وجہِ کالم مجھے نہیں معلوم
آج پاکستان کوخیرسے بارہواں اوراگر وسیم سجادکی دومرتبہ کی قائمقامی کو بھی شامل کرلیا جائےتوچودھواں صدرمیسرآجائےگا۔
آج پاکستان کو خیر سے بارہواں اور اگر وسیم سجاد کی دو مرتبہ کی قائمقامی کو بھی شامل کرلیا جائے تو چودھواں صدر میسر آجائے گا۔بھارت میں اس وقت پرنب مکھرجی کی شکل میں مسلسل چودھواں باقاعدہ آئینی صدر براجمان ہے۔جب کہ پاکستان میں صدر کبھی غیر آئینی سے آئینی ہوجاتا ہے اور کبھی نرا آئینی رہ جاتا ہے۔ دارومدار اس پر بھی ہوتا ہے کہ اس نے خاکی کپڑے پہن رکھے ہیں یا سفید۔لیکن اس وقت ہمارا موضوع کپڑے نہیں بلکہ صدر کا عہدہ ہے۔
صدر جیسا بھی ہو اسے وفاق کا مرکزی نقطہ تصور کیا جاتا ہے۔آئینی جمہورتیوں میں کوشش یہی ہوتی ہے کہ صدر کا عہدہ کسی ایسے شخص کے پاس ہو جو وفاقی یونٹوں کو زیادہ سے زیادہ قابلِ قبول ہو۔پڑھا لکھا ہو اور زندگی کے کسی ایک میدان میں اگر اس نے اپنی شخصیت یا پیشے کے اعتبار سے عزت کمائی ہو تو کیا کہنے اور اگر مضبوط تعلیمی پس منظر بھی رکھتا ہو تو پھر سونے پر سہاگہ۔اس تناظر میں اگر انڈیا سے موازنہ کیا جائے تو زیادہ برا اس لیے نہیں ہوگا کیونکہ دونوں ممالک ثقافتی ، سیاسی ، تاریخی اور سماجی اعتبار سے اگر بھائی نہیں تو پینسٹھ برس پہلے تک چچا زاد بھائی ضرور رہے ہیں اور آج بھی چچا زاد بھائیوں کی طرح ہی مقابلے بازی میں مبتلا ہیں۔اگر صرف دونوں ممالک کے صدور کے تعلیمی و پیشہ ورانہ پس منظر ہی کو لیں تو تصویر کچھ یوں بنتی ہے۔
بھارت کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرشاد تھے۔ وہ واحد بھارتی صدر ہیں جو انیس سو پچاس سے انیس سو باسٹھ تک دو مدت اس عہدے پر رہے۔پیشے کے اعتبار سے استاد تھے۔ قانون کے شعبے میں پی ایچ ڈی کیا۔اور ان کی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد ڈاکٹر ایس رادھا کرشنن نے یہ آئینی عہدہ سنبھالا۔
ڈاکٹر راجندر پرشاد کی دوسری آئینی مدت کے دوران اسکندر مرزا پاکستان کے پہلے صدر بنے۔انھوں نے بمبئی کے النفنسٹن کالج سے گریجویشن کیا اور برٹش انڈین آرمی میں سینڈھرسٹ گریجویٹ کے طور پر کمیشن حاصل کیا اور میجرجنرل کے عہدے تک پہنچے۔اسکندر مرزا کو آئینی مدت کی تکمیل سے پہلے پہلے ایک اور جرنیل ایوب خان نے چلتا کرکے مارشل لا لگایا اور پھر باسٹھ کا آئین بنایا اور اس کے تحت خود ہی صدر اور پھرخود ہی فیلڈ مارشل بھی بن گئے۔ایوب خان نے کچھ عرصہ علی گڑھ یونیورسٹی میں گذارا لیکن فوج میں کمیشن ملنے کے سبب وہ پڑھائی چھوڑ کر سینڈھرسٹ ملٹری اکیڈمی میں چلے گئے۔
ایوب خان نے اپنے دور میں تین بھارتی صدور دیکھے۔راجندر پرشاد کا ذکر تو ہو ہی چکا۔ان کے بعد انیس سو باسٹھ سے سڑسٹھ تک ڈاکٹر ایس رادھا کرشنن صدر رہے۔ وہ بھی اپنے پیشرو کی طرح استاد تھے۔ڈاکٹر آف فلاسفی تھے۔کلکتہ اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں مشرقی مذاہب کے ماہر کے طور پر پڑھاتے رہے۔آندھرا اور بنارس یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے۔پانچ ستمبر کو اقوامِ متحدہ جو ورلڈ ٹیچر ڈے مناتی ہے وہ رادھا کرشنن کی سالگرہ کا ہی دن ہے جو عالمی ادارے نے اپنا لیا۔
ان کی جگہ ڈاکٹر ذاکر حسین نئے بھارتی صدر بنے جب کہ پاکستان میں ایوب خان ہی کا زمانہ رہا۔ڈاکٹر صاحب بھی پیشے کے اعتبار سے استاد تھے۔برلن یونیورسٹی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کیا اور دہلی میں جامعہ ملیہ کے بانیوں میں شامل رہے اور اسی جامعہ کے وائس چانسلر بھی رہے۔
جب مئی انیس سو انہتر میں ڈاکٹر ذاکر حسین کا انتقال ہوا تب پاکستان میں ایوب خان کو اقتدار سے معزول کرکے یحییٰ خان نئے صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن چکے تھے۔تعلیمی استعداد کے اعتبار سے سمپل گریجویٹ تھے اور فوج میں کمیشن کے بعد امریکا میں کچھ ملٹری کورسز بھی کیے۔ان کے عم عصر بھارتی صدر وی وی گری تھے۔جب وہ آئرلینڈ کے یونیورسٹی کالج ڈبلن میں قانون کی تعلیم کے لیے داخل ہوئے تو دو برس بعد ہی انھیں جبراً واپس بھجوا دیا گیا کیونکہ وہ بطور مزدور رہنما آئرش حریت پسندوں کی تنظیم شن فین کی سرگرمیوں میں شرکت کرنے لگے تھے۔ہندوستان واپسی پر انھوں نے ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیا اور دو مرتبہ آل انڈیا ٹریڈ یونین کانگریس کے صدر رہے۔
جب یحییٰ خان کی جبری سبکدوشی کے نتیجے میں بیرسٹر ذوالفقار علی بھٹو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر بنے تب بھی وی وی گری بھارتی صدر تھے۔بھٹو صاحب اپنے پیشرو پاکستانی صدور کے برعکس خاصے پڑھے لکھے تھے اور مصنف بھی تھے۔انھوں نے یونیورسٹی آف برکلے کیلفیورنیا سے سیاسیات میں آنرز اور آکسفورڈ سے قانون میں گریجویشن کی۔انگلینڈ کی ساؤتھ ہمپٹن یونیورسٹی اور بعد ازاں ایس ایم لا کالج کراچی میں پڑھاتے رہے اور پھر سیاست میں آگئے۔
بھٹو صاحب کے بعد چوہدری فضل الہی پاکستان کے صدر بنے۔انھوں نے علی گڑھ یونیورسٹی سے ایل ایل بی اور پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے سیاسیات کیا اور گجرات میں قانون کی پریکٹس کرتے رہے۔فضل الہی چوہدری کے ہوتے ہوئے بیرسٹر فخر الدین علی احمد بھارت کے اگلے آئینی صدر بنے وہ بھی پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے مگر کیمبرج یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے۔
فضل الہی چوہدری کو آنے والے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ضیا الحق نے اپنی آئینی مدت پوری کرنے کی اجازت دے دی۔ضیا الحق سینٹ سٹیفنز کالج دہلی میں پڑھتے رہے اور پھر فوج میں کمیشن مل گیا۔جب کہ ان کے ہم عصر پہلے بھارتی صدر نیلم سنجیوا ریڈی مدراس یونیورسٹی سے مصوری کے شعبے میں گریجویٹ تھے۔ضیا الحق کے دوسرے ہم عصر بھارتی صدر گیانی ذیل سنگھ، سکھ مشنری کالج امرتسر کے فارغ التحصیل اور گرنتھ صاحب کے گیانی تھے۔جب کہ ضیا الحق کے ہم عصر تیسرے بھارتی صدر آر وینکٹ رمن لا گریجویٹ اور ایم اے اکنامکس تھے۔
ضیا الحق کی حادثاتی موت کے بعد غلام اسحاق خان صدرِ پاکستان بنے۔انھوں نے پشاور یونیورسٹی سے کیمسٹری میں ایم ایس سی کیا۔بعد ازاں سرکاری ملازمت اختیار کرلی۔بیورو کریسی کی کیمسٹری ان سے اچھی نا کوئی پہلے جانتا تھا نا بعد میں۔مگر وہ اپنی آئینی مدت پوری نا کرسکے اور انھیں فوج کے دباؤ پر وزیرِ اعظم نواز شریف کے ساتھ ہی جانا پڑا۔
بیرسٹر وسیم سجاد نے پنجاب یونیورسٹی اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا۔غلام اسحاق خان کے صدر بننے کے بعد سینیٹ کے چیئرمین رہے۔پھر غلام اسحاق کی صدارت سے سبکدوشی کے بعد قائمقام صدر بنے۔ان کی جگہ سردار فاروق احمد خان لغاری نے لی جو پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کرنے کے بعد برطانیہ چلے گئے اور زراعت کی تعلیم حاصل کی۔بعد ازاں مختصر عرصے کے لیے بیورو کریسی میں رہے اور پھر سیاست میں آگئے۔فاروق لغاری کے بعد بھی وسیم سجاد قائمقام صدر رہے۔
وسیم سجاد اور سردار فاروق احمد لغاری کے ہم عصربھارتی صدر ڈاکٹر شنکر دیال شرما تھے۔انھوں نے قانون کے شعبے میں کیمبرج یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی اور وہیں پڑھاتے بھی رہے۔ہارورڈ لا اسکول کے فیلو بھی رہے۔شنکردیال شرما کے تیسرے پاکستانی ہم عصر جسٹس ریٹائرڈ رفیق تارڑ تھے۔انھوں نے اسلامیہ کالج گوجرانوالہ سے بی اے کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیا۔بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے جج بھی رہے اور دو ہزار ایک میں آئینی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی فوجی چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف نے چلتا کردیا اور خود صدر بن گئے۔
پرویز مشرف ایف سی کالج لاہور میں پڑھتے رہے اور فوج میں کمیشن کے بعد کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج کوئٹہ میں بھی انسٹرکٹر رہے۔انگلینڈ کے رائل کالج آف ڈیفنس اسٹڈیز میں بھی بھیجے گئے۔جب وہ صدر بنے تو ان کے بھارتی ہم منصب لندن اسکول آف اکنامکس کے گریجویٹ اور سابق سینئر ڈپلومیٹ کے آر نرائنن تھے۔صدر پرویز مشرف کے دوسرے بھارتی ہم عصر مدراس یونیورسٹی سے فزکس اور ایرو سپیس ٹیکنولوجی میں فارغ التحصیل اے پی جے عبدالکلام تھے جو صدر بننے سے پہلے ہی دنیا کی ایک درجن سے زائد یونیورسٹیوں سے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں لے چکے تھے۔پرویز مشرف کی تیسری بھارتی ہم عصر پراتیبھا پاٹیل تھیں جو ایم اے اکنامکس اور لا گریجویشن کے بعد وکالت کے پیشے سے منسلک رہیں۔
پراتیھبا پاٹیل پرویز مشرف کی بادلِ نخواستہ رخصتی کے بعد آصف علی زرداری کی ہم عصر بنیں۔زرداری صاحب کی تعلیمی تاریخ یہ تو بتاتی ہے کہ وہ کیڈٹ کالج پٹارو اور سینٹ پیٹرکس کراچی میں رہے لیکن اس کے بعد کچھ واضح نہیں۔زرداری صاحب کے موجودہ بھارتی ہم منصب سیاسیات اور تاریخ کے سابق استاد پرنب مکھرجی ہیں اور وہ اگلے پاکستانی صدر کے بھی ہم عصر ہوں گے۔اگر ممنون حسین صدرِ پاکستان بنتے ہیں تو ان کی تعلیمی قابلیت ایم بی اے ہے۔
یہ کالم لکھ کے میں کیا ثابت کرنا چاہتا ہوں۔مجھے خود بھی نہیں معلوم۔چنانچہ میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ ''سمجھ تو آپ گئے ہوں گے''۔
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے )