ادب میں خیر و شر
ادیب ناصح، مصلح، مبلّغ یا خدائی فوج دار وغیرہ بالکل نہیں ہوتا۔ ہو ہی نہیں سکتا۔
کیا ادب میں بھی اشیا، افراد اور تجربات کے وہی معنی ہوتے ہیں جو زندگی میں؟
پیشِ نظر سوال تو کچھ اور تھا، لیکن پوچھتے ہوئے اُس کی صورت قدرے تبدیل ہوگئی۔ تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم نے وہ سوال ترک کردیا ہے۔ یقیناً نہیں۔ ہم ذرا تھوڑی دیر بعد اُس کی طرف آئیں گے۔ اس لیے کہ بنیادی طور پر ہم اسی سوال پر غور کرنا اور اس کے توسط سے ادب کے عمل کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ سرِدست مندرجہ بالا سوال پر توجہ کی دو وجوہ ہیں۔ پہلی یہ کہ اس سوال میں ایک عمومی تناظر قائم ہوتا ہے اور ہم یہ جانتے ہیں کہ عمومی تناظر نسبتاً سادہ اور زیادہ کشادہ ہوتا ہے۔
اُس میں حالات، واقعات، معاملات اور سوالات کو دیکھنے کے لیے سادہ رویے اور کسی قدر طائرانہ نگاہ سے بھی کام چل جاتا ہے۔ یعنی اُس کے حوالے سے اصول کی سطح پر ہم کچھ باتوں کو طے کرسکتے ہیں اور اُن کے بارے میں ایک بنیادی رائے یا تصور قائم کرسکتے ہیں۔ دوسری یہ کہ ادب میں براہِ راست چیزوں کی ضرورت اور اہمیت ذرا کم یا مشکل ہی سے متعین ہوپاتی ہے۔ اس لیے بڑے سوالوں پر غور کرتے ہوئے ہمیں کئی دوسرے حوالوں اور پہلوؤں کو بھی پیشِ نظر رکھنا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ہر بڑا سوال اپنا ایک سیاق و سباق رکھتا ہے اور اس کی نوعیت و معنویت کا صحیح معنوں میں ادراک اسی وقت ہوسکتا ہے جب اسے پورے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھا جائے۔
علاوہ ازیں یہ بھی ہے کہ ادب خود ایک تہ دار قرینہ ہے۔ چناںچہ افراد ہوں یا اشیا، احساسات ہوں یا تجربات اور سوالات ہوں یا واقعات- ادب اُن کے معنی اور اثرات دونوں کو براہِ راست قبول کرتا ہے اور نہ ہی پیش۔ اُسے تو اصل سروکار اُن کی تہ میں کارفرما محرکات سے ہوتا ہے۔ گویا وہ معنی کے معنی کی جستجو کرتا ہے، اور یہ سمجھنا یا سمجھانا چاہتا ہے کہ انسان اور اس کی کائنات دونوں ہی کی معنویت اصل میں اُس اصول یا سوال پر منحصر ہوتی ہے جو بدلتا تو بے شک آدمی کے ظاہر کو ہے، لیکن کارفرما کہیں اس کے باطن میں ہوتا ہے۔ ادب ہمیں یہ کیوں بتاتا ہے؟ اس پر بہت تفصیل سے گفتگو ہوسکتی ہے اور بہت بقراطی بھی بگھاری جاسکتی ہے، لیکن ہم سیدھے سادے جواب سے کام چلاتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ ادب یہ بات اس لیے ہمیں بتاتا ہے تاکہ ہم اُس حقیقتِ حقہ کا فہم حاصل کرسکیں جو ہر بڑے انسانی واقعے کے پس منظر میں کارفرما ہوتی ہے۔ یعنی:
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
تو ادب اصل میں یہی دیدۂ دل وا کرنے کی طرف آدمی کو مائل کرتا ہے۔ اس لیے ادب کے اثرات لوگوں پر براہِ راست اور فوری نہیں ہوتے۔ وہ اُن کے رویے، مزاج اور سوچ پر آہستہ روی سے کام کرتا ہے اور رفتہ رفتہ اُن کے ذہن کو ایک رخ دیتا ہے۔
سطورِ بالا میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے، اُس سے ہمیں ایک طرح سے اپنے اس سوال کا جواب بھی فراہم ہوجاتا ہے جس سے اس گفتگو کا آغاز ہوا ہے، اور وہ یہ کہ حیاتِ انسانی کے تجربات ہوں یا اُس پر اثر انداز ہونے والے افراد و اشیا، ادب میں ان کے بعینہٖ وہ معنی نہیں ہوتے جو عام طور سے روزمرہ انسانی زندگی میں نظر آتے ہیں۔ اس لیے ادب اور زندگی کے رشتے کو دو جمع دو برابر ہے چار جیسی کسی مساوات کے ذریعے قطعی طور پر نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔ ادب میں دو جمع دو کا حاصل کبھی پانچ یا ساڑھے پانچ بنتا ہے اور کبھی تین اور ساڑھے تین۔ ادب انسان اور اس کی زندگی کے بارے میں کوئی بات بالعموم ہمیں اس طرح نہیں بتاتا جس طرح اخلاقیات، سماجیات، سیاسیات، نفسیات یا تاریخ وغیرہ کی کتابیں بتاتی ہیں- اور جو کچھ ادب ہمیں بتاتا ہے، وہ ان علوم کی ساری کتابیں مل کر بھی نہیں بتا پاتیں۔ اسی نکتے سے یہ بات ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ادب کے larger than life ہونے کا مطلب کیا ہے۔
اب آئیے اصل سوال پر۔ ادب میں خیر و شر کے کیا معنی ہیں؟
سب سے پہلے تو یہ طے ہے کہ ان دونوں کے ادب میں چاہے جو بھی معنی ہوں، لیکن وہ معنی بہرحال نہیں ہوتے جو ہم اپنے روزمرہ تناظر میں سمجھتے ہیں۔ پوچھا جاسکتا ہے، کیوں؟ سیدھی سی بات ہے کہ جس طرح شب و روز کی انسانی زندگی کے تجربات اور واقعات کے ادب میں بعینہٖ وہ معنی نہیں ہوتے جو عام طور سے سمجھے جاتے ہیں، بالکل اسی طرح خیر و شر کا بھی ادب میں وہ مفہوم یا تصور نہیں ہوتا۔ یہ تو ہوگئی، بالکل ایک سامنے کی بات۔ تاہم اس پر غور کیا جائے اور ادب کے سیاق میں اس مسئلے کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ادب کا معاملہ بھی کچھ اسی نوع کا ہے جیسا کہ ہم مذہب میں دیکھتے ہیں۔ اہلِ مذہب کہتے ہیں:
اعمال کا دار و مدار نیت پر ہوتا ہے۔
جیسا کہ سطورِ گذشتہ میں عرض کیا گیا، ادب بھی اصل میں اُس حقیقت کو جاننے، سمجھنے اور بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے جو کسی کام، عمل یا کردار کے باطن میں کارفرما ہوتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ادب کے سامنے اُس عمل یا کام کے نتائج بھی ہوتے ہیں یا اس کردار کا ظاہری رویہ بھی ہوتا ہے، لیکن اس کا اصل سروکار ظاہر سے نہیں ہوتا۔ وہ عقب میں کام کرنے والی قوت کو دیکھتا ہے۔ اس سے وہ کسی کردار یا اُس کے کسی عمل کی نوعیت اور وقعت کا تعین کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی ظاہر میں نظر آنے والا ایک نیک شخص اپنی ادبی معنویت کو خیر سے نہیں، بلکہ شر سے متعین کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے، اور اسی طرح ایک شخص کو ہم مجسم شر کی صورت میں دیکھتے ہیں، لیکن ادب میں اس کا معنوی حاصل جمع خیر بن کر سامنے آتا ہے۔ اس مسئلے کو ہم ایک مثال کے توسط سے بہتر طور پر دیکھتے ہیں۔
منٹو کا ایک افسانہ ہے ''بابو گوپی ناتھ''۔ افسانے کا نام اس کے مرکزی کردار پر ہے۔ مرکزی کردار کی ایک طوائف سے تعلق کی روداد اس میں بیان کی گئی ہے۔ اب ظاہری منظر یہ بتاتا ہے کہ ایک عیاش آدمی ایک خوب صورت عورت سے جنسی مراسم رکھے ہوئے ہیں اور اُس میں وہ اِس درجہ محو ہے کہ اُس کی خاطر مدارات میں اپنے حال ہی میں مرنے والے باپ کی دولت بے دریغ لٹا رہا ہے۔ اس کے مال پر اہالی موالی بھی جام پر جام لنڈھا رہے ہیں۔ غرضے کہ پورا منظرنامہ فسق و فجور سے معمور ہے۔ گویا افسانے کا ہر کردار گناہ کی ایک پوٹ ہے۔ اچھا تو پھر کیا ہوتا ہے؟ یہ ہوتا ہے کہ افسانے کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے ان کرداروں کی کایا کلپ ہوجاتی ہے۔ عیاش آدمی (بابو گوپی ناتھ) اور طوائف (زینت) کے اندر سے ایسی اجلی روحیں برآمد ہوتی ہیں کہ ان پر کتنے ہی پاک باز وار دیے جائیں۔ اب بتائیے یہ کیا ہے اور افسانہ نگار منٹو نے ہمارے ساتھ یہ کیا ہاتھ کر دکھایا ہے؟
سچ پوچھیے تو منٹو نے کوئی واردات نہیں کی ہے، واردات تو اصل میں ہم سب کرتے ہیں خود اپنے جیسے انسانوں کے ساتھ اور خود اپنے ساتھ بھی۔ صرف اس افسانے کے منظرنامے کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ خود زندگی کے تناظر میں ہم جن کرداروں سے ملتے ہیں، ان کے ظاہر کے تماشے کو ہی اصل حقیقت سمجھ بیٹھتے ہیں اور یہ ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے کہ ان کے اندر جھانک کر دیکھیں کہ وہاں اصل میں کیا ہورہا ہے، اُن کی روح کو دریافت کریں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ وہ کیسی ہے اور کس حال میں ہے۔ اس کی آرزوئیں، امنگیں، جذبے اور مسرتیں کیا ہیں، وہ زندگی کو کیسے دیکھتی اور کیا سمجھتی ہے اور اسے کیسے بسر کرنا چاہتی ہے۔
منٹو نے اپنے اس افسانے میں یہی کچھ دیکھنے اور جاننے کی کوشش کی ہے۔ اس کے لیے اس نے بس یہ کیا کہ ان کرداروں پر پڑا ہوا ظاہر کا پردہ خاموشی سے ہٹا کر ایک طرف کردیا۔ اب سچے، کھرے اور اصل کردار ہمارے سامنے آگئے۔ ایسا کرتے ہوئے منٹو نے ان کرداروں کی کوئی کایا کلپ نہیں کی۔ حقیقت میں تو ہماری کایا کلپ ہوئی ہے کہ ہم دیکھ تو کچھ اور رہے تھے، لیکن یک بہ یک کچھ اور ہی سامنے آگیا۔ معلوم ہوا کہ اصل تو یہ ہے۔ ایسا کیوں اور کیسے ہوا؟ ایسے ہوا کہ پہلے ظاہر کی آنکھ کا تماشا چل رہا تھا اور پھر دیدۂ دل وا ہوگیا۔ اس کا مطلب تو پھر یہی ہوا ناں کہ افسانے کے کردار نہیں بدلے، بلکہ ہم جو اُن کو دیکھ رہے تھے، وہ بدل گئے، اس لیے کہ دیکھنے والی نگاہ بدل گئی۔
اچھا۔ یہ تو ذرا ایک مثال کو ہم نے تفصیل میں دیکھ لیا۔ لگے ہاتھوں اب چند ایک مثالیں اور مگر محض اشارتاً دیکھتے چلیے، تاکہ ہم جس نکتے کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں، وہ ذرا اور واضح ہوجائے۔ چوسر نے اپنی کینٹر بری ٹیلز میں جو ایک نن اور پریسٹ کی کہانی لکھی ہے، اس کے مذہبی کرداروں کی دنیا داری کے حوالے سے آپ ان کو کس طرح دیکھیں گے؟ ہیملٹ کے جذبۂ انتقام اور اُس کے دوست بروٹس کی شخصیت کو آپ کیا کہیں گے؟ ''برادرز کراموزوف'' کے تینوں بھائیوں کے کردار اپنے آخری تأثر میں کس طرح آپ کے سامنے آتے ہیں؟ ٹولسٹوئے کے ''وار اینڈ پیس'' کے وسیع و عریض لینڈ اسکیپ میں کرداروں کی بدلتی ہوئی، بلکہ کتنی ہی جگہ اذیت ناک رُخ سے سامنے آتی ہوئی صورتوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ وکٹر ہیوگو کے ''لامضراب'' کا مرکزی کردار جو چوری کی سزا کاٹ کر باہر آیا اور معاشرہ جسے نفرت کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے اور پھر آگے چل کر ناول کا سفر جس طرح اسے پیش کررہا ہے، اس کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟
مادام بواری کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے کہ جسمانی لذت میں گزارے ہوئے لمحوں کا قلق اس کو خود اپنی نفی کی طرف لے گیا۔ اسی طرح لیڈی چیٹرلے کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟ ''دی بک آف لافٹر اینڈ فورگیٹنگ'' کے پروفیسر کے بارے میں سوچیے جو ویسے تو انسانی آزادی، حقوق اور مساوات کی باتیں کرتا ہے، لیکن سماجی، سیاسی اذیت و استحصال کی پامالی کو جھیلتی عورت کو جھانسا دے کر جنسی لذت کا موقع پیدا کرلیتا ہے۔ اچھا، یہ تو سب باہر کی دنیا کے لوگ ہوگئے، لیکن ہمارے یہاں بھی تو ایسے کتنے ہی کردار اور ان کے عجیب عجیب ماجرے ہیں۔ منٹو کی موذیل، قرۃ العین کے افسانے ''نظارہ درمیاں ہے'' کے مرکزی کردار کی بیوی جو اس لڑکی کو دیکھ رہی ہیں جسے آنکھیں عطیہ کی گئی ہیں، اشفاق احمد کے ''گڈریا'' کے داؤجی، اسد محمد خاں کے مئی دادا اور باسودے کی مریم، اور سیّد محمد اشرف کے نیلا کا مالک نمبردار وغیرہ کے بارے میں بھی ذرا سوچ کر دیکھیے اور کوئی رائے قائم کیجیے۔
معاف کیجیے، یہ جو چند حوالے اور مثالیں درج کی گئی ہیں، ان میں کسی خاص ترتیب یا اہتمام کو ملحوظ نہیں رکھا گیا ہے، جو نام جب اور جس طرح ذہن میں آیا، درج کرلیا گیا۔ ظاہر ہے مقصد صرف یہ ہے کہ ان تخلیقات یا ان کے کرداروں کی طرف اشارہ کرکے ایک تناظر قائم کرلیا جائے جس میں ان کے بارے میں تخمین و ظن کے اظہار کی کوئی واضح صورت بن سکے۔ سو، خیر وہ ہوگیا اور اب ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ ادب میں کسی بھی کردار کی خارجی صورتِ حال اور ظاہری عوامل کو اُس کے بارے میں خیروشر کا فیصلہ کرنے کے لیے آخر تک قابلِ اعتبار نہیں گردانا جاسکتا۔
اب بتائیے کہ انسانوں کے حقیقی زندگی میں تجربات کے حوالے سے بھی ہمیں کچھ ایسی ہی صورتِ حال پیش نہیں آتی۔ بشرطے کہ ہم ان کے بارے میں ٹھنڈے دل سے اور جملہ حقائق و حالات کو سامنے رکھتے ہوئے دیانت داری سے فیصلہ کرنے پر آمادہ ہوں۔ چلیے زندگی میں ایسا بوجوہ کم ہوتا ہوگا، لیکن ادب میں مکمل طور پر کرداروں کی اچھائی برائی کا معاملہ ان کے ظاہر سے کہیں بہتر طور پر ان کے ارادے، خواہش، جذبے، رُجحان یا نیت کے جائزے کی بنیاد پر ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے لازمی طور سے ہمیں ذرا تحمل سے انھیں دیکھنا اور اس صورتِ حال کو سمجھنا چاہیے، جس میں وہ جی رہے ہیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ادب میں خیروشر کے معنی بدل جاتے ہیں، یا ادیب چوںکہ non conformist ہوتا ہے، اس لیے وہ اپنے سماج کی اقدار کے نظام سے ٹکرانا ضروری سمجھتا ہے۔ اس لیے کہ ان کے بارے میں اس کا رویہ عام آدمی کی طرح قبولیت کا نہیں ہوتا، بلکہ وہ انھیں رد کرکے اپنا ایک الگ رُخ سامنے لاتا ہے۔ ایسی کوئی بھی بات نہیں ہے۔ اس کے برعکس، ادیب وہ شخص ہے جو کسی مبلّغ یا مصلح سے زیادہ اپنی تہذیبی و سماجی اقدار کی تعمیر و استحکام کے لیے معاشرے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔
اس فرق کے ساتھ کہ وہ ظاہر پرست نہیں ہوتا۔ لہٰذا وہ افراد کے اور سماج کے عقب میں بار بار جھانکنے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور اس حقیقت کا سراغ لگاتا ہے کہ کسی شخص کی زندگی میں ایسے کون کون سے محرکات کام کررہے ہیں جو ایک فرد یا اُس کے سماج کے ذہنی رویوں کی تشکیل کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ادیب اپنے سماج کے مذہبی یا اخلاقی نظام کی نفی کا خواہاں نہیں ہوتا، بلکہ وہ تو صرف یہ چاہتا ہے، اُن کی آڑ میں جو کچھ ہورہا ہے، اُس کا پردہ چاک کردے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کی نظر کیچڑ میں کھلے ہوئے پھول تک بآسانی پہنچ جاتی ہے۔ یہی نہیں، بلکہ وہ اس پھول کو لاکر انسانیت کے دامن میں ڈالنا چاہتا ہے، تاکہ خوش بو کو، حسن اور خیر کو سماج میں جگہ دلاسکے، پھیلا سکے۔
ادیب ناصح، مصلح، مبلّغ یا خدائی فوج دار وغیرہ بالکل نہیں ہوتا۔ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کے برعکس وہ خود انسانی کم زوریوں کا شکار ہوسکتا ہے، لیکن اس کے آدرش ہمیشہ بڑے ہوتے ہیں اور انسانی فلاح و فروغ سے غیر مشروط تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ہمیشہ حسن، خیر اور صداقت کا داعی ہوتا ہے، اور اُن کے لیے آواز بلند کرنے اور اُن کو پھیلانے میں کسی خوف یا مصلحت کا شکار نہیں ہوتا- اور اس کام کے لیے وہ اپنے سماج سے یا کسی سے بھی صلے یا انعام کی کوئی توقع نہیں رکھتا۔ اس لیے کہ وہ جانتا ہے، جو کام وہ کررہا ہے، وہی اُس کا اصل اور سب سے بڑا انعام و اکرام ہے۔
پیشِ نظر سوال تو کچھ اور تھا، لیکن پوچھتے ہوئے اُس کی صورت قدرے تبدیل ہوگئی۔ تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم نے وہ سوال ترک کردیا ہے۔ یقیناً نہیں۔ ہم ذرا تھوڑی دیر بعد اُس کی طرف آئیں گے۔ اس لیے کہ بنیادی طور پر ہم اسی سوال پر غور کرنا اور اس کے توسط سے ادب کے عمل کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ سرِدست مندرجہ بالا سوال پر توجہ کی دو وجوہ ہیں۔ پہلی یہ کہ اس سوال میں ایک عمومی تناظر قائم ہوتا ہے اور ہم یہ جانتے ہیں کہ عمومی تناظر نسبتاً سادہ اور زیادہ کشادہ ہوتا ہے۔
اُس میں حالات، واقعات، معاملات اور سوالات کو دیکھنے کے لیے سادہ رویے اور کسی قدر طائرانہ نگاہ سے بھی کام چل جاتا ہے۔ یعنی اُس کے حوالے سے اصول کی سطح پر ہم کچھ باتوں کو طے کرسکتے ہیں اور اُن کے بارے میں ایک بنیادی رائے یا تصور قائم کرسکتے ہیں۔ دوسری یہ کہ ادب میں براہِ راست چیزوں کی ضرورت اور اہمیت ذرا کم یا مشکل ہی سے متعین ہوپاتی ہے۔ اس لیے بڑے سوالوں پر غور کرتے ہوئے ہمیں کئی دوسرے حوالوں اور پہلوؤں کو بھی پیشِ نظر رکھنا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ہر بڑا سوال اپنا ایک سیاق و سباق رکھتا ہے اور اس کی نوعیت و معنویت کا صحیح معنوں میں ادراک اسی وقت ہوسکتا ہے جب اسے پورے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھا جائے۔
علاوہ ازیں یہ بھی ہے کہ ادب خود ایک تہ دار قرینہ ہے۔ چناںچہ افراد ہوں یا اشیا، احساسات ہوں یا تجربات اور سوالات ہوں یا واقعات- ادب اُن کے معنی اور اثرات دونوں کو براہِ راست قبول کرتا ہے اور نہ ہی پیش۔ اُسے تو اصل سروکار اُن کی تہ میں کارفرما محرکات سے ہوتا ہے۔ گویا وہ معنی کے معنی کی جستجو کرتا ہے، اور یہ سمجھنا یا سمجھانا چاہتا ہے کہ انسان اور اس کی کائنات دونوں ہی کی معنویت اصل میں اُس اصول یا سوال پر منحصر ہوتی ہے جو بدلتا تو بے شک آدمی کے ظاہر کو ہے، لیکن کارفرما کہیں اس کے باطن میں ہوتا ہے۔ ادب ہمیں یہ کیوں بتاتا ہے؟ اس پر بہت تفصیل سے گفتگو ہوسکتی ہے اور بہت بقراطی بھی بگھاری جاسکتی ہے، لیکن ہم سیدھے سادے جواب سے کام چلاتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ ادب یہ بات اس لیے ہمیں بتاتا ہے تاکہ ہم اُس حقیقتِ حقہ کا فہم حاصل کرسکیں جو ہر بڑے انسانی واقعے کے پس منظر میں کارفرما ہوتی ہے۔ یعنی:
ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی
ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی
تو ادب اصل میں یہی دیدۂ دل وا کرنے کی طرف آدمی کو مائل کرتا ہے۔ اس لیے ادب کے اثرات لوگوں پر براہِ راست اور فوری نہیں ہوتے۔ وہ اُن کے رویے، مزاج اور سوچ پر آہستہ روی سے کام کرتا ہے اور رفتہ رفتہ اُن کے ذہن کو ایک رخ دیتا ہے۔
سطورِ بالا میں جو کچھ عرض کیا گیا ہے، اُس سے ہمیں ایک طرح سے اپنے اس سوال کا جواب بھی فراہم ہوجاتا ہے جس سے اس گفتگو کا آغاز ہوا ہے، اور وہ یہ کہ حیاتِ انسانی کے تجربات ہوں یا اُس پر اثر انداز ہونے والے افراد و اشیا، ادب میں ان کے بعینہٖ وہ معنی نہیں ہوتے جو عام طور سے روزمرہ انسانی زندگی میں نظر آتے ہیں۔ اس لیے ادب اور زندگی کے رشتے کو دو جمع دو برابر ہے چار جیسی کسی مساوات کے ذریعے قطعی طور پر نہیں سمجھا جاسکتا ہے۔ ادب میں دو جمع دو کا حاصل کبھی پانچ یا ساڑھے پانچ بنتا ہے اور کبھی تین اور ساڑھے تین۔ ادب انسان اور اس کی زندگی کے بارے میں کوئی بات بالعموم ہمیں اس طرح نہیں بتاتا جس طرح اخلاقیات، سماجیات، سیاسیات، نفسیات یا تاریخ وغیرہ کی کتابیں بتاتی ہیں- اور جو کچھ ادب ہمیں بتاتا ہے، وہ ان علوم کی ساری کتابیں مل کر بھی نہیں بتا پاتیں۔ اسی نکتے سے یہ بات ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ادب کے larger than life ہونے کا مطلب کیا ہے۔
اب آئیے اصل سوال پر۔ ادب میں خیر و شر کے کیا معنی ہیں؟
سب سے پہلے تو یہ طے ہے کہ ان دونوں کے ادب میں چاہے جو بھی معنی ہوں، لیکن وہ معنی بہرحال نہیں ہوتے جو ہم اپنے روزمرہ تناظر میں سمجھتے ہیں۔ پوچھا جاسکتا ہے، کیوں؟ سیدھی سی بات ہے کہ جس طرح شب و روز کی انسانی زندگی کے تجربات اور واقعات کے ادب میں بعینہٖ وہ معنی نہیں ہوتے جو عام طور سے سمجھے جاتے ہیں، بالکل اسی طرح خیر و شر کا بھی ادب میں وہ مفہوم یا تصور نہیں ہوتا۔ یہ تو ہوگئی، بالکل ایک سامنے کی بات۔ تاہم اس پر غور کیا جائے اور ادب کے سیاق میں اس مسئلے کو دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ادب کا معاملہ بھی کچھ اسی نوع کا ہے جیسا کہ ہم مذہب میں دیکھتے ہیں۔ اہلِ مذہب کہتے ہیں:
اعمال کا دار و مدار نیت پر ہوتا ہے۔
جیسا کہ سطورِ گذشتہ میں عرض کیا گیا، ادب بھی اصل میں اُس حقیقت کو جاننے، سمجھنے اور بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے جو کسی کام، عمل یا کردار کے باطن میں کارفرما ہوتی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ادب کے سامنے اُس عمل یا کام کے نتائج بھی ہوتے ہیں یا اس کردار کا ظاہری رویہ بھی ہوتا ہے، لیکن اس کا اصل سروکار ظاہر سے نہیں ہوتا۔ وہ عقب میں کام کرنے والی قوت کو دیکھتا ہے۔ اس سے وہ کسی کردار یا اُس کے کسی عمل کی نوعیت اور وقعت کا تعین کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی ظاہر میں نظر آنے والا ایک نیک شخص اپنی ادبی معنویت کو خیر سے نہیں، بلکہ شر سے متعین کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے، اور اسی طرح ایک شخص کو ہم مجسم شر کی صورت میں دیکھتے ہیں، لیکن ادب میں اس کا معنوی حاصل جمع خیر بن کر سامنے آتا ہے۔ اس مسئلے کو ہم ایک مثال کے توسط سے بہتر طور پر دیکھتے ہیں۔
منٹو کا ایک افسانہ ہے ''بابو گوپی ناتھ''۔ افسانے کا نام اس کے مرکزی کردار پر ہے۔ مرکزی کردار کی ایک طوائف سے تعلق کی روداد اس میں بیان کی گئی ہے۔ اب ظاہری منظر یہ بتاتا ہے کہ ایک عیاش آدمی ایک خوب صورت عورت سے جنسی مراسم رکھے ہوئے ہیں اور اُس میں وہ اِس درجہ محو ہے کہ اُس کی خاطر مدارات میں اپنے حال ہی میں مرنے والے باپ کی دولت بے دریغ لٹا رہا ہے۔ اس کے مال پر اہالی موالی بھی جام پر جام لنڈھا رہے ہیں۔ غرضے کہ پورا منظرنامہ فسق و فجور سے معمور ہے۔ گویا افسانے کا ہر کردار گناہ کی ایک پوٹ ہے۔ اچھا تو پھر کیا ہوتا ہے؟ یہ ہوتا ہے کہ افسانے کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے ان کرداروں کی کایا کلپ ہوجاتی ہے۔ عیاش آدمی (بابو گوپی ناتھ) اور طوائف (زینت) کے اندر سے ایسی اجلی روحیں برآمد ہوتی ہیں کہ ان پر کتنے ہی پاک باز وار دیے جائیں۔ اب بتائیے یہ کیا ہے اور افسانہ نگار منٹو نے ہمارے ساتھ یہ کیا ہاتھ کر دکھایا ہے؟
سچ پوچھیے تو منٹو نے کوئی واردات نہیں کی ہے، واردات تو اصل میں ہم سب کرتے ہیں خود اپنے جیسے انسانوں کے ساتھ اور خود اپنے ساتھ بھی۔ صرف اس افسانے کے منظرنامے کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ خود زندگی کے تناظر میں ہم جن کرداروں سے ملتے ہیں، ان کے ظاہر کے تماشے کو ہی اصل حقیقت سمجھ بیٹھتے ہیں اور یہ ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے کہ ان کے اندر جھانک کر دیکھیں کہ وہاں اصل میں کیا ہورہا ہے، اُن کی روح کو دریافت کریں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ وہ کیسی ہے اور کس حال میں ہے۔ اس کی آرزوئیں، امنگیں، جذبے اور مسرتیں کیا ہیں، وہ زندگی کو کیسے دیکھتی اور کیا سمجھتی ہے اور اسے کیسے بسر کرنا چاہتی ہے۔
منٹو نے اپنے اس افسانے میں یہی کچھ دیکھنے اور جاننے کی کوشش کی ہے۔ اس کے لیے اس نے بس یہ کیا کہ ان کرداروں پر پڑا ہوا ظاہر کا پردہ خاموشی سے ہٹا کر ایک طرف کردیا۔ اب سچے، کھرے اور اصل کردار ہمارے سامنے آگئے۔ ایسا کرتے ہوئے منٹو نے ان کرداروں کی کوئی کایا کلپ نہیں کی۔ حقیقت میں تو ہماری کایا کلپ ہوئی ہے کہ ہم دیکھ تو کچھ اور رہے تھے، لیکن یک بہ یک کچھ اور ہی سامنے آگیا۔ معلوم ہوا کہ اصل تو یہ ہے۔ ایسا کیوں اور کیسے ہوا؟ ایسے ہوا کہ پہلے ظاہر کی آنکھ کا تماشا چل رہا تھا اور پھر دیدۂ دل وا ہوگیا۔ اس کا مطلب تو پھر یہی ہوا ناں کہ افسانے کے کردار نہیں بدلے، بلکہ ہم جو اُن کو دیکھ رہے تھے، وہ بدل گئے، اس لیے کہ دیکھنے والی نگاہ بدل گئی۔
اچھا۔ یہ تو ذرا ایک مثال کو ہم نے تفصیل میں دیکھ لیا۔ لگے ہاتھوں اب چند ایک مثالیں اور مگر محض اشارتاً دیکھتے چلیے، تاکہ ہم جس نکتے کو سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں، وہ ذرا اور واضح ہوجائے۔ چوسر نے اپنی کینٹر بری ٹیلز میں جو ایک نن اور پریسٹ کی کہانی لکھی ہے، اس کے مذہبی کرداروں کی دنیا داری کے حوالے سے آپ ان کو کس طرح دیکھیں گے؟ ہیملٹ کے جذبۂ انتقام اور اُس کے دوست بروٹس کی شخصیت کو آپ کیا کہیں گے؟ ''برادرز کراموزوف'' کے تینوں بھائیوں کے کردار اپنے آخری تأثر میں کس طرح آپ کے سامنے آتے ہیں؟ ٹولسٹوئے کے ''وار اینڈ پیس'' کے وسیع و عریض لینڈ اسکیپ میں کرداروں کی بدلتی ہوئی، بلکہ کتنی ہی جگہ اذیت ناک رُخ سے سامنے آتی ہوئی صورتوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ وکٹر ہیوگو کے ''لامضراب'' کا مرکزی کردار جو چوری کی سزا کاٹ کر باہر آیا اور معاشرہ جسے نفرت کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے اور پھر آگے چل کر ناول کا سفر جس طرح اسے پیش کررہا ہے، اس کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟
مادام بواری کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے کہ جسمانی لذت میں گزارے ہوئے لمحوں کا قلق اس کو خود اپنی نفی کی طرف لے گیا۔ اسی طرح لیڈی چیٹرلے کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟ ''دی بک آف لافٹر اینڈ فورگیٹنگ'' کے پروفیسر کے بارے میں سوچیے جو ویسے تو انسانی آزادی، حقوق اور مساوات کی باتیں کرتا ہے، لیکن سماجی، سیاسی اذیت و استحصال کی پامالی کو جھیلتی عورت کو جھانسا دے کر جنسی لذت کا موقع پیدا کرلیتا ہے۔ اچھا، یہ تو سب باہر کی دنیا کے لوگ ہوگئے، لیکن ہمارے یہاں بھی تو ایسے کتنے ہی کردار اور ان کے عجیب عجیب ماجرے ہیں۔ منٹو کی موذیل، قرۃ العین کے افسانے ''نظارہ درمیاں ہے'' کے مرکزی کردار کی بیوی جو اس لڑکی کو دیکھ رہی ہیں جسے آنکھیں عطیہ کی گئی ہیں، اشفاق احمد کے ''گڈریا'' کے داؤجی، اسد محمد خاں کے مئی دادا اور باسودے کی مریم، اور سیّد محمد اشرف کے نیلا کا مالک نمبردار وغیرہ کے بارے میں بھی ذرا سوچ کر دیکھیے اور کوئی رائے قائم کیجیے۔
معاف کیجیے، یہ جو چند حوالے اور مثالیں درج کی گئی ہیں، ان میں کسی خاص ترتیب یا اہتمام کو ملحوظ نہیں رکھا گیا ہے، جو نام جب اور جس طرح ذہن میں آیا، درج کرلیا گیا۔ ظاہر ہے مقصد صرف یہ ہے کہ ان تخلیقات یا ان کے کرداروں کی طرف اشارہ کرکے ایک تناظر قائم کرلیا جائے جس میں ان کے بارے میں تخمین و ظن کے اظہار کی کوئی واضح صورت بن سکے۔ سو، خیر وہ ہوگیا اور اب ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ ادب میں کسی بھی کردار کی خارجی صورتِ حال اور ظاہری عوامل کو اُس کے بارے میں خیروشر کا فیصلہ کرنے کے لیے آخر تک قابلِ اعتبار نہیں گردانا جاسکتا۔
اب بتائیے کہ انسانوں کے حقیقی زندگی میں تجربات کے حوالے سے بھی ہمیں کچھ ایسی ہی صورتِ حال پیش نہیں آتی۔ بشرطے کہ ہم ان کے بارے میں ٹھنڈے دل سے اور جملہ حقائق و حالات کو سامنے رکھتے ہوئے دیانت داری سے فیصلہ کرنے پر آمادہ ہوں۔ چلیے زندگی میں ایسا بوجوہ کم ہوتا ہوگا، لیکن ادب میں مکمل طور پر کرداروں کی اچھائی برائی کا معاملہ ان کے ظاہر سے کہیں بہتر طور پر ان کے ارادے، خواہش، جذبے، رُجحان یا نیت کے جائزے کی بنیاد پر ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے لازمی طور سے ہمیں ذرا تحمل سے انھیں دیکھنا اور اس صورتِ حال کو سمجھنا چاہیے، جس میں وہ جی رہے ہیں۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ادب میں خیروشر کے معنی بدل جاتے ہیں، یا ادیب چوںکہ non conformist ہوتا ہے، اس لیے وہ اپنے سماج کی اقدار کے نظام سے ٹکرانا ضروری سمجھتا ہے۔ اس لیے کہ ان کے بارے میں اس کا رویہ عام آدمی کی طرح قبولیت کا نہیں ہوتا، بلکہ وہ انھیں رد کرکے اپنا ایک الگ رُخ سامنے لاتا ہے۔ ایسی کوئی بھی بات نہیں ہے۔ اس کے برعکس، ادیب وہ شخص ہے جو کسی مبلّغ یا مصلح سے زیادہ اپنی تہذیبی و سماجی اقدار کی تعمیر و استحکام کے لیے معاشرے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔
اس فرق کے ساتھ کہ وہ ظاہر پرست نہیں ہوتا۔ لہٰذا وہ افراد کے اور سماج کے عقب میں بار بار جھانکنے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور اس حقیقت کا سراغ لگاتا ہے کہ کسی شخص کی زندگی میں ایسے کون کون سے محرکات کام کررہے ہیں جو ایک فرد یا اُس کے سماج کے ذہنی رویوں کی تشکیل کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ادیب اپنے سماج کے مذہبی یا اخلاقی نظام کی نفی کا خواہاں نہیں ہوتا، بلکہ وہ تو صرف یہ چاہتا ہے، اُن کی آڑ میں جو کچھ ہورہا ہے، اُس کا پردہ چاک کردے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کی نظر کیچڑ میں کھلے ہوئے پھول تک بآسانی پہنچ جاتی ہے۔ یہی نہیں، بلکہ وہ اس پھول کو لاکر انسانیت کے دامن میں ڈالنا چاہتا ہے، تاکہ خوش بو کو، حسن اور خیر کو سماج میں جگہ دلاسکے، پھیلا سکے۔
ادیب ناصح، مصلح، مبلّغ یا خدائی فوج دار وغیرہ بالکل نہیں ہوتا۔ ہو ہی نہیں سکتا۔ اس کے برعکس وہ خود انسانی کم زوریوں کا شکار ہوسکتا ہے، لیکن اس کے آدرش ہمیشہ بڑے ہوتے ہیں اور انسانی فلاح و فروغ سے غیر مشروط تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ہمیشہ حسن، خیر اور صداقت کا داعی ہوتا ہے، اور اُن کے لیے آواز بلند کرنے اور اُن کو پھیلانے میں کسی خوف یا مصلحت کا شکار نہیں ہوتا- اور اس کام کے لیے وہ اپنے سماج سے یا کسی سے بھی صلے یا انعام کی کوئی توقع نہیں رکھتا۔ اس لیے کہ وہ جانتا ہے، جو کام وہ کررہا ہے، وہی اُس کا اصل اور سب سے بڑا انعام و اکرام ہے۔