مسائل سے نمٹنے کی فراست اور بصیرت درکار ہے وسائل کی کوئی کمی نہیں
ہمارے ہاں جانے والے حکمران آنیوالوں کیلئے مسائل کے گڑھے کھودنے کو سیاسی حکمت عملی سمجھتے ہیں۔
ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کی حکمت عملی سے متعلق رہنما تحریر۔ فوٹو؛ فائل
پاکستان میں اگر برسراقتدار حکومت کو اندازہ ہو جائے کہ اگلا دور ان کا نہیں ہے تو وہ آنے والی حکومت کی رہ میں وہ کانٹے بو جاتے ہیں کہ جنہیں چنتے چنتے ایک عرصہ لگ جاتا ہے۔
بیرونی و اندرونی قرضوں اور سود کی ادائیگی کا شیڈول ایسا بنایا جاتا ہے جو آنے والی حکومت کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو ا س کی اچھی خاصی مشق ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے پہلے یہی دونوں پارٹیاں باری باری برسراقتدار آتی رہی ہیں ۔ چنانچہ انہیں قرضوں اور سود کی ادائیگی کے شیڈول کا بھی اندازہ ہوتا تھا اور دوسرے معاشی، اقتصادی اور مالیات کے مسائل کا بھی ادراک ہوتا تھا ۔
مزید قرض لے کر پچھلے قرض کی ایک آدھ قسط اور سود کی ادائیگی کی جاتی تھی، کسی طریقے سے اپنا دور گزارنے کی کوشش کی جاتی تھی سارا بوجھ آنے والی حکومت کیلئے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ چونکہ تحریک انصاف کی حکومت پہلی دفعہ مرکز میں برسراقتدار آئی اسے اندازہ نہیں تھا کہ خزانے کی صورتحال کیا ہے، قرضوں اور سود کی ادائیگی کی رقم اور شیڈول کیا ہے ، اصل تجارتی خسارہ کتنا ہے ، برسراقتدار آتے ہی جب انہیں اصل صورتحال کا علم ہوا اور اس بات کااندازہ ہوا کہ تجارتی خسارہ تقریباً بیس ارب ڈالر یعنی 28 کھرب روپے ہے تو نئی حکومت چکرا بھی گئی اور بوکھلا بھی گئی۔
اس بات کا یہی اندازہ ہوا کہ ہر ماہ قرضوں، سود اور درآمدات کیلئے تقریباً 15 ارب ڈالر باہر چلا جائے گا، جبکہ برآمدات کی مد میں تقریباً 1.65ارب ڈالر ماہانہ کے حساب سے آئیں گے، تارکین وطن سے آنے والی ترسیلات زر کو بھی شامل کیا جائے تو بھی 12ارب ڈالر سالانہ کی مزید ضرورت ہو گی ۔ جبکہ ملکی زر مبادلہ کے ذخائر صرف 13ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ اس تمام تر صورتحال میں تحریک انصاف کی حکومت کا بوکھلا جانا قدرتی امر تھا ۔ انھوں نے وہی کیا جو اس موقع پر ممکن تھا کہ دوست ممالک سے قرضہ اور امداد حاصل کی جائے، آئی ایم ایف کا تعاون حاصل کیا جائے چنانچہ تمام آپشنز پر کام شروع کیا گیا۔
قریبی دوست ممالک نے امید کی کرن تو دکھائی ہے کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب نے دو ارب ڈالر دے دیئے ہیں مزید ایک ارب ڈالر اگلے ماہ مل جائیں گے۔ ترکی، چین، یو اے ای اور قطر سے بھی ڈالر ملنے کی امید ہے، ہو سکتا ہے کہ آئی ایم ایف سے بھی معاملات طے پا جائیں ۔ اس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے پاؤں ٹکنے کی امید ہو گی ۔
فی الحال عوام مہنگائی کے طوفان اور بنیادی سہولتوں کی نایابی پر پریشان ہیں۔ تحریک انصاف نے پچاس لاکھ مکانات اور ایک کروڑ نئی نوکریوں کا وعدہ کیا تھا ۔ جبکہ بلڈنگ میٹریل مہنگا ہونے کی وجہ سے نجی شعبے میں ہونے والی تعمیرات بھی تعطل کا شکار ہیں ۔ بجلی اور گیس کے بحران کی وجہ سے بے روزگاری میں پہلے سے بھی زیادہ اضافہ ہو چکا ہے ۔
پاکستان تحریک انصاف تمام مسائل سے نبرد آزما ہونے کی بھر پور کوشش کر رہی ہے مگر تجارتی خسارے کی وجہ سے ہر سال 10سے 12ارب ڈالر کا حصول ناممکن سا ہے، پھر قرضوں کے سود میں بھی دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا کہنا ہے کہ روز 2 ارب روپے قرضے اور سود کی ادائیگیوں میں خرچ کئے جا رہے ہیں ۔ سٹیٹ بنک کے مطابق پہلے 6 ماہ کا تجارتی خسارہ 12ارب 55 کروڑ ڈالر ہوا ہے یعنی 18کھرب روپے سے زیادہ اب اتنی بڑی رقم کا حصول ماورائے عقل بات ہے۔
پاکستان پر اتنے زیادہ قرضے کا بوجھ ماضی کی حکومتوں کی نا اہلی اور مفاد پرستی تھی ۔ انتخابی سیاست میں حکومتیں صرف اپنے پانچ سال پورے کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ قلیل المیعاد منصوبے بنائے جاتے ہیں ۔ حکومتوں نے دیرپا بنیادوں پر کام کرنے کی بجائے بیرونی و اندرونی قرضوں کے ذریعے وہ منصوبے بنائے جو نظر آتے ہیں ۔ مثلاً سڑکوں، پلوں، اورنج ٹرین، میٹرو بس اور موٹروے جیسے مہنگے منصوبے بنائے گئے، تیل کے متبادل ذرائع پر غور نہیں کیا گیا ۔
ایوب خان کے دور سے لے کر آج تک بیرونی قرضوں کی زیادہ رقم غیر پیداواری یونٹوں پر خرچ کی گئی ۔ قرضہ دینے والوں عالمی اداروں نے بھی اس وقت اپنی آنکھیں بند رکھیں اور پاکستان کو اپنی گرفت میں لے لیا ۔ ماضی کی حکومت نے کرپشن کی بھی حدیں توڑ دیں اور کھربوں روپے باہر کے بنکوں میں جمع کروا دیئے۔ اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے مزید بھگتنا پڑے گا ۔
پاکستان اس وقت اس قدر معاشی نا ہمواری کا شکار ہے کہ فوری طور پر کسی معجزے کی امید نہیں رکھی جا سکتی ۔ تحریک انصاف کی حکومت کو تمام حقائق عوام کے سامنے لانے چاہئیں، عوام کو بتانا چاہیے کہ سالانہ اتنے کھرب روپے کا نقصان ہے، وقتی پالیسیوں کے ذریعے عوام کو ریلیف دینے کی ضرورت ہے مگر دیرپا پالیسیاں بھی فوری طور پر شروع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
گوادر پورٹ کو فوراً آپریشنل کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔ موجودہ حکومت گوادر میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں مؤثر کردار ادا کرے ،گوادر کو دبئی کی طرز کا انٹرنیشنل اوپن سٹی بنا دیا جائے۔ سی پیک کے اطراف صنعتی زون بنانے کی رفتار تیز کی جائے ۔ ان صنعتی زونز کے اطراف نئی بستیاں بسائی جائیں اور ان بستیوں میں بھی تمام بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں ۔ اگر گوادر پورٹ مکمل طور پر آپریشنل ہو گئی اور روس، وسط ایشیا کی ریاستوں سمیت دوسرے ممالک کو پاکستان کی راہداری حاصل ہو گئی تو پاکستان کو راہداری کی مد میں تقریباً 5 ارب ڈالر سالانہ ملنے کی توقع ہے اس رقم میں مزید اضافہ بھی ہو سکتا ہے لیکن اس منصوبے کی تکمیل میں امریکہ اور یورپ سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، کیونکہ اگر روس، وسط ایشیا کی ریاستوں اور دوسرے ممالک کو پاکستان کی راہداری حاصل ہو جائے تو عالمی تجارتی کلچر ایک دم بدل جائے گا۔
روس اور امریکہ میں جاری سرد جنگ میں مزید اضافہ ہو چکا ہے، امریکہ افغانستان میں کبھی بھی ایسا امن معاہدہ نہیں ہونے دے گا کہ جس کی وجہ سے روس کو افغانستان سے گزر کر گوادر پورٹ پہنچنے کا موقع ملے۔ افغانستان میں امریکہ، نیٹو اور ایساف ممالک کی موجودگی کی واحد وجہ یہ ہے کہ یہ ملک پاکستان، وسط ایشیائی ریاستوں اور روس کے درمیان موجود ہے۔ گرم پانیوں تک پہنچنے کیلئے افغانستان کا راستہ استعمال کرنا ضروری ہے مگر امریکہ اور اس کے حلیف ممالک یہاں موجود ہیں اور وہ اس وقت تک موجود رہیں گے کہ جب تک معاملہ ان کے بس سے باہر نہ ہو جائے۔ چین کا عالمی سیاست میں اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے، ادھر روس بھی ازسر نو مضبوط ہو رہا ہے۔
نظر تو یہی آتا ہے کہ مستقبل میں امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کی گرفت افغانستان میں کمزور ہو گی۔ مگر موجودہ حکومت کی سب سے زیادہ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وہ اندرون ممالک سی پیک، گوادر پورٹ اور گوادر شہر کا بنیادی ڈھانچہ جلد از جلد مکمل کرے ۔ ایک دفعہ بنیادی ڈھانچہ اور صنعتی شہر مکمل ہو جائیں تو خارجی محاذ سے نپٹنا آسان ہو جائے گا۔ حکومت کی ساری توجہ سی پیک کی تکمیل کی جانب ہونی چاہیے۔
چین اور روس سمیت وسط ایشیائی ریاستوں سے تعلقات میں مزید اضافہ بھی ہونا چاہیے اور یہ تعلقات باہمی اعتماد کی بنیاد پر ہونے چاہئیں۔ اس وقت چین، پاکستان، روس اور وسط ایشیائی ریاستوں کے مابین مضبوط رشتے استوار ہونا بہت ضروری ہے۔ اگرچہ اس راہ میں امریکہ اور یورپ کی سازشوں اور دشمنی کے خطرات بھی موجود ہیں، وہ بھارت اور پاکستان کے کئی دوست مسلم ممالک کو بھی پاکستان کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں مگر تدبر اور خاص بصیرت کے ساتھ ان معاملات کو حل کیا جا سکتا ہے۔
بلوچستان میں معدنیات کے ذخائر کی انتہا ہے، ان معدنیات کو فوری طور پر نکالنے کی حکمت عملی بنائی جائے، سروے کیلئے چین اور روس کی سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی سے مدد لی جا سکتی ہے، اگر معدنیات کو نکالا جائے تو صرف تین سال بعد پاکستان کی تجارت میں توازن پیدا ہو جائے گا ۔ پاکستان میں سیاحتی اور پہاڑی مقامات کی فراوانی ہے مگر امن و امان کی صورتحال اور دیگر عوامل کی وجہ سے بیرونی سیاحوں کی آمد مکمل طور پر بند ہے، ان مقامات میں بنیادی سہولتیں عام کی جائیں، دشوار گزار راستوں کو آسان بنایا جائے۔ روز مرہ کے استعمال کی قیمتیں مناسب رکھی جائیں اور ان علاقوں میں پاکستانی مصنوعات کی فروخت کی مؤثر منصوبہ بندی کی جائے ۔ ہر علاقے کی دستکاری کی مناسب مارکیٹنگ کی جائے۔
اس وقت پاکستانی ایکسپورٹ کا دارومدار بھی خام مال کی امپورٹ سے مشروط ہے۔ ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے اب یہ خام مال بھی مہنگے داموں امپورٹ ہو رہا ہے اس کا اثر آنے والے وقت میں پڑے گا کہ جب ہم عالمی منڈی میں مقابلہ کرنے کی کمزور پوزیشن میں ہوں گے اور پاکستانی تیار مصنوعات کے ریٹ دوسرے ممالک کی نسبت زیادہ ہوں گے۔ اس کا سد باب بھی بہت ضروری ہے ۔ حکومت کو دیکھنا ہوگا کہ ڈالر کا ریٹ بڑھنے کے بعد سرمایہ کاروں، برآمد کنندگان اور تاجروں کو ٹیکسوں میں کیا چھوٹ دی جا سکتی ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر یہاں پیداوار دوسرے ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔ ماہرین کی رائے لی جائے کہ زراعت اور جانوروں کی افزائش میں کس طرح اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس وقت عوام بجلی اور گیس کے بحران سے پریشان ہے، کمزور قومی خزانے کی وجہ سے حکومت آئی پی پی پیز سے زیادہ بجلی خریدنے سے گریزاں ہے بلکہ حکومت کی کوشش ہے کہ گردشی قرضے میں مزید اضافہ نہ ہو، بجلی پیدا کرنے کیلئے فرنس آئل اور پٹرول کے استعمال میں بھی بچت کی جائے تاکہ کچھ تو زرمبادلہ بچ سکے۔ مگر عوام کی پریشانی میں اضافہ ہو رہا ہے اور گیس تو پاکستان سے ہی نکلتی ہے، ایل این جی درآمد کرنے کی بجائے گیس کے مزید ذخائر تلاش کیے اور ستعمال کیے جائیں ۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو سب سے زیادہ جس مشکل کا سامنا ہے وہ سابقہ حکومتوں کے وہ وفادار بیوروکریٹس ہیں کہ جن کی ساری وفاداری ریاست کی بجائے حکومت سے تھی، یہ افراد حکومت سے بھی ہٹ کر خاندانوں کے وفادار بن گئے ۔ اگر ان بیوروکریٹس کی ذاتی قابلیت اور لیاقت دیکھی جائے تو فوراً اندازہ ہو جائے گا کہ ان کی اصل خوبی خاندانوں سے وفاداری ہے۔ ان کی ساری توانائیاں ریاست کی بجائے برسر اقتدار خاندانوں کو فائدہ پہنچانے میں صرف ہوئی ہیں ۔ اب بھی یہی لوگ بیوروکریسی میں موجود ہیں، تحریک انصاف انہی افراد کے ساتھ حکومت چلانے پر مجبور ہے۔
تحریک انصاف کا ایک بہت بڑا نعرہ تھا کہ وہ لوٹی ہوئی دولت ملک میں واپس لائیں گے، ہر پاکستانی اس کا خواہشمند بھی تھا مگر پارلیمنٹ میں مؤثر قانون سازی کی ابھی تک ٹھوس کوشش نہیں کی گئی ، اگر تحریک انصاف پارلیمنٹ میں لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کی قانون سازی میں کامیاب ہو گئی تو عوام کو کسی حد تک امید اور سکون حاصل ہو جائے گا ۔
ملکی سیاست اور بیورو کریسی میں اہل اور قابل افراد کے آگے آنے کی راہ ہموار ہونی چاہیے۔ ملکی ایجنسیوں کی خدمات سے یہ زیادہ مشکل بھی نہیں ہے ۔ مخالفین تحریک انصاف کو طنزاً ''تبدیلی سرکار''بھی کہتے ہیں، حکومت ملک میں انتشار کے خوف کی وجہ سے سخت ہاتھ ڈالنے سے گریزاں ہے مگر حالات اور بھی دگرگوں ہو سکتے ہیں، عوام ایک دفعہ مکمل مایوسی اور نا امیدی کے عالم میں چلے گئے تو قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا انتہائی مشکل ہو جائے گا۔ اور تبدیلی کیلئے سازگار حالات بنانے کیلئے مزید انتظار ضرر رساں ثابت ہو سکتا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کو یہ ''ایڈ وانٹیج'' بھی حاصل ہے کہ ابھی تک انہیں تعلیم یافتہ عوام کی حمایت حاصل ہے، پڑھا لکھا طبقہ آج بھی تحریک انصاف کے پیچھے کھڑا ہے حکومت کو اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے، حکومت کے سخت اقدامات کے نتیجے میں انہیں ملک کے مخالف طبقے کی زیادہ حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔
عوام کے سامنے ملکی صورتحال رکھنا اشد ضروری ہے، انہیں تمام معاملات سے آگاہ کرنا بھی ضروری ہے، غیر ملکی قوتوں کی ریشہ دوانیوں سے آگاہ رکھنا بھی ضروری ہے ۔ ہم ہمیشہ غیر ملکی قوتوں کے آلہ کار بن کر زندگی گزار سکتے ہیں ۔
عوام کو موجودہ حکومت سے سب سے بڑا گلہ یہ ہے کہ ٹیکسوں کا سارا بوجھ اب بھی غریب اور مڈل کلاس پر ہے، جو لوگ محلوں میں زندگیاں گزار رہے ہیں ان سے ذرائع آمدنی کا اب بھی نہیں پوچھا جا رہا ۔ موجودہ حکومت نے ناجائز قبضوں کے خلاف مہم شروع کی تو وہ بھی رسمی سی کاروائی محسوس ہو رہی ہے وگرنہ اس وقت بھی ہزاروں شہری جائیداد اور خود حکومت اپنی املاک سے محروم ہے ۔ ہر قبضہ گروپ کو سیاسی راہنماؤں کی سر پرستی حاصل رہی ہے اب بھی ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حکومت ڈالر ریٹ کے معاملے میں ''ٹریپ'' ہوئی ہے جس کی وجہ سے ساری معیشت لرز کر رہ گئی ہے حکومت کو جلد بازی میں یہ قدم نہیں اٹھانا چاہیے تھا ، کئی دوسرے حل تھے جن پر توجہ نہیں دی گئی کچھ عرصہ دباؤ برداشت کرنے کی ضرورت تھی، ڈالر مہنگا ہونے کے نقصانات فائدے کی نسبت زیادہ ہیں ۔
تحریک انصاف کی حکومت کی ساری توجہ اس وقت عوام کو معاشی ریلیف، انصاف اور بنیادی سہولتوںکی فراہمی کی جانب ہونی چاہیے وگرنہ پاکستان کے بد خواہ ممالک پاکستانی عوام کی بدحالی کا مستقبل میں بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ ترقیاتی کاموں کی رفتار خاصی سست ہو چکی ہے، اس کی بڑی وجہ معاشی مسائل کو قرار دیا جا رہا ہے، مگر مناسب اور مؤثر منصوبہ بندی سے ترقیاتی کاموں کی رفتار تیز کی جا سکتی ہے، اگر سرکاری زمینوں سے قبضہ چھڑوا لیا جائے اور انہیں فروخت کر دیا جائے تو اتنی رقم حاصل ہو سکتی ہے کہ ملک میں ہر جگہ ترقیاتی منصوبوں کی بہتات نظر آسکتی ہیں۔
پر دیکھا جائے تو مسائل اتنے زیادہ نہیں ہیں، مؤثر حکمت عملی کا فقدان ہے، حکومتی ٹیم نئے انداز میں کام کرنے میں فی الحال کامیاب نہیں ہے شاید بیوروکریٹس پر انحصار زیادہ کیا جا رہا ہے۔ حکومتی ٹیم بیوروکریٹس کو واضح حکمت عملی دینے میں اور کام لینے میں ناکام رہی ہے ۔ اگر روائتی طور طریقے ہی اپنانے تھے تو ''نیا پاکستان'' کیسے بنے گا۔
تحریک انصاف سے عوام نے جو امیدیں قائم تھیں وہ آہستہ آہستہ دم توڑتی جا رہی ہیں۔ بنیادی سہولتوں، تعلیم، علاج، خوراک، بجلی، گیسں، پانی اور انصاف کے حصول میں عوام کو پہلی سی دشواریوں کا سامنا ہے، موجودہ اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویزالٰہی جب وزیر اعلیٰ پنجاب تھے تو 1122ریسکیو جیسی سروس شروع کی گئی، ہسپتالوں میں مریضوں کو ادویات کی فراہمی یقینی بنائی گئی۔ دیہی علاقوں میں سڑکوں کا جال بچھایا گیا۔
دیہی علاقوں میں اسکولوں اور طبی مراکز قائم کرنا اشد ضروری ہے۔ آمدورفت کیلئے پختہ سڑکوں کی تعمیر بھی ضروری ہے، پولیس کلچر میں تبدیلی کیلئے ضروری ہے کہ بری شہرت کے افسران اور ملازمین کو نوکری سے برخاست کر دیا جائے، اس کے لئے نئی قانون سازی بھی کرنی پڑے تو دیر نہیں کرنی چاہیے۔ بدعنوان، نااہل، سازشی اور شخصیات کے وفادار سرکاری افسران اور ملازمین سے اگر چھٹکارہ پا لیا جائے تو نئی نسل کے لئے سرکاری نوکریوں کے دروازے کھل جائیں گے ۔
پاکستان میں اعلیٰ اور معیاری تعلیم کی ناقدری بھی اسی لئے ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی نوجوانوں کو اپنا روشن مستقبل نظر نہیں آتا ۔ اب نظام کی تبدیلی کی اشد ضرورت ہے کہ ''فالتو'' میٹریل ضائع کرکے کارآمد''اشیا'' کو محفوظ کیا جائے۔ اس وقت مسائل تو موجود ہیں مگر اتنے گھمبیر نہیں کہ ان کا حل ہی موجود نہ ہو ۔