پولیس آرڈر 2002 کا نفاذ آج نہیں تو پھر کب

دیکھنا باقی ہے کہ عمران خان روایتی سیاستدانوں کے ہوتے ہوئے پنجاب پولیس میں اصلاحات لانے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں


واثق احمد February 24, 2019
اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ خان روایتی سیاستدانوں کے ہوتے ہوئے پنجاب پولیس میں اصلاحات لانے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کیا سانحہ ساہیوال جیسے اندوہناک واقعے کے بعد بھی کوئی گنجائش باقی رہ گئی ہے؟ کیا اب بھی وقت نہیں آیا جو ہم انگریز دور کے گھسے پٹے اور عوام دشمن پولیس ایکٹ 1861 سے نجات حاصل کریں؟ 1857 میں جب انگریز نے برصغیر میں اپنا تسلط قائم کیا تو عوام کے دلوں میں اپنے اقتدار کی دھاک بٹھانے کےلیے پولیس ایکٹ جیسے قوانین متعارف کرائے، جن کی بدولت ریاستی اداروں کو مطلق العنان بنایا گیا، اور امن و امان برقرار رکھنے یا تفتیش کے نام پر کسی کو زیر عتاب لانا پولیس کےلیے کوئی مشکل نہ رہا۔

ستم بالائے ستم یہ کہ سات عشروں کے دوران آئین میں 21 ترامیم کی گئیں جن میں سے اکثر ترامیم حکمرانوں ہی کے بیچ اختیار و اقتدار کی تقسیم کے گرد گھومتی ہیں۔ عام آدمی کے مسائل کا احساس رکھنے کے دعویداروں کو کبھی توفیق نہ ہوئی کہ جن مشکلات اور مسائل سے عام شہری کو روز سامنا کرنا پڑتا ہے، ان کے تدارک کےلیے قانون سازی کی جائے۔ ہمارے یہاں آج بھی تھوڑے سے ردّ و بدل کے بعد 1972 کا لوکل گورنمنٹ ایکٹ اور 1861 کا پولیس ایکٹ نافذ العمل ہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمیشہ دورِ آمریت میں ہی عوام کےلیے قانون سازی کی سنجیدہ کوششیں کی گئیں۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کا ڈھانچہ ملک میں متعارف کرایا جس میں یونین کونسل سطح تک مالی اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کےلیے عوام کو اپنے لیے سیلف گورننگ باڈیز منتخب کرنے کے اختیارات دیئے گئے۔

بھٹو صاحب آئے تو بنیادی جمہوریت کی بساط لپیٹ کر پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈینینس متعارف کرایا، یہ بات الگ کہ جمہور کے نام پر سیاست کرنے والوں نے اپنے ہی نافذ کردہ آرڈینینس کے تحت الیکشن کرانے سے گریز کیا۔ وقتاً فوقتاً لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں اپنے اپنے مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے ترامیم کی گئیں تا آں کہ پرویز مشرف نے 2001 میں ایک بااختیار لوکل گورنمنٹ آرڈینینس نافذ کیا۔ ماسوائے خیبرپختونخواہ حکومت کے، اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی ہمارے جمہوری لیڈروں کوگوارہ نہ ہوئی اور عنانِ حکومت سنبھالتے ہی ایک بار پھر عوام کو بیوروکریسی اور کمشنر ی نظام کے رحم و کرم پر چھوڑ کر انہیں بے اختیار کردیا گیا۔

آمر مشرف کے دور میں پولیس کو سیاسی اثر و رسوخ سے پاک کرنے اور اسے مقامی لوگوں کی بنائی گئی کمیٹیوں کے سامنے جوابدہ کرنے کےلیے پولیس آرڈر 2002 بنایا گیا جس میں پولیس کو تغیر پذیر سیاسی، معاشرتی اور سماجی مسائل کو ملحوظ رکھ کر حقیقی معنوں میں عوام کا محافظ بنانے کی سعی کی گئی۔

پولیس آرڈر 2002 کے تحت ضلعی سطح سے لے کر صوبائی اور قومی سطح تک پولیس کمپلینٹ کمیشن اور اٹھارٹیز تشکیل دینے کی تجویز دی گئی جس میں لوکل پولیس سمیت وفاقی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی سوسائٹی پولیس کے سامنے جوابدہ بنایا گیا۔ ضلعی سطح پر پبلک سیفٹی اینڈ پولیس کمپلینٹ کمیشن کی تشکیل نو سے مقامی پولیس کو بلاواسطہ سول سوسائٹی اور مقامی منتخب نمائندوں کے سامنے جوابدہ کیا گیا۔

پولیس کی جانب سے کسی عام شہری سے بدسلوکی یا زیادتی برتنے پر ضلع پولیس آفیسر کو پبلک سیفٹی کمیشن کے حکم پر پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کرنے کا پابند بنایا گیا۔ پولیس آرڈر کے نافذ ہونے کے بعد عام آدمی کے دل سے پولیس کاخوف ختم ہوجاتا۔ لیکن پولیس آرڈر کے نافذ ہونے سے تھانہ کلچر کے خطرے میں پڑنے کے خوف سے ارباب سیاست نے اس کی راہ میں روڑے اٹکائے اور اس کے رائج ہونے میں سیسہ پلائی دیوار بن گئے۔

موجودہ حکومت نے تبدیلی کا نعرہ لگا کر اقتدار حاصل کیا ہے۔ اس حکومت سے توقع کی جاسکتی ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کے بااختیار ہونے سے کم از کم پنجاب کی حد تک (جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے) پولیس آرڈر 2002 اپنی اصل روح کے ساتھ نافذ کرکے پولیس کو حکمرانوں کے اثر و رسوخ سے رہا کرکے آزادانہ کام کرنے اور عوامی پولیس بننے کا موقع دیا جائے گا۔

تحریک انصاف کی خیبر پختونخواہ میں دوبارہ کامیابی کی ایک بڑی وجہ وہاں کی غیر سیاسی پولیس اور عوام دوست پولیس رویہ بھی ہے۔ سانحہ ساہیوال کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ دیکھنے میں آیا۔ اگر اب بھی ارباب بست و کشاد نے پولیس اصلاحات پر مبنی پولیس آرڈر نافذ نہ کیا تو سانحہ ساہیوال جیسے واقعات رونما ہوتے رہین گے۔ پرجوش عوامی خواہش پر عمران خان حکومت نے پنجاب میں پولیس اصلاحات لانے کا اعلان تو کردیا ہے۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ خان روایتی سیاستدانوں کے ہوتے ہوئے پنجاب پولیس میں اصلاحات لانے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

تشویشناک صورتحال

Dec 28, 2024 01:16 AM |

چاول کی برآمدات

Dec 28, 2024 01:12 AM |

ملتے جلتے خیالات

Dec 28, 2024 01:08 AM |