نجی اسکولوں کو مافیا کیوں نہ کہیں
نجی اسکولوں کے دیکھا دیکھی اس طرح کے معاملات اب سرکاری اسکولوں میں بھی نظر آنے لگے ہیں۔
ہمارا ملک اس وقت مختلف قسم کی مافیاؤں کے گھیرے میں ہے ۔ پانی کا معاملہ ہے تو ٹینکر مافیا ، زمین و گھر کا معاملہ ہے تو لینڈ و بلڈر مافیا ، پھر سیاسی مافیا ، منشیات مافیا ، پولیس مافیا اور جرائم مافیا ۔ جوکہ مختلف طریقوں سے عوام کو لوٹنے کے لیے یک صف نظر آتے ہیں ۔ ان سب سے عوام کا جینا پہلے ہی جنجال بنا ہوا ہے ، ایسے میں نجی اسکول ایک نئی مافیا کے طور پر اُبھر نے والا عنصر یا گروہ ہے ۔ جس نے ملک کے ہر طبقے کو اپنے جال میں پھانس رکھا ہے بلکہ اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ والدین کو پھڑپھڑانے کی بھی اجازت نہیں ہے ۔
دیکھا جائے تو جس طرح انصاف کی ذمے دار عدالتیں ہوتی ہیں ، سرحدوں کی ذمے دار افواج ، داخلی طور پر امن امان کی بحالی کی ذمے دار پولیس ہوتی ہے اسی طرح تعلیم اور اس سے متعلق تمام اُمور محکمہ تعلیم کا ذمے ہیں ۔سندھ میں مدرسوں کے قدیم طریقہ تعلیم سے اسکولوں کے جدید طریقہ عام ہونے کی جانب پیش قدمی انگریز راج کے آخری ایام میں ہوئی۔ جس کے تحت سرکاری اسکولوں کا نظام رائج ہوا ، جوکہ 90کے عشرے تک کامیابی سے سستی و معیاری تعلیم کا ذریعہ رہا ۔ پھر اچانک تعلیم کی جانب سرکاری عدم توجہی نظر آنے لگی اور صوبہ میں معیار ِ تعلیم خطہ کے پس ماندہ ترین علاقوں سے بھی کم ہو کر رہ گیا ۔
اسکول اوطاقیں اور شادی ودیگر تقریبات کے ہال بن گئے ۔ والدین کے برابر درجہ رکھنے والے اساتذہ محض سرکاری تنخواہ دار بن کر رہ گئے ۔ اب اُن کا ذمے تعلیم کا فروغ نہیں بلکہ اسکول کے اوقات پورے کرنا رہ گیا اور پھر وہ بھی آگے چل کر محض فارملٹی بن گئی ۔ سندھ میں 15ہزار سے زائد سرکاری اسکول بند ہوگئے، صوبہ کے 35فیصد بچے اسکولوں سے باہررہ گئے ۔یوں سرکاری اسکول ختم ہونے کے قریب رہ گئے اور صوبہ میں ایک خلاء پیدا ہوگیا ۔ جسے نجی اسکول کے نظام سے پُر کیا گیا ۔ لیکن نہ اُس کے لیے وفاقی و صوبائی انتظامیہ کی جانب سے کوئی پلاننگ ، پالیسی و قوانین وضح کیے گئے اور نہ ہی عوام نے اس کو اپنی حق تلفی و خود پر بوجھ سمجھا ۔
یوں یہ نجی اسکولوں کاغیر مربوط نظام پہلے تعلیمی فیس کی بنیاد پر قائم ہوا، جوکہ آہستہ آہستہ یونیفارم ، کُتب سمیت تمام نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں کی مد میں وصولیاں بڑھاتا ہوا مختار ِ کُل بن گیا ۔ یہاں تک کہ اسکولوں کی جانب سے بچوں کے کھانوں کے مینو بھی ترتیب دیے جانے لگے ۔ تب جاکر حکومت اور عوام کو ہوش آیا لیکن تب تک پانی سروں سے اونچا ہوگیاتھا ۔ پھر یہ اسکول سندھ اسمبلی سے پاس کردہ حکومت ِ سندھ کے قانون '' سندھ ریگیولیشن اینڈ کنٹرول آرڈیننس برائے نجی تعلیمی ادارے 2001اور2005'' کے تحت رجسٹرڈ ہوئے اور اب تک اس آرڈیننس کے قوانین کے پابند ہیں ۔ لیکن نجی اسکول اس قدر طاقتور بن گئے کہ حکومتی ضوابط کو اپنی خاطر میں ہی نہ لانے پر تُل گئے ہیں۔
گذشتہ 15سے 18سالوں کے دوران اسکولوں نے نہ تو ان قوانین کی پابندی کی ہے اور نہ ہی ان سے متعلق حکومت ِ سندھ نے عوام کی آگاہی کے لیے کوئی مہم چلائی ہے۔ والدین کواپنے قانونی حقوق کی عدم معلومات کی وجہ سے اسکول ایک مافیا کے طور پر اپنی من مانی فیسوں اور پالیسیوں کی بدولت مجبور والدین کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں ۔نجی اسکولوں اور محکمہ تعلیم کی ملی بھگت والی اس چکی کے دوپاٹوں کے درمیان صرف والدین ہی پس رہے ہیں ۔
ایک طرف اسکولوں کی بھاری فیس اور دن بہ دن بڑھتی فرمائشیں والدین کو دبوچتی رہتی ہیں تو دوسری طرف زیادتی ِ کُتب سے بھاری بھرکم تھیلے بچوں کی کمر ٹیڑھی کررہے ہیں۔ باوجود ان تمام چیزوں کے تعلیم کے معیار کی صورتحال دن بہ دن ایسے گر رہی ہے جیسے آج کل روپے کی قدر وقیمت تیزی سے گرتی جارہی ہے ۔ سندھ کے عوام مادری زبان میں تعلیم کے حق سے زبردستی دستبرداری کے باوجود تعلیمی معیار کے زوال پر پریشان نظر آتے ہیں ۔ اس پریشانی اور جھنجلاہٹ کے عالم میں اُنہیں عدالت کا دروازہ ہی نظر آیا۔
عدالت ِ عالیہ کی لارجر بینچ کی جانب سے3ستمبر 2018کے حتمی فیصلے میں آخری منظور شدہ فیس میں 5%سالانہ اضافے پرفیس کوفکس کرکے محکمہ تعلیم کو نجی اسکولوں کے تمام اُمور کو مد ِ نظر رکھ کر ریگیولرائیزیشن سے متعلق نئی پالیسی وضع کرنے کے احکامات دیے گئے ۔ پھر ملک کے دیگر صوبوںکی عدالتوں اور سپریم کورٹ میں کیسز کی بناء پر یہ معاملہ ملکی سطح پر ایک انتہائی حساس و مفاد ِ عامہ کے کیس کے طور پر اُبھر آیا۔
سپریم کورٹ نے 13دسمبر کو اپنے واضح احکامات پر مبنی آرڈر میں کہا ہے کہ آخری منظور شدہ فیس میں 20%کمی کی جائے اور 2018کے دوران وصول کی گئی ماہ جون و جولائی کی فیس کا 50%والدین کو واپس کردیا جائے ، اور اس پر عمل کے لیے پرائیوٹ اسکول ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنز ریگیولیٹری اتھارٹی (PEIRA) کی جانب سے بھی نوٹس جاری کرنے کے باوجود نجی اسکولوں کی طرف سے عمل نہ کرنا ، اُن کی مافیائی سوچ و طرز ِ عمل کو آشکار کرتا ہے ۔
اسکولوں نے عدالت ِ عظمیٰ کے فیصلے کی من چاہی تشریح کرتے ہوئے والدین کو ہدایات جاری کیں کہ عدالت نے صرف ٹیوشن فیس میں20% کٹوتی کی ہے اور ٹیوشن فیس کے علاوہ دیگر فیسوں پر یہ فیصلہ لاگو نہیں ہوتا لہٰذا آپ یہ تمام فیس وقت پر ادا کریں اور لیٹ فیس ادا کرنے کے لیے بھی ہراساں کیا جارہا ہے جو کہ عدالتی احکامات کی سراسر خلاف ورزی ہے اور یہ توہین ِ عدالت کے زمرے میں آتا ہے ۔ جس کے لیے چیف جسٹس سپریم کورٹ کو اس کا از خود نوٹس لینا چاہیے ۔
عدالت نے نجی اسکولوں کے خلاف سخت کارروائی محض اس لیے نہیں کی کہ صوبہ میں تعلیم کی فراہمی کا کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے ۔ اس لیے عدالت نے نرمی برتتے ہوئے جون اور جولائی کی وصول کی گئی فیس کا صرف 50%واپس کرنے کے احکامات دیے لیکن اس کے باوجود اسکولوں کی انتظامیہ عدالت کے واضح احکامات پر بھی عمل کرنے کے بجائے من مانی کرتے ہوئے آخری منظور شدہ فیس میں 40%مزید اضافہ کرنے کے بعد 20%کم کرنے کے ساتھ ساتھ سینہ تان کر والدین اور بچوں کو اسکول سے نکالنے کی دھمکیاں دینے ، لیٹ فیس وصول کرنے اور کُتب و یونیفارم کی اسکول سے خریداری کے لیے پابند کرنے کی پریکٹس میں مشغول ہیں۔
پھراضافی فیس نہ دینے پر بچوں کو کلاس میں طنزیہ و دھمکیانہ آویز لہجے میں فیس جمع کرانے کی روش جہاں بچوں کی نفسیات و ذہنی نشو و نما پر برا اثر ڈالتی ہے وہیں بچہ احساس ِ کمتری کا شکار ہوجاتا ہے ۔ جب کہ والدین کی بھی تضحیک ہوتی ہے ۔ یہ صرف اور صرف مافیا بن جانے والے عناصر کی ہی روش ہوتی ہے ۔ اس لیے عوام یہ سوچنے اور کہنے پر حق بجانب ہیں کہ نجی اسکول اس ملک کی سب سے طاقتور مافیا بن چکی ہے جسے ریاست ، حکومت بھی نہیں روک پارہی ۔۔!
نجی اسکولوں میں تعلیم دلوانے کے لیے صاحب ِ حیثیت کچھ والدین اپنی کمائی کا 70فیصد حصہ خرچ کردیتے ہیں۔ لیکن بہت سارے ایسے لوگ بھی ہیں جو پیٹ پر پتھر باندھ کر بھی اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے انھیں نجی اسکولوں میں داخل کرواتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ اُن کے مفادات کا تحفظ ویسے تو نہیں ہوتا لیکن اسکول فیس پر عدالتی واضح احکامات پر بھی حکومت ِ سندھ ،محکمہ تعلیم سندھ کے ڈائریکٹر جنرل پرائیوٹ اسکولز کے ذریعے عمل نہیں کراسکی ہے ۔جب کہ صوبہ میںتعلیمی ایمرجنسی بھی نافذ ہے ۔لیکن ایسی ایمرجنسی کا کیا فائدہ جو ایک طرف صوبہ میں مفت و معیاری تعلیم کا بندوبست کرنے کے اپنے فرائض بھی سرانجام نہ دے سکے تو دوسری طرف نجی اسکولوں کی ریگیولرائیزیشن کی ذمے داری بھی ادا نہ کرسکے۔
دیکھا جائے تو والدین کے ساتھ ظلم میں صرف حکومت اور نجی اسکول انتظامیہ ہی شامل نہیں بلکہ سبھی اس بہتی گنگا سے ہاتھ دھوتے نظر آتے ہیں ۔ والدین کے نام سے رجسٹرڈ نام نہاد پیرینٹس ایسوسی ایشن بھی نجی اسکولوں سے لین دین کرکے حقیقی والدین پر ستم ڈھانے میںشریک نظر آتی ہے ۔تو ڈائریکٹر پرائیوٹ اسکولز پر بھی اسکول مافیا سے مل جانے کی افواہیں بھی گردش کررہی ہیں، جوکہ اُن کے گذشتہ 13سال سے پوسٹ پر رہنے کے باوجود اسکولوں کے خلاف تادیبی کارروائی نہ کرنے کے باعث ہے ۔
حالانکہ صوبہ کے وزیر تعلیم سید سردار شاہ تعلیم کے فروغ خصوصاً سرکاری اسکولوں کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے بڑی محنت کررہے ہیں ۔جس کے لیے انھوں نے اپنی بیٹیوں کو ایک بڑے نجی اسکول سے نکال کر سرکاری اسکول میں داخل کرانے جیسا Boldقدم بھی اُٹھایا ہے ۔ وزیر تعلیم کے اس قدم کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے ۔ لیکن صوبہ میں سرکاری اسکولوں کی بحالی اور تعلیم کے معیار کو بہتر کرنے کے لیے علانیہ عملی ہنگامی اقدامات کرنے کی بڑے پیمانے پر ضرورت ہے ۔ خصوصاً سندھ اسمبلی سے یہ قرار داد پاس کرائی جائے کہ تمام اسمبلی اراکین و صوبائی سرکاری عملداران کے لیے لازم ہو کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخل کروائیں ۔
یہ نہ صرف سرکاری اسکولوں کی بحالی کا مؤثر ذریعہ ثابت ہوگا بلکہ صوبہ میں سرکاری و نجی اسکولوں کے درمیان معیاری مسابقتی ماحول کو بھی فروغ دے گا ۔ اور پھر اس سے صوبہ کے عوام کے پاس بچوں کی معیاری تعلیم کے لیے اسکول کیChoiceبھی ہوگی ، اور سب سے بڑی بات اس سے نجی اسکولوں کی Monopolyبھی ختم ہوجائے گی ۔ کیونکہ تعلیم پر نجی اسکولوں کی اجارہ داری اس قدر بڑھ گئی ہے کہ کچھ بڑے اسکول تو خود کو رجسٹرڈ کرانا بھی گوارہ نہیں کرتے ۔
نجی اسکولوں کے دیکھا دیکھی اس طرح کے معاملات اب سرکاری اسکولوں میں بھی نظر آنے لگے ہیں۔ جہاں فرنیچر کی کمی اور دیگر ترقیاتی کاموں کے بہانے بچوں سے پیسے مانگے جانے لگے ہیں ۔ جب کہ کئی سرکاری اسکولوں کی انتظامیہ بچوں اور اُن کے والدین کی آراء کے خلاف اپنے اسکول کو سرکاری بورڈ سے ہٹاکر نجی تعلیمی بورڈز سے منسلک کرنا چاہتی ہے ۔ ایسی ہی ایک مثال کراچی کے قدیم ترین اسکول کی ہے ، جہاں آج کل فرنیچر کے نام پر طلباء سے پیسے بھی مانگے جارہے ہیں تو اسکول کو سرکاری بورڈ سے ہٹاکر نجی بورڈ کے حوالے کرنے کی باتیں ہورہی ہیں ، اور اس کے لیے والدین کو بھاری فیس دینے پر مجبور کیا جارہا ہے ۔ جس کے لیے والدین تیار نہیں لیکن اسکول انتظامیہ کی جانب سے نجی اسکولوں کی طرح اسکول چھوڑ جاؤ جیسے جملوں سے ہراساں کیا جارہا ہے ۔انتظامیہ شاید طاقت کے نشے میں بھول گئی ہے کہ وہ کسی نجی اسکول کے مالکان نہیں بلکہ ایک سرکاری اسکول کی انتظامیہ ہیں ۔
دیکھا جائے تو پاکستان اس وقت او ، اے لیول تعلیم کی بڑی مارکیٹ بن چکا ہے لیکن اُس کے باوجود اکثر بڑے سے بڑے اسکولوں میں بھی او لیول کی اہم جُز مانی جانے والی Alternate to Practical لیب موجود ہی نہیں ہیں ۔
اس ضمن میںحکومت ِ سندھ نے رہائشی علاقوں و عمارتوں میں قائم تمام اسکولوں کو بند کرنے کا اعلان بھی کیا لیکن وہ بھی محض اعلان ہی رہا کیونکہ آج بھی دہلی کالونی ، اختر کالونی ، کورنگی ، ڈیفنس، گلشن اقبال، گلستان جوہر، ملیر، ماڈل کالونی، نارتھ ناظم آباد، فیڈرل بی ایریا، ناظم آباد اور لیاقت آباد سمیت کراچی بھر میں ایسے اسکول قائم و دائم ہیں جوکہ رہائشی عمارت کے صرف ایک یا دو فلور پر مشتمل ہیں ۔
اس ضمن میں PEIRAکو بھی چاہیے کہ22فروری کو عدالت عظمیٰ میں جمع کرانے والی اپنی رپورٹ میں ان تمام اُمور پرپاکستان بھر کے اسکول والدین کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے اسکولوں کی جانب سے داخلہ و ماہانہ فیسوں میں مختلف حیلوں بہانوں سے اضافے اور دیگر تعلیمی اُمور سے متعلق عدالتی احکامات سے انحرافی کو بھرپور طریقے سے پیش کرے ۔ کیونکہ اسکول انتظامیہ کے پاس تو عوام سے ہتھیائی گئی دولت کے انبار ہیں جن کے بل بوتے پر وہ ملک کے ایسے بڑے سے بڑے وکیل کرتی ہیں جو ایک طرف اسکول انتظامیہ کے وکیل ہوتے ہیں تو دوسری جانب وفاقی وزیر ِ قانون بھی ہوتے ہیں ۔
جس سے بھی یہ خدشہ رہتا ہے کہ وہ اس کیس پر اداراتی سطح پر غالب آنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ دوسری جانب والدین کے پاس نہ تو اضافی پیسہ ہے اور نہ ہی اتنی طاقت اور وقت ۔ کیونکہ اگر وہ کیس میں الجھے رہیں گے تو اپنے کاروباری ، ملازمتی و گھریلو فرائض کیسے سرانجام دے سکیں گے ۔ اس لیے ان تمام تر مسائل کا حل یہ ہے کہ عدالت ِ عظمیٰ کی نگرانی میں ایک بااختیار کمیشن قائم کیا جائے جو کہ صوبوں کی عدالت عالیہ کے معرفت صوبائی محکمہ تعلیم سے اسکولوں اور والدین سمیت تمام فریقین کی مشاورت سے واضح اور مؤثر پالیسی نہ صرف تشکیل دے بلکہ اُس پر سختی سے عمل درآمد بھی کروائے ۔
کیونکہ نجی اسکولوں کی موجودہ روش اور محکمہ تعلیم کے عملداروں کی نااہلی و ملی بھگت کے آگے والدین اس قدر بے بسی کا شکار ہیں کہ رواں ماہ کے آغاز میں پریس کلب کراچی پر والدین کے احتجاج کے دوران ایک طالب علم کے والد کی جانب سے نجی اسکول کے سامنے خود سوزی کا اعلان بھی سامنے آیا ہے ۔ اور اگر خدانخواستہ یہ ہوا تو یہ ہمارے معاشرے کا نہایت ہی شرمناک و عبرتناک المیہ ہوگا ۔
حالیہ سماعت کے دوران چیف جسٹس صاحب نے نجی اسکولوں کو نیشنلائیزڈ کرنے کے بھی ریمارکس دیے تھے، اور یہ کوئی بری بات بھی نہیں ہے۔ ہمارے پڑوسی ممالک جیسے انڈیا، بنگلا دیش ، چائنہ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں یہ طریقہ ٔ تعلیم رائج ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اُن سب کامعیار ِ تعلیم ہم سے کافی بہتر ہے ۔ ویسے بھی نیشنلائیزڈسے مرادموجود نجی اسکولوں کو سرکاری تحویل میں لینا ہے ۔ تو یہ بھی والدین کے حق میں بہتر ہے کیونکہ حکومت کے پاس اعلیٰ معیاری اساتذہ، اسکولوں ،نصابی اداروں ، بورڈز اوردفاتر کا مربوط نیٹ ورک موجود ہے ، جس کے ساتھ نجی اسکولوں کا Lookو طریقہ کار تعلیم کے معیار کے حصول میں آسانیاں پیدا کرے گا ۔
دوسری بات 18ویں ترمیم کے بعد پبلک پرائیوٹ نظام ہو یا نیشنلائیزڈ نظام ِ تعلیم دونوں صورتوں میں تعلیم صوبائی جُز ہی رہے گا تو ضرورت اس بات کی ہے کہ صوبائی محکمہ تعلیم میں فرض شناسی کا وہ جذبہ بیدار کیا جائے جو 90کے عشرے تک اساتذہ میں گراں قدر اور افسران میں بھی کسی حد تک نظر آتا تھا ۔ کیونکہ وہی اتھارٹی ہیں جوکہ معیاری تعلیم کے تمام اُمور کے ذمے دار ہیں ۔