محکمہ پولیس میں اصلاحات
ہمارے سامنے ایک مثال اس ملک کی ہے جہاں بادشاہت ہے مگر پولیس کا نظام بہترین ہے
لاہور:
حالیہ سانحہ ساہیوال نے پوری قوم کو جھنجوڑکر رکھ دیا ہے ، ہر طرف سے ایک ہی آواز بلند ہو رہی ہے کہ پولیس میں اصلاحات کی جائیں اور واقعی اس کی اشد ضرورت بھی ہے، اصلاحات اس طرح کی جائے کہ اس پر پورا محکمہ پولیس عمل بھی کرے تاکہ ساہیوال، سانحہ ماڈل ٹائون، سانحہ کراچی نقیب اللہ قتل اب دوبارہ وقوع پذیر نہ ہوں، ہمارے یہاں پولیس کے پاس بے حد اختیارات ہیں لیکن پولیس ہمیشہ ہر قدم ان اختیارات کے حدود سے تجاوزکر جاتی ہے، اگرکسی ملزم کو پکڑنا ہو تو پولیس مجسٹریٹ سے وارنٹ گرفتاری نہیں لیتی، بلکہ پولیس ہو یا کوئی اور ایجنسی وہ ملزموں کو سرعام اغوا کے انداز میں اٹھا کر لے جاتے ہیں اور نامعلوم مقام پر رکھتے ہیں اور ہر طرح کا تشدد کرکے اپنی مرضی کا بیان لیا جاتا ہے۔
ملزمان کے لواحقین اس اثناء میں جس تکلیف سے گزرتے ہیں یہ وہی جانتے ہیں، اسے غیر قانونی گرفتاری کہتے ہیں، جس کا علم پولیس کے اعلیٰ افسران کو بھی ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں جب تک ملزم کے لواحقین عدالت میں پیٹیشن نہ ڈالیں ملزم کی گرفتاری ظاہر نہیں ہوتی، چونکہ یہ گرفتاری آئین اور قانون کے خلاف ہوتی ہے ، لہٰذا اس میں لواحقین کے لیے یہ ثابت کرنا بہت دشوار ہوتا ہے کہ ان کے متعلقہ فردکو غیر قانونی حراست میں رکھا گیا ہے۔
اس غیر قانونی گرفتاری کا فائدہ اسے گرفتارکرنے والے اس طرح اٹھاتے ہیں کہ اگر وہ تشدد میں مر جائے تو اس کی لاش کوکہیں پھینک دیتے ہیں کیونکہ مذکورہ شخص کی گرفتاری کا کوئی ثبوت پولیس پر ثابت نہیں ہو سکتا۔ اس میں ملزم گرفتاری کے وقت مزاحمت کرے تو اسے پولیس مقابلے میں مار دیا جاتا ہے پھر اسے مجرم ثابت کرنے کے لیے مختلف قسم کے ہتھیار بارود یا ممنوعہ اشیاء اس کے پاس سے ظاہرکردی جاتی ہے تاکہ چالان میں یہ ظاہر کیا جائے کہ پولیس نے جس کو جان سے مارا یا زخمی کیا ہے وہ واقعی مجرم تھا۔ اس طرح پولیس غیر قانونی گرفتاری سے لے کر اس کے چالان بنانے تک تمام مراحل میں جھوٹ اور جھوٹے گواہ، جھوٹا قصہ اس طرح گڑھتے ہیں کہ عدالت میں اسے مجرم ثابت کیا جا سکے، پھر اسے وکیل کرنا ہوتا ہے۔ بھاری فیس کے عوض وکیل مقدمہ لڑتا ہے اور ملزم کو پہلے کئی ہفتوں ریمانڈ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پھر اسے قید وبند کی اذیت برداشت کرناپڑتی ہیں اور عدالت میں پیشی بھگتنا پڑتی ہے۔اس عمل میں کئی سال گزر جاتے ہیں اور پھر عموماً عدالت سے اسے انصاف ملتا ہے وہ بھی زیادہ تر لوئرکورٹ، ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ سے ملتا ہے۔
پولیس ہر مقدمے کو دہشت گردی کا مقدمہ بنا کر چالان تیارکرتی ہے تاکہ یہ مقدمہ عام عدالت کے بجائے اے ٹی سی عدالت میں چلے، ایسے بہت سے مقدمے ہیں جو اے ٹی سی میں چلائے جا رہے ہیں جو چار دیواری کے ہیں مگر اسے بھی اے ٹی سی کورٹس میں چلایا جاتا ہے، اس دوران نہ صرف اسے بلکہ اس کے گھر والوں کو بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسطرح پاکستان میں ماورائے عدالت اور پولیس مقابلے اور غیر قانونی حراست، یہ شکایات عام ہیں، عدالتیں اگر ان مقدموں میں انصاف نہ دیں تو یہاں کسی کی جان و مال محفوظ نظر نہیں آتی، نہ جانے اب تک کتنے لوگ دہشت گردی کے نام پر مارے جا چکے ہیں۔
جے آئی ٹی کی تازہ رپورٹ نے خود کہا کہ ایس ایس پی رائو انوار نے نقیب اللہ اور اس کے ساتھیوں کوکمرے میں قتل کر کے وہاں اسلحہ رکھ کر اسے مجرم اور دہشت گرد بتلایا گیا۔ اسی طرح ساہیوال کی جے آئی ٹی نے خود تسلیم کیا ہے کہ ذیشان جو گاڑی چلا رہا تھا، وہ مشکوک ہے جب کہ اس کی کار میں خلیل، اس کی اہلیہ اور13 سالہ بچی بے گناہ مارے گئے اور سب سے زیادہ غیر انسانی سلوک ہے کہ تین معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین اور بہن کوگولیوں سے چھلنی کر دیا گیا، اگر ایسے جعلی پولیس مقابلے جو ماضی میں ہوتے رہے ہیں ان سب پر جے آئی ٹی بنے تو شاید ان کا نتیجہ ساہیوال، ماڈل ٹائون اور رائوانوار کے مقابلے میں وہی آئے جو اب ساہیوال اور رائو انوارکی جے آئی ٹی نے دی ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ تمام صوبائی اور وفاقی حکومت پولیس میں ایسی اصلاحات لائیں کہ کم از کم انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو اور پولیس کا یا کسی بھی ایجنسی کا یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ جب چاہے جسے چاہے اور جہاں چاہے غیر قانونی طور پر اپنی کسٹڈی میں لے لے اور نامعلوم مقام پر لیجا کر اس پر تفتیش کی آڑ میں تشدد کرے ،کیونکہ نہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی دنیا کا بین الاقوامی قانون کیونکہ یہ عمل سراسر غیر انسانی ہے، ہمارا مشورہ ہے کہ انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری جو واقعی انسانی حقوق کی بالادستی چاہتی ہیں وہ پولیس کی اصلاحات کے وقت اپنی سفارشات ضرور دیں اور پولیس ہو یا کوئی ایجنسی،کسی ملزم کو پکڑنا ہے تو پہلے مجسٹریٹ سے وارنٹ لے اور جس کو بھی گرفتار کرنا ہے وہ ملزم کے لواحقین کے علم میں ہو، تاکہ وہ ہر وقت قانونی امداد کے ذریعے ملزم کو بے گناہ ثابت کریں۔
ہمارے سامنے ایک مثال اس ملک کی ہے جہاں بادشاہت ہے مگر پولیس کا نظام بہترین ہے۔ ریاض جو سعودی عرب کا دارالحکومت ہے وہاں پر آج سے کئی سال پہلے موجودہ بادشاہ سلیمان بن عبدالعزیزگورنر تھے، ان سے پولیس نے ایک غیر ملکی کے گھر چھاپہ مارنے کی اجازت لی تو انھوں نے پوچھا کہ ''اس کے گھر پر چھاپہ کیوں مارنا چاہتے ہو۔'' پولیس نے کہا کہ ''ہمیں خفیہ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اس کے گھر میں غیر قانونی اسلحہ ہے'' گورنر صاحب نے اجازت دے دی، پولیس نے اس کے گھر چھاپہ مارا تلاشی کے باوجود کوئی اسلحہ نہ ملا مگر دوران تلاشی کچھ شراب کی بوتلیں ضرور ملیں پولیس نے اسے شراب کے الزام میں گرفتار کر لیا،
جب یہ رپورٹ ریاض کے گورنر سلمان بن عبدالعزیز کے سامنے آئی تو انہیں غصہ آگیا اور پولیس کی سرزنش کی اس کو نوکری سے برخواست کیا کیونکہ پولیس نے گورنرسے چھاپے کی اجازت اسلحے کی تلاشی کے لیے لی تھی جو نہیں ملا تو گورنر صاحب نے کہا کہ ''تم نے اجازت اسلحے کی لی اور شراب کے الزام میں پکڑا، یعنی پولیس نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے'' یہ مثال ہے گڈ گورننس کی جس کو ہم مدنظر رکھیں اور پاکستان میں کسی کو بھی انسانی حقوق پامال کرنے کی اجازت نہ دیں کسی کو غیر قانونی طور پرکسٹڈی میں رکھنے کی اجازت نہ دیں اور جو پولیس یا ایجنسی کے افراد اس عمل میں ملوث ہوں ان کے خلاف سخت کارروائی ہو اور پولیس یا کسی ایجنسی کو یہ اختیار بھی نہ دیا جائے کہ وہ چار دیواری میں بغیر وارنٹ کے چھاپے مارے
کبھی ہوٹل میں کبھی کسی گیسٹ ہائوس میں، کبھی رہائش گاہوں میں، یہ کبھی بیوٹی پارلر پرجو بغیر وارنٹ کے چھاپے مارے جاتے ہیں، اس سے عوام میں اطمینان کے بجائے بے چینی پیدا ہوتی ہے اور عوام الناس خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ عوام کو آزادی اور سکون سے رہنے دیں، فی الوقت پولیس اسٹریٹ کرائمز پر توجہ دے جوکہ کراچی اور لاہور میں بڑھتے جا رہے ہیں، سڑکوں پر چلنے والے عوام الناس کی جان ومال خطرے میں ہے اور جو پولیس بطور محافظ وی آئی پی حضرات کو دی گئی ہے، اس کے بدلے انہیں پرائیوٹ محافظ رکھنے کی ترغیب دی جائے۔
پولیس کی اصلاحات کا قانون بنانے کے لیے تمام ایجنسیوں کے اعلیٰ افسران اور تمام صوبوں کے آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی سے مشاورات ضرورکی جائے اور اصلاحات میں عدالتوں کی بارکونسل کو بھی شریک کیا جائے اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے سربراہ اور وزارت انسانی حقوق کو بھی شامل کیا جائے اور ایسی اصلاحات لائی جائیں، جس میں عوام الناس کو سکون و اطمینان کے ساتھ بنیادی حقوق کی پامالی نہ ہو۔
حالیہ سانحہ ساہیوال نے پوری قوم کو جھنجوڑکر رکھ دیا ہے ، ہر طرف سے ایک ہی آواز بلند ہو رہی ہے کہ پولیس میں اصلاحات کی جائیں اور واقعی اس کی اشد ضرورت بھی ہے، اصلاحات اس طرح کی جائے کہ اس پر پورا محکمہ پولیس عمل بھی کرے تاکہ ساہیوال، سانحہ ماڈل ٹائون، سانحہ کراچی نقیب اللہ قتل اب دوبارہ وقوع پذیر نہ ہوں، ہمارے یہاں پولیس کے پاس بے حد اختیارات ہیں لیکن پولیس ہمیشہ ہر قدم ان اختیارات کے حدود سے تجاوزکر جاتی ہے، اگرکسی ملزم کو پکڑنا ہو تو پولیس مجسٹریٹ سے وارنٹ گرفتاری نہیں لیتی، بلکہ پولیس ہو یا کوئی اور ایجنسی وہ ملزموں کو سرعام اغوا کے انداز میں اٹھا کر لے جاتے ہیں اور نامعلوم مقام پر رکھتے ہیں اور ہر طرح کا تشدد کرکے اپنی مرضی کا بیان لیا جاتا ہے۔
ملزمان کے لواحقین اس اثناء میں جس تکلیف سے گزرتے ہیں یہ وہی جانتے ہیں، اسے غیر قانونی گرفتاری کہتے ہیں، جس کا علم پولیس کے اعلیٰ افسران کو بھی ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں جب تک ملزم کے لواحقین عدالت میں پیٹیشن نہ ڈالیں ملزم کی گرفتاری ظاہر نہیں ہوتی، چونکہ یہ گرفتاری آئین اور قانون کے خلاف ہوتی ہے ، لہٰذا اس میں لواحقین کے لیے یہ ثابت کرنا بہت دشوار ہوتا ہے کہ ان کے متعلقہ فردکو غیر قانونی حراست میں رکھا گیا ہے۔
اس غیر قانونی گرفتاری کا فائدہ اسے گرفتارکرنے والے اس طرح اٹھاتے ہیں کہ اگر وہ تشدد میں مر جائے تو اس کی لاش کوکہیں پھینک دیتے ہیں کیونکہ مذکورہ شخص کی گرفتاری کا کوئی ثبوت پولیس پر ثابت نہیں ہو سکتا۔ اس میں ملزم گرفتاری کے وقت مزاحمت کرے تو اسے پولیس مقابلے میں مار دیا جاتا ہے پھر اسے مجرم ثابت کرنے کے لیے مختلف قسم کے ہتھیار بارود یا ممنوعہ اشیاء اس کے پاس سے ظاہرکردی جاتی ہے تاکہ چالان میں یہ ظاہر کیا جائے کہ پولیس نے جس کو جان سے مارا یا زخمی کیا ہے وہ واقعی مجرم تھا۔ اس طرح پولیس غیر قانونی گرفتاری سے لے کر اس کے چالان بنانے تک تمام مراحل میں جھوٹ اور جھوٹے گواہ، جھوٹا قصہ اس طرح گڑھتے ہیں کہ عدالت میں اسے مجرم ثابت کیا جا سکے، پھر اسے وکیل کرنا ہوتا ہے۔ بھاری فیس کے عوض وکیل مقدمہ لڑتا ہے اور ملزم کو پہلے کئی ہفتوں ریمانڈ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پھر اسے قید وبند کی اذیت برداشت کرناپڑتی ہیں اور عدالت میں پیشی بھگتنا پڑتی ہے۔اس عمل میں کئی سال گزر جاتے ہیں اور پھر عموماً عدالت سے اسے انصاف ملتا ہے وہ بھی زیادہ تر لوئرکورٹ، ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ سے ملتا ہے۔
پولیس ہر مقدمے کو دہشت گردی کا مقدمہ بنا کر چالان تیارکرتی ہے تاکہ یہ مقدمہ عام عدالت کے بجائے اے ٹی سی عدالت میں چلے، ایسے بہت سے مقدمے ہیں جو اے ٹی سی میں چلائے جا رہے ہیں جو چار دیواری کے ہیں مگر اسے بھی اے ٹی سی کورٹس میں چلایا جاتا ہے، اس دوران نہ صرف اسے بلکہ اس کے گھر والوں کو بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اسطرح پاکستان میں ماورائے عدالت اور پولیس مقابلے اور غیر قانونی حراست، یہ شکایات عام ہیں، عدالتیں اگر ان مقدموں میں انصاف نہ دیں تو یہاں کسی کی جان و مال محفوظ نظر نہیں آتی، نہ جانے اب تک کتنے لوگ دہشت گردی کے نام پر مارے جا چکے ہیں۔
جے آئی ٹی کی تازہ رپورٹ نے خود کہا کہ ایس ایس پی رائو انوار نے نقیب اللہ اور اس کے ساتھیوں کوکمرے میں قتل کر کے وہاں اسلحہ رکھ کر اسے مجرم اور دہشت گرد بتلایا گیا۔ اسی طرح ساہیوال کی جے آئی ٹی نے خود تسلیم کیا ہے کہ ذیشان جو گاڑی چلا رہا تھا، وہ مشکوک ہے جب کہ اس کی کار میں خلیل، اس کی اہلیہ اور13 سالہ بچی بے گناہ مارے گئے اور سب سے زیادہ غیر انسانی سلوک ہے کہ تین معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین اور بہن کوگولیوں سے چھلنی کر دیا گیا، اگر ایسے جعلی پولیس مقابلے جو ماضی میں ہوتے رہے ہیں ان سب پر جے آئی ٹی بنے تو شاید ان کا نتیجہ ساہیوال، ماڈل ٹائون اور رائوانوار کے مقابلے میں وہی آئے جو اب ساہیوال اور رائو انوارکی جے آئی ٹی نے دی ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ تمام صوبائی اور وفاقی حکومت پولیس میں ایسی اصلاحات لائیں کہ کم از کم انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو اور پولیس کا یا کسی بھی ایجنسی کا یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ جب چاہے جسے چاہے اور جہاں چاہے غیر قانونی طور پر اپنی کسٹڈی میں لے لے اور نامعلوم مقام پر لیجا کر اس پر تفتیش کی آڑ میں تشدد کرے ،کیونکہ نہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی دنیا کا بین الاقوامی قانون کیونکہ یہ عمل سراسر غیر انسانی ہے، ہمارا مشورہ ہے کہ انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری جو واقعی انسانی حقوق کی بالادستی چاہتی ہیں وہ پولیس کی اصلاحات کے وقت اپنی سفارشات ضرور دیں اور پولیس ہو یا کوئی ایجنسی،کسی ملزم کو پکڑنا ہے تو پہلے مجسٹریٹ سے وارنٹ لے اور جس کو بھی گرفتار کرنا ہے وہ ملزم کے لواحقین کے علم میں ہو، تاکہ وہ ہر وقت قانونی امداد کے ذریعے ملزم کو بے گناہ ثابت کریں۔
ہمارے سامنے ایک مثال اس ملک کی ہے جہاں بادشاہت ہے مگر پولیس کا نظام بہترین ہے۔ ریاض جو سعودی عرب کا دارالحکومت ہے وہاں پر آج سے کئی سال پہلے موجودہ بادشاہ سلیمان بن عبدالعزیزگورنر تھے، ان سے پولیس نے ایک غیر ملکی کے گھر چھاپہ مارنے کی اجازت لی تو انھوں نے پوچھا کہ ''اس کے گھر پر چھاپہ کیوں مارنا چاہتے ہو۔'' پولیس نے کہا کہ ''ہمیں خفیہ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اس کے گھر میں غیر قانونی اسلحہ ہے'' گورنر صاحب نے اجازت دے دی، پولیس نے اس کے گھر چھاپہ مارا تلاشی کے باوجود کوئی اسلحہ نہ ملا مگر دوران تلاشی کچھ شراب کی بوتلیں ضرور ملیں پولیس نے اسے شراب کے الزام میں گرفتار کر لیا،
جب یہ رپورٹ ریاض کے گورنر سلمان بن عبدالعزیز کے سامنے آئی تو انہیں غصہ آگیا اور پولیس کی سرزنش کی اس کو نوکری سے برخواست کیا کیونکہ پولیس نے گورنرسے چھاپے کی اجازت اسلحے کی تلاشی کے لیے لی تھی جو نہیں ملا تو گورنر صاحب نے کہا کہ ''تم نے اجازت اسلحے کی لی اور شراب کے الزام میں پکڑا، یعنی پولیس نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے'' یہ مثال ہے گڈ گورننس کی جس کو ہم مدنظر رکھیں اور پاکستان میں کسی کو بھی انسانی حقوق پامال کرنے کی اجازت نہ دیں کسی کو غیر قانونی طور پرکسٹڈی میں رکھنے کی اجازت نہ دیں اور جو پولیس یا ایجنسی کے افراد اس عمل میں ملوث ہوں ان کے خلاف سخت کارروائی ہو اور پولیس یا کسی ایجنسی کو یہ اختیار بھی نہ دیا جائے کہ وہ چار دیواری میں بغیر وارنٹ کے چھاپے مارے
کبھی ہوٹل میں کبھی کسی گیسٹ ہائوس میں، کبھی رہائش گاہوں میں، یہ کبھی بیوٹی پارلر پرجو بغیر وارنٹ کے چھاپے مارے جاتے ہیں، اس سے عوام میں اطمینان کے بجائے بے چینی پیدا ہوتی ہے اور عوام الناس خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں۔ یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ عوام کو آزادی اور سکون سے رہنے دیں، فی الوقت پولیس اسٹریٹ کرائمز پر توجہ دے جوکہ کراچی اور لاہور میں بڑھتے جا رہے ہیں، سڑکوں پر چلنے والے عوام الناس کی جان ومال خطرے میں ہے اور جو پولیس بطور محافظ وی آئی پی حضرات کو دی گئی ہے، اس کے بدلے انہیں پرائیوٹ محافظ رکھنے کی ترغیب دی جائے۔
پولیس کی اصلاحات کا قانون بنانے کے لیے تمام ایجنسیوں کے اعلیٰ افسران اور تمام صوبوں کے آئی جی اور ایڈیشنل آئی جی سے مشاورات ضرورکی جائے اور اصلاحات میں عدالتوں کی بارکونسل کو بھی شریک کیا جائے اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے سربراہ اور وزارت انسانی حقوق کو بھی شامل کیا جائے اور ایسی اصلاحات لائی جائیں، جس میں عوام الناس کو سکون و اطمینان کے ساتھ بنیادی حقوق کی پامالی نہ ہو۔