کانٹوں پر چلنے کے مترادف

’’آپ بیتی مرزا غالب‘‘ کی زندگی اور ان کے عہد کی بہترین عکاسی کرتی ہے۔


Naseem Anjum February 17, 2019
[email protected]

15فروری 2019 کو مرزا غالب کی ایک سو پچاسویں برسی ہے ۔ اس حوالے سے غالب کی شاعری پر مختلف طریقوں سے روشنی ڈالنے کے لیے رسائل و جرائد میں خصوصی مضامین اور تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس خاص موقع پر سرگودھا یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر خالد ندیم نے آپ بیتی مرزا غالب لکھ کر کمال کردیا ہے ۔

اس سے قبل وہ ''شبلی کی آپ بیتی ''، ''آپ بیتی علامہ اقبال'' کی ترتیب دے چکے ہیں یقیناً یہ آسان کام نہیں تھا کسی بھی تخلیقی کام پر تحقیق کرنا اور پھر اسے ترتیب دینا کانٹوں پر چلنے کے مترادف ہے۔ڈاکٹر خالد ندیم پاکستان میں ہی نہیں ہندوستان میں بھی اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔ ان کی کئی اہم کتابیں جو تحقیقی امور کی بنیاد پر ادب کے شائقین و ناقدین کے ہاتھوں میں آئی ہیں۔ وہ ہندوستان سے شائع ہوچکی ہیں اور اس وقت وہ مختلف موضوعات کے حوالے سے 31 اہم کتابوں کے قلم کار ہیں۔

2019 میں چھپنے والی کتاب آپ بیتی مرزا غالب 304 صفحات پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر خالد ندیم نے غالب پر قلم اٹھایا اور پھر اس کا حق ادا کردیا اور عرق ریزی کی بہترین مثال قائم کردی۔ کتاب کا پہلا باب ''مہروماہ سے کم تر نہیں ہوں'' اس میں1825 تک کے حالات رقم ہیں غالب لکھتے ہیں کہ میں رجب1212ھ27دسمبر1797 کو اکبر آباد میں پیدا ہوا میں قوم کا ترک سلجوقی، اپنی اصل آفرینش میں اس گروہ کی نسل سے ہوں، جس کی خوش بختی کا سورج عرصہ ہوا ڈھل چکا ہے ،اپنے والد صاحب کے بارے میں بتاتے ہیں کہ 1799 کے آخر میں میرا چھوٹا بھائی یوسف علی بیگ خان پیدا ہوا ابھی پانچ برس کی عمر تھی کہ 1803 میں میرا باپ عبداﷲ بیگ خان عرف مرزا دولھا مہارائو راجا بختاور سنگھ بہادر کی رفاقت میں مارا گیا اور راج گڑھ میں دفن ہوا یوں شفیق باپ کا سایہ عاطفت میرے سر سے اٹھ گیا، سرکار سے میرے باپ کی تنخواہ میرے نام پر جاری ہوئی اور ایک گائوں ''تالڑا'' مجھ کو برائے دوام ملا گویا ادھر دودھ پینا چھوڑا ادھر راج کی روٹی کھائی۔

غالب کی زندگی حوادث کی آمجگاہ بن چکی تھی، اسی لیے ایک سانحے کے بعد دوسرا دکھ منہ اٹھائے چلا آتا زمانے کے غم ان کی شاعری میں ڈھل گئے ہیں۔

ہوں گرمی نشاطِ تصور سے نغمہ سنج

میں عندلیب گلشن ناآفریدہ ہوں

ایک اور شعر جس میں یاسیت کا گہرا رنگ نمایاں ہے:

نغمہ ہائے غم کو ہی اے دل غنیمت جانیے

بے صدا ہوجائے گا یہ ساز ہستی ایک دن

شعر و ادب کے بارے میں غالب یوں انکشاف کرتے ہیں ''بارہ برس کی عمر سے (میں)کاغذ نظم و نثر میں مانند اپنے نامہ اعمال کے سیاہ کررہا ہوں اور اس کا اظہار اپنی شاعری میں اس طرح کیا ہے:

ایک اہل درد نے سنسان جو دیکھا قفس

یوں کہا، آتی نہیں اب صدائے عندلیب

بال و پر دو چار دکھلاکر کہا صیاد نے

یہ نشانی رہ گئی ہے اب بجائے عندلیب

''آپ بیتی مرزا غالب '' میں دس حصے مختلف عنوانات کے تحت درج ہیں لیکن سب آپس میں مربوط، پڑھتے چلے جائیے اور غالب کی دلی کیفیت ، شکست و ریخت کا احساس اور زندگی کے نشیب و فراز سے آگہی ملتی جائے گی یہ ہی کمال ڈاکٹر صاحب کا ہے، ویسے بھی کسی اور پر اور وہ بھی نابغۂ روزگار ہستی کی آپ بیتی تحقیقی کاوش اور محنت و لگن کی مرہون منت ہے، غالب وظیفہ خوار، کتاب کا چھٹا باب ہے 1850 ۔1857(جمعرات 4 جولائی 1850) مجھے شہنشاہ کے دربار میں بلایا اور خلعت وخطاب و فرمان سے سرفراز کیا کل (اگر) کوتوال شہر نے مجھے بدمعاش اور سرغنہ لکھا تھا تو میرا کچھ نہ گھٹا تھا ، آج بادشاہ دہلی نے نجم الدولہ ، (نظامِ جنگ) اور دبیرالملک کا خطاب دیا ہے تو کچھ بڑھ نہیں گیا، اب فروا سے قیامت میں دیکھنا ہے کہ مجھے کیا لکھا جاتا ہے، کس کام سے پکارا جاتا ہے اور وہاں میری کیا ارزش ہوتی ہے۔ اس شعر میں یہ کیفیت نمایاں ہے:

غالب وظیفہ خوار ہو، دو شاہ کو دعا

وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں

15جولائی 1850کو ''اسعدالاخبار'' دہلی میں خبر شائع ہوئی کہ ان دنوں شاہ دیں پناہ نے جناب معلیٰ القاب، مرزا اسد اﷲ خان غالب بفرط عنایت اپنے حضور طلب کرکے ایک کتاب تواریخ کے لکھنے پر جو تیموریہ کے زمانے سے سلطنت حال تک ہو مامور کیا اور نجم الدولہ ، دبیر الملک ، اسد اﷲ خان بہادر نظام جنگ خطاب دے کر چھ پارچہ کا بیش بہا خلعت اور تین رتم جواہر عطا فرمائے، یقین ہے کہ تواریخ مذکور ایسی دلچسپ اور مثین عبارت میں لکھی جائے گی کہ ہر ایک اس کے لطیف عبارت سے فیض یاب ہوگا۔ اس تحریر میں مرزا غالب کی کامیابی کی چمک اور خوشیوں کی مہک جو پوشیدہ ہے اسے قاری محسوس کیے بنا نہیں رہ سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اپنے آپ کو حرماں نصیب کہنے میں بھی نہیں جھجکتے ہیں۔

غالب ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے

بیٹھے ہیں ہم تہیۂ طوفاں کیے ہوئے

''آپ بیتی مرزا غالب'' کی زندگی اور ان کے عہد کی بہترین عکاسی کرتی ہے۔ غالب کا رہن سہن ، مزاج کی سادگی ، لباس کی تراش خراش اور رنگوں کے انتخاب سے بھی پتہ چلتا ہے۔ زرین اور ریشمی لنگیاں انھیں پسند نہیں، رنگو ں میں کالا، اودا او دھاریاں، سیاہ اودی اور زرد انھیں بھاتی ہیں، آم انھیں مرغوب ہیں جس کا ذکر جا بجا ان کی تحریروں میں ملتا ہے۔ قلعے میں مشاعرے پڑھنے کے لیے بلائے جاتے ہیں۔ بہادر شاہ ظفر کا زمانہ ہے ، بادشاہ نے قلعہ میں مشاعرہ مقرر کیا ہے۔ فارسی کا ایک مصرعہ اور ریختہ کا ایک مصرعہ طرح کرتے ہیں۔

غالب بادہ خوار تھے نمازی بھی نہ تھے ، ان کے چاہنے والے خصوصاً ان کے شاگرد خاص حالی نے نماز کی طرف رغبت دلانے کی کوشش کی ہے۔ غالب کو اپنی عبادت سے خالی زیست پر بہت شرمساری ہے۔ لکھتے ہیں ساری عمر فسق و فجور میں گزری کبھی نماز پڑھی نہ روزہ رکھا لیکن انھیں حضور پاک ﷺ کا امتی ہونے کے نجاطے بڑی امیدیں ہیں:

بہت سہی غم گیتی، شراب کم کیا ہے

غلام ِساقی کوثر ہوں مجھ کو غم کیا ہے

اس کی امت میں ہوں میں میرے رکیں کیوں کام بند

واسطے جس شہ کے غالب گنبد ِ بے در کھلا

باب نمبر10 دم واپس برسر راہ ہے میں غالب کے وقت آخر کی تفصیل ملتی ہے ۔ ڈاکٹر خالد ندیم کی صبح و شام کی محنت ادب سے محبت ایسا رنگ لائی جو قاری کی روح کو بالیدگی بخشتا ہے اور ڈھیر ساری معلومات کے در وا کرتا ہے۔ کتاب سال رواں کا بہترین تحفہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں