سارے رنگ
اپنی گفتار میں ’’میں میں‘‘ کرنا بھی ’میلے پن‘ سے کافی قریب قرار دیا جاتا ہے۔
ذکر کچھ ادبی ''میلوں'' کا۔۔۔
یہ بات ہی کتنی 'بے ادب' سی لگتی ہے کہ 'ادب' جیسے 'مؤدب' شعبے میں بھی ''میلوں'' کی بات کی جائے۔۔۔ مگر کیا کیجیے معاملہ ہے ہی کچھ ایسا۔۔۔ گزشتہ دنوں ایک صاحب اس پر برہم دکھائی دیے کہ آخر علمی تقاریب میں ''میلوں'' کو بلایا ہی کیوں جاتا ہے، ہم نے کہا جب داخلہ عوامی ہو تو پھر کسی بھی 'ایلے میلے' پر قدغن لگانا تو ممکن نہیں، الاّ یہ کہ اس کا ناتہ کسی طرح ''لندن'' سے نہ جوڑ دیا جائے۔۔۔! انہوں نے وضاحت کی کہ دراصل وہ 'منچ' پر بلائے جانے والے ''میلوں'' کی بات کر رہے ہیں۔ ہم نے کہا ہو سکتا ہے کہ تقریب کے منتظمین تقریب کا 'میل' نکالنے کے واسطے بلاتے ہوں۔۔۔ یا ممکن اُن کی خواہش ہو کہ سماج میں 'میلوں' کے 'دلوں کا میل' نکل کر اچھی طرح آشکار ہو۔۔۔ خود سوچیے کہ اگر وہ اپنے الفاظ ظاہر نہ کریں تو 'میلے پن' کا تعین کس قدر مشکل ہو جائے ناں۔
ایک خیال یہ بھی ہے کہ ادبی تقاریب سے 'ادبی میلوں ٹھیلوں' تک ان ''میلوں'' کو دراصل 'دھونے' کے واسطے بلایا جاتا ہے اور بار بار بلانے کا سبب یہ ہت کہ اُن کا 'میلا پن' کوئی 'ایک دھلائی' میں نمٹنے والا نہیں۔۔۔! تب ہی ایک 'میلے' (ہ والے) میں 'میلے' (الف والا) کے مطابق 'سب برا' اگلے برس اُسی 'میلے' (ہ والے) میں 'سب اچھا' ہو جاتا ہے! لیکن صاحب، سب سے اچھا ایک کام ہوتا ہے کہ ''میلا'' اچھی طرح 'میلا' ہو جاتا ہے۔۔۔!
اپنی گفتار میں ''میں میں'' کرنا بھی 'میلے پن' سے کافی قریب قرار دیا جاتا ہے، جب کہ بہت سے وضع داروں کے ہاں تو یہ مسلّمہ ''میلا پن'' ہے۔۔۔ جب کہ امرجلیل کی درویش سوچ تو یہ ہے کہ وہ آئینہ تک دیکھنے کے روادار نہیں۔۔۔!
کچھ لوگ 'میلے میں بھی اکیلے' ہوتے ہیں، لیکن ''میلا'' کسی 'میلے' میں اکیلا نہیں ہوتا، وہ ہمیشہ اپنے میل (کچیل) کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ادبی ''میلوں'' نے دراصل ''صحافتی میلوں'' کی راہ چنی۔۔۔ یعنی ''جس ''کھیت'' سے میسر نہ ہو 'میلوں' کو ''بوٹی''۔۔۔ اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو۔۔۔!'' سو اپنے قول وفعل سے 'جلانے' کا یہ فریضہ اس وقت تک انجام پاتا ہے، تاوقتے کہ ''بوٹی'' میسر نہ ہو جاوے۔۔۔!
تعلیمی اداروں میں استاد جیسے مقدس پیشے میں بھی کسی ''میلے'' کا تصور کیا جا سکتا تھا۔۔۔ لیکن وہ موجود ہیں۔ دروغ برگردن راوی ایسے ہی ایک ''میلے'' پر اپنی طالبہ کو 'تنگ' کرنے کا الزام لگا۔۔۔ 'ناقص ذرایع' کے مطابق 'وہ' (میلے) اپنی ''صفائی'' میں کہہ رہے تھے کہ طالبہ نے تو خود کہا تھا کہ ''میں پاس ہونا چاہتی ہوں۔۔۔'' جب کہ موصوف تو کتنے دنوں سے (طالبہ کے) 'پاس' ہونے کی تمنا لیے بیٹھے تھے، چناں چہ انہوں نے کہا کہ ''ارے ضرور، ضرور! آپ کیا وہ تو میں بھی ہونا چاہتا ہوں۔۔۔!'' بس ہوگئے 'پاس'۔۔۔!'
جیسے 'صفائی' کی ضرورت ازل سے ہے، ایسے ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ ادب وصحافت سے سیاست، تجارت اور معاشرت کے ہر میدان تک میں ''میلے'' موجود ہیں۔ یہ 'میلاپن' خاص تربیت، مخصوص ذہنیت، ماحول اور نفسیات کی دین ہوتا ہے، اسے ٹھیک کرنا ہمارے اب تک کے تجربے کے مطابق تو قریب قریب ناممکن ہی رہا ہے۔۔۔ اگر آپ کوئی طریقہ جانتے ہوں تو ہمیں ضرور بتائیے!
خود نوشت کا خانہ کون سا۔۔۔؟
مشتاق احمد یوسفی
لندن میں اس راندۂ زرگاہ پر کیا گزری اور کیسے کیسے باب ہائے خرد افروہوئے، یہ ایک الگ داستان ہے، جس میں کچھ ایسے پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں، جو صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں۔ اسے ان شا اللہ جلد ایک علاحدہ کتاب کی شکل میں پیش کروں گا۔ امر واقع یہ کہ ''زرگزشت'' کی اشاعت کے بعد ارادہ تھا کہ کوچہ سود خوراں میں اپنی خواری کی داستان آخری باب میں جہاں ختم ہوئی ہے، وہیں سے دوسری جلد کا آغاز کروں گا، لیکن درمیان میں لندن، ایک اور بینک، ریڑھ کی ہڈی کی تکلیف اور ''آب گم'' آپڑے۔ کچھ اندیشہ ہائے دور و دراز بھی ستانے لگے۔ مثلاً یہی کہ میرے ہم پیشہ وہ ہم مشرب و ہم راز یہ نہ سمجھیں کہ بینکنگ کیریئر تو محض ایک کیمو فلاژ اور بہانہ تھا۔ دراصل یکم جنوری 1950ء یعنی ملازمت کے روز اول ہی سے میری نیت میں فتور تھا۔ محض مزاح نگاری اور خودنوشت کے لیے سوانح اکٹھے کرنے کی غرض سے فقیر اس حرام پیشے سے وابستہ ہوا (وہ بھی کیا زمانہ تھا جب حرام پیسے کی صرف ایک ہی شکل ہوا کرتی تھی، سود) دوسری حوصلہ شکن الجھن جو زرگزشت حصہ دوم کی تصنیف میں مانع ہوئی، یہ تھی کہ یہ اردو فکشن ناموں کی شکل میں۔ افسانے اور ناول کی گَرد کو نہیں پہنچتے۔ افسوس، میرے یہاں سوانح کا اتنا فقدان ہے کہ تادم تحریر زندگی کا سب سے اہم واقعہ میری پیدایش ہے (بچپن کا سب سے زیادہ قابل ذکر واقعہ یہ تھا کہ میں بڑا ہو گیا) اور غالباً آپ بھی مجھ سے متفق ہوں گے کہ اس پر میں کوئی تین ایکٹ کا سنسنی خیز ڈراما نہیں لکھ سکتا۔ تیسرا سبب خامہ خود بین وخود آرا کو روکے رکھنے کا یہ کہ اس اثنا میں لارڈ کونٹن کے تاثرات نظر سے گزرے۔ وہ ٹرینٹی کالج، آکسفورڈ کا صدر اور بورڈ آف برٹش لائبریری کا چیئرمین ہے۔ علمی وادبی حلقوں میں عزت وتوقیر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کی ذاتی کتب خانے می بیس ہزار سے زائد کتابیں ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ میں خود نوشت سوانح عمری کو سوانح عمری کے ساتھ کبھی نہیں رکھتا، مزاح کی الماری میں رکھتا ہوں۔ عاجز اس ذہانت پر ہفتوں اَش اَش کرتا رہا کہ اس کی خود نوشت سوانح نو عمری زرگزشت پڑھے بغیر وہ زیر اس نتیجے پر کیسے پہنچ گیا۔ ابھی اگلی ظرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں۔
(تصنیف ''آب گم'' کا ایک روق)
اچھی صحت کا راز
حکیم محمد سعید
میری اچھی صحت کا راز یہ ہے کہ میں انتقام نہیں لیتا، اس لیے ہر نفرت سے محفوظ ہوں اور میرا دل ہر کدورت سے پاک ہے۔ انتقام اور نفرت کا کوئی شعلہ میرے دل میں نہیں بھڑکتا۔ وہ جو کہ میرے متفقین نہیں ہیں، میں ان کے لیے اچھا ئیاں کرتا ہوں ۔ ان کا احترام کرتا ہوں۔ ان سے محبت کرتا ہوں۔ کراچی کے ایک وائس چانسلر نے میرے اور میرے تعلیمی اداروں کے خلاف ایک بار بات کی۔ میں نے ان کو خط لکھا: ''مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ اپنی نیکیاں میرے نامہ اعمال میں تحریر کر دی ہیں۔ شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ کی خدمت میں شیرینی بھجواتا ہوں، قبول فرمائیے گا۔۔۔''
میری اچھی صحت کا راز یہ بھی ہے کہ میں وقت کو اللہ تعالیٰ کی نعمت سمجھتا ہوں اور امانت کا درجہ دیتا ہوں۔ وقت کے صحیح استعمال کو دیانت قرار دیتا ہوں اور اس کے غلط استعمال کو خیانت سمجھتا ہوں۔ میرے لیے یہ سب سے بڑی طمانیت ہے، جو مجھے صحت مند رکھتی ہے۔
ایک اور راز یہ ہے کہ میں زندہ رہنے کے لیے کھاتا ہوں اور کھانے کے لیے زندہ رہنا توہین انسانیت سمجھتا ہوں۔ اعتدال، غذا، کم خوری میرا صحت مند مزاج ہے۔ الحمدللہ!
(کتاب ''روبرو'' سے ماخوذ)
گنج ہائے گراں مایہ
مبشر علی زیدی
ہم شیطان کو کنکریاں مار کے واپس آئے تو منیٰ کے خیموں کے باہر بے شمار حاجی سر جھکائے بیٹھے تھے۔ بے شمار نائی اُسترا اٹھائے کھڑے تھے۔ مجھے اپنے بالوں سے بہت پیار تھا۔ گھنے بال بھری جوانی میں سفید ہو گئے، لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔
جن لوگوں کی چندیا پر بال کم ہیں، ان سے پوچھیں۔ کالے، سفید، نیلے، پیلے، گلابی، عنابی، ہر طرح کے بال انہیں قبول ہوتے ہیں۔ شرط صرف اتنی ہوتی ہے کہ ان کے سر پر اْگ جائیں۔ مفت میں اْگ آئیں یا لاکھوں روپے دے کر اْگوائے جائیں، یہ بال حاجیوں کو عیدالاضحیٰ پر قربان کرنے پڑتے ہیں۔
میں نے سنا ہے کہ کچھ حساس لوگ یہی بال بچانے کے لیے حج پر نہیں جاتے۔ مجھے اپنے بالوں سے پیار تو تھا، لیکن وہ دوسروں کو بھی پیارے ہوں گے، یہ نہیں پتا تھا۔ مولانا صاحب نے ایک درس میں دوسرے حاجیوں کو بال اُتروانے پر راضی کرنے کے لیے پتا ہے کیا کہا؟
''دیکھیں مبشر صاحب کو، ہمارے گروپ میں سب سے خوب صورت بال ان کے ہیں، لیکن یہ بھی خدا کو خوش کرنے کے لیے ان کی قربانی دے دیں گے۔''
خدا خوش ہوا یا نہیں، خدا جانے لیکن بالوں کی قربانی دے دی گئی۔ بالوں اور ٹوپیوں سے محروم متعدد سنڈے مسٹنڈے، انڈے اور ٹنڈے اپنے گروپ کے خیمے میں پہنچے تو عجیب حال ہوا۔ مولانا صاحب تسبیح پڑھتے پڑھتے رک گئے۔ آغا صاحب کے حلق سے ایک ہنستی مسکراتی چیخ نکلی۔ مرزا صاحب کو پانی پیتے پیتے پھندا لگ گیا۔
لیکن خواتین کے قہقہوں نے تازہ تازہ چھلے چھلائے معصوم نوجوانوں کو عرق آلود کر دیا۔ چمکتی ہوئی آنکھوں والی ایک صاحبہ ضبط نہ کرسکیں۔ ان کے منہ سے بے اختیار نکلا، ''گنجو پٹیل، گنجو پٹیل۔''
چمکتے ہوئے سر والے ان کے شوہر کے منہ سے بے اختیار نکلا، ''مسز گنجو پٹیل، مسز گنجو پٹیل۔''
مولانا صاحب تسبیح پڑھنا بھول گئے۔ آغا صاحب کے حلق میں ہنستی مسکراتی چیخ پھنس گئی۔ مرزا صاحب کو پانی پیتے پیتے پھر پھندا لگ گیا۔ اس کے بعد کسی بھلے آدمی نے کسی دوسرے بھلے آدمی کو گنجا نہیں کہا۔ کراچی واپسی تک کسی خاتون کا قہقہہ بھی سنائی نہیں دیا۔
''بابا شوکت علی۔۔۔!''
عبدالمجید سالک
جس دن سے مولانا شوکت علی نے نہرو رپورٹ کی مخالفت شروع کی ہے۔ ''پرتاپ'' اور ''ملاپ'' نے انہیں ''بابا شوکت علی'' لکھ رہے ہیں۔ خدا جانے اس تبدیلی لقب کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟ غالباً بابا لکھ کر یہ لوگ مولانا شوکت علی کی تذلیل کرنا چاہتے ہیں، لیکن خدا کی قدرت دیکھیے کہ دشمن تذلیل کی کوشش کرتا ہے اور مولانا ''بابا'' بن جاتے ہیں۔ یہ لفظ پنجاب میں باپ اور دادا اور علی العوم سن رسیدہ بزرگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً بابا نانک، بابا گوردت سنگھ۔ اب سوال یہ ہے کہ ہندو اخبارات شوکت علی کو ''بابا'' لکھ کر ان کی کہن سالی کا مضحکہ اڑانا چاہتے ہیں یا انہیں اپنا باپ تسلیم کر رہے ہیں؟ اگر یہ کہن سالی کا مضحکہ ہے تو ان اخباروں کے مدیروں کو پہلے اپنے بزرگوں کی صورتیں دیکھ لینی چاہییں۔ آخر وہ بھی تو سن رسیدہ ہی ہوں گے اور اگر وہ مولانا کو باپ کہہ رہے ہیں تو پھر یہ کہاں کی سعادت مندی ہے کہ اپنے باپ کو روزمرہ گالیاں دی جائیں؟ بازی بازی باریش ہم بازی۔۔۔
(از ''افکار وحوادث'' مرتبہ: محمد حمزہ فاروقی، ایک ٹکڑا جو 8 دسمبر 1928ء کو شایع ہوا)
صد لفظی کتھا
ٹھوکر
رضوان طاہر مبین
''سب تمہیں پانے کو دوڑتے ہیں۔۔۔
ہر کوئی تمہیں دیر تک اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے۔۔۔
لیکن جو بھی تمہیں پاتا ہے، اس کا مقصد صرف تمہیں ایک ٹھوکر مارنا ہوتا ہے۔۔۔!
میں نے کہا۔
''ٹھوکر بھی تو وہی برتر ہوتی ہے، جس پر میں ہوں!'' وہ بولی۔
''لیکن کوئی بھی تمہیں پانا نہیں چاہتا۔۔۔؟''
میں نے پوچھا۔
''اس کا ایک اور پہلو بھی تو ہے۔۔۔؟'' اُس نے بھی سوال کیا۔
''وہ کیا؟'' مجھے تعجّب ہوا۔
''جب مجھے ٹھوکریں لگ رہی ہوتی ہیں، تو میں مرکزِ نگاہ ہوتی ہوں، ورنہ مجھے دیکھتا ہی کون ہے!''
فٹبال نے جواب دیا۔
یہ بات ہی کتنی 'بے ادب' سی لگتی ہے کہ 'ادب' جیسے 'مؤدب' شعبے میں بھی ''میلوں'' کی بات کی جائے۔۔۔ مگر کیا کیجیے معاملہ ہے ہی کچھ ایسا۔۔۔ گزشتہ دنوں ایک صاحب اس پر برہم دکھائی دیے کہ آخر علمی تقاریب میں ''میلوں'' کو بلایا ہی کیوں جاتا ہے، ہم نے کہا جب داخلہ عوامی ہو تو پھر کسی بھی 'ایلے میلے' پر قدغن لگانا تو ممکن نہیں، الاّ یہ کہ اس کا ناتہ کسی طرح ''لندن'' سے نہ جوڑ دیا جائے۔۔۔! انہوں نے وضاحت کی کہ دراصل وہ 'منچ' پر بلائے جانے والے ''میلوں'' کی بات کر رہے ہیں۔ ہم نے کہا ہو سکتا ہے کہ تقریب کے منتظمین تقریب کا 'میل' نکالنے کے واسطے بلاتے ہوں۔۔۔ یا ممکن اُن کی خواہش ہو کہ سماج میں 'میلوں' کے 'دلوں کا میل' نکل کر اچھی طرح آشکار ہو۔۔۔ خود سوچیے کہ اگر وہ اپنے الفاظ ظاہر نہ کریں تو 'میلے پن' کا تعین کس قدر مشکل ہو جائے ناں۔
ایک خیال یہ بھی ہے کہ ادبی تقاریب سے 'ادبی میلوں ٹھیلوں' تک ان ''میلوں'' کو دراصل 'دھونے' کے واسطے بلایا جاتا ہے اور بار بار بلانے کا سبب یہ ہت کہ اُن کا 'میلا پن' کوئی 'ایک دھلائی' میں نمٹنے والا نہیں۔۔۔! تب ہی ایک 'میلے' (ہ والے) میں 'میلے' (الف والا) کے مطابق 'سب برا' اگلے برس اُسی 'میلے' (ہ والے) میں 'سب اچھا' ہو جاتا ہے! لیکن صاحب، سب سے اچھا ایک کام ہوتا ہے کہ ''میلا'' اچھی طرح 'میلا' ہو جاتا ہے۔۔۔!
اپنی گفتار میں ''میں میں'' کرنا بھی 'میلے پن' سے کافی قریب قرار دیا جاتا ہے، جب کہ بہت سے وضع داروں کے ہاں تو یہ مسلّمہ ''میلا پن'' ہے۔۔۔ جب کہ امرجلیل کی درویش سوچ تو یہ ہے کہ وہ آئینہ تک دیکھنے کے روادار نہیں۔۔۔!
کچھ لوگ 'میلے میں بھی اکیلے' ہوتے ہیں، لیکن ''میلا'' کسی 'میلے' میں اکیلا نہیں ہوتا، وہ ہمیشہ اپنے میل (کچیل) کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ ادبی ''میلوں'' نے دراصل ''صحافتی میلوں'' کی راہ چنی۔۔۔ یعنی ''جس ''کھیت'' سے میسر نہ ہو 'میلوں' کو ''بوٹی''۔۔۔ اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو۔۔۔!'' سو اپنے قول وفعل سے 'جلانے' کا یہ فریضہ اس وقت تک انجام پاتا ہے، تاوقتے کہ ''بوٹی'' میسر نہ ہو جاوے۔۔۔!
تعلیمی اداروں میں استاد جیسے مقدس پیشے میں بھی کسی ''میلے'' کا تصور کیا جا سکتا تھا۔۔۔ لیکن وہ موجود ہیں۔ دروغ برگردن راوی ایسے ہی ایک ''میلے'' پر اپنی طالبہ کو 'تنگ' کرنے کا الزام لگا۔۔۔ 'ناقص ذرایع' کے مطابق 'وہ' (میلے) اپنی ''صفائی'' میں کہہ رہے تھے کہ طالبہ نے تو خود کہا تھا کہ ''میں پاس ہونا چاہتی ہوں۔۔۔'' جب کہ موصوف تو کتنے دنوں سے (طالبہ کے) 'پاس' ہونے کی تمنا لیے بیٹھے تھے، چناں چہ انہوں نے کہا کہ ''ارے ضرور، ضرور! آپ کیا وہ تو میں بھی ہونا چاہتا ہوں۔۔۔!'' بس ہوگئے 'پاس'۔۔۔!'
جیسے 'صفائی' کی ضرورت ازل سے ہے، ایسے ہمیں یہ مان لینا چاہیے کہ ادب وصحافت سے سیاست، تجارت اور معاشرت کے ہر میدان تک میں ''میلے'' موجود ہیں۔ یہ 'میلاپن' خاص تربیت، مخصوص ذہنیت، ماحول اور نفسیات کی دین ہوتا ہے، اسے ٹھیک کرنا ہمارے اب تک کے تجربے کے مطابق تو قریب قریب ناممکن ہی رہا ہے۔۔۔ اگر آپ کوئی طریقہ جانتے ہوں تو ہمیں ضرور بتائیے!
خود نوشت کا خانہ کون سا۔۔۔؟
مشتاق احمد یوسفی
لندن میں اس راندۂ زرگاہ پر کیا گزری اور کیسے کیسے باب ہائے خرد افروہوئے، یہ ایک الگ داستان ہے، جس میں کچھ ایسے پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں، جو صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں۔ اسے ان شا اللہ جلد ایک علاحدہ کتاب کی شکل میں پیش کروں گا۔ امر واقع یہ کہ ''زرگزشت'' کی اشاعت کے بعد ارادہ تھا کہ کوچہ سود خوراں میں اپنی خواری کی داستان آخری باب میں جہاں ختم ہوئی ہے، وہیں سے دوسری جلد کا آغاز کروں گا، لیکن درمیان میں لندن، ایک اور بینک، ریڑھ کی ہڈی کی تکلیف اور ''آب گم'' آپڑے۔ کچھ اندیشہ ہائے دور و دراز بھی ستانے لگے۔ مثلاً یہی کہ میرے ہم پیشہ وہ ہم مشرب و ہم راز یہ نہ سمجھیں کہ بینکنگ کیریئر تو محض ایک کیمو فلاژ اور بہانہ تھا۔ دراصل یکم جنوری 1950ء یعنی ملازمت کے روز اول ہی سے میری نیت میں فتور تھا۔ محض مزاح نگاری اور خودنوشت کے لیے سوانح اکٹھے کرنے کی غرض سے فقیر اس حرام پیشے سے وابستہ ہوا (وہ بھی کیا زمانہ تھا جب حرام پیسے کی صرف ایک ہی شکل ہوا کرتی تھی، سود) دوسری حوصلہ شکن الجھن جو زرگزشت حصہ دوم کی تصنیف میں مانع ہوئی، یہ تھی کہ یہ اردو فکشن ناموں کی شکل میں۔ افسانے اور ناول کی گَرد کو نہیں پہنچتے۔ افسوس، میرے یہاں سوانح کا اتنا فقدان ہے کہ تادم تحریر زندگی کا سب سے اہم واقعہ میری پیدایش ہے (بچپن کا سب سے زیادہ قابل ذکر واقعہ یہ تھا کہ میں بڑا ہو گیا) اور غالباً آپ بھی مجھ سے متفق ہوں گے کہ اس پر میں کوئی تین ایکٹ کا سنسنی خیز ڈراما نہیں لکھ سکتا۔ تیسرا سبب خامہ خود بین وخود آرا کو روکے رکھنے کا یہ کہ اس اثنا میں لارڈ کونٹن کے تاثرات نظر سے گزرے۔ وہ ٹرینٹی کالج، آکسفورڈ کا صدر اور بورڈ آف برٹش لائبریری کا چیئرمین ہے۔ علمی وادبی حلقوں میں عزت وتوقیر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کی ذاتی کتب خانے می بیس ہزار سے زائد کتابیں ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ میں خود نوشت سوانح عمری کو سوانح عمری کے ساتھ کبھی نہیں رکھتا، مزاح کی الماری میں رکھتا ہوں۔ عاجز اس ذہانت پر ہفتوں اَش اَش کرتا رہا کہ اس کی خود نوشت سوانح نو عمری زرگزشت پڑھے بغیر وہ زیر اس نتیجے پر کیسے پہنچ گیا۔ ابھی اگلی ظرافت کے نمونے پائے جاتے ہیں۔
(تصنیف ''آب گم'' کا ایک روق)
اچھی صحت کا راز
حکیم محمد سعید
میری اچھی صحت کا راز یہ ہے کہ میں انتقام نہیں لیتا، اس لیے ہر نفرت سے محفوظ ہوں اور میرا دل ہر کدورت سے پاک ہے۔ انتقام اور نفرت کا کوئی شعلہ میرے دل میں نہیں بھڑکتا۔ وہ جو کہ میرے متفقین نہیں ہیں، میں ان کے لیے اچھا ئیاں کرتا ہوں ۔ ان کا احترام کرتا ہوں۔ ان سے محبت کرتا ہوں۔ کراچی کے ایک وائس چانسلر نے میرے اور میرے تعلیمی اداروں کے خلاف ایک بار بات کی۔ میں نے ان کو خط لکھا: ''مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ اپنی نیکیاں میرے نامہ اعمال میں تحریر کر دی ہیں۔ شکریہ ادا کرتا ہوں اور آپ کی خدمت میں شیرینی بھجواتا ہوں، قبول فرمائیے گا۔۔۔''
میری اچھی صحت کا راز یہ بھی ہے کہ میں وقت کو اللہ تعالیٰ کی نعمت سمجھتا ہوں اور امانت کا درجہ دیتا ہوں۔ وقت کے صحیح استعمال کو دیانت قرار دیتا ہوں اور اس کے غلط استعمال کو خیانت سمجھتا ہوں۔ میرے لیے یہ سب سے بڑی طمانیت ہے، جو مجھے صحت مند رکھتی ہے۔
ایک اور راز یہ ہے کہ میں زندہ رہنے کے لیے کھاتا ہوں اور کھانے کے لیے زندہ رہنا توہین انسانیت سمجھتا ہوں۔ اعتدال، غذا، کم خوری میرا صحت مند مزاج ہے۔ الحمدللہ!
(کتاب ''روبرو'' سے ماخوذ)
گنج ہائے گراں مایہ
مبشر علی زیدی
ہم شیطان کو کنکریاں مار کے واپس آئے تو منیٰ کے خیموں کے باہر بے شمار حاجی سر جھکائے بیٹھے تھے۔ بے شمار نائی اُسترا اٹھائے کھڑے تھے۔ مجھے اپنے بالوں سے بہت پیار تھا۔ گھنے بال بھری جوانی میں سفید ہو گئے، لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔
جن لوگوں کی چندیا پر بال کم ہیں، ان سے پوچھیں۔ کالے، سفید، نیلے، پیلے، گلابی، عنابی، ہر طرح کے بال انہیں قبول ہوتے ہیں۔ شرط صرف اتنی ہوتی ہے کہ ان کے سر پر اْگ جائیں۔ مفت میں اْگ آئیں یا لاکھوں روپے دے کر اْگوائے جائیں، یہ بال حاجیوں کو عیدالاضحیٰ پر قربان کرنے پڑتے ہیں۔
میں نے سنا ہے کہ کچھ حساس لوگ یہی بال بچانے کے لیے حج پر نہیں جاتے۔ مجھے اپنے بالوں سے پیار تو تھا، لیکن وہ دوسروں کو بھی پیارے ہوں گے، یہ نہیں پتا تھا۔ مولانا صاحب نے ایک درس میں دوسرے حاجیوں کو بال اُتروانے پر راضی کرنے کے لیے پتا ہے کیا کہا؟
''دیکھیں مبشر صاحب کو، ہمارے گروپ میں سب سے خوب صورت بال ان کے ہیں، لیکن یہ بھی خدا کو خوش کرنے کے لیے ان کی قربانی دے دیں گے۔''
خدا خوش ہوا یا نہیں، خدا جانے لیکن بالوں کی قربانی دے دی گئی۔ بالوں اور ٹوپیوں سے محروم متعدد سنڈے مسٹنڈے، انڈے اور ٹنڈے اپنے گروپ کے خیمے میں پہنچے تو عجیب حال ہوا۔ مولانا صاحب تسبیح پڑھتے پڑھتے رک گئے۔ آغا صاحب کے حلق سے ایک ہنستی مسکراتی چیخ نکلی۔ مرزا صاحب کو پانی پیتے پیتے پھندا لگ گیا۔
لیکن خواتین کے قہقہوں نے تازہ تازہ چھلے چھلائے معصوم نوجوانوں کو عرق آلود کر دیا۔ چمکتی ہوئی آنکھوں والی ایک صاحبہ ضبط نہ کرسکیں۔ ان کے منہ سے بے اختیار نکلا، ''گنجو پٹیل، گنجو پٹیل۔''
چمکتے ہوئے سر والے ان کے شوہر کے منہ سے بے اختیار نکلا، ''مسز گنجو پٹیل، مسز گنجو پٹیل۔''
مولانا صاحب تسبیح پڑھنا بھول گئے۔ آغا صاحب کے حلق میں ہنستی مسکراتی چیخ پھنس گئی۔ مرزا صاحب کو پانی پیتے پیتے پھر پھندا لگ گیا۔ اس کے بعد کسی بھلے آدمی نے کسی دوسرے بھلے آدمی کو گنجا نہیں کہا۔ کراچی واپسی تک کسی خاتون کا قہقہہ بھی سنائی نہیں دیا۔
''بابا شوکت علی۔۔۔!''
عبدالمجید سالک
جس دن سے مولانا شوکت علی نے نہرو رپورٹ کی مخالفت شروع کی ہے۔ ''پرتاپ'' اور ''ملاپ'' نے انہیں ''بابا شوکت علی'' لکھ رہے ہیں۔ خدا جانے اس تبدیلی لقب کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟ غالباً بابا لکھ کر یہ لوگ مولانا شوکت علی کی تذلیل کرنا چاہتے ہیں، لیکن خدا کی قدرت دیکھیے کہ دشمن تذلیل کی کوشش کرتا ہے اور مولانا ''بابا'' بن جاتے ہیں۔ یہ لفظ پنجاب میں باپ اور دادا اور علی العوم سن رسیدہ بزرگ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً بابا نانک، بابا گوردت سنگھ۔ اب سوال یہ ہے کہ ہندو اخبارات شوکت علی کو ''بابا'' لکھ کر ان کی کہن سالی کا مضحکہ اڑانا چاہتے ہیں یا انہیں اپنا باپ تسلیم کر رہے ہیں؟ اگر یہ کہن سالی کا مضحکہ ہے تو ان اخباروں کے مدیروں کو پہلے اپنے بزرگوں کی صورتیں دیکھ لینی چاہییں۔ آخر وہ بھی تو سن رسیدہ ہی ہوں گے اور اگر وہ مولانا کو باپ کہہ رہے ہیں تو پھر یہ کہاں کی سعادت مندی ہے کہ اپنے باپ کو روزمرہ گالیاں دی جائیں؟ بازی بازی باریش ہم بازی۔۔۔
(از ''افکار وحوادث'' مرتبہ: محمد حمزہ فاروقی، ایک ٹکڑا جو 8 دسمبر 1928ء کو شایع ہوا)
صد لفظی کتھا
ٹھوکر
رضوان طاہر مبین
''سب تمہیں پانے کو دوڑتے ہیں۔۔۔
ہر کوئی تمہیں دیر تک اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے۔۔۔
لیکن جو بھی تمہیں پاتا ہے، اس کا مقصد صرف تمہیں ایک ٹھوکر مارنا ہوتا ہے۔۔۔!
میں نے کہا۔
''ٹھوکر بھی تو وہی برتر ہوتی ہے، جس پر میں ہوں!'' وہ بولی۔
''لیکن کوئی بھی تمہیں پانا نہیں چاہتا۔۔۔؟''
میں نے پوچھا۔
''اس کا ایک اور پہلو بھی تو ہے۔۔۔؟'' اُس نے بھی سوال کیا۔
''وہ کیا؟'' مجھے تعجّب ہوا۔
''جب مجھے ٹھوکریں لگ رہی ہوتی ہیں، تو میں مرکزِ نگاہ ہوتی ہوں، ورنہ مجھے دیکھتا ہی کون ہے!''
فٹبال نے جواب دیا۔