زبان خلق سے شرافت کی زبان تک مٹتی زبانیں

اگر ہماری یہ مٹتی ہوئی زبانیں بچ جائیں تو ہم کہہ سکیں گے ہم بھی منہہ میں زبان رکھتے ہیں۔

اگر ہماری یہ مٹتی ہوئی زبانیں بچ جائیں تو ہم کہہ سکیں گے ہم بھی منہہ میں زبان رکھتے ہیں۔ فوٹو: فائل

اقوام متحدہ نے دنیا کے مختلف خطوں کے قدیم ترین باشندوں (Indigenous peoples) کی زبانوں کے مٹنے کا نوحہ پڑھتے ہوئے 2019 کو ''قدیم باشندوں کی زبانوں کا سال'' قرار دیا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق قدیم باشندوں کی دو ہزار چھے سو اسی زبانیں معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں اور ان میں سے بہت سی مٹنے کے قریب ہیں۔

اقوام متحدہ سے گزارش ہے کہ وہ ان زبانوں میں پاکستان کی کچھ زبانیں بھی شامل کرلے اور ان کے بچاؤ اور بازیافت کے لیے اقدامات کرے۔ وہ زبانیں یہ ہیں:

سیاست میں تمیز کی زبان:

یہ زبان مجبوری میں ہی سہی بولی ضرور جاتی تھی۔ سیاست داں اپنے بدترین مخالفوں کو بھی اسی زبان میں مخاطب کرتے تھے۔ لیکن ایک نئی بولی ''اوئے زبان'' کے آنے کے بعد تمیز کی زبان ہر زبان سے رخصت ہوتی نظر آتی ہے۔ اس زبان سے زیادہ تو خمیرہ گاؤزبان استعمال کیا جاتا ہے۔

ڈراموں میں مہذب زبان:

کبھی ٹی وی ڈراموں میں ہر لفظ سوچ سمجھ کر استعمال کیا جاتا تھا، اب لکھنے والے ہفتے میں اتنی قسطیں لکھنی ہوتی ہیں کہ اس کے پاس سوچنے سمجھنے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔ اُسے بس ریٹنگ کے بارے میں سوچنا ہوتا ہے۔ اُسے یہ کلیہ معلوم ہے کہ جتنی کُھلی ڈُلی زبان استعمال ہوگی اُتنی ہی کُھل کے ریٹنگ آئے گی، پھر چینل کُھلے دل اور کھلے ہاتھ سے اُسے پیسے دے گا۔ اس چکر میں وہ کُھل کھیلتا ہے۔ اس کھیل میں مہذب زبان ہار چکی ہے اور ''جاؤ ہم نہیں کھیل رہے'' کہہ کر میدان چھوڑگئی ہے۔

میڈیا پر صحافتی زبان:

اس زبان کے الفاظ غیرجانب داری، نفاست، تہذیب اور شائستگی لیے ہوتے ہیں، جن سے بہت سے اینکرز کا کچھ لینا دینا نہیں، ان کا لین دین کسی اور زبان کا تقاضا کرتا ہے۔ سو وہ جو زبان بولتے ہیں اسے آفتی زبان، قیامتی زبان، ملامتی زبان اور حجامتی زبان تو کہا جاسکتا ہے، مگر یہ صحافتی زبان ہرگز نہیں۔

شرافت کی زبان:

یہ زبان صرف کم زوروں اور مجبوروں ہی میں رائج ہے۔ اسے بولنے کا کوئی فائدہ نہیں کیوں کہ یہ سُنی جاتی ہے نہ سمجھی جاتی ہے۔ اس کے مقابل طاقت کی زبان آجائے تو یہ بے زبان ہوجاتی ہے، اور غلطی سے کچھ کہہ دے تو لمبی زبان کہہ کر کاٹ دی جاتی ہے۔

زبانِ خلق:

ایک زمانے میں یہ نجی محفلوں، دیواروں اور عوامی بیت الخلاؤں میں وجود رکھتی تھی، آج کل سوشل میڈیا پر دل کی بھڑاس نکالنے کے کام آتی ہے۔ خاصی قدیم ہے، اس لیے گھر کے بڑے بوڑھوں کی طرح اس کا احترام تو بہت کیا جاتا ہے، مگر بڑے بوڑھوں ہی کی طرح سٹھیایا ہوا سمجھ کر اس سُنا اور سمجھا نہیں جاتا۔ اس زبان کے بولنے کی بھی ایک حد ہے، یہ حد پار کرنے پر زبان خلق بولنے والے کا حلق بند کیا جاسکتا ہے، اور اسے ''خالق'' کے پاس بھی بھیجا جاسکتا ہے۔

زبانِِ یار:


یہ عرف عام میں محبوب کی زبان کہلاتی ہے۔ کبھی یہ زبان شاعروں کو یوں متاثر کرتی تھی کہ وہ بول اُٹھتے تھے:

عجب لہجہ ہے اُس کی گفتگو کا

غزل جیسی زباں وہ بولتا ہے

کسی کو محبوب کے کلام میں وہ مٹھاس ملی کے اُس نے کہا:

مِصری کرے نبات تِرے لب کے روبرو

کیا کہیے کس قدر تِرا شیریں کلام ہے

اس خوش کلامی کے باعث ہی شاعر پہروں محبوب کے پاس رہنا چاہتا تھا، ورنہ ''قصائی بھائی کس کے، کھایا پیا کھسکے۔'' چناں چہ وزیرآغا نے کہا:

وہ خوش کلام ہے ایسا کہ اُس کے پاس ہمیں

طویل رہنا بھی لگتا ہے مختصر رہنا

محبوب کی یہ زبان ماضی کا قصہ ہوئی۔ اب یہ بس سُنی سُنائی باتیں ہیں، اسی لیے احمدفراز نے کہا ''سُنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں۔'' اس مصرعے کی تشریح یہ ہوئی کہ ۔۔۔کسی سے سُنا ہے کہ دور کہیں محبوباؤں میں سے ایک نمونہ بچا ہے جس کی باتوں سے پھول جھڑتے ہیں۔

فی زمانہ محبوباؤں کی زبان کا یہ حال ہے کہ ''سُنا ہے باتوں سے اُس کی ببول جھڑتے ہیں۔'' بھارتی فلموں کی بھاشا اور انگریزی بولنے کی آشا مل کر جو گفتگو تخلیق کرتی ہیں اُس میں ''گفت'' کم ہی ہوتی ہے، یہ بولی ''شِٹ۔۔۔شونو میں تمھیں برتھ ڈے وش کرنا بھول گئی''،''تمھارے پیار نے تو میرے دِل کی واٹ لگادی ہے''،''جانو! تم کسی اور کے ہوئے تو ٹھوک دوں گی''۔۔۔جیسے جملوں سے شروع ہوتی ہے اور تہذیب واخلاق کو ساتھ لیے ختم ہوتی ہے۔

اگر ہماری یہ مٹتی ہوئی زبانیں بچ جائیں تو ہم کہہ سکیں گے ہم بھی منہہ میں زبان رکھتے ہیں، ورنہ خاموشی ہی ہمارا پردہ رکھ پائے گی۔

usman.jamai@express.com.pk

 
Load Next Story