شام کا گھیراؤ
دنیا کے قدیم ترین کئی تاریخی شہروں والے ملک شام پر ایک بار پھر موت کے سائے لہرا رہے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں شام ...
دنیا کے قدیم ترین کئی تاریخی شہروں والے ملک شام پر ایک بار پھر موت کے سائے لہرا رہے ہیں۔ اسلامی تاریخ میں شام کو کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ملک شام صدیوں سے خونریزی اور قتل و غارت گری کا مرکز و محور رہا ہے۔ اندرونی و بیرونی خلفشار اور سیاسی عدم استحکام نے اس سرزمین کو ہمیشہ سازشوں میں جکڑے رکھا ہے۔ دو سال قبل بشارالا سد کے حق میں سڑکوں پر ہونے والے عوامی مظاہروں اور ریلیوں نے ابتدا ہی میں شدت پسندی کا روپ دھار لیا تھا، جس میں گزرتے وقت کے ساتھ کمی کے بجائے مزید تیزی آتی چلی گئی۔
اب ملک شام خانہ جنگی کی بدترین صورتحال سے دوچار ہے۔ نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ مقامات مقدسہ کا تقدس پامال کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ گزشتہ دنوں راکٹ حملوں میں نواسی رسول ﷺ سیدہ بی بی زینب ؑ کے مزار مبارک کو شدید نقصان پہنچا اور مزار مبارک کے متولی بھی ان حملوں میں شہید ہوگئے۔ یہی نہیں بلکہ دیگر صحابہ کرام کے مزارات جن میں اسلامی تاریخ کے عظیم بہادر اور ناقابل شکست سپہ سالار حضرت خالد بن ولید کا مزار بھی شامل ہے، کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ شہر حمص میں واقع مسجد خالد بن ولید کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔
ان مذموم حملوں کی جتنی بھی مذمت کی جائے ، کم ہے۔ یہ محض اتفاقی حملے نہیں ہیں، ان کے پیچھے مسلمانوں کی مقدس ہستیوں کے تقدس کو پامال کرکے مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے کی گہری یہودی سازش کارفرما ہے۔ حضرت خالد بن ولید کا شمار ماضی میں فاتحین شام میں ہوتا ہے جنہوں نے یہاں تابڑ توڑ حملے کرکے کافرانہ طاقتوں کو شکست فاش دی اور اسلام کی سربلندی کا جھنڈا لہرایا۔ آج ان مقدس ہستیوں کے مزارات اور نواسی رسول ﷺ سیدہ بی بی زینب کے مزار پر حملے اصل میں اپنی ماضی کی شکست کا غم غلط کرنے کی ایک انتہائی بزدلانہ حرکت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔
شام میں اب تک ہونے والی عالمی دہشت گردی میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ سے زائد انسان لقمہ اجل بن چکے ہیں مگر ابھی تک اس صورتحال کا کوئی بامقصد اور پرامن حل نکالا نہیں جاسکا ہے۔ شام میں ہونے والے ان فسادات کو اگر امریکی دھمکیوں اور کئی افریقی مسلم ممالک میں قیادت کی تبدیلی کی تحریکوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو معاملات کے گمبھیر ہونے میں کوئی شبہ باقی نہیں رہ جاتا۔ سابق امریکی صدر بش جونیئر نے عالمی معاملات کے حوالے سے جن ممالک کو برائیوں کا محور قرار دیا تھا ان میں ملک شام کا نام بھی شامل تھا۔
یہ حقیقت عالمی برادری کے ذہنوں سے ابھی تک محو نہیں ہوئی ہوگی کہ ایسی ہی سرگرمیوں اور کارروائیوں کو جواز بنا کر پہلے امریکا اپنے اتحادیوں کے ساتھ لیبیا میں حکومت کے مخالفین کی عملی و فوجی مدد کرچکا ہے، جس کا نتیجہ بھی سب دیکھ چکے ہیں۔ ملک شام میں جاری یہ سارا ڈراما طے شدہ اور عالمی قوتوں کا رچایا ہوا ہے جو مسلم ممالک میں اپنی مرضی کے کٹھ پتلی حکمران لانا چاہتی ہیں۔ حالانکہ کسی بھی ملک میں اقتدار اور اپنے سیاسی و عوامی فیصلے کرنے کا اختیار وہاں کے عوام کو ہونا چاہیے۔ کسی ملک میں قیادت کی تبدیلی وہاں کے عوام کے ہاتھوں پایہ تکمیل کو پہنچنی چاہیے نہ کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں ۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ نہ صرف ایسا ہورہا ہے بلکہ ساتھ ساتھ پورے ملک کو بھی بدترین خونریزی میں جھونک دیا گیا ہے۔ اس ساری افسوسناک صورتحال میں عرب لیگ اور او آئی سی کا کردار محض تماشائی کا ہے۔ غالب گمان یہ ہے کہ شام کو ایران کا کھلم کھلا حامی ہونے کی سزا دی جارہی ہے۔ بشارالاسد حکومت نے باغیوں کے ساتھ مذاکرات رکوانے میں ناکامی کا الزام دھرتے ہوئے روم میں ہونے والے فرینڈز آف سیریا کے رکن گیارہ ممالک کے اجلاس کا بائیکاٹ کا اعلان کردیا تھا، شاید اسی وجہ سے شام کی موجودہ خانہ جنگی مشرق وسطیٰ کی سیاست میں زبردست بھونچال کی کیفیت پیدا کرچکی ہے۔ اس سے قبل کہ شام کی یہ ٹوٹ پھوٹ خطے کے دیگر ممالک کو متاثر کردے تمام اسلامی ممالک اور اقوام متحدہ کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مسلمان وزیراعظم ہونے کے ناتے نواز شریف کو چاہیے کہ شام کا مسئلہ سیاسی بنیادوں پر حل کرنے کی تجاویز لے کر اقوام متحدہ کی سیکریٹری جنرل بان کی مون سے خصوصی ملاقات کریں اور شامی حکومت پر بھی زور دیں کہ وہ اپنے شہریوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرے۔ جہاں تک بات ہے مقدس ہستیوں کے مزارات کی بے حرمتی کی تو اس کے لیے پاکستان کی نئی حکومت اور عوام کی کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہیے۔ پاکستانی عوام جگہ جگہ اپنے غم و غصے اور پرامن احتجاج کے مظاہرے کرتے نظر آرہے ہیں تاہم حکومت اس مسئلے پر ابھی تک کوئی واضح موقف اپنا نہیں سکی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہنگامی بنیادوں پر پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا جاتا اور مذمتی قرارداد منظور کی جاتی۔ دفتر خارجہ سفیر کو بلا کر اپنے تحفظات سے آگاہ کرتا۔ بطور ایٹمی طاقت، اسلامی جمہوریہ پاکستان پر بڑی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اسلامی ممالک میں روا رکھے جانے والے غیر انسانی سلوک کے خلاف اپنا مضبوط اور موثر اثر و رسوخ استعمال کرے لیکن صورتحال اس لیے شرمناک ہے کہ ہم ایٹمی طاقت ہوتے ہوئے بھی جب اپنے ہی ملک میں بے گناہ افراد پر ملکی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کیے جانے والے ڈرون حملوں کو نہیں روک پاتے تو کسی دوسرے اسلامی ملک میں ہونے والی بربریت کے خلاف کیسے کوئی جارحانہ موقف اپنا سکتے ہیں۔
فی الحال تو صورتحال یہ دکھائی دے رہی ہے کہ شام میں بھی عراق اور لیبیا کی تاریخ دہرانے کی تیاریاں ہورہی ہیں، کیونکہ جب عراق پر حملے کی راہ ہموار کی جارہی تھی تب بھی جارج بش جونیئر نے عراقی صدر صدام حسین پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ کردوں کے خلاف کیمیاوی ہتھیار استعمال کررہے تھے اور اب ایک بار پھر تصویر کا وہی رخ نظر آرہا ہے جب اوباما یہی الزام شامی حکومت پر دھرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
حالانکہ جارج بش جونیئر کو کردوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ امریکی تھنک ٹینک یہ بات اچھی طرح جانتا تھاکہ ماضی میں صہیونی طاقتوں کو صلیبی جنگوں میں عبرتناک شکستوں سے دوچار کرنے والے عظیم مسلمان جرنیل سلطان صلاح الدین ایوبی کا تعلق بھی کرد قوم سے تھا۔ کردوں کی حمایت کا بش جونیئر ڈراما اصل میں عراق کو تباہ کرنے کا روڈ میپ تھا جسے کامیابی سے ہمکنار کرنے میں کئی نام نہاد اسلامی ممالک نے بھی اپنے اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر امریکا کا بھر پور ساتھ دیا۔
بدقسمتی سے ایک بار پھر شامی باغیوں کی حمایت کا ڈراما رچا کر عالمی طاقتیں شامی حکومت پر کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام عائد کررہی ہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال باغیوں یا پھر سرکاری فوجوں کی طرف سے کیا جارہا ہے اس بات کے تعین کا سورس کیا ہے؟ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ سوچی سمجھی سازش کے تحت یہ کیمیاوی ہتھیار پہلے شام میں پہنچائے گئے ہوں تاکہ ان کی موجودگی کو ثابت کیا جاسکے، بعد ازاں شام کو چاروں طرف سے گھیر کر اس کا حشر بھی عراق اور لیبیا جیسا کردیا جائے۔
اس سارے تناظر میں مسلم ممالک کی خاموشی اور او آئی سی کا تماشائی کردار مجرمانہ غفلت کے زمرے میں شمار ہوتا ہے اس پر مستزاد اسرائیل کی شام پر الزام تراشیاں اور پھر کھلم کھلا دھمکیاں اس ڈرامے کے کرداروں کا واضح پتہ دے رہی ہیں۔ موجودہ صورتحال کو اور زیادہ خراب ہونے سے بچانے کے لیے یہ لازم ہے کہ تمام فریقین کی طرف سے مکمل جنگ بندی کرانے کی کوششیں کی جائیں اور اس کے بعد شام میں جمہوری عمل کو فروغ دینے کی کوشش کی جائے تاکہ مشرق وسطیٰ کو پرامن رکھا جاسکے۔