علامہ اقبالؒکی نجی محفلوں میں ہر کوئی بلا روک شریک ہوتا
نمازمیں قرآن باآواز بلند پڑھتے ہوئے رو پڑتے، کتاب’’علامہ اقبال قریب سے‘‘ میں انکشافات.
حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ کی نجی محفلیں ہر قسم کے رسمی تکلفات سے بے نیاز ہوتیں، ہر کوئی بلا روک ٹوک ان میں شریک ہوتا۔ دنیا کے مصائب اور مشکلات کا بہترین علاج اقبالؒ کی صحبت تھی۔
بات کسی قسم کی ہو علامہ اقبالؒ کا اپنا رنگ قائم رہتا۔ کسی قسم کا موضوع ہو علامہ ؒ اس میں مزاح کا پہلو ہمیشہ نکال لیاکرتے۔ بذلہ سنجی، لطیفہ گوئی اور حکایات سنانے میں انہیں ایساہی کمال حاصل تھا جس طرح فلسفہ کے مسائل بیان کرنے میں تھا''۔ ان اور ان جیسے بے شمار حقائق اور تاریخی واقعات کا اظہارعلامہ اقبالؒ کے بعض انتہائی قریبی دوستوں، ساتھیوں اور حاشیہ نشینوں نے اپنی یادوں میں کیا ہے، جسے علامہؒ کی وفات کے فوراً بعد محمود نظامی نے مرتب کیا۔
اور اب ماہنامہ آتش فشاں78 ستلج بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور نے ''علامہ اقبال قریب سے'' کے عنوان سے اس تاریخی دستاویز کو50 سے زائد تاریخی اور نایاب تصاویرکے ساتھ شائع کردیا ہے۔ اسلامی فلسفہ و تعلیم کو دنیاکے گوشے گوشے میں پہنچانے کیلیے علامہ ایک اسلامی دارالاشاعت کے قیام کے زبردست اور ہمیشہ خواہاں رہے۔ اور ایک ایسی اسلامی لائبریری کے قیام کے بھی جہاں مذہب کے متعلق تمام ضروری کتابیں میسر ہوں۔ نواب بہاولپور اس کی سرپرستی پر آمادہ ہو گئے۔ اور بہاولنگر کا گردونواح اس کیلیے منتخب کرلیاگیا۔
لیکن اس دوران میں علامہ اقبالؒ انتقال کرگئے۔ اور علومِ اسلامی کے احیا کا یہ منصوبہ تشنۂ تکمیل رہ گیا''۔ مرزا جلال الدین بیرسٹری نے آتش فشاں کی اس نئی کتاب''علامہ اقبال قریب سے''میں اپنی یادوں میں علامہؒ کی کئی نظموں کی شانِ نزول کی تفصیل بیان کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ میرے مکان پر چونکہ رقص و سرود کی محفلیں اکثرجما کرتیں اس لیے علامہ ان مجالس میں بڑی رغبت سے شمولیت فرماتے۔ اور بعض اوقات رقص وسرودکے دوران میں ہی اپنی کسی نظم کی بنیاد رکھ دیتے۔ عبدالرشید طارق نے علامہ کے جذبۂ ترحم کا ایک واقعہ تفصیل سے بیان کرتے ہوئے بتایاہے کہ علامہؒ نے میکلوڈ روڈ والی کوٹھی زیادہ کرائے پر محض اس لیے لے لی کہ یہ دو ہندو یتیم بچوں کی وراثت تھی۔ اور اتنا زیادہ کرایہ کوئی اور دینے کو تیار نہ تھا۔
بات کسی قسم کی ہو علامہ اقبالؒ کا اپنا رنگ قائم رہتا۔ کسی قسم کا موضوع ہو علامہ ؒ اس میں مزاح کا پہلو ہمیشہ نکال لیاکرتے۔ بذلہ سنجی، لطیفہ گوئی اور حکایات سنانے میں انہیں ایساہی کمال حاصل تھا جس طرح فلسفہ کے مسائل بیان کرنے میں تھا''۔ ان اور ان جیسے بے شمار حقائق اور تاریخی واقعات کا اظہارعلامہ اقبالؒ کے بعض انتہائی قریبی دوستوں، ساتھیوں اور حاشیہ نشینوں نے اپنی یادوں میں کیا ہے، جسے علامہؒ کی وفات کے فوراً بعد محمود نظامی نے مرتب کیا۔
اور اب ماہنامہ آتش فشاں78 ستلج بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور نے ''علامہ اقبال قریب سے'' کے عنوان سے اس تاریخی دستاویز کو50 سے زائد تاریخی اور نایاب تصاویرکے ساتھ شائع کردیا ہے۔ اسلامی فلسفہ و تعلیم کو دنیاکے گوشے گوشے میں پہنچانے کیلیے علامہ ایک اسلامی دارالاشاعت کے قیام کے زبردست اور ہمیشہ خواہاں رہے۔ اور ایک ایسی اسلامی لائبریری کے قیام کے بھی جہاں مذہب کے متعلق تمام ضروری کتابیں میسر ہوں۔ نواب بہاولپور اس کی سرپرستی پر آمادہ ہو گئے۔ اور بہاولنگر کا گردونواح اس کیلیے منتخب کرلیاگیا۔
لیکن اس دوران میں علامہ اقبالؒ انتقال کرگئے۔ اور علومِ اسلامی کے احیا کا یہ منصوبہ تشنۂ تکمیل رہ گیا''۔ مرزا جلال الدین بیرسٹری نے آتش فشاں کی اس نئی کتاب''علامہ اقبال قریب سے''میں اپنی یادوں میں علامہؒ کی کئی نظموں کی شانِ نزول کی تفصیل بیان کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ میرے مکان پر چونکہ رقص و سرود کی محفلیں اکثرجما کرتیں اس لیے علامہ ان مجالس میں بڑی رغبت سے شمولیت فرماتے۔ اور بعض اوقات رقص وسرودکے دوران میں ہی اپنی کسی نظم کی بنیاد رکھ دیتے۔ عبدالرشید طارق نے علامہ کے جذبۂ ترحم کا ایک واقعہ تفصیل سے بیان کرتے ہوئے بتایاہے کہ علامہؒ نے میکلوڈ روڈ والی کوٹھی زیادہ کرائے پر محض اس لیے لے لی کہ یہ دو ہندو یتیم بچوں کی وراثت تھی۔ اور اتنا زیادہ کرایہ کوئی اور دینے کو تیار نہ تھا۔