو سوچتے کہ ایک نوجوان نے اپنے نام کے ساتھ نہ جانے بابا کیوں لگا رکھا ہے۔ اُس وقت بابا نجمی کی عمر صرف ستائیس سال تھی مگر سوال کرنے والوں کو معلوم نہیں تھا کہ اس نوجوان نے بہت کم برسوں میںصدیوں کے دکھ درد محسوس کیے ہیں۔
خوش قسمتی سے جہاں بابا نجمی کام کرتے تھے اسی کے ساتھ بنی ایک بڑی بلڈنگ میں قائم سماجی ادارے کے دفتر سے ماہنامہ ''جفاکش'' بھی چھپتا تھا۔ اُن دنوں ہم اس کے ایڈیٹر تھے اورہم سے قبل رحیم بخش آزاد، عبدالرحمٰن نقاش اور معروف ادیب و شاعر احمد سلیم بھی اس کے ایڈیٹر رہ چکے تھے۔ ہمارا اور بابا نجمی کا یہ معمول تھا کہ دوپہرکا کھانا اکٹھے کھایا کرتے تھے اور اسی دوران اپنی تازہ نظمیں بھی ایک دوسرے کو سناتے تھے۔
دیکھتے ہی دیکھتے یہ سلسلہ نوے کی دہائی تک پہنچ گیا، ٹریڈ یونین کی سرگرمیاں بھی عروج پر تھیں، تھیٹر سے جڑے نوجوان بھی ہر دوسری تقریب میں اپنے ڈرامے پیش کر رہے تھے اور شہر میں منعقدہ مشاعروں پر بھی بہار آئی ہوئی تھی۔ ان مشاعروں میں شامل پنجابی زبان کے اس منفرد اور فقیر منش شاعر سے بار بار انقلابی نظموں کی فرمائش کی جاتی، خوب داد بھی دی جاتی اوراگر کسی مشاعرے میں شامل نہ ہوتا تو اُس کے بارے میں پوچھا بھی جاتا۔
بابا نجمی کی غزلوں اور نظموں کے چار مجموعے آچکے ہیں اور ان کے کئی ایڈیشن چھپ چکے ہیں لیکن یہ چار مجموعے کئی کتابوں پر بھاری ہیں۔ ان کی آخری کتاب کا تازہ ایڈیشن حال ہی میں مشرقی پنجاب سے بھی شایع ہوا ہے جہاں وہ پہلے ہی انتہائی مقبول ہیں۔
بابا نجمی کراچی میں تین دہائیاں گزارنے کے بعد لاہور منتقل ہو گئے مگر اس شہر کے باسی اب بھی انھیں شدت سے یاد کرتے ہیں۔ ہو سکتا ہے انھیں لاہورکی ادبی تنظیموں نے بھی اتنی ہی عزت دی ہو جس کے وہ حق دار ہیں مگر لاہور پریس کلب نے انھیں لائف ٹائم ممبر شپ سے نوازا اور کینیڈا کی ''ترک شیل'' نامی ادبی و ثقافتی تنظیم نے دو ماہ تک انھیں اپنامہمان بنائے رکھا۔
اس دوران کینیڈا کے کئی شہروں میں اُن کا کلام سنا گیا اور اُن کی آمد سے قبل ایشیائی برادری کے علاقوں میں واقع دکانوں اور بازاروں میں ان کے بینر اور پوسٹر آویزاں کیے گئے ۔ بابا نجمی کا نام ایک روشن خیال مزاحمتی شاعر کے حوالے نہ صرف دنیا کے دیگر علاقوں میں اپنی الگ پہچان رکھتا ہے بلکہ مشرقی پنجاب میں بھی اُن کے چاہنے والوں کی کمی نہیں۔ پچھلے دنوں ضلع موگا کے ''مہان دیش بھگت پارک'' میںاس شاعر کا مجسمہ نصب کیا گیا جہاں مہاتما بدھ اور مولانا ابو الکلام آزاد کا مجسمہ بھی نصب ہے۔