بھارت کا جنگی بجٹ

اب مودی کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ بھارت کے ننگے بھوکے عوام کا کچھ خیال کریں


عثمان دموہی February 17, 2019
[email protected]

بھارت کا سالانہ بجٹ ہر سال فروری کے مہینے میں پیش کیا جاتا ہے اس لیے کہ اس کا مالی سال یکم مارچ سے شروع ہوکر 28 یا 29 فروری کو ختم ہوتا ہے۔ اس سال یکم فروری کو ہی بی جے پی سرکار نے اپنے آخری بجٹ کو پیش کردیا تھا کیونکہ اس کی حکومت کے پانچ سال جون میں ختم ہو رہے ہیں ۔ یہ بجٹ وزیر خزانہ ارون جیٹلی کے بیمار ہونے کی وجہ سے قائم مقام وزیر خزانہ پیوش گوئل نے پیش کیا۔ انھوں نے بجٹ تقریر کی ابتدا مودی کے سرجیکل اسٹرائک کے ڈرامے سے کی۔

انھوں نے کہا کہ جب وہ بجٹ پیش کرنے آرہے تھے تو راستے میں ''سرجیکل اسٹرائک'' نامی فلم کے پہلے شو میں سینما کے باہر عوام کا رش اور ان کا جوش و خروش دیکھ کر وہ بہت متاثر ہوئے۔ وہ دراصل مودی کے سرجیکل اسٹرائک کے ڈرامے کو سچ کا تاثر دینا چاہ رہے تھے۔ موصوف نے بجٹ پیش کرنے سے قبل بھارتی عوام کو کئی خوش خبریاں سنا ڈالیں۔

انھوں نے بتایا کہ بی جے پی سرکار 2022 تک کسی ایک بھارتی کو خلاء میں بھیجنے کا پروگرام بناچک ی ہے۔ آنے والے دنوں میں ملک کے بارہ کروڑ کسانوں کی قسمت بدلنے والی ہے، لوگوں کو صاف پینے کا پانی میسر آسکے گا۔ نوکریوں کی بھر مار ہو گی، کاروبار خوب چمکے گا اور کرپشن کا نام و نشان تک مٹا دیا جائے گا۔

بھارتی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ پہلے سے ہی یہ خیال کررہے تھے کہ بی جے پی سرکار اپنی مدت کا آخری بجٹ انتخابی بجٹ کے طور پر پیش کرے گی اور ویسا ہی ہوا یعنی کہ پورے بجٹ میں خوش خبریوں ، خوش فہمیوں اور اعداد و شمار کے گورکھ دھندے کے سوا کچھ نہ تھا۔ بجٹ تقریر ایک گھنٹہ پینتالیس منٹ تک جاری رہی مگر بجٹ میں غریبوں کے لیے کوئی حقیقی خوش خبری نہیں تھی۔

نئے بجٹ کا کل حجم27 لاکھ کروڑ ہے اس میں سے دفاع کے لیے تین لاکھ کروڑ مختص کیے گئے ہیں۔ یہ رقم گزشتہ بجٹ سے آٹھ فی صد زیادہ ہے۔ بھارت اپنے دفاعی بجٹ کو ہرسال ہی بڑھاتا رہتاہے۔ اس رقم کو بڑھانے کا مقصد زیادہ سے زیادہ جدید اسلحہ خریدنا ہے تاکہ پڑوسی ممالک پر رعب طاری کیا جائے اور ساتھ ہی انھیں خوفزدہ رکھا جائے۔

بھارت کے بجٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک بھارتی تجزیہ کار وویک کول نے بی بی سی کی ہندی ویب سائٹ پر اپنے مضمون میں لکھا کہ بھارتی وزیر خزانہ کو دفاعی بجٹ کو فخر سے پیش کرنے سے قبل ایک مغربی دانشور اور تاریخ دان جیفری بلینو کے اس قول کو ضرور سامنے رکھنا چاہیے تھا کہ جنگ عام طور پر تب ختم ہوتی ہے جب جنگ کرنے والے ممالک ایک دوسرے کی طاقت کو سمجھ جاتے ہیں اور جنگ تب شروع ہوتی ہے جب جنگ کرنے والے ممالک ایک دوسرے کی طاقت کو سمجھنے سے انکار کردیتے ہیں۔ اس مقولے پر اگر غورکیا جائے تو بھارت وہ ملک ہے جو اپنے دونوں پڑوسیوں پاکستان اور چین کے درمیان پھنسا ہوا ہے۔

ماضی میں بھارت ان دونوں ہی ممالک سے جنگ کرچکا ہے اور ان ممالک سے اس کی ابھی بھی چھوٹی موٹی جھڑپیں چلتی رہتی ہیں۔ یہ تو بھارت کے باہرکا منظر ہے اب اندر کی کہانی یہ ہے کہ اس کی کئی ریاستوں میں علیحدگی کی تحاریک چل رہی ہیں جن سے نمٹنے کے لیے اسے مسلسل فوج کو استعمال کرنا پڑرہا ہے۔ اس سلسلے میں کشمیر کی مثال بہت اہم ہے جہاں بھارت کی سات لاکھ فوج وہاں جاری آزادی کی تحریک کو دبانے کے لیے استعمال ہو رہی ہے مگر وہ مجاہدین کو قابو کرنے میں قطعی ناکام ثابت ہورہی ہے۔

ادھر وسطی ہند میں مائو نواز گوریلے بھی آزادی کی تحریک چلارہے ہیں۔ بھارت سرکار نے وہاں بھی اپنی فوج کو جھونک رکھا ہے مگر پچاس سال سے چل رہی اس تحریک پر قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ شمال مشرق میں الفا نے بھارت کی آزادی کے بعد سے ہی اپنی تحریک آزادی چلا رکھی ہے۔ اسے بھی بھارتی فوج نہیں دبا سکی ہے اور مستقبل میں بھی اس تحریک کو دبانا مشکل نظرآتا ہے۔ پنجاب میں سکھ پھر اپنی تحریک کو منظم کررہے ہیں وہ بھارتی فوجی تنصیبات پر کئی حملے کرچکے ہیں۔

پٹھان کوٹ سے لے کر گرداس پور تک پنجاب میں جتنے بھی حملے ہوئے ہیں وہ تمام سکھ حریت پسندوں نے کیے ہیں مگر بھارت سرکار نے جان بوجھ کر سکھوں پر الزام لگانے کے بجائے پاکستان پر زبردستی ان کی ذمے داری عائد کی ہے۔ جس طرح بھارت کشمیری مجاہدین کے حملوں کو پاکستان کے کھاتے میں ڈال دیتا ہے اسی طرح وہ سکھوں کے حملوں کو بھی پاکستان کی دہشت گردی قرار دے دیتا ہے۔

یہ اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ دنیا کو یہ تاثر دیا جائے کہ سکھ اور کشمیری تو بھارت کے پرامن شہری ہیں اور کشمیر و پاکستان کا کوئی مسئلہ سرے سے موجود ہی نہیں وہ تو بھارت کا اٹوٹ انگ ہیں۔ گو کہ بھارتی فوج کی تعداد پاکستان سے چار گنا زیادہ ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کی فوج پاکستانی فوج کے مقابلے کی نہیں ہے۔ وہ 1965 کے علاوہ کارگل کی جنگ میں بھی پاکستانی فوج کا مقابلہ نہیں کرپائی تھی البتہ 1971 کی بات اور ہے اس وقت پاکستانی فوج مشرقی پاکستان میں بغاوت کے مسئلے سے دوچار تھی پھر بھی بھارتی فوج مغربی پاکستان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکی تھی جب کہ روس بھارت کی بھرپور مدد کررہا تھا۔

پاکستان سے جنگ کرنے سے پہلے بھارتی فوج چینی فوج کے آگے ڈھیر ہوچکی ہے۔1962 کی جنگ میں چین نے بھارت کے شمال مشرقی وسیع علاقے پر قبضہ کرلیا تھا اب اس ماحول میں بھارتی حکومت اپنی فوجی طاقت میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرکے کیا کرنا چاہتی ہے۔ کیا وہ پھر پاکستان اور چین سے اپنی فوج کو لڑانا چاہتی ہے۔ کیا اس نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ پھر وہ کسی مغربی مفکر کے قول کو کیا گھاس ڈالے گی اسے تو گاندھی کے اہنسا پرچارکا بھی پاس نہیں ہے۔

بھارت ان دونوں ہی ممالک کی افواج کو پہلے ہی آزما چکا ہے اور اب تو چین اور پاکستان دونوں ہی ایٹمی طاقت بن چکے ہیں۔ دراصل مسئلہ یہ ہے کہ بھارتی حکمرانوں کی شروع سے ہی یہ خواہش رہی ہے کہ وہ افغانستان سے لے کر برما تک کے علاقے پر کسی طرح قابض ہوجائیں تاکہ وہ اپنا اکھنڈ بھارت کا دیرینہ خواب پورا کرسکیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ایسے نظریات والے ملک کے حکمرانوں کا بھی یہ حال ہے کہ وہ بجٹ میں دفاع کے لیے زیادہ سے زیادہ رقم ضرور مختص کرتے ہیں مگر اس میں سے خود اپنی تجوریاں بھی بھرلیتے ہیں۔

بھارت میں غربت اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ ممبئی جیسے شہر میں ہزاروں افراد فٹ پاتھ پر سوئے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کروڑوں لوگ بے گھر ہونے کے علاوہ تعلیم اور صحت جیسی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ مگر بھارت اپنے عوام کی بہتری اور خوشحالی پر توجہ دینے کے بجائے جنگی جنون میں مبتلا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ وہ جنگی اسلحے کی برتری پر اپنے ہمسایہ ممالک پر فوقیت حاصل کرنے اور انھیں دبانے میں کامیاب ہو جائے گا مگر یہ سب کچھ اس کی خام خیالی ہے۔

عالمی ادارے گلوبل فائر پاور کے مطابق اس وقت پاکستان اپنے روایتی ہتھیاروں کے لحاظ سے دنیا میں تیرہویں بڑی فوجی طاقت ہے اور جوہری تکنیک کے لحاظ سے دنیا کی چھٹی ایٹمی قوت ہے۔ عالمی فوجی تجزیہ کار بھارتی فوج کی کارکردگی سے مطمئن نظر نہیں آتے کیونکہ وہ اندرونی بغاوتوں کو بھی دبانے میں ناکام ہے جب کہ پاکستان میں ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی دہشت گردی کو فوج کی مدد سے کچل کر امن قائم کردیاگیا ہے۔

اب مودی کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ بھارت کے ننگے بھوکے عوام کا کچھ خیال کریں، ان کے بڑی فوج رکھنے اور جدید اسلحہ خریدنے کے جنون نے معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچادیا ہے۔ انھیں چین سے سبق حاصل کرنا چاہیے جو دنیاکی دوسری نمبر کی بڑی فوجی طاقت ہونے کے باوجود اب اپنی فوج کو آدھا کرنے کی تیاری کر رہا ہے کیونکہ بڑی فوج رکھنے سے نہیں بڑی معیشت رکھنے سے ملک طاقتور بنتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں