نریندر مودی کی نئی مہم جوئی
نریندر مودی کی سیاست کا بڑا حصہ سیکولر سیاست کے مقابلے میں ہندواتہ پر مبنی سیاست کے گرد گھومتا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور ہندواتہ کی سیاست پر یقین کرنے والی سخت گیر بی جے پی کی حالیہ پاکستان مخالف مہم خلاف توقع نہیں سمجھنی چاہیے۔ یہ بات طے تھی کہ نریندر مودی اپنی انتخابی مہم میں پاکستان مخالف جذبات کو ابھار کر بھارت کے جنونی ہندو ووٹرز پر اثرانداز ہونے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ ویسے بھی اگر بھارت کی انتخابی سیاسی تاریخ یا انتخابی مہم کا جائزہ لیں تو اس میں پاکستان مخالف ایجنڈا کلیدی طور پر بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
نریندر مودی کی سیاست کا بڑا حصہ سیکولر سیاست کے مقابلے میں ہندواتہ پر مبنی سیاست کے گرد گھومتا ہے اوراسی بنیاد پر شدت پسند ہندو مودی کو اپنا بڑا حلیف سمجھتا ہے ۔ حالیہ پانچ ریاستوں کے انتخابات میں مودی سرکار کی شکست نے عملی طور پر مودی کو سیاسی طور پر تنہا کیا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اب وہ دوبارہ لنگوٹ کس کر شدت پسندی اور بالخصوص پاکستان مخالف ایجنڈے کو بنیاد بنا کر عملا اپنی انتخابی مہم چلانا چاہتے ہیں۔
بھارت کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنی داخلی سیاست کے مسائل اوراس کے نتیجہ میں ہونے والی ہر ناکامی کو پاکستان پر ڈال کر اپنا دامن بچاناچاہتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے علاقہ پلوامہ کے علاقہ اونتی پور میں بھارتی سینٹرل ریزرو پولیس کے 78بسوں پر مشتمل قافلہ پر حملہ آوروں نے بارود سے بھری گاڑی ایک بس سے ٹکرا دی، نتیجہ میں 44 اہلکار ہلاک ہوگئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس واقعہ کی تحقیقات سے قبل ہی بھارت نے اس کا الزام براہ راست پاکستان پر ڈال دیا ہے۔جب کہ اس کے برعکس پاکستان نے بغیر کسی ثبوت کے بھارت کی الزام تراشی کو مسترد کردیا ہے ۔لیکن اس واقعہ کو بنیاد بنا کر مودی سرکار معاملات کو اور زیادہ شدت پسندی کی جانب لے کر جانا چاہتی ہے تاکہ وہ داخلی سیاست میںکوئی سیاسی فائدہ اٹھاسکے۔
پلوامہ کے واقعہ کی سیاسی ٹائمنگ بھی اہمیت رکھتی ہے۔ ایک ایسے موقعے پر جب پاکستان کلبھوشن کیس، ایف اے ٹی ایف اجلاس، سعودی ولی عہد کا دورہ پاکستان اور افغانستان میں داخلی امن کی کوششوں کے درمیان اس طرز کے واقعات یقینی طور پر معاملات میں زیادہ مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔
بنیادی طور پر بھارت اس وقت تنہا نظر آتا ہے۔کیونکہ مقبوضہ کشمیر میں جو بدترین انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے، اس پر خود بھارت کے اندر موجود انسانی حقوق کے کارکنوں اور ماہرین بھی مودی سرکار کی مخالفت میں پیش پیش ہیں۔ سابق بھارتی سفارتکار ایم کے بھدر کمار کے بقول بھارت عملی طور پر اس وقت مودی سرکار کی کشمیر پالیسی کی بھاری قیمت ادا کررہا ہے۔ان کے بقول اب یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ مسئلہ کشمیر کا حل پاکستان سے مذاکرات سے ہی جڑا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلی فاروق عبداللہ کے بقول پلوامہ حملہ پاکستان نہیں بلکہ مقامی لوگوں سے جڑا ہے اور مقامی لوگ ہی عملی طور پر بھارت کے خلاف لڑرہے ہیں۔اس واقعہ سے قبل فاروق عبداللہ اورمحبوبہ مفتی دونوں نے ہی بھارت کی حکومت کو مقبوضہ کشمیر کی داخلی صورتحال پر یہ ہی مشورہ دیا تھا کہ مسئلہ کا حل طاقت نہیں بلکہ مذاکرات ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ بھارتی موجودہ سیاسی قیادت مسئلہ کشمیر کے داخلی مسائل کو سمجھنے میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔
بھارت کے مختلف شہروں میں ہندو طلبہ کی کشمیر میں ہونے والی بدترین انسانی حقوق کی پامالی پر نکلنے والی مختلف ریلیاں بھی مودی سرکار کو داخلی خطرات کا فہم نہیں دے سکی ہیں۔بھارت کے مختلف شاعر، ادیب، دانشور، استاد، فلم ساز، فنکار کئی شخصیتوںنے بھی مودی سرکار کی ہندواتہ پر مبنی سیاست کو داخلی سطح پر چیلنج کیا ہے۔ان ہی مسائل کی وجہ سے مودی سرکار کو ریاستی انتخابات میں شکست کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔
اب پلوامہ کے واقعہ کو بنیاد بنا کر نریندر مودی نے جو سخت لب لہجہ اور زبان پاکستان مخالفت میں استعمال کی ہے یہ اصولی طور پر ان کی سیاسی ضرورت ہے۔وزیر اعظم مودی نے واقعہ میں مزید شدت پسندی پیدا کرنے کے لیے پاکستان کو پسندیدہ ملک کا درجہ دینے کے اعلان کی دھمکی دی ہے اوران کے بقول پاکستان کو اس حملہ کی بھاری قیمت چکانی ہوگی اورہم نے فوج کو آزادی دے دہی ہے کہ وہ دہشتگردوں کے خلاف کمر کس لے۔
مودی سرکار اسلام آباد کو سیاسی طور پر تنہا کرنے کی مہم بھی چلانے کا اعلان کرتے ہیں ظاہر کرتا ہے کہ مسئلہ حملہ سے زیادہ پاکستان مخالفت سے جڑ ا ہے۔اسی مودی کی ہندواتہ پالیسی کی وجہ سے ہی پلوامہ کے واقعہ کے بعد شدت پسند ہندووں کا مختلف علاقوں میں مسلمانوں اورکشمیریوں پر حملہ حالات میں مزید کشیدگی کا سبب بن سکتا ہے۔
بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کو سمجھنے کے لیے 2018ء کی کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر مبنی رپورٹ کافی ہے ۔بنیادی طور پر اس رپورٹ میں مکمل طور پر اتفاق کیا گیا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں بدترین انسانی حقوق کی پامالی کا مرتکب ہوا ہے۔اس رپورٹ کے اجرا پر بھی پاکستان مخالف مودی سرکار کافی غصہ میں نظر آتی ہے۔کیونکہ اس رپورٹ میں عملی طور پر مودی سرکار کی کشمیر پالیسی کو بری طرح تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
پلوامہ کے واقعہ کی تحقیقات میں بھی کچھ بنیادی نکات سمجھنے ہونگے۔ اول کیا اتنا بھاری حملہ ایک یا دو مقامی افراد کرسکتے تھے ۔دوئم کیا ان کے پاس اتنی فوجی مہارت اورصلاحیت تھی کہ وہ یہ کام کرسکتے تھے۔ سوئم اتنا بھاری بھرکم بم کا مواد وہاں کیسے پہنچا جہاں ہر طرف ہی بھارت کی فوج کا سخت پہرہ ہوتا ہے ۔چہارم جیش محمد جیسی کالعدم تنظیم کو بنیاد بنا کر جو بیان دلوائے گئے ہیں ان کی کیا عملی حقیقت ہے اورکیا اس کا مقصد مقبوضہ کشمیر کی داخلی جدوجہد پر سوال اٹھانا نہیں۔
پنجم مودی کا اسلام آباد کو تنہا کرنے کا اعلان کیا یہ سمجھنے کے لیے کافی نہیں اس طرح کے پرتشدد واقعات کو بنیاد بنا کر عملا پاکستان مخالف سیاست کو ابھارنا ہے۔بنیادی طور پر مودی سرکار کو یہ سمجھنا ہوگا کہ مسئلہ پاکستان کی ریاست کا نہیں کیونکہ پاکستان پہلے ہی دہشتگردی سے نمٹنے اور اپنے ملک سمیت خطہ کے حالات میں بہتری پیدا کرنے کے لیے تمام فریقین سے معاملات کو مذاکرات کی مدد سے حل کرنا چاہتا ہے۔ خود بھارت کو بھی پاکستان ایک سے زیادہ مرتبہ بات چیت کی دعوت دے چکا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کے بقول بہتر تعلقات میں بھارت ایک قدم چلے گا تو ہم دو قدم آگے نظر آئیں گے۔ کرتار پور راہداری اسی مفاہمتی عمل کا حصہ ہے جو پاکستان نے عملی طور پر کرکے دکھایا ہے۔لیکن مسئلہ بھارت کی سخت گیر قیادت کا ہے جو ہر صورت میں پاکستان کو دباو یا سیاسی طور پر تنہا کرنے کی خواہش مند ہے۔ اس سے قبل بھی سی پیک جیسے منصوبے پر نریندر مودی کہہ چکے تھے کہ وہ اس منصوبہ کو قبول بھی نہیں کریں گے اورنہ ہی اس پر عملدرآمد ہونے دیں گے۔
ہماری عسکری قیادت نے بھی ایک سے زیادہ مرتبہ بھارت کو مفاہمتی عمل کی پیشکش کی ہے اوراس تاثر کی نفی کی کہ فوج بھارت سے تعلقات میں بڑی رکاوٹ ہے۔لیکن بھارت نے بدستور معاملات میں ایک بڑا سیاسی ڈیڈ لاک پیدا کررکھا ہے۔