اب لفظ وبیاں سب ختم ہوئے
لکھنے والوں کے ہاتھ تو قلم ہوئے مگر مجرموں کے سر قلم نہ ہوسکے، شاید اس ملک کا قانون یہ ہے کہ...
لکھنے والوں کے ہاتھ تو قلم ہوئے مگر مجرموں کے سر قلم نہ ہوسکے، شاید اس ملک کا قانون یہ ہے کہ: رشوت لے کے پھنس گیا تھا، رشوت دے کر چھوٹ جا۔
رات گئے جس شہر میں روشنیاں رقص کرتی تھیں وہاں سر شام ہی خوف کے سائے منڈلانے لگے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے جیسے ہم سب انڈر ورلڈ میں رہتے ہوں، شاپنگ خواتین کا محبوب مشغلہ ہے، کچھ نہیں تو ونڈو شاپنگ سے ہی ان کا دل بہل جاتا ہے، بعض خواتین نت نئے فیشن دیکھنے شہر کے پوش علاقوں میں مٹر گشت کرتی ہیں مگر اب تو نوسر باز، چور اچکے وہاں بھی دندناتے پھررہے ہیں، اسی لیے بعض مصدقہ خبروں کے مطابق ان علاقوں میں بھی لڑکیاں اکیلے بازار جانے سے گھبراتی ہیں۔ اگر کہیں ٹریفک جام ہوتا ہے تو دل کی دھڑکن اتنی تیز ہوتی ہے کہ کہیں کوئی سگنل کے آس پاس لٹیرا نہ گھوم رہا ہو، کیونکہ رہزنی کے یہ واقعات بھی میڈیا میں آچکے ہیں۔
حوالات میں دو طرح کے قیدی ہیں، ایک وہ جو بے گناہ ہیں اور پولیس کو بھتہ نہ دینے کی سزا کاٹ رہے ہیں اور ایک وہ جو ڈاکو اور قاتل ہیں، دہشت گرد ہیں، پولیس کے لیے دوسری قسم کے قیدی بعض دفعہ بڑے مفید ثابت ہوتے ہیں، جو بوقت ضرورت کام آجاتے ہیں یعنی اگر اعلیٰ حکام کی طرف سے قاتلوں کی فوری گرفتاری کا حکم صادر ہوتا ہے تو حوالات اور جیلوں میں بند عمر قید کے مجرموں کو شال، دو شالے اور کمبل میں لپیٹ کر میڈیا کے سامنے کردیا جاتا ہے اور ان سے اقبال جرم بھی کروایا جاتا ہے کیونکہ وہ تو ویسے بھی زندانی ہیں۔ سو اگر ان تازہ جرائم کا بھی اعتراف کرلیں جو انھوں نے نہیں کیا تو کیا حرج ہے۔ منزل تو ان کی عقوبت خانہ ہی ہے۔ اس میں ان کا کوئی فائدہ ہو نہ ہو البتہ پولیس کو آشیرباد بھی ملتی ہے اور انعام بھی۔
کہا جاتا ہے کہ اگر پولیس کو معقول نفری دی جائے اور ان تمام سازوسامان سے لیس کیا جائے جو دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں ہوتا ہے، اگر ان کی تنخواہیں بڑھادی جائیں اور بوقت ضرورت ٹرانسپورٹ فراہم کردی جائے تو وہ شہر میں بڑھتی ہوئی وارداتوں کا سدباب کرسکے گی۔ یہ سہولیات اپنی جگہ بجا مگر ہوس زر کی خواہش بھی کبھی دم توڑتی ہے؟ ہمارے ہاں پلس+ کی بڑی اہمیت ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ جو لکھ پتی تھے کروڑ پتی، ارب پتی اور کھرب پتی کیسے بن رہے ہیں اور جس ملک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں میں بھی کالی بھیڑیں ہوں ان کے خاتمے کے لیے تو کسی خوفناک بھیڑیے ہی کو آنا پڑے گا۔ ویسے تو ہمارے ملک میں بھیڑیوں کی کمی نہیں مگر یہ پولیس کے جرائم پیشہ افراد عوام کے لیے مختص ہیں۔
چوری اور ڈکیتی کی بڑھتی ہوئی وارداتیں اور ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ جس دن نہ ہو، لگتا ہی نہیں کہ ہم اس مملکت خداداد کے عوام ہیں جسے کروڑوں لوگوں نے اپنے لہو سے سینچا، ہم جو ہری بہار میں پت جھڑ کے خزاں رسیدہ گیت گاتے ہیں، ہم تو بنجر اور بانجھ زمینوں سے کھیت اور کھلیانوں کو سر سبز و شاداب کرتے ہیں، آج اس قابل نہیں رہے کہ دنیا کے نقشے پر ہم اور ہمارے ملک کا نام تعظیم سے لیا جائے۔ باہر ممالک سے جاکر آنے والے پاکستانی کہتے ہیں اپنی قدر و منزلت کا صحیح اندازہ کرنا ہوتو کسی غیر ملکی سے پوچھیے کہ وہ ہمارے بارے میں کیا رائے رکھتا ہے۔
آج معاشرے کے جو تلخ حقائق ہم تک پہنچ رہے ہیں اس کا سہرا میڈیا کو جاتا ہے، جس نے بڑی جرأت اور بہادری سے ہر برائی سے پردہ اٹھا دیا اور اسی تگ ودو میں ہمارے بہت سے صحافی بھائی بھی جان سے گئے مگر ان کو لقمہ اجل بنانے والے کون تھے، اس کا آج تک پتہ نہ چل سکا۔ کمال تو یہ ہے کہ جن لوگوں پر قتل کا مقدمہ چلا، ان کی سزاؤں پر بھی عمل درآمد نہ ہوسکا، اگر ان دہشت گردوں اور قاتلوں کو سرعام پھانسی دی گئی ہوتی، ڈاکوؤں اور چوروں کے ہاتھ کاٹ دیے جاتے، کاروکاری کے ذمے داروں کے لیے عبرتناک سزائیں مقرر کی جاتیں، اونچے ایوانوں میں متمکن کرپٹ افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا، ناپ تول میں بے ایمانی کرنے اور ذخیرہ جمع کرکے عوام کی جیبوں پر ڈاکا ڈالنے والوں کی بیخ کنی ہوتی، لوگوں سے غلط وعدے کرکے نہ نبھانے والوں کی جواب طلبی ہوتی تو آج پاکستان واقعی ایک پاک وطن بن جاتا مگر یہ ہونہ سکا اور اب یہ عالم ہے کہ ہر سمت پریشانیوں نے خانہ بدوشوں کی طرح سر زمین پاک پر اپنے ڈیرے ڈال دیے ہیں، ایسے میں آنکھیں خواب دیکھنا بھی بھول گئی ہیں، بچے کچھے جو خواب رہ گئے ہیں وہ فی الحال ارباب اختیار کے لیے ہیں۔
اربوں روپے کے ٹھیکے اپنے من پسند افراد کو دیے جاتے ہیں، ایمان دار اور با اصول افسران کو بلا مانگے جبری رخصت پر یہ کہہ کر روانہ کردیا جاتا ہے کہ حضرت اتنے برس سے آپ ان معزز کرسیوں پر بیٹھے تھے اب کچھ عرصہ آرام فرما لیجیے اور دیکھیے کہ او ایس ڈی بننے کے کیا فائدے ہیں، یعنی گھر بیٹھ کر تنخواہ وصول کریں اور دفتر آکر گپ شپ کریں۔
اعلیٰ عدالتوں کے اہم فیصلوں کے مطابق اب تک تو درجنوں معزز لوگوں کو جیل میں سانس لینی چاہیے تھی مگر ان کی خوش بختی دیکھیے کہ وہ اسلام آباد سمیت تمام شہروں میں پورے پروٹوکول کے ساتھ گھومتے پھررہے ہیں۔ ویسے یہ پروٹوکول بھی اچھی چیز ہوتی ہے، ہر راہگیر کو دور سے اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہے اور سیکنڈ بھر میں سڑک سے گزرنے والا وی آئی پی تقریب کا دولہا نظر آتاہے یہ اور بات ہے کہ لینڈ کروزر، پراڈو یا بی ایم ڈبلیو میں بیٹھنے والے بعض حضرات شکل سے ہی جعلی ڈگری یافتہ ثابت ہوجاتے ہیں مگر اس کے باوجود اسمبلیوں کی اور عوام کی جان نہیں چھوڑتے کہ:
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
یوں بھی ہمارے ایک سابق وزیراعلیٰ کے بقول: ''ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی'' تو پھر جعلی ڈگری بنانے والوں کی حوصلہ افزائی نہ ہوگی تو کیا ہوگا۔ طالب علموں کا کہنا ہے کہ ایک اتنی اہم شخصیت نے اس کی اجازت دے دی ہے تو پھر ہمیں ضرورت کیا ہے کتابوں میں سر کھپانے کی یا ٹیوشن سینٹر میں جانے کی، پھر یہی نہیں نقل بھی ہمارے ہاں بڑے دھوم دھام سے بلکہ علی الاعلان کی جاتی ہے۔ پہلے تو سنا تھا کہ بندر ہی نقل کرنے میں بڑا مشہور ہے مگر کیسے ہیں ہمارے طالب علم اور ممتحن حضرات کہ بندروں سے بھی سبقت لے گئے۔ ہوسکتا ہے کہ آنے والے وقت کا کوئی وزیر یہ بھی کہہ دے۔ ''نقل تو نقل ہوتی ہے کوئی کرے یا کروائے، اس کا مقصد تو نیک ہے یعنی پاس ہونا یا پاس کروانا، اور اس میں حرج بھی کیا ہے، کیا یہ بات ہمارے ملک کے لیے باعث صدافتخار نہیں کہ پورے ملک کے افراد ڈگری یافتہ ہیں۔''
سو قارئین! شکر کیجیے کہ ہم ایسے وطن کے باسی ہیں جہاں سب چلتاہے یہاں تک کہ کھوٹا سکہ بھی!