ملالہ خدارا ایک تقریر اور

ملالہ تم نے اقوام عالم میں پاکستان کا مان بڑھایا ہے۔ آج خداوند تعالیٰ نے تمہیں وہ مرتبہ عطا فرمایا جوشاید ہی...


Shaikh Jabir July 29, 2013
[email protected]

ملالہ تم نے اقوام عالم میں پاکستان کا مان بڑھایا ہے۔ آج خداوند تعالیٰ نے تمہیں وہ مرتبہ عطا فرمایا جوشاید ہی کسی کو ملتا ہے۔ آج جب تم بولتی ہو تو ایک دنیا سنتی ہے تم جب لکھتی ہو تو ایک دنیا تمہاری لکھی گئی سطر سطر سے علم و دانش کی موتی چنتی ہے ، تم جب تعلیم کے لیے آواز بلند کرتی ہو تو دنیا بھر کی صدائیں تمہاری ہم آواز ہوجاتی ہیں۔ تم نے تعلیم کے لیے بہت جوکھم اٹھائے ہیں، بہت قربانیاں دی ہیں، تم چاہتی ہو کہ سوات، مینگورہ ، پشاور، خیبرپختونخواہ اور پاکستان کی ساری لڑکیاں آزادانہ اسکول،کالج اور یونیورسٹیز آئیں جائیں۔

اقوام متحدہ، این جی اوز، امریکا، پاکستان اور دیگر قریباً تمام ممالک اور دنیا کے بڑے بھی یہی چاہتے ہیں۔غالباً طالبان کے علاوہ آج دنیا میں شاید ہی کوئی ہوگا جو لڑکیوں کے اسکول اور کالج جانے کی مخالفت کرتا ہو، ملالہ کے نام خط میں طالبان کے سینئر کمانڈر نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ طالبان لڑکیوں کو اسکول جانے کے مخالف نہیں ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ امریکا،کینیڈا، بھارت اور پاکستان وغیرہ میں لڑکیاں اسکول جارہی ہیں اور سوات ، مینگورہ اور پشاور کے علاقوں میں جہاں قبائلی روایات کے زیر اثر عورتوں کا گھر سے باہر نکلنا معیوب سمجھا جاتا ہے وہاں ملالہ اور دیگر روشن خیال بچیاں لڑکیوں کو گھر سے نکال کر اسکول اور کالج تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیں گی۔ ہم سب اسے ایک قومی خدمت اور تفاخر کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ملالہ کا ارادہ ہے کہ وہ ایک فاؤنڈیشن اپنے ہی نام سے اس ضمن میں ترتیب دیں گی۔

پیاری ملالہ تم نے دنیا کے اہم ترین فورم پر دنیا کے اہم ترین افراد کے سامنے نہایت اہم خطاب کیا، تمہیں عالمی سطح پر جو پذیرائی ملی ، جو مان ، مرتبہ اور عزت اس سے یقینا ہم سب پاکستانیوں کے سر فخر سے بلند ہوئے، تم نے اپنے خطاب کے لیے جو لباس منتخب کیا وہ بھی بہترین تھا۔ ایک ایسا لباس جو مکمل طور پر ہماری پاکستانی تہذیب کا آئینہ دار ہے۔ ملالہ تم نے اپنی تقریر کے دوران وہ شال اوڑھی جو دختر مشرق محترمہ شہید بے نظیر بھٹو نے تمہیں دی تھی۔ تم اس لباس میں بہت اچھی لگ رہی تھی، واقعی ایک پاکستانی بیٹی۔

برطانیہ میں تعلیم پانے والے پاکستان طلبہ کی تعداد 10 ہزار سے بھی زائد ہے ۔ 2004 سے 2008 کے درمیان برطانیہ میں 42 ہزار کے قریب پاکستانی طلبہ نے داخلہ لیا تھا۔ یہ ایک بڑی تعداد ہے، ان میں لڑکیوں کی درست تعداد تو میں نہیں جان سکا لیکن اندازہ ہے کہ پاکستانی بچیوں کی ایک اچھی خاصی تعداد برطانیہ میں زیر تعلیم ہوگی۔ یہ تعداد ان بچیوں کے علاوہ ہے کہ جن کے والدین برطانیہ منتقل ہوئے۔ اسکولوں اور کالجوں کا دورہ کرتے ہوئے آپ کی ملاقات یقیناً پاکستانی بچیوں سے بھی ہوئی ہوگی۔

آپ نے کیا دیکھا ، کیا آپ کو اپنی طرح کی کوئی اور پاکستانی بچی نظر آئی؟ ایک ایسی بچی جو برطانیہ کے اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کرتی ہو اور اس نے ہماری ملالہ کی طرح کا پاکستانی لباس زیب تن کیا ہو؟ وہ باقاعدگی سے دوپٹہ اور پھر دوپٹے پر شال اوڑھتی ہو؟ جیسا کہ اکثر ہماری پاکستانی بچیاں دوپٹہ اور شال اوڑھتی ہیں۔ میں برطانیہ کے اسکولوں اور کالجوں میں کبھی نہیں گیا لیکن ہماری کچھ بچیاں ہمارے اعز و اقارب کے بچے اور بچیاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے سات سمندر پار ضرور گئے ہیں۔

ہم نے دیکھا کہ جو بچیاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے برطانیہ گئیں، امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا وغیرہ ان کے سروں سے دوپٹے تو فوراً ہی غائب ہوگئے، پاکستانی لباس کی جگہ فوراً ہی انھوں نے انگریزی طرز کے پہناوے پہن لیے، ملالہ ایسا کیوں ہوا؟ آپ کا تعلق بھی ایک قدیم روایتی تہذیبی علاقے سے ہے، آپ جس لباس میں دنیا سے خطاب کرنے آئیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو روایات، تہذیب، ثقافت اور زبان کی اہمیت کا اندازہ ہے۔ پھر یہ کون سی تعلیم ہے جو ہم سے ہماری اولاد سے ہماری ہی تہذیب و ثقافت اور زبان چھین لیتی ہے؟ ملالہ میں چاہتا ہوں کہ تم اس موضوع پر بھی ایک تقریر کرو۔

میں نے گزشتہ برس ''اساتذہ پر تشدد'' کے بارے میں ایک کالم لکھا تھا (13اگست 2012) کالم کی ابتدا ہی میں برطانیہ کا ذکر ہے ''برطانیہ، 2008-9 کے اعدادو شمار کے مطابق 511 طلباء کو برے رویے اور مارپیٹ کی بنا پر اسکول سے خارج کیا گیا۔ ایک برس کے دوران اسکول سے فارغ کیے جانے والے طلبہ کی تعداد 96,990ہے۔ برطانیہ کی انجمن برائے اساتذہ و لیکچررز کے ایک سروے کے مطابق پرائمری اسکول اساتذہ کی غالب اکثریت کا خیال ہے کہ گزشتہ 5 برس کے دوران تشدد کے رجحان میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ برطانیہ کے تمام اسکولوں سے تشدد کی بنا پر خارج کیے جانے والے طلباء کی تعداد 2010 میں 161,540 تھی۔ یعنی اسکول کھلنے کے دنوں کے حساب سے قریباً 850 طلبہ روزانہ۔''

ملالہ یہ کیا ہورہا ہے؟ یہ کون سی تعلیم ہے جو طلبہ کو متشدد بنارہی ہے، یہاں تک کہ ان کے اساتذہ ہی ان سے پناہ مانگ رہے ہیں۔ خدارا اس موضوع پر بھی خطاب کرو یا بی بی سی کو کوئی بلاگ لکھ دو۔ اعدادو شمار بتارہے ہیں کہ اسکولوں میں منشیات کا استعمال وبائی شکل اختیار کرچکا ہے۔ گزشتہ برس 6.5 فیصد 8 گریڈز، 17 فیصد 10 گریڈز اور 22.9 فیصد 12 گریڈز طلبہ ''ماری جوانا'' استعمال کرتے تھے۔ دیگر منشیات اور شراب وغیرہ علیحدہ ، ملالہ ایسا کیوں ہورہا ہے۔ والدین گھر سے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے اسکول بھیجتے ہیں نہ منشیات استعمال کرنے اور منشیات فروش بننے پھر آخر ہمارے آئیڈیل اسکولوں کا یہ حال کیوں ہے؟ خدارا اس پر بھی ایک تقریر ضرور کرو۔

ملالہ بہت اچھا ہے کہ تم تمام بچیوں کو اسکول بھیجنا چاہتی ہو، تمہارے اس جذبے کی جس قدر بھی قدر کی جائے کم ہے۔ جب بھی اسکول کالج کی تعلیم کا ذکر آتا ہے ہمارے آئیڈیل یقیناً امریکا اور یورپ وغیرہ ہی ہوتے ہیں۔ ملالہ تم بھی برطانیہ میں ہو، وہاں کی حقوق نسواں کی ایک تحریک ہے ''یوکے فیمینیا'' کا کہنا ہے کہ برطانیہ کے اسکولوں میں ایک تہائی لڑکیوں کو جنسی ہراسمینٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 16 سے 18 برس یعنی تمہاری عمر کی 28 فیصد بچیوں کو مہینے میں کم از کم ایک مرتبہ موبائل یا دیگر ذرایع کمپیوٹر وغیرہ پر مبنی تصاویر دیکھنے کا اتفاق ہوتا ہے۔ پیاری بیٹی خدارا اس موضوع پر بھی ایک خطاب کرو۔ہم دقیانوسی قسم کے لوگ ہیں ، تیسری دنیا کے تیسرے درجے کے شہری امریکا یورپ میں پائی جانے والی تعلیم کی رفعتیں ہماری چھوٹی عقلوں میں سما نہیں پارہی۔ پیاری ملالہ ایک خطاب اور کرو اور ہمیں اس طرح کے خلجانوں سے نجات دلواؤ، خدارا ایک خطاب اور... ایک بلاگ اور

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں