قومی کھیل کی تنزلی کا سفر جاری
حکومت کے ساتھ اولمپیئنز بھی برابر کے قصوروار
پاکستان ہاکی ٹیم کا ایک کھلاڑی بتا رہا تھا کہ مجھ سمیت متعدد کھلاڑیوں کے مختلف انٹرنیشنل لیگز کے ساتھ لاکھوں روپے کے معاہدے تھے لیکن ہم نے پاکستان کے لئے ان پر سمجھوتہ کیا اور لیگز کا حصہ بننے کے بجائے پاکستانی کیمپ کو ترجیح دی۔
نیشنل ہاکی سٹیڈیم لاہور میں شیڈول کیمپ کے دوران ہمارے ساتھ جس طرح کا سلوک کیا گیا،اس کو سمجھنے کے لئے بصارت کی آنکھیں اور بصیرت کے قلب چاہیے، ایک ہی کمرے میں پندرہ، پندرہ کھلاڑیوں کو جانوروں کی طرح ٹھونس کرسردیوں کی ٹھنڈی اور ٹھٹھرتی راتوں میں ٹھنڈے فرش پر سلایا گیا، ہماری جیلوں میں قیدیوں کو ملنے والی دال روٹی سے بھی بدتر کھانا کھلایا گیا، بات یہی پر ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ ہمیں کوچز کے قہر کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
ہم نے یہ سب بھی اس ملک کی خاطر برداشت کیا تاہم اب پرو لیگ سے باہر ہونے کے بعد ہم ادھر کے رہے ہیں اور نہ ہی ادھر کے،مستقبل میں بھی گرین شرٹس کی کوئی انٹرنیشنل سیریز یا ایونٹس میں شرکت ہوتی نظر نہیں آتی،ہمیں عرصہ دراز سے طفل تسلیاں دی جا رہی ہیں کہ پاکستان ہاکی لیگ ان کی قسمت بدل کر رکھ دے گی لیکن یہ لیگ بھی ہوتی دکھائی نہیں دیتی، فرض کریں یہ لیگ شیڈول کے مطابق ہو بھی جاتی ہے تو اس میں انڈر24سال کے کھلاڑی ہی شریک ہو سکیں گے،اب جو 24 سال کے اوپر کے کھلاڑی ہیں، آخر ان کا کیا قصور ہے۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہاکی کو شاید اتنا نقصان کسی اور نے نہیں پہنچایا جتنا خود سابق اولمپئنز نے پہنچایا ہے،آخری بار پاکستان ٹیم نے آسٹریلوی سرزمین پر ورلڈ کپ1994ء جیت کر سبز ہلالی پرچم لہرایا تھا لیکن بڑے افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس عالمی کپ کا حصہ بننے والے زیادہ تر کھلاڑی ہی مختلف اوقات میں پاکستان ہاکی فیڈریشن اور ٹیم منیجمنٹ کے اعلی عہدوں پر فائز رہے ہیں،ان سابق اولمپئنز کی من مانیوں اور ناقص حکمت عملی کی وجہ سے نہ صرف قومی کھیل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے بلکہ اس کھیل سے وابستہ کھلاڑیوں کا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
گول کیپر قاسم کھیل کے دوران چھاتی پر گیند لگنے کی وجہ سے زخمی ہوا، بروقت مناسب علاج نہ ہونے کی وجہ سے مرض بگڑ کر کینسر کی شکل اختیار کر گیا اور وہ غربت اورمرض سے لڑتے لڑتے زندگی کی بازی ہار گیا، یہی صورت حال ماضی کے عظیم کھلاڑی منصور احمد کے ساتھ بھی رہی اور وہ بھی مناسب علاج ہونے کی امید لئے منوں مٹی کے نیچے دفن ہو گئے۔
اولمپئنز کی بڑی تعداد سمیت سینکڑوں انٹرنیشنل کھلاڑی پیدا کرنے والا گوجرہ کا استاد روڈا بھی مفلسی اور بے بسی کی حالت میں بیماری سے لڑنے کے بعد اس دار فانی سے رخصت ہو گیا۔اس جیسے نہ جانے اور کتنے کھلاڑی ہیں جو انٹرنیشنل ہاکی کو خیر باد کہنے کے بعد بیماری اور فاقوں سے تنگ آ کر دنیا کا یہ بھرا میلہ چھوڑ گئے۔
ان پلیئرزکا قصور صرف اور صرف اتنا تھا کہ انہوں نے اپنی جوانی قومی کھیل کی خدمت کرتے اور عالمی سطح پر سبز ہلالی پرچم لہراتے ہوئے گزاری، ان کا یا ان جیسے اور کھلاڑیوں کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے وزیروں، مشیروں، صنعتکاروں، جاگیرداروں اور بیوروکریٹوں کی خوشامدی اور چاپلوسی کر کے اپنے جائزو ناجائزکام نہ نکلوائے، کسی انقلاب مارچ ، آزادی مارچ یا انتخابی جلسے جلسوں میں شریک ہو کر سیاستدانوں کے حق میں نعرے نہیں لگائے۔
یہ سچ ہے کہ ہاکی غربیوں کا کھیل ہے، ماضی میں کسی دور دراز کے پسماندہ علاقے میں کسی غریب کے بچے کو ہاکی کھیلنے کی بنیاد پر سرکاری محکمے میں نوکری ملتی تھی تو آس پاس کے علاقوں میں دھوم مچ جاتی اور دوسرے بچوں میں بھی ہاکی پلیئر بننے کا نیا جوش وخروش پیدا ہوتا تھا۔ ماضی میں منیر ڈار، توقیر ڈار، خالد محمود، اختر رسول، رانا مجاہد علی، اصلاح الدین صدیقی، طاہر زمان، خواجہ جنید، شہباز سینئر، شہناز شیخ، منظور الحسن، منظور جونیئر، شاہد علی خان، دانش کلیم سمیت نہ جانے کتنے کھلاڑی ہیں جنہوں نے نہ صرف غربت سے امارت کا سفر طے کیا بلکہ اپنے کھیل سے پاکستان کو عالمی سطح پر ان گنت فتوحات بھی دلائیں۔
وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ ہاکی حکومت کی آنکھوں کا تارا تھی، عالمی ایونٹ سے قبل سربراہ مملکت کی جانب سے کھلاڑیوں کے اعزاز میں پروقار تقریب کا اہتمام کیا جاتا، بعد ازاں نیک تمناؤں کے ساتھ ٹیم کو رخصت کیا جاتا جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ ٹیم عالمی مقابلوں میں بھر پور اعتماد کے ساتھ میدان میں اترتی اور حریف ٹیموں کے چھکے چھڑاتے ہوئے ٹائٹل اپنے نام کرکے وطن واپس لوٹتی لیکن اب حکومت کی ترجیحات تک تبدیل ہو چکی ہیں اور حکمرانوں نے سپورٹس بالخصوص قومی کھیل کو یکسر نظر اندازکرتے ہوئے ایک کونے میں پھینک رکھا ہے۔
کہتے ہیں جب نیتوں میں کھوٹ ہوں تو نتائج بھی ویسے ہی ہوتے ہیں، دنیا بھر میں اپنے کھیل کے ذریعے سبز ہلالی پرچم لہرانے والی قومی ٹیم سے ایک ایک کر کے عالمی اعزازت چھنتے جا رہے ہیں اور اب عالم یہ ہے کہ سالہا سال سے شکستوں کے گرداب میں پھنسنے کے بعد پاکستانی ٹیم عالمی رینکنگ میں ابتدائی10 پوزیشنوں سے بھی باہر ہو گئی ہے، قومی کھیل کی مزید تنزلی کا سفر کہاں تک جاری رہتا ہے، اس کا ہمیں اور آپ کو انتظار رہے گا۔
نیشنل ہاکی سٹیڈیم لاہور میں شیڈول کیمپ کے دوران ہمارے ساتھ جس طرح کا سلوک کیا گیا،اس کو سمجھنے کے لئے بصارت کی آنکھیں اور بصیرت کے قلب چاہیے، ایک ہی کمرے میں پندرہ، پندرہ کھلاڑیوں کو جانوروں کی طرح ٹھونس کرسردیوں کی ٹھنڈی اور ٹھٹھرتی راتوں میں ٹھنڈے فرش پر سلایا گیا، ہماری جیلوں میں قیدیوں کو ملنے والی دال روٹی سے بھی بدتر کھانا کھلایا گیا، بات یہی پر ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ ہمیں کوچز کے قہر کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
ہم نے یہ سب بھی اس ملک کی خاطر برداشت کیا تاہم اب پرو لیگ سے باہر ہونے کے بعد ہم ادھر کے رہے ہیں اور نہ ہی ادھر کے،مستقبل میں بھی گرین شرٹس کی کوئی انٹرنیشنل سیریز یا ایونٹس میں شرکت ہوتی نظر نہیں آتی،ہمیں عرصہ دراز سے طفل تسلیاں دی جا رہی ہیں کہ پاکستان ہاکی لیگ ان کی قسمت بدل کر رکھ دے گی لیکن یہ لیگ بھی ہوتی دکھائی نہیں دیتی، فرض کریں یہ لیگ شیڈول کے مطابق ہو بھی جاتی ہے تو اس میں انڈر24سال کے کھلاڑی ہی شریک ہو سکیں گے،اب جو 24 سال کے اوپر کے کھلاڑی ہیں، آخر ان کا کیا قصور ہے۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہاکی کو شاید اتنا نقصان کسی اور نے نہیں پہنچایا جتنا خود سابق اولمپئنز نے پہنچایا ہے،آخری بار پاکستان ٹیم نے آسٹریلوی سرزمین پر ورلڈ کپ1994ء جیت کر سبز ہلالی پرچم لہرایا تھا لیکن بڑے افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس عالمی کپ کا حصہ بننے والے زیادہ تر کھلاڑی ہی مختلف اوقات میں پاکستان ہاکی فیڈریشن اور ٹیم منیجمنٹ کے اعلی عہدوں پر فائز رہے ہیں،ان سابق اولمپئنز کی من مانیوں اور ناقص حکمت عملی کی وجہ سے نہ صرف قومی کھیل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے بلکہ اس کھیل سے وابستہ کھلاڑیوں کا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
گول کیپر قاسم کھیل کے دوران چھاتی پر گیند لگنے کی وجہ سے زخمی ہوا، بروقت مناسب علاج نہ ہونے کی وجہ سے مرض بگڑ کر کینسر کی شکل اختیار کر گیا اور وہ غربت اورمرض سے لڑتے لڑتے زندگی کی بازی ہار گیا، یہی صورت حال ماضی کے عظیم کھلاڑی منصور احمد کے ساتھ بھی رہی اور وہ بھی مناسب علاج ہونے کی امید لئے منوں مٹی کے نیچے دفن ہو گئے۔
اولمپئنز کی بڑی تعداد سمیت سینکڑوں انٹرنیشنل کھلاڑی پیدا کرنے والا گوجرہ کا استاد روڈا بھی مفلسی اور بے بسی کی حالت میں بیماری سے لڑنے کے بعد اس دار فانی سے رخصت ہو گیا۔اس جیسے نہ جانے اور کتنے کھلاڑی ہیں جو انٹرنیشنل ہاکی کو خیر باد کہنے کے بعد بیماری اور فاقوں سے تنگ آ کر دنیا کا یہ بھرا میلہ چھوڑ گئے۔
ان پلیئرزکا قصور صرف اور صرف اتنا تھا کہ انہوں نے اپنی جوانی قومی کھیل کی خدمت کرتے اور عالمی سطح پر سبز ہلالی پرچم لہراتے ہوئے گزاری، ان کا یا ان جیسے اور کھلاڑیوں کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے وزیروں، مشیروں، صنعتکاروں، جاگیرداروں اور بیوروکریٹوں کی خوشامدی اور چاپلوسی کر کے اپنے جائزو ناجائزکام نہ نکلوائے، کسی انقلاب مارچ ، آزادی مارچ یا انتخابی جلسے جلسوں میں شریک ہو کر سیاستدانوں کے حق میں نعرے نہیں لگائے۔
یہ سچ ہے کہ ہاکی غربیوں کا کھیل ہے، ماضی میں کسی دور دراز کے پسماندہ علاقے میں کسی غریب کے بچے کو ہاکی کھیلنے کی بنیاد پر سرکاری محکمے میں نوکری ملتی تھی تو آس پاس کے علاقوں میں دھوم مچ جاتی اور دوسرے بچوں میں بھی ہاکی پلیئر بننے کا نیا جوش وخروش پیدا ہوتا تھا۔ ماضی میں منیر ڈار، توقیر ڈار، خالد محمود، اختر رسول، رانا مجاہد علی، اصلاح الدین صدیقی، طاہر زمان، خواجہ جنید، شہباز سینئر، شہناز شیخ، منظور الحسن، منظور جونیئر، شاہد علی خان، دانش کلیم سمیت نہ جانے کتنے کھلاڑی ہیں جنہوں نے نہ صرف غربت سے امارت کا سفر طے کیا بلکہ اپنے کھیل سے پاکستان کو عالمی سطح پر ان گنت فتوحات بھی دلائیں۔
وجہ صرف اور صرف یہ تھی کہ ہاکی حکومت کی آنکھوں کا تارا تھی، عالمی ایونٹ سے قبل سربراہ مملکت کی جانب سے کھلاڑیوں کے اعزاز میں پروقار تقریب کا اہتمام کیا جاتا، بعد ازاں نیک تمناؤں کے ساتھ ٹیم کو رخصت کیا جاتا جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ ٹیم عالمی مقابلوں میں بھر پور اعتماد کے ساتھ میدان میں اترتی اور حریف ٹیموں کے چھکے چھڑاتے ہوئے ٹائٹل اپنے نام کرکے وطن واپس لوٹتی لیکن اب حکومت کی ترجیحات تک تبدیل ہو چکی ہیں اور حکمرانوں نے سپورٹس بالخصوص قومی کھیل کو یکسر نظر اندازکرتے ہوئے ایک کونے میں پھینک رکھا ہے۔
کہتے ہیں جب نیتوں میں کھوٹ ہوں تو نتائج بھی ویسے ہی ہوتے ہیں، دنیا بھر میں اپنے کھیل کے ذریعے سبز ہلالی پرچم لہرانے والی قومی ٹیم سے ایک ایک کر کے عالمی اعزازت چھنتے جا رہے ہیں اور اب عالم یہ ہے کہ سالہا سال سے شکستوں کے گرداب میں پھنسنے کے بعد پاکستانی ٹیم عالمی رینکنگ میں ابتدائی10 پوزیشنوں سے بھی باہر ہو گئی ہے، قومی کھیل کی مزید تنزلی کا سفر کہاں تک جاری رہتا ہے، اس کا ہمیں اور آپ کو انتظار رہے گا۔