موئن جودڑو سے بھی قدیم تہذیب کا انکشاف

سترھویں صدی عیسوی میں ایک ٹیلے پر تعمیر کردہ یہ مقبرہ مقامی آبادی میں ’’ بھانڈو جو قبو‘‘ کے نام سے مقبول ہے۔


Editorial February 19, 2019
سترھویں صدی عیسوی میں ایک ٹیلے پر تعمیر کردہ یہ مقبرہ مقامی آبادی میں ’’ بھانڈو جو قبو‘‘ کے نام سے مقبول ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق ''بھانڈو جو قبو'' میں دریافت ہونے والے آثار وادیٔ سندھ کی تہذیب سے بھی قدیم ہیں۔ عالمی ماہرین آثار قدیمہ کے لیے یہ انکشاف دلچسپی اور تحیر سے خالی نہیں ہوسکتا۔

شاہ لطیف یونی ورسٹی کے شعبہ آثاریات کے چیئرمین ڈاکٹر غلام محی الدین ویسار نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس مقام پر کھدائی کے دوران ملنے والی دستکاریاں کوٹ ڈیجی کی ثقافت سے بہت زیادہ مشابہت رکھتی ہیں، جن کے بارے میں مقامی اور عالمی ماہرین آثار قدیمہ کو یقین ہے کہ وہ وادی سندھ کی تہذیب سے زیادہ قدیم ہیں اور ممکنہ طور پر اس خطے کی سب سے قدیم ثقافت ہے۔

ڈاکٹر غلام محی الدین نے بتایا کہ کوٹ ڈیجی کی 2800 قبل مسیح قدیم ثقافت پیچیدہ سماجی اقتصادی نظام کے ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے 2500 قبل مسیح میں وادی سندھ کی تہذیب کی صورت اختیار کرگئی، جہاں باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت قصبے تعمیر کیے جاتے تھے اور جہاں باقاعدہ تحریری زبان موجود تھی۔ موہن جو دڑو کے آثار قدیمہ میں بھی یہی بات سب سے نمایاں ہے۔

یاد رہے بلوچستان میں 74ء کی دھائی میں دریافت شدہ ''مہر گڑھ '' تہذیب بھی موئن جو دڑو سے سات ہزار سال پرانی بتائی جاتی ہے، انکشاف کے مطابق سترھویں صدی عیسوی میں ایک ٹیلے پر تعمیر کردہ یہ مقبرہ مقامی آبادی میں '' بھانڈو جو قبو'' کے نام سے مقبول ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس مقبرے میں رتو ڈیرو کے بانی رتوخان جلبانی کی باقیات دفن ہیں جنھوں نے بیرونی حملہ آوروں سے اپنی سرزمین کا دفاع کرتے ہوئے جان قربان کردی تھی۔

ڈاکٹر ویسار کہتے ہیں کہ ہم نے کھدائی شروع کی تو ہمیں جو اشیاء اور دستکاریاں ملیں وہ کوٹ ڈیجی کی ثقافت سے بہت مشابہت رکھتی تھیں۔ تحقیقی ٹیم میں شامل ڈاکٹر ملاح نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اب ہم 4 میٹر کی گہرائی تک کھدائی کرچکے ہیں۔ اب ہم یہاں سے نکالی گئی ہڈیاں اور کوئلے کو ریڈیوکارین ڈیٹنگ کے لیے اسپین بھیجنے کا ارادہ رکھتے ہیں تا کہ اس مقام کی صحیح عمر کا بالکل درست تعین ہوسکے۔

تاریخی تحقیق کے حوالے سے وادی سندھ کی اہمیت پر اظہارخیال کرتے ہوئے ڈاکٹر ملاح نے کہا کہ ممکنہ طور پر موئن جو دڑو وادی ٔ سندھ کی تہذیب کا مرکز ہوسکتا ہے تاہم یہ واحد شہر نہیں ہوسکتا تھا۔ توقع ہے کہ ان آثار قدیمہ کے بارے میں مزید بیش بہا معلومات سامنے آسکتی ہیں۔ سیاحوں کے لیے اس خبر میں دلچسپی کا کافی سامان موجود ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں