آسمان والا
رعایا کا خیال کرنے والا ہمدرد حکمراں تھا، عوام وخواص میں تشویش کی لہر بالکل آج کی طرح کی دوڑ گئی۔
مسئلہ یہ نہیں کہ ہم گونا گوں مسائل کا شکار ہیں ، مسئلہ یہ بھی نہیں ، ان مسائل سے لاعلم ہیں ، سیکڑوں ہزاروں صفحات لکھے جا چکے ہیں اور لکھے جارہے ہیں ، بیانات اور تقاریر ہورہی ہیں ، مسائل حاضرہ اورگزشتہ پر، انفارمیشن کا دور ہے سب کو پہلے سے زیادہ پتہ ہے اورکچھ کو توکچھ زیادہ ہی پتہ ہے کہ یہ وطن عزیز، یہ ملک خدا داد ،اس کے عوام الناس، اس کے ادارے، اس کے بڑے اس کے چھوٹے کن کن مسائل کا شکار ہیں ، یہ کیسے پیدا ہوئے اورکیوںکر پیدا ہوئے، مسئلہ یہ بھی نہیں کہ ان مسائل کو حل کرنے کی نیت نہ ہو، نیت بھی ہے گوکہیں کہیں ہی ہے، مگر ہے! پھر آخر مسئلہ ہے کیا ؟
مسئلہ یہ ہے کہ حل سمجھ نہیں آرہا ہے، یہ گھمبیر مسائل ، یہ پیچیدہ معاملات ، یہ سارا گند ، یہ سیاسی ، سماجی ، معاشی ، معاشرتی ، عدالتی ،اخلاقی ، سماجی ، تعلیمی بد عنوانی سے جنم لینے والے مسائل جوکہ اب پہاڑ بن چکے ہیں تو ان پہاڑوں کوکاٹنے کا تیشہ آخرکہاں ہے ،کس فرہاد کے پاس ہے، کیسے یہ گند صاف ہوگا ، کیسے یہ مسائل حل ہونے کی کوئی صورت پیدا ہوگی، ابھی ایک مسئلہ حل ہونے نہیں پاتا کہ دوسرا آنکھیں دکھانے لگتا ہے۔
بقول منیر نیازی مرحوم ، ایک دریا پارکرتے ہی دوسرا سامنے آ جاتا ہے، اور رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہونے کے مصداق یہ مسائل ہماری زندگی کا ساماں ہوگئے، عوام الناس کا ستیاناس ہونے کو ہے بلکہ ہو ہی گیا ہے ، مگر طفلِ تسلیاں، دلاسے، آیندہ کی خوش خبریاں دینے کے علاوہ کچھ ٹھوس یا عملی قدم یا حل فی الحال تو نظر نہیں آرہا ہے مستقبل کی خدا جانے۔ عوام الناس اب بھی کچھ پر امید ہیں کہ خدا بہتر کرے گا اور وہ ضرور کرے گا کہ وہ بندے سے اس کے گمان کے مطابق معاملہ فرماتا ہے، لیکن جو ذمے داران ہیں، باوسائل ہیں وہ صرف باتیں بگھارنے اور نمائشی اقدامات کے سوا زیادہ کچھ نہیں کرتے نظر آرہے ہیں۔
آج کل عوام کی ذہنی ونفسیاتی حالت ، امیدوبیم کی کیفیت ،کبھی مایوسی کا حملہ ،کبھی آس کا جگنو،کبھی خوش کبھی برہم اورکبھی سب درہم برہم والی ہوگئی ہے، تو اس پر ایک حکایت یاد آئی کہ ایک بادشاہ کو پھوڑا نکل آیا اور بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا ، شاید کینسرکا ہوگا، بادشاہ اچھا آدمی تھا ، رعایا کا خیال کرنے والا ہمدرد حکمراں تھا، عوام وخواص میں تشویش کی لہر بالکل آج کی طرح کی دوڑ گئی، اطبا و حکماء آئے طرح طرح کے نسخے آزمائے گئے، پر '' مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی'' آخر ایک بہت پرانے تجربہ کار ضعیف استاد الاساتذہ حکیم صاحب تشریف لائے اورکافی دیر تک پھوڑے کا معائنہ کرنے کے بعد کسی سوچ میں گم ہوگئے، پھر بادشاہ سلامت کے استفسار پرکہا کہ ''عالی جاہ علاج تو ہے پر ذرا مشکل ہے پتہ نہیں آپ مانیں یا نہ مانیں !''
بادشاہ نے علاج پوچھا تو فرمایا کہ '' ایک آٹھ نو برس کے چند مخصوص خصوصیات کے حامل بچے کو بوقت فجر ذبح کرکے اس کا دل نکال کر ایک دوا بنے گی جو دو دن میں آپ کا پھوڑا ٹھیک کردے گی اور اگر ایسا نہ ہو تو میرا سر قلم کرادیجئے گا'' یہ عجیب علاج سن کر بادشاہ بڑا پریشان ہوا ، وزیر اعظم سے مشورہ کیا ، وہ بولا '' جناب آپ کی جان بچانے کے لیے ایک بچے کی قربانی کوئی بڑی بات نہیں ، بادشاہ کا دل نہ مانا ، ''کہا مفتی اعظم کو بلائیے'' وہ تشریف لائے اور ساری بات سن کر درباری سرکاری علماء کی طرح ایک بچے کی جان لینے کا فتویٰ دے دیا۔
بادشاہ پھر بھی پوری طرح مطمئن نہیں ہوا کہ دردمند دل رکھتا تھا تو اس نے قاضی القضا یعنی اس وقت کے چیف جسٹس سے مشورہ کیا وہ بولے کہ '' جناب آخر سپاہی بھی تو میدانِ جنگ میں جان دیا ہی کرتے ہیں، قانون کی رو سے آپ کی جان بچانے کے لیے ایک بچے کی جان لی جاسکتی ہے، آخر بادشاہ نے اعلان کرایا اور چند غریب غربا اپنے اپنے بچے منہ مانگے انعام کی امید میں برائے قتل لے آئے،حکیم نے ایک بچہ منتخب کرلیا اور بادشاہ نے سب کو تھوڑا بہت اور منتخب بچے کے ماں باپ کو خوب درہم و دینار دے کر بھیج دیا اور بچے کو پیار سے کہا کہ '' بیٹا ،آج محل میں رہو ، خوب گھومو پھرو ،کھاؤ پیو'' اور خدام کو یہ ہدایت کر دی گئی کہ اسے خوش رکھا جائے،مگر وہ بچہ بالکل گم صم رہا ، نہ کچھ کھایا نہ پیا ، صبح ہوئی سب جمع ہوئے۔
بادشاہ حکیم صاحب ، مفتی صاحب ، قاضی صاحب ، وزیر اعظم وغیرہ۔ چمڑہ بچھایا گیا اور بچے کو چت لٹا کر جلاد نے تلوار سونت لی، سب کھڑے دیکھ رہے تھے،کہ یکایک بچہ آسمان کی طرف دیکھ کر زور سے ہنسا، یہ عجیب بات دیکھ کر دل گرفتہ بادشاہ چونک اٹھا ، اس نے جلاد کو اشارے سے روکا اور بچے کے پاس جاکر بولا '' بیٹے، تو آسمان کی جانب دیکھ کرکیوں ہنسا'' بچے نے تمام وقت میں پہلی بار زبان کھولی اور بولا'' جنابِ عالی جانے دیں،آپ اپنا کام کریں، اپنی جان بچائیں، مجھے قتل کرکے'' بادشاہ نے کہا کہ '' نہیں ۔ پہلے تم بتاؤ ،کئی بار اصرار پر بچہ یوں گویا ہوا '' بادشاہ سلامت ، حکمراں کی مثال رعایا کے لیے ایک خاندان کے بڑے ، ایک سرپرست جیسی ہوتی ہے، رعایا کو مان ہوتا ہے کہ بادشاہ ہمیں آسانیاں دے گا ، مشکلات دورکرے گا، تو یہاں تو آپ ہی میری جان کے گاہک بن گئے، پھر آدمی کو علماء سے امید ہوتی ہے کہ وہ ناحق نہ ہونے دیں گے، انھوں نے بھی مجھ بے گناہ کی جان لینے کے جوازکا فتوی دے دیا، پھر آدمی کو عدالت سے حق و انصاف ملنے کی امید ہوتی ہے لیکن وہاں بھی قانونا میری جان لینا جائز ہوگیا۔
پھر آدمی خصوصا بچے کو سب سے زیادہ امید اپنے ماں باپ سے ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہوتے ہوئے اپنی اولاد پرکوئی مصیبت،کوئی گرم ہوا کا جھونکا نہ آنے دیں گے، لیکن وہ بھی درہم دینار لے کر مجھے آپ کے ہاتھوں بیچ گئے ، ابھی جب جلاد نے مجھے قتل کے لیے لٹایا تو میری نگاہ آسمان پر چلی گئی تو میری ہنسی نکل گئی کہ زمین والوں سے تو ساری امیدیں ٹوٹ چکیں ، دیکھیں اب آسمان والا کیا کرتا ہے! بس یہ بات تھی جناب'' بچے کی بات سن کر درد مند بادشاہ کی آنکھ میں آنسو آگئے ، اس نے کہا کہ '' میرے بچے ، جا، تو آزاد ہے،خوش رہ ۔ میرا اللہ مالک ہے اور یہ کہہ کر بچے کو بحفاظت اس کے گھر بھجوا دیا اور محل میں جا کر سوگیا ، جب سو کر اٹھا تو اس کا پھوڑا غائب ہو چکا تھا۔''
تو صاحبو! فی الحال، وطنِ عزیزکے عوام الناس کی اکثریت کی حالت بھی اس بچے ہی جیسی تقریبا ہوگئی ہے کہ لوگ پے در پے مصائب و مسائل ، مہنگائی، بے روزگاری میں روز افزوں اضافہ، معاشی عدم استحکام کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غیر یقینی کی صورتحال سے جنم لینے والے خدشات اور دیگرکئی اسی طرح کے معاملات کا سامنا کرتے کرتے اب نڈھال سے ہوتے جارہے ہیں اور زمین والوں سے ذرا مایوس سے ہی ہوتے جا رہے اور نظر آرہے ہیں، دیکھتے ہیں کہ اب آسمان والا کیا کرتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ حل سمجھ نہیں آرہا ہے، یہ گھمبیر مسائل ، یہ پیچیدہ معاملات ، یہ سارا گند ، یہ سیاسی ، سماجی ، معاشی ، معاشرتی ، عدالتی ،اخلاقی ، سماجی ، تعلیمی بد عنوانی سے جنم لینے والے مسائل جوکہ اب پہاڑ بن چکے ہیں تو ان پہاڑوں کوکاٹنے کا تیشہ آخرکہاں ہے ،کس فرہاد کے پاس ہے، کیسے یہ گند صاف ہوگا ، کیسے یہ مسائل حل ہونے کی کوئی صورت پیدا ہوگی، ابھی ایک مسئلہ حل ہونے نہیں پاتا کہ دوسرا آنکھیں دکھانے لگتا ہے۔
بقول منیر نیازی مرحوم ، ایک دریا پارکرتے ہی دوسرا سامنے آ جاتا ہے، اور رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہونے کے مصداق یہ مسائل ہماری زندگی کا ساماں ہوگئے، عوام الناس کا ستیاناس ہونے کو ہے بلکہ ہو ہی گیا ہے ، مگر طفلِ تسلیاں، دلاسے، آیندہ کی خوش خبریاں دینے کے علاوہ کچھ ٹھوس یا عملی قدم یا حل فی الحال تو نظر نہیں آرہا ہے مستقبل کی خدا جانے۔ عوام الناس اب بھی کچھ پر امید ہیں کہ خدا بہتر کرے گا اور وہ ضرور کرے گا کہ وہ بندے سے اس کے گمان کے مطابق معاملہ فرماتا ہے، لیکن جو ذمے داران ہیں، باوسائل ہیں وہ صرف باتیں بگھارنے اور نمائشی اقدامات کے سوا زیادہ کچھ نہیں کرتے نظر آرہے ہیں۔
آج کل عوام کی ذہنی ونفسیاتی حالت ، امیدوبیم کی کیفیت ،کبھی مایوسی کا حملہ ،کبھی آس کا جگنو،کبھی خوش کبھی برہم اورکبھی سب درہم برہم والی ہوگئی ہے، تو اس پر ایک حکایت یاد آئی کہ ایک بادشاہ کو پھوڑا نکل آیا اور بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا ، شاید کینسرکا ہوگا، بادشاہ اچھا آدمی تھا ، رعایا کا خیال کرنے والا ہمدرد حکمراں تھا، عوام وخواص میں تشویش کی لہر بالکل آج کی طرح کی دوڑ گئی، اطبا و حکماء آئے طرح طرح کے نسخے آزمائے گئے، پر '' مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی'' آخر ایک بہت پرانے تجربہ کار ضعیف استاد الاساتذہ حکیم صاحب تشریف لائے اورکافی دیر تک پھوڑے کا معائنہ کرنے کے بعد کسی سوچ میں گم ہوگئے، پھر بادشاہ سلامت کے استفسار پرکہا کہ ''عالی جاہ علاج تو ہے پر ذرا مشکل ہے پتہ نہیں آپ مانیں یا نہ مانیں !''
بادشاہ نے علاج پوچھا تو فرمایا کہ '' ایک آٹھ نو برس کے چند مخصوص خصوصیات کے حامل بچے کو بوقت فجر ذبح کرکے اس کا دل نکال کر ایک دوا بنے گی جو دو دن میں آپ کا پھوڑا ٹھیک کردے گی اور اگر ایسا نہ ہو تو میرا سر قلم کرادیجئے گا'' یہ عجیب علاج سن کر بادشاہ بڑا پریشان ہوا ، وزیر اعظم سے مشورہ کیا ، وہ بولا '' جناب آپ کی جان بچانے کے لیے ایک بچے کی قربانی کوئی بڑی بات نہیں ، بادشاہ کا دل نہ مانا ، ''کہا مفتی اعظم کو بلائیے'' وہ تشریف لائے اور ساری بات سن کر درباری سرکاری علماء کی طرح ایک بچے کی جان لینے کا فتویٰ دے دیا۔
بادشاہ پھر بھی پوری طرح مطمئن نہیں ہوا کہ دردمند دل رکھتا تھا تو اس نے قاضی القضا یعنی اس وقت کے چیف جسٹس سے مشورہ کیا وہ بولے کہ '' جناب آخر سپاہی بھی تو میدانِ جنگ میں جان دیا ہی کرتے ہیں، قانون کی رو سے آپ کی جان بچانے کے لیے ایک بچے کی جان لی جاسکتی ہے، آخر بادشاہ نے اعلان کرایا اور چند غریب غربا اپنے اپنے بچے منہ مانگے انعام کی امید میں برائے قتل لے آئے،حکیم نے ایک بچہ منتخب کرلیا اور بادشاہ نے سب کو تھوڑا بہت اور منتخب بچے کے ماں باپ کو خوب درہم و دینار دے کر بھیج دیا اور بچے کو پیار سے کہا کہ '' بیٹا ،آج محل میں رہو ، خوب گھومو پھرو ،کھاؤ پیو'' اور خدام کو یہ ہدایت کر دی گئی کہ اسے خوش رکھا جائے،مگر وہ بچہ بالکل گم صم رہا ، نہ کچھ کھایا نہ پیا ، صبح ہوئی سب جمع ہوئے۔
بادشاہ حکیم صاحب ، مفتی صاحب ، قاضی صاحب ، وزیر اعظم وغیرہ۔ چمڑہ بچھایا گیا اور بچے کو چت لٹا کر جلاد نے تلوار سونت لی، سب کھڑے دیکھ رہے تھے،کہ یکایک بچہ آسمان کی طرف دیکھ کر زور سے ہنسا، یہ عجیب بات دیکھ کر دل گرفتہ بادشاہ چونک اٹھا ، اس نے جلاد کو اشارے سے روکا اور بچے کے پاس جاکر بولا '' بیٹے، تو آسمان کی جانب دیکھ کرکیوں ہنسا'' بچے نے تمام وقت میں پہلی بار زبان کھولی اور بولا'' جنابِ عالی جانے دیں،آپ اپنا کام کریں، اپنی جان بچائیں، مجھے قتل کرکے'' بادشاہ نے کہا کہ '' نہیں ۔ پہلے تم بتاؤ ،کئی بار اصرار پر بچہ یوں گویا ہوا '' بادشاہ سلامت ، حکمراں کی مثال رعایا کے لیے ایک خاندان کے بڑے ، ایک سرپرست جیسی ہوتی ہے، رعایا کو مان ہوتا ہے کہ بادشاہ ہمیں آسانیاں دے گا ، مشکلات دورکرے گا، تو یہاں تو آپ ہی میری جان کے گاہک بن گئے، پھر آدمی کو علماء سے امید ہوتی ہے کہ وہ ناحق نہ ہونے دیں گے، انھوں نے بھی مجھ بے گناہ کی جان لینے کے جوازکا فتوی دے دیا، پھر آدمی کو عدالت سے حق و انصاف ملنے کی امید ہوتی ہے لیکن وہاں بھی قانونا میری جان لینا جائز ہوگیا۔
پھر آدمی خصوصا بچے کو سب سے زیادہ امید اپنے ماں باپ سے ہوتی ہے کہ وہ اپنے ہوتے ہوئے اپنی اولاد پرکوئی مصیبت،کوئی گرم ہوا کا جھونکا نہ آنے دیں گے، لیکن وہ بھی درہم دینار لے کر مجھے آپ کے ہاتھوں بیچ گئے ، ابھی جب جلاد نے مجھے قتل کے لیے لٹایا تو میری نگاہ آسمان پر چلی گئی تو میری ہنسی نکل گئی کہ زمین والوں سے تو ساری امیدیں ٹوٹ چکیں ، دیکھیں اب آسمان والا کیا کرتا ہے! بس یہ بات تھی جناب'' بچے کی بات سن کر درد مند بادشاہ کی آنکھ میں آنسو آگئے ، اس نے کہا کہ '' میرے بچے ، جا، تو آزاد ہے،خوش رہ ۔ میرا اللہ مالک ہے اور یہ کہہ کر بچے کو بحفاظت اس کے گھر بھجوا دیا اور محل میں جا کر سوگیا ، جب سو کر اٹھا تو اس کا پھوڑا غائب ہو چکا تھا۔''
تو صاحبو! فی الحال، وطنِ عزیزکے عوام الناس کی اکثریت کی حالت بھی اس بچے ہی جیسی تقریبا ہوگئی ہے کہ لوگ پے در پے مصائب و مسائل ، مہنگائی، بے روزگاری میں روز افزوں اضافہ، معاشی عدم استحکام کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غیر یقینی کی صورتحال سے جنم لینے والے خدشات اور دیگرکئی اسی طرح کے معاملات کا سامنا کرتے کرتے اب نڈھال سے ہوتے جارہے ہیں اور زمین والوں سے ذرا مایوس سے ہی ہوتے جا رہے اور نظر آرہے ہیں، دیکھتے ہیں کہ اب آسمان والا کیا کرتا ہے۔