فقہی جنگ کے کردار

مسلم دنیا صدیوں سے جن عذابوں میں مبتلا ہے ان میں ایک بڑا عذاب طرز حکمرانی کا ہے جس کے خلاف مسلم دنیا...


Zaheer Akhter Bedari July 29, 2013
[email protected]

مسلم دنیا صدیوں سے جن عذابوں میں مبتلا ہے ان میں ایک بڑا عذاب طرز حکمرانی کا ہے جس کے خلاف مسلم دنیا خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں ایک ہیجان برپا ہے۔ طرز حکمرانی کا براہ راست تعلق استحصالی معاشی نظام سے ہوتا ہے جو معاشی ناانصافی کوجنم دیتا ہے، مشرق وسطیٰ کی عرب بہار اسی معاشی ناانصافی کے خلاف ایک خونریز بغاوت کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔

اس دنیا کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان ملکوں میں ایسی سیاسی قیادت کو ابھرنے نہیں دیا گیا جو نظریاتی طور پر طبقاتی استحصال کی مخالف ہو تی ہے، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ مسلم دنیا میں عموماً مشرق وسطیٰ میں خصوصاً جو حکومتیں برسراقتدار رہیں وہ سامراجی ملکوں کی غلام رہیں اور امریکا سرمایہ دارانہ نظام کی کسی مخالف قوت کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ انڈونیشیا اور ایران اس کی واضح مثالیں ہیں جہاں سوہارتو اور شہنشاہ ایران کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کی مخالف قوتوں کو اس بری طرح کچلا گیا کہ لاکھوں سیاسی کارکن اس کی نذر ہوگئے۔

اسی خلا کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کی تحریکیں انتشار کا شکار رہیں اور منفی قوتیں اس خلا کو پورا کرنے کی کوشش کررہی ہیں لیکن ان قوتوں کے پاس چونکہ طبقاتی استحصال کے خلاف کوئی نظریاتی پروگرام نہیں ہوتا اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ عوام خود اپنے منتخب کردہ رہنماؤں کے خلاف تھوڑے ہی عرصے میں سڑکوں پر آجاتے ہیں، جس کی تازہ مثال مصر کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔

اگرچہ یہ تحریکیں انتشار کا شکار ہیں لیکن اس خطے کے حکمران آنے والے ممکنہ طوفان کا رخ موڑنے کے لیے طرح طرح کی سازشیں کررہے ہیں۔ ان سازشوں میں ایک انتہائی خطرناک سازش مسلم دنیا میں فقہی اختلافات کا مجرمانہ سیاسی استعمال ہے۔ اس سازش پر عملدرآمد عراق سے شروع ہوا، عراق میں امریکا کی موجودگی ہی میں عراقی عوام کو فقہی بنیادوں پر تقسیم کرکے ان کا رخ جنگ آزادی سے فقہی جنگ کی طرف موڑدیا گیا اور اس حوالے سے جو خونریزی عراق سے شروع کرائی گئی وہ اب پھیل کر ساری مسلم دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے ، پاکستان کے بعد اب اس کا رخ شام کی طرف کردیا گیا ہے۔ شام میں بشار الاسد حکومت کے خلاف ''جمہوریت'' کی جو لڑائی لڑی جارہی ہے اس کی منصوبہ بندی امریکا اور اس خطے میں موجود امریکی غلام کررہے ہیں۔

امریکی حکومت کھلم کھلا شام کے جمہوریت پسندوں کی بھاری مالی اور حربی مدد کررہی ہے اور اس خطے کی وہ طاقتیں جو مستقبل میں شام کو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ محسوس کررہی ہیں وہ شام کے جمہوری مجاہدین کی درہم و دینار سے بھرپور سرپرستی کررہی ہیں۔ اب یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ شام میں جو لڑائی لڑی جارہی ہے وہ آمریت کے خلاف عوام کی جنگ نہیں بلکہ ان فقہی مجاہدین کی جنگ ہے جو مسلم ملکوں میں اپنی فقہ مسلط کرنا چاہتے ہیں اور بشار الاسد حکومت کا خاتمہ صرف اس لیے چاہتے ہیں کہ بشار الاسد کے ایران سے بہت قریبی تعلقات ہیں اور امریکا ایران کو اس خطے میں اپنے مفادات اور اسرائیل کا سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے۔ امریکا دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف کھربوں ڈالر لگاکر جو جنگ لڑ رہا ہے اس کا عالم یہ ہے کہ وہ شام میں محض اپنے سیاسی مفادات کی خاطر ان ہی مذہبی انتہا پسندوں کو جمہوریت کے مجاہدین بناکر یہ جنگ لڑرہا ہے۔ شام میں بی بی زینب کے مزار پر حملہ شام میں ڈھیلی پڑتی ہوئی فقہی جنگ کو طاقت فراہم کرنے کی ایک رکیک کوشش ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔

اگر کسی ملک کے عوام اپنے سروں پر مسلط سول یا فوجی آمریت کے خلاف بغاوت کرتے ہیں تو اس کی حمایت کی جانی چاہیے لیکن کسی آمریت کے خلاف فقہی اختلافات کو بنیاد بناکر جنگ لڑنا کسی حوالے سے بھی آمریت کے خلاف جنگ نہیں کہلاسکتی۔ المیہ یہ ہے کہ ساری دنیا کو جمہوریت کا سبق پڑھانے والے امریکا کی سیاسی سوداگری کا عالم یہ ہے کہ وہ بشارالاسد کی آمریت کے خلاف ان حکمرانوں کو استعمال کررہا ہے جو صدیوں سے اپنے ملکوں پر خاندانی اور شخصی آمریت مسلط کیے ہوئے ہیں۔ اس گندی سیاست کا ایک ثبوت روس کے خلاف سیاسی لڑائی میں پاکستان کے بدترین فوجی آمر ضیاء الحق کا جمہوریت کش استعمال ہے جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔

امریکا کی ایران دشمنی کی دو وجوہات ہیں، ایک یہ کہ انقلاب ایران نے اس خطے سے اس شخص کا خاتمہ کردیا جو اس پورے خطے میں امریکی مفادات کا نگہبان تھا، یعنی رضا شاہ۔ شہشاہ ایران رضا شاہ حکومت کے خاتمے سے اس خطے میں امریکا کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ، ایران کی مخالفت کی دوسری بڑی وجہ ایران سے پیدا ہونے والا اسرائیل کو خطرہ ہے جس کا سدباب امریکا ہر قیمت پر کرنا چاہتا ہے اور دوستی اور دشمنی کے حوالے سے دشمن کا دوست بھی دشمن ہوتا ہے اسی دوستی کی سزا شام بھگت رہا ہے۔ امریکا کی جمہوریت پسندی کو نہ مشرق وسطیٰ کے بادشاہوں سے کوئی شکوہ ہے نہ ایران کی مذہبی حکومت پر اسے کوئی اعتراض ہے ، اسے اعتراض یہ ہے کہ ایرانی قیادت اسرائیل کی تباہ کرنے کے کھلم کھلا دھمکیاں دیتی ہے، اسے ایران سے یہ شکایت نہیں کہ وہ اپنی آزادی کے لیے، اپنی ریاست کے لیے لڑنے والے فلسطینیوں کا قتل عام کیوں کررہا ہے، وہ فلسطینیوں کو دھوکا دینے کے لیے کئی سال سے مذاکرات کا دھونگ رچائے ہوئے ہے اور آج بھی وہ مذاکرات کے ایک نئے جال میں فلسطینیوں کو جکڑنے کی کوشش کررہا ہے جس کے مطابق فلسطین اور اسرائیل بھی مذاکرات کا ایک نیا دور واشنگٹن میں ہونے جارہا ہے۔

مسلم ملکوں میں فقہی اختلافات کوئی نئی بات نہیں، نئی بات یہ ہے کہ امریکا ان اختلافات کو اپنے گندے سیاسی مفادات کی خاطر اس انتہا پر لے آیا ہے کہ مسلمان مسلمان کا خون بہارہا ہے، پاکستان بھی اسی فقہی جنگ کے دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور مذہبی انتہا پسند طاقتیں چن چن کر اپنے فقہی مخالفین کو قتل کررہی ہیں، بے شک فقہی اختلافات اسلامی تاریخ کا ایک حصہ ہیں لیکن یہ اختلافات اس مقام تک کبھی نہیںپہنچے تھے جہاںآج پہنچ گئے ہیں۔ ان اختلافات کی نوعیت اور مقصدیت پر بحث اس لیے بیکار ہے کہ ان اختلافات کو مذہبی عقائد کا ایک حصہ بنالیا گیا ہے اور کوئی فریق ان نقصانات پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں جو ان اختلافات کی وجہ مسلم ملکوں اور مسلم عوام کے اجتماعی مفادات کو پہنچ رہے ہیں اور وہ وسائل ان اختلافات کی نذر ہورہے ہیں جو مسلمانوں کی اجتماعی ترقی میں بے حد اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

اگرچہ فقہی تقسیم برصغیر کی مذہبی قیادت کی مذہبی اور سیاسی ضرورت رہی ہے لیکن اس قیادت نے فقہی اختلافات کو اس انتہا تک نہیں پہنچایا جسے مذہبی انتہا پسندی نے پہنچادیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فقہی اختلافات کا مسئلہ قابل حل ہے یا نہیں؟ اگر نہیں ہے تو اس کی دینی توجیہہ کیا ہے اور اگر قابل حل ہے تو اس کے حل کے لیے دینی قیادت نے پوری توجہ کیوں نہیں دی اور اس مسئلے کو جوں کا توں کیوں رہنے دیا؟ کیامذہبی قیادت کو ان اختلافات کے مسلم عوام کے اجتماعی مفادات پر پڑنے والے مضر ترین اثرات کا ادراک نہیں؟

قومی اور ملکی سطح پر ان اختلافات کی ذمے داری جس پر بھی عائد ہوتی ہو لیکن بین الاقوامی سطح پر ان اختلافات کو ہوا دینا اسے انتہا تک پہنچانا اور اسے خونریز جنگ میں بدلنا سامراجی ملکوں کی ضرورت اس لیے بن گئی ہے کہ مواصلاتی انقلاب نے دنیا بھر کے عوام کو اس قدر قریب لاکر کھڑا کردیا ہے کہ وہ نہ صرف ایک دوسرے کے دکھوں کو سمجھنے لگے ہیں بلکہ ان دکھوں کی اصل وجہ تک بھی پہنچ رہے ہیں۔ آج ساری دنیا خصوصاً مسلم دنیا میں جو ہیجان برپا ہے اس کے ڈانڈے سرمایہ دارانہ استحصالی نظام سے جا ملتے ہیں اور اگر دنیا کے عوام کی توجہ کو سرمایہ دارانہ استحصال کی طرف سے نہیں ہٹایا گیا تو دنیا کے 7 ارب عوام اس شیطانی نظام کے پرخچے اڑاسکتے ہیں۔ کیا شام سمیت پوری مسلم دنیا میں فقہی اختلافات کو اس انتہا تک پہنچانے میں سامراجی ملکوں کا ہاتھ نہیں؟ ہمیں سنجیدگی سے اس سوال کا جواب تلاش کرنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔