ایک تھا بادشاہ
سمر قند کے نواح میں شفاف پانی کا مولیاں کے نام سے ایک نالہ ہے، اس خوبصورت شہر کے لوگوں کو یہ ...
سمر قند کے نواح میں شفاف پانی کا مولیاں کے نام سے ایک نالہ ہے، اس خوبصورت شہر کے لوگوں کو یہ چھوٹی سی نہر یا ندی نالہ بہت پسند ہے یہانتک کہ بعض شاعروں نے اس ندی کو بہت یاد کیا ہے۔ ایک شاعر غالباً رودکی کا ایک مشہور شعر ہے۔
بوئے جوئے مولیاں آئد ہمے
یاد یار مہرباں آئد ہمے
کہ مولیاں ندی کی خوشبو دل و دماغ میں بسی رہتی ہے جیسی یار مہربان کی یاد۔ یہ پرانا شعر مجھے میرے رفیق کار عاشق علی فرخ نے یاد دلایا ہے جو گزشتہ روز فوت ہو گئے۔ نوائے وقت کے دفتر میں ہمارا تعارف ہوا اور پھر دوستی، وہ اس وقت رپورٹنگ چھوڑ کر ڈیسک پر آ گئے تھے۔ یوں ہر خبر فائل کرتے وقت ان سے رابطہ رہتا۔ امتداد زمانہ انھیں کسی دوسرے دفتر میں اور مجھے کہیں اور لے گیا۔ لیکن دونوں کا صحافتی پیشے کا اور ذاتی تعلق برقرار رہا، وہ اسی چکر میں ملتان جا پہنچے۔
لاہور کے تھے لیکن ولیوں کا یہ شہر ان کا آخری مسکن بن گیا۔ درست کہ بقول حضرت داتا گنج بخشؒ لاہور شہر یکے از مضافات ملتان است کہ لاہور ملتان کے مضافات میں واقعہ ایک شہر ہے لیکن سیاسی دنیا نے ملتان کو لاہور کا ایک مضافاتی شہر بنا دیا ہے جہاں کے گرد و گرما میں ہمارے دوست نے آخری سانس لیا اور جب خبر پڑھی تو مجھے یہ واقعی مہربان دوست بہت یاد آیا۔کسی ملتانی دوست کو اخباری کام پڑتا تو میں فرخ سے کہہ دیتا اور وہ حکم کی تعمیل ہو گی سے جواب دیتا ۔
جس پر میں اسے جھاڑتا کہ یہ زبان جاگیرداری ماحول کی زبان ہے اور اس کا جواب ہوتا کہ میں جاگیردار نہ ہونے کے باوجود اب اس نظام کے کلچر کا حصہ بن چکا ہوں اور تم بھی تو ایک برائے نام سہی جاگیردار قسم کی چیز ہو۔ اب میرا یہ عمر بھر کا دوست چلا گیا اور لاہور شہر کے مضافات کے ایک قصبے میں اس نے آخری گھر بنا لیا۔ مجھے اس یار مہربان کی یاد آتی رہے گی اور میں رودکی کا یہ شعر گنگناتا رہوں گا۔ شاعروں کی مہربانی کہ وہ کسی غم کو بھی خوبصورت بنا دیتے ہیں اور اسے یاد دلاتے رہتے ہیں۔
میں معذرت خواہ ہوں کہ آپ کو اپنے ذاتی غم میں شریک کرنے کی کوشش کی لیکن ہمارے جیسے لوگوں کے پاس کسی کو یاد کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ یہی چند الفاظ ہیں جو لطیفے بھی بیان کرتے ہیں اور سانحے بھی۔ اب میں ایک غیر سیاسی حکایت بیان کرتا ہوں۔ پرانے زمانے کے رواج کے مطابق کسی لاوارث بادشاہ کا جانشین عموماً کسی تُک بندی سے ہی تلاش کیا جاتا تھا۔ ایک لاوارث بادشاہ جب شدید بیمار ہو گیا تو اس نے درباریوں سے کہا کہ میرے بعد جو کوئی ایک رات کسی قبر میں گزارنے کی کامیاب پیش کش کرے تو اسے بادشاہ بنا لو چنانچہ ایک مزدور فقیر نے یہ پیش کش قبول کرلی اور سوچا کہ میرے پاس ایک گدھے کے سوا کچھ نہیں، اس لیے مجھ سے کیا پرسش ہو گی چنانچہ وہ ایک عارضی قبر میں لیٹ گیا۔ قبر بند کر دی گئی، اتنے میں فرشتے آ گئے اور پوچھا کہ تمہارے پاس کیا ہے۔ اس نے کہا کہ صرف ایک گدھا ہے اور کچھ نہیں۔
اس پر فرشتے مایوس ہو کر جانے لگے تو ایک فرشتہ بولا کہ اس کے اعمال کا رجسٹر تو دیکھو۔ اس میں لکھا تھا کہ اس نے ایک بار اپنے گدھے کو زیادہ بوجھ نہ اٹھانے پر مارا پیٹا۔ یہ دیکھ کر فرشتوں نے اس کی ٹھکائی شروع کر دی اور جب یہ ادھ موا ہو گیا تو رجسٹر میں انھیں دکھائی دیا کہ ایک بار اس نے گدھے پر سوار ہونا چاہا تو اس کی رفتار بہت سست پڑ گئی، اس پر اس نے گدھے کو ایک بار پھر مارا پیٹا۔ یہ پڑھ کر فرشتوں نے گدھے کی مار کا بدلہ اس سے لینا شروع کر دیا اور اس کے جسم پر کوڑے پڑنے شروع ہو گئے، وہ بہت چیخا چلایا لیکن سزا پوری ہونے پر ہی اس کو نجات ملی۔
اس کے اعمال کے رجسٹر میں اور کچھ نہ پا کر فرشتے چلے گئے۔ جب صبح ہوئی تو یہ قبر پھاڑ کر باہر نکلا اور ایک طرف بھاگنا شروع کر دیا۔ اس پر لوگ اس کے پیچھے دوڑے اور 'بادشاہ سلامت بادشاہ سلامت' کی آواز لگاتے ہوئے اسے پکڑ لیا کہ آپ تو اب ہمارے بادشاہ ہیں، آئیے تخت و تاج سنبھالیے اور بادشاہی شروع کیجیے۔ اپنے ایک گدھے کی وجہ سے فرشتوں کی مار کھانے والا یہ بادشاہ اس مطلق اقتدار سے منکر ہو گیا اور کہا کہ ایک گدھے کے حساب کتاب نے مجھے ادھ موا کر دیا ہے تو لاکھوں کروڑوں کی رعایا کا حساب کون دے گا چنانچہ ہزار منت سماجت کے باوجود اس نے بادشاہت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور دوڑ گیا۔
آپ نے یہ حکایت ملاحظہ فرمائی۔ یوں تو یہ ایک پرانے زمانے کی روایتی کہانی ہے اور بظاہر دلچسپ لیکن کیا ہمارے آج کے حکمرانوں میں ایک گدھے والے کی ذمے داری بھی موجود نہیں ہے جو کروڑوں
روپے خرچ کر کے اسمبلیوں میں جاتے ہیں اور اربوں خرچ کر کے وزیر وغیرہ بنتے ہیں لیکن وہ ہمیں واپس آ کر نہیں بتاتے کہ فرشتوں نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا مگر وہ بتائیں یا نہ بتائیں ہمیں سب معلوم ہے کہ عوام سے بے خبر اور ان سے غافل حکمرانوں کا قدرت کے پاس کیا علاج ہے۔
ہم آپ اپنے حکمرانوں کا حال دیکھیں ان کا کروفر یعنی پروٹوکول ملاحظہ کریں اور سب اس سے آگے قدم نہ رکھیں کہ ان کے کوڑوں سے لہولہان جسموں کا کیا حال ہے اور کوڑوں کے نشانات کتنے واضح ہیں۔ ہمارے پرانے زمانوں میں کہا جاتا تھا کہ جو کوئی مسلمانوں کا حکمران بنا وہ کند چھری سے ذبح کیا گیا۔