میرے دشمنوں سے کہو

اک عجیب کیفیت میں مبتلا ہوں۔ ہرمشاہدے کو دماغ جھٹلا رہا ہے اور یقین اٹھتا جا رہا ہے۔یوں لگتا ہے کہ میں مایوسی اور...

اک عجیب کیفیت میں مبتلا ہوں۔ ہرمشاہدے کو دماغ جھٹلا رہا ہے اور یقین اٹھتا جا رہا ہے۔یوں لگتا ہے کہ میں مایوسی اور بے یقینی کے بلیک ہول میں گرتا جا رہا ہوں۔احساس ہو رہا ہے کہ اس فریب کی دنیا میں پستی کی وہ کیا انتہا ہے جو ممکن نہیں۔ یعنی ایک موضوع پر لکھنے والوں کے قلم گھس گئے، بولنے والوں کے گلے بیٹھ گئے اور دنیا کے خطرناک ترین خطے پر کئی سال تک جنگ کے بادل چھائے رہے۔

ایک طرف سے الزامات کی بوچھاڑ، دھونس دھمکیاں اور بے پناہ دباؤ اور دوسری طرف سے انتہائی معذرت خواہانہ رویہ اور مدعی سست گواہ چست سے دو قدم آگے بڑھ کر خود ملزم کا اپنے آپ کو کٹہرے میں کھڑا کرنا اور خود اپنے خلاف ثبوت جمع کرنا... الامان الحفیظ، کیا کیا نہیں ہوا، اور صرف ایک شخص نے ، جسے سچ بولنے کا ہیضہ ہو گیا تھا، جھوٹ و فریب کی بنیاد پر بنی ساری کاریگری دھڑام سے گرا دی۔

اس ایک شخص کا بیان کئی حوالوں سے معتبر ہے، جسے انڈیا بھی فوری طور پر جھٹلا نہیں سکا، اور جس کے بیان کو وہاں کے معتبر ترین انگریزی روزنامے نے سرورق پرجگہ دی۔ جی ہاں نہ وہ پاکستانی، نہ وہ مسلمان، نہ ہی وہ عام شہری بلکہ وہ بھارتی،ہندو اور وزارتِ داخلہ کا سابق افسر ہے۔

آپ کہہ رہے ہوں گے کہ اس بات پر غصے میں آنا اور ایک دوسرے پہلو سے خوشی کا اظہار کرنا تو سمجھ میں آتا ہے، یہ مایوسی کہاں سے ٹپک پڑی۔ تو کیوں نہ ہو مایوسی؟یعنی ایک انتہائی اہم موقعے کو یوں ہاتھ سے جانے دیا جا رہا ہے، جیسے وہ کوئی بات ہی نہ ہو۔ پاکستان کے خلاف اس سے کئی گنا کم درجے کی اسٹوری بھارت کو ملی ہوتی تو آپ دیکھتے ، وہاں اب تک کیاکچھ نہیں ہو چکا ہوتا ! وہاں کے میڈیا نے بریکنگ نیوز اور اہم ترین'' انکشاف ''کے تحت اک حشر برپا کر دینا تھا، حزب اقتدار ہو یا حزبِ اختلاف یوں مل کر اس پر سینہ کوبی کرتے کہ ایک دنیا ہلا دیتے۔

جی ہاں ممبئی واقعے پر انڈیا نے ایک دنیا ہلا دی تھی۔ پوری دنیا میں بغیر ثبوت کے پاکستان کی ایسی کردار کشی کی گئی کہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ برطانیہ ، امریکا وغیرہ نے پاکستان میں چھپے ان مبینہ دہشت گردوں کے نام پر حکومت پاکستان کی شدید ترین مذمت کی، جنہوں نے انڈین حکومت کی اسٹوری (جو دیومالائی فلموں سے کسی طرح کم نہیں) کے مطابق بھارت کے دل ممبئی تک رسائی حاصل کی اور انتہائی منظم حملہ کر دیا۔

حکومت پاکستان نے ڈٹ جانے ، حریف کے خلاف الزامی جواب قائم کرنے اور ثبوت مانگنے کی بجائے حسبِ روایت پسپائی کا راستہ اختیار کیا اورخود ملامتی ذہنیت کا اظہار کرتے ہوئے خود اپنے شہریوں کے خلاف وہ اقدامات کیے کہ خود بھارتیوں کو بھی اس کی توقع نہیں رہی ہو گی، یوںحکومتِ پاکستان نے اس بات پر مہر ثبت کر دی کہ ہاں دہشت گرد ہمارے ہی شہری تھے اور گویاخود کو ایک ایسے بے قصورمگر احساسِ کمتری کے شکار بچے کی طرح کونے سے لگا دیا جو سزا سے بچنے کے لیے ناکردہ جرم کا اعتراف بھی کر لیتا ہے۔


بھارت نے ممبئی حملے اور پارلیمنٹ پر حملے خودکروائے،تا کہ دہشت گردی کے خلاف بدنام زمانہ قوانین مزید سخت کروائے جائیں اوربھارت میں چلنے والی تمام آزادی کی تحریکوں کے خلاف طاقت اوردہشت کا کھل کر استعمال کیا جا سکے... یہ تھیوری مگرنئی نہیں ہے اور2010ء میں ہی خود انڈیا کے اندر سے یہ آواز اٹھی تھی، لیکن یہ صرف تھیوری ہی رہی، جس سے فائدہ اٹھانے اور اس ضمن میں تحقیق کرنے کی بجائے اسے خود پاکستانی حکومت اور میڈیا نے گھاس نہیں ڈالی۔

اور پچھلے دنوں جب بھارتی وزارت داخلہ کے سابق افسر وی ایس مانی نے ایک عدالت میں حلفیہ بیان دے کربھارت کی پاکستان اور خود اپنے شہریوںکے خلاف سازش کا انکشاف کیا تو تب بھی حکومتِ پاکستان کا ردعمل نہایت مایوس کن رہا۔پاکستان کا حال ہی میںدورہ کرنے والے برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے بھی محترم نصرت جاوید کے بقول اس متنازعہ سوال سے جان چھڑا لی کہ وہ کوئی ایسی بات نہیں کرنا چاہتے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان پہلے سے موجود کشیدگی کو بڑھائے۔

واہ!کیا بات ہے؟ جب پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ ہو رہی تھی تواس وقت کے برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن نے کہا تھا کہ ممبئی حملوں کا سخت جواب دیا جائے گا۔اس وقت براؤن نے بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ اس موقعے پر برطانیہ، بھارت کے ساتھ ہے اور ہر ضروری ''مدد'' فراہم کرنے کو تیار ہے اور پاکستان کو ایک ذمے دار ریاست بن کر رہنے کی بھی بین السطور تلقین کی تھی اور اب وہ شانِ بے نیازی سے کہتے ہیں کہ کوئی بات ہی نہیں۔

اے کاش!ہمارے اربابِ اقتدار نے اس دن انڈیا کی نشریات دیکھی ہوتیں جب 14پاکستانیوں کا قاتل، را کا مصدقہ جاسوس ،دہشت گرد سربجیت سنگھ کی نعش کوپاکستان نے بھارت کے حوالے کیا تھا ،جسے اس کی مشتعل کرنے والی باتوں کی وجہ سے اس کے ساتھی پاکستانی قیدیوں نے اسے ہلاک کر دیا تھا ۔ میڈیا پر لائیو کوریج کے ذریعے دہشت گرد کو بعدِ از مرگ وہ اعزازات دیے گئے ، اور وہ ہنگامہ مچایا گیا کہ یوں لگا کہ جاسوس سربجیت 14پاکستانیوں کا قاتل نہ ہو بلکہ منگل پانڈے ہو جو انگریز غاصب کے خلاف آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے مارا گیا ہو۔

اس کی آخری رسومات مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ ادا کی گئیں۔ لاش کو قومی پرچم میں لپیٹ کر آخری رسومات کے لیے لے جایا گیا جہاں ریاستی پولیس فورس نے بگل بجا کر بندوقوں سے اسے سلامی دی۔ اسے بھارت کا 'بہادر لال' اور'شہید' کا درجہ دیا گیا، صوبے بھر میں سرکاری سطح پر تین روزہ سوگ منانے کا اعلان کیا گیا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے اہل خانہ کو ڈیڑھ کروڑ روپے اور اس کی بیٹیوں کو سرکاری ملازمتیں دینے کا اعلان بھی کیا گیا۔جاسوس کی آخری رسومات میں حکمراں جماعت کانگریس پارٹی اور اپوزیشن جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے خصوصی طور پر شرکت کی۔اس دن بھارتی پارلیمینٹ کے تین سو سے زائد پارلیمنٹیرینز نے پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کیا۔

میں سوچ رہا ہوں کہ اس فریبی دنیا میں اب کچھ بھی ناممکن نہیں۔جب سابق امریکی اہلکار ایڈورڈ سنوڈ یہ انکشاف کر رہا ہو کہ دنیا میں کوئی بھی امریکی جاسوسی سے محفوظ نہیں تو بتائیں شخصی آزادی کی خوبصورت باتیں کہاں گئیں۔ نائن گیارہ کے حملے کے بارے میں وہ ساری رپورٹس نگاہوں میں گھوم رہی ہیں جن میں خود امریکی صحافی اور دانشورامریکا کی طرف سے اسے ایک پلانٹڈ حملہ قرار دیتے ہیں،ان رپورٹس کو ہمیشہ ایک فکشن سمجھ کر پڑھا تھا لیکن اب ہر بات قرینِ قیاس لگ رہی ہے۔

عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کا جھوٹا واویلاتو طشت از بام ہو ہی چکا ہے جس کی بنیاد پر عراق پر خون و بارود کی برسات کر دی گئی تھی۔ اب تومیں سوچ رہا ہوں کہ بالکل ممکن ہے کہ کبھی مستقبل میں کوئی امریکی سی آئی اے کا منحرف شخص ایڈورڈ سنوڈ کی طرح دنیا کو بتائے کہ پاکستانی قبائلی علاقوںمیں عسکریت پسند دراصل امریکی طالبان ہیں، جو امریکی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں، جی ہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے، اور ہم اس سازشوں اور پراپیگنڈے کے دور میں کچھ بھی نہیں کر سکتے، شاید کچھ بھی نہیں!
Load Next Story