سول اسپتال کوئٹہ کا ٹراما سینٹر قانون سازی نہ ہونے کے باعث غیر فعال
5 سال گزر جانے کے بعد بھی ٹراما سینٹر کا اپنا عملہ تعینات نہیں ہوسکا
DANANG:
بلوچستان کے پہلے ٹراما سینٹر میں 5 سال بعد بھی عملہ تعینات نہ ہوسکا اور بدانتظامی کے باعث شرح اموات میں ہولناک اضافہ دیکھا جارہا ہے۔
2014 میں اس وقت کی صوبائی حکومت نے سول اسپتال کوئٹہ میں 12 ہزار مربع فٹ اراضی پر بنے ٹراما سینٹر کو مکمل منصوبہ بندی کے تحت چلانے کیلئے قانون سازی شروع کی تھی۔ اس سلسلے میں محکمہ صحت کی جانب سے 8 جنوری 2015 کو ایک مراسلہ محکمہ قانون کو بھیجا گیا، جواب میں 16 جنوری 2015 کو محکمہ قانون نے اس مراسلے کی تصحیح کے لیے محکمہ صحت کو واپس بھیجا، بل کا مسودہ محکمہ قانون سے منظور ہوکر دوبارہ محکمہ صحت کے ذریعے صوبائی کابینہ کے سامنے پیش کیا جانا تھا، جہاں سے منظوری کے بعد بل اسمبلی میں بحث کے لیے پیش کیا جاتا لیکن محکمہ صحت نے اس مراسلے کے واپس آجانے کے بعد محکمہ قانون سے رجوع ہی نہیں کیا۔
ٹراما ایکٹ منظور ہونے کے بعد ٹراما سینٹر کا گورنرز بورڈ بنایا جانا تھا جس کے پاس ٹراما کے لئے عملے کی تعیناتی کا اختیار ہوتا، محکمہ صحت کی جانب سے ایکٹ کیلئے دی گئیں تجاویز میں معمولی سے معمولی باتوں کا بھی خیال رکھا گیا ہے اس وقت ٹراما سینٹر کے اپنے سرجن اور اسٹاف نہیں ہونے اور بد انتظامی کے باعث ٹراما سینٹر غیر فعال ہے،ٹراما سینٹر کے اپنے سرجن اور زیادہ تعداد میں عملہ ہونا چاہئے کیونکہ ہنگامی حالات کی صورت میں پہلے سے موجود مریض متاثر نہیں ہوں گے زیادہ سے زیادہ پیرا میڈیکل اسٹاف اور ماہر سرجن تعینات کیے جانے سے نا صرف ٹراما سینٹر کی کارکردگی بہتر ہوگی بلکہ نئے بنائے جانے والے ٹراما سینٹر ز میں تعینات کئے جانے والے سرجنز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو تربیت بھی اسی ٹراما سینٹر سے دی جاسکے گی۔
بلوچستان حکومت صوبے میں 15 ٹراما سینٹرز بنانے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے لیکن سول اسپتال کوئٹہ پہلے سے موجود ٹراما سینٹر کی حالت سے بے خبر نظر آتی ہے، ٹراما سینٹر میں طبی موت مرنے والے مریضوں کی شرح ماہانہ 20سے 50کے درمیان ہے جب کہ ایمرجنسی میں لائے جانے والے مریضوں کے لیے سرجنز کو کال کر کے بلایا جاتا ہے جو اپنے مریض چھوڑ کر یا پھر گھر سے واپس ٹراما آتے ہیں۔ اگر ٹراما ایکٹ منظور ہو جائے تو ٹراما کے لئے مختص سرجنز کی مراعات بڑھا کر پابند بنایا جاسکتا ہے کہ وہ نجی اسپتالوں کا وقت بھی ٹراماسینٹر کو دیں۔
ٹراما سینٹر کے ایکٹ بل لیٹر کے بارے میں سیکرٹری صحت حافظ عبدالماجد نے ایکسپریس نیوز کو موقف دیتے ہوئے کہا کہ ٹراما ایکٹ کے بارے میں مجھے علم نہیں تھا کہ ایسا کوئی بل 5 سال پہلے محکمے کی جانب سے محکمہ قانون کو بھیجا گیا ہے۔ ٹراما ایکٹ کے بارے میں محکمے سے معلومات لوں گا ہم محکمہ صحت کو بہتری کی جانب لے جارہے ہیں پوری کوشش ہے کہ بلوچستان میں قائم تمام سرکاری اسپتالوں کو بہتر کریں۔
واضح رہے کہ 8 اگست 2016میں سول اسپتال میں ہونے والے دھماکے کے بعد سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس میں محکمہ صحت کی جانب سے پیش کی گئی فیکٹ اینڈ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں ٹراما سینٹر اور سول اسپتال کی بہتری کے لئے دئیے گئے سپریم کورٹ کے 6 فروری 2016 کے فیصلے پر بھی عمل دآرمد نہیں ہوسکا۔
بلوچستان کے پہلے ٹراما سینٹر میں 5 سال بعد بھی عملہ تعینات نہ ہوسکا اور بدانتظامی کے باعث شرح اموات میں ہولناک اضافہ دیکھا جارہا ہے۔
2014 میں اس وقت کی صوبائی حکومت نے سول اسپتال کوئٹہ میں 12 ہزار مربع فٹ اراضی پر بنے ٹراما سینٹر کو مکمل منصوبہ بندی کے تحت چلانے کیلئے قانون سازی شروع کی تھی۔ اس سلسلے میں محکمہ صحت کی جانب سے 8 جنوری 2015 کو ایک مراسلہ محکمہ قانون کو بھیجا گیا، جواب میں 16 جنوری 2015 کو محکمہ قانون نے اس مراسلے کی تصحیح کے لیے محکمہ صحت کو واپس بھیجا، بل کا مسودہ محکمہ قانون سے منظور ہوکر دوبارہ محکمہ صحت کے ذریعے صوبائی کابینہ کے سامنے پیش کیا جانا تھا، جہاں سے منظوری کے بعد بل اسمبلی میں بحث کے لیے پیش کیا جاتا لیکن محکمہ صحت نے اس مراسلے کے واپس آجانے کے بعد محکمہ قانون سے رجوع ہی نہیں کیا۔
ٹراما ایکٹ منظور ہونے کے بعد ٹراما سینٹر کا گورنرز بورڈ بنایا جانا تھا جس کے پاس ٹراما کے لئے عملے کی تعیناتی کا اختیار ہوتا، محکمہ صحت کی جانب سے ایکٹ کیلئے دی گئیں تجاویز میں معمولی سے معمولی باتوں کا بھی خیال رکھا گیا ہے اس وقت ٹراما سینٹر کے اپنے سرجن اور اسٹاف نہیں ہونے اور بد انتظامی کے باعث ٹراما سینٹر غیر فعال ہے،ٹراما سینٹر کے اپنے سرجن اور زیادہ تعداد میں عملہ ہونا چاہئے کیونکہ ہنگامی حالات کی صورت میں پہلے سے موجود مریض متاثر نہیں ہوں گے زیادہ سے زیادہ پیرا میڈیکل اسٹاف اور ماہر سرجن تعینات کیے جانے سے نا صرف ٹراما سینٹر کی کارکردگی بہتر ہوگی بلکہ نئے بنائے جانے والے ٹراما سینٹر ز میں تعینات کئے جانے والے سرجنز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو تربیت بھی اسی ٹراما سینٹر سے دی جاسکے گی۔
بلوچستان حکومت صوبے میں 15 ٹراما سینٹرز بنانے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے لیکن سول اسپتال کوئٹہ پہلے سے موجود ٹراما سینٹر کی حالت سے بے خبر نظر آتی ہے، ٹراما سینٹر میں طبی موت مرنے والے مریضوں کی شرح ماہانہ 20سے 50کے درمیان ہے جب کہ ایمرجنسی میں لائے جانے والے مریضوں کے لیے سرجنز کو کال کر کے بلایا جاتا ہے جو اپنے مریض چھوڑ کر یا پھر گھر سے واپس ٹراما آتے ہیں۔ اگر ٹراما ایکٹ منظور ہو جائے تو ٹراما کے لئے مختص سرجنز کی مراعات بڑھا کر پابند بنایا جاسکتا ہے کہ وہ نجی اسپتالوں کا وقت بھی ٹراماسینٹر کو دیں۔
ٹراما سینٹر کے ایکٹ بل لیٹر کے بارے میں سیکرٹری صحت حافظ عبدالماجد نے ایکسپریس نیوز کو موقف دیتے ہوئے کہا کہ ٹراما ایکٹ کے بارے میں مجھے علم نہیں تھا کہ ایسا کوئی بل 5 سال پہلے محکمے کی جانب سے محکمہ قانون کو بھیجا گیا ہے۔ ٹراما ایکٹ کے بارے میں محکمے سے معلومات لوں گا ہم محکمہ صحت کو بہتری کی جانب لے جارہے ہیں پوری کوشش ہے کہ بلوچستان میں قائم تمام سرکاری اسپتالوں کو بہتر کریں۔
واضح رہے کہ 8 اگست 2016میں سول اسپتال میں ہونے والے دھماکے کے بعد سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس میں محکمہ صحت کی جانب سے پیش کی گئی فیکٹ اینڈ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں ٹراما سینٹر اور سول اسپتال کی بہتری کے لئے دئیے گئے سپریم کورٹ کے 6 فروری 2016 کے فیصلے پر بھی عمل دآرمد نہیں ہوسکا۔