خون کا عطیہ دیجیے اور صحت مند رہیے
خون کی منتقلی سے قبل اسکریننگ انتہائی ضروری ہے تاکہ خون کے ذریعے منتقل ہونے والی بیماریوں کو روکا جاسکے
انسانی جسم کا ایک لازمی جزو خون ہے جو دل اورشریانوں کے ذریعے جسم کے اعضاء میں گردش کرتا رہتا ہے۔ کسی بھی انسان کو شدید بیماری، سرجری اور حادثاتی صورتحال میں خون، پلازما، سفید خلیات (وائٹ سیلز) کی ضرورت ضرورت پیش آسکتی ہے۔ قیمتی انسانی جانوں کو بچانے کےلیے خون کے عطیات انتہائی اہم اور ضروری ہیں۔
کسی بھی ضرورت مند مریض کو خون عطیہ کرنا صدقہ جاریہ میں شمار ہوتا ہے، جبکہ کسی دوسرے انسان کی مدد سے قدرت الٰہی کی جانب سے قلبی سکون و راحت حاصل ہوتی ہے اور انسان ہر قسم کی آفات اور محرومیوں سے نجات پاتا ہے۔ قرآن پاک کی سورۃ المائدہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک انسان کی جان بچانے کو پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ خون عطیہ کرنے سے انسان کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ یہ بات بالکل درست نہیں۔ ہر تندرست انسان کے بدن میں تقریباً ایک لیٹر (یعنی دو سے تین بوتلیں) اضافی خون ہوتا ہے۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ہر تندرست انسان کو سال میں کم از کم دو مرتبہ خون کا عطیہ ضرور د ینا چاہیے۔ اس سے صحت پر کسی قسم کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے بلکہ خون کا عطیہ دینے والے افراد زیادہ صحت مند رہتے ہیں۔ خون عطیہ کرنے میں جتنا خون لیا جاتا ہے، اس کی کمی انسانی جسم تین دن میں پوری کرلیتا ہے، جبکہ خون کے خلیات 56 دن میں مکمل طور پر دوبارہ بن جاتے ہیں۔ خون کے یہ نئے خلیات، پرانے خلیوں سے زیادہ صحت مند اور طاقتور ہوتے ہیں جو انسان کو کئی امراض سے بچاتے ہیں۔
یہ بھی ضروری ہے کہ ایک بار خون کا عطیہ دینے کے بعد دوبارہ تین ماہ یا اس کے بعد دینا چاہیے۔ امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کی ایک ریسرچ کے مطابق جو لوگ وقتاً فوقتاً خون کا عطیہ دیتے ہیں، ان میں دل کا دورہ پڑنے اور کینسر لاحق ہونے کے امکانات 95 فیصد تک کم ہوجاتے ہیں۔ جسم میں آئرن کی زیادہ مقدار اور اس کے کم اخراج کی وجہ سے آئرن انسان کے دل، جگر اور لبلبے کو متاثر کرتا ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جسم میں آئرن کی مقدار کو متوازن رکھنے کےلیے خون عطیہ کرنا ایک نہایت مفید عمل ہے۔ اس عمل سے رگوں میں خون کے لوتھڑے بننے (انجماد) کو روکنے اور جسم میں خون کے بہتر بہاؤ میں مدد ملتی ہے۔ باقاعدگی سے خون دینے والے ڈونرز موٹاپے کا شکار نہیں ہوتے کیونکہ خون دینے کا عمل جسم کی چربی کو کم اور وزن کنٹرول کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ خون عطیہ کرنے کے بعد نئے خون کے بننے سے چہرے پر نکھار پیدا ہوتا ہے اور یہ چہرے پر بڑھاپے کے اثرات کو زائل کرتا ہے۔
دنیا کے دیگر ممالک میں خون کا عطیہ دینے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن افسوس کہ ہمارے ملک میں صرف 1 سے 2 فیصد ایسے افراد ہیں جو رضاکارانہ طور پر خون کا عطیہ باقاعدگی سے دیتے ہیں جبکہ دیگر افراد حادثات یا دیگر سنگین صورتوں میں خون عطیہ کرتے ہیں۔ حالانکہ ہر وہ شخص جس کی عمر 17 سے 50 سال اور وزن تقریباً 50 کلو سے زائد ہو، وہ خون کا عطیہ دے سکتا ہے۔
اس کے علاوہ عطیہ شدہ خون کی جدید مشینوں پر 7 طرح کی ٹیسٹنگ بھی کی جاتی ہے جن میں ہیپاٹائٹس بی اور سی، ایڈز، ملیریا اور آتشک کے ٹیسٹ شامل ہیں؛ اور اس کی مکمل رپورٹ مع ہیموگلوبن اور بلڈ گروپ کے مہیا کی جاتی ہے جس کی وجہ سے ڈونر اپنی کسی بھی پوشیدہ بیماری کے لاعلاج ہوجانے سے پہلے ہی آگاہ ہو جاتا ہے۔ اگر عام حالات میں یہ ٹیسٹ کسی معیاری لیبارٹری سے کروائے جائیں تو ان کا معاوضہ ہزاروں روپے ہوتا ہے، جبکہ خون عطیہ کرتے وقت یہ ٹیسٹ بلامعاوضہ ہوجاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں انڈس اسپتال اور حکومت پنجاب کے اشتراک سے ملتان میں قائم جدید ترین کمپیوٹرائزڈ ریجنل بلڈ سینٹر جانے کا موقعہ ملا اور یہاں کے صاف ستھرے ماحول، بلامعاوضہ خدمات اور ٹیم کی محنت اور صلاحیت کو دیکھ کر دلی طور پر بہت خوشی ہوئی۔
یہاں یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ کس قدر باریک بینی سے بلڈ ڈونر کی میڈیکل ہسٹری، وزن اور طبی جانچ، اور جدید ترین مشینوں پر تمام ضروری ٹیسٹوں کے بعد خون کے عطیات ڈونرز سے مریضوں کو منتقل کیے جاتے ہیں۔ ریجنل بلڈ سینٹر ملتان کے ساتھ قائم وسیع و عریض کمپیوٹرائزڈ کڈنی سنٹر بھی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت قائم ہے جہاں پوری عزت نفس کے ساتھ مریضوں کا علاج معالجہ، ہر قسم کے ٹیسٹ مکمل بلامعاوضہ ہوتے ہیں۔ ڈائیلیسس ایک مہنگا علاج ہے، متوسط طبقہ بھی اس کا خرچ برداشت نہیں کرسکتا جبکہ یہاں وہ بالکل مفت ہے۔
ایسے دور میں جب سرکاری اسپتالوں میں علاج کی سہولیات اور معیار انتہائی کم اور اخراجات روز افزوں ہیں۔ کسی ایسے اسپتال کا تصور کہ جس میں داخلے کے بعد مریض اور اس کے لواحقین سے ایک پیسہ بھی نہ لیا جاتا ہو، اگر ناممکن ہے تو انڈس اسپتال بنانے اور چلانے والوں نے اسے ممکن کر دکھایا ہے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت، خدمت خلق کے جذبے سے سرشار، بغیر نفع کام کرنے والے اس ادارے کی کارکردگی شاندار ہے، جس پر یہ ادارہ خراج تحسین کا مستحق ہے۔
خدمت خلق کی ایسی روشن اور حوصلہ افزا مثال وطن عزیز میں کم کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے فارمولے کے تحت حکومت خدمات کی فراہمی کے بجائے نگرانی اور رہنمائی کے فرائض پر فوکس رکھتی ہے، یہی وجہ سے کہ یہاں بہترین نتائج کےلیے انتظامات میں سیاسی مداخلت کو قطعاً برداشت نہیں کیا جاتا۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ غریب و ترقی پذیر ممالک میں نجی شعبے کی ریگولیشن ایک اہم مسئلہ رہا ہے۔ لیکن جن ممالک نے نجی شعبے کی ریگولیشن پر سختی سے عمل کیا ہے، وہ ممالک ترقی پذیر سے ترقی یافتہ بننے کی منازل تیزی سے طے کرتے جا رہے ہیں۔
پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے طریقہ کار سے انڈیا، جنوبی افریقا اور سینیگال جیسے ممالک اپنے ملک میں صحت عامہ کی صورتحال کو مستحکم کرچکے ہیں جبکہ مسلم معاشرے نے بہت سے ایسے ادارے بنائے جو ہر طرح کی سیاسی وابستگی یا مالی مفادات سے بالاتر خدمت انسانیت کا جذبہ رکھتے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک ''انڈس ہیلتھ کیئر'' حکومت پاکستان، انتظامیہ اور مخیر حضرات کے ساتھ مل کر تمام شعبوں میں مثالی خدمات انجام دے رہا ہے جس کا صلہ صرف دعائیں ہے۔
یہاں واضح رہے کہ عام بلڈ بینکوں میں معیاری اسکریننگ نہ ہونے کی وجہ سے بچے ہیپاٹائٹس کے مرض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ خون کی منتقلی سے قبل اسکریننگ انتہائی ضروری ہے تاکہ خون کے ذریعے منتقل ہونے والی بیماریوں کو روکا جاسکے اور ضرورت مند کو معیاری اور صاف خون فراہم ہوسکے۔ ماہرین صحت کے مطابق ہمارے معاشرے میں ہیموفیلیا کے مریضوں کی تعداد بہت بڑھ رہی ہے، مریضوں میں ہیموفیلیا اے اور بی کثرت سے پایا جاتا ہے۔ خون کا عطیہ کرنے والے میں اگر ہیموفیلیا اے اور بی جیسا کوئی وائرس نکل آئے تو اس سے مریض متاثر ہوسکتا ہے۔ ریجنل بلڈ سینٹر کے ڈاکٹرز جدید ترین مشینوں پر تمام وائرسوں کی مکمل اسکریننگ یقینی بناتے ہیں، جس کے بعد کسی وائرس کی منتقلی کا شبہ تک نہیں رہتا۔ اس ادارے کے منتظمین خون کے معیاری عطیات کے حصول کےلیے یونیورسٹیز، کالجز اور دیگر تعلیمی اداروں اور کاروباری مراکز میں بلڈ کیمپ لگاتے ہیں اور لوگوں کو خون کے عطیات کی اہمیت سے آگاہی فراہم کرتے ہیں جبکہ ڈونر کے کسی بیماری میں مبتلا ہونے کی صورت میں اسے مرض کی رپورٹ اور ڈاکٹرز اس مرض کے علاج کے بارے میں مکمل معلومات بھی فراہم کرتے ہیں۔
ماہرین صحت کے مطابق ہمارے جسم میں خون کی زندگی محض 120 دن ہوتی ہے۔ تو کیوں نہ ہم وہ خون ضائع ہونے سے بچائیں، اپنے اندر خدمت خلق کا جذبہ بیدار کریں، خون کا عطیہ دیں اور کسی کی زندگی بچائیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کسی بھی ضرورت مند مریض کو خون عطیہ کرنا صدقہ جاریہ میں شمار ہوتا ہے، جبکہ کسی دوسرے انسان کی مدد سے قدرت الٰہی کی جانب سے قلبی سکون و راحت حاصل ہوتی ہے اور انسان ہر قسم کی آفات اور محرومیوں سے نجات پاتا ہے۔ قرآن پاک کی سورۃ المائدہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک انسان کی جان بچانے کو پوری انسانیت کی جان بچانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ خون عطیہ کرنے سے انسان کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ یہ بات بالکل درست نہیں۔ ہر تندرست انسان کے بدن میں تقریباً ایک لیٹر (یعنی دو سے تین بوتلیں) اضافی خون ہوتا ہے۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ہر تندرست انسان کو سال میں کم از کم دو مرتبہ خون کا عطیہ ضرور د ینا چاہیے۔ اس سے صحت پر کسی قسم کے منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے بلکہ خون کا عطیہ دینے والے افراد زیادہ صحت مند رہتے ہیں۔ خون عطیہ کرنے میں جتنا خون لیا جاتا ہے، اس کی کمی انسانی جسم تین دن میں پوری کرلیتا ہے، جبکہ خون کے خلیات 56 دن میں مکمل طور پر دوبارہ بن جاتے ہیں۔ خون کے یہ نئے خلیات، پرانے خلیوں سے زیادہ صحت مند اور طاقتور ہوتے ہیں جو انسان کو کئی امراض سے بچاتے ہیں۔
یہ بھی ضروری ہے کہ ایک بار خون کا عطیہ دینے کے بعد دوبارہ تین ماہ یا اس کے بعد دینا چاہیے۔ امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کی ایک ریسرچ کے مطابق جو لوگ وقتاً فوقتاً خون کا عطیہ دیتے ہیں، ان میں دل کا دورہ پڑنے اور کینسر لاحق ہونے کے امکانات 95 فیصد تک کم ہوجاتے ہیں۔ جسم میں آئرن کی زیادہ مقدار اور اس کے کم اخراج کی وجہ سے آئرن انسان کے دل، جگر اور لبلبے کو متاثر کرتا ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جسم میں آئرن کی مقدار کو متوازن رکھنے کےلیے خون عطیہ کرنا ایک نہایت مفید عمل ہے۔ اس عمل سے رگوں میں خون کے لوتھڑے بننے (انجماد) کو روکنے اور جسم میں خون کے بہتر بہاؤ میں مدد ملتی ہے۔ باقاعدگی سے خون دینے والے ڈونرز موٹاپے کا شکار نہیں ہوتے کیونکہ خون دینے کا عمل جسم کی چربی کو کم اور وزن کنٹرول کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ خون عطیہ کرنے کے بعد نئے خون کے بننے سے چہرے پر نکھار پیدا ہوتا ہے اور یہ چہرے پر بڑھاپے کے اثرات کو زائل کرتا ہے۔
دنیا کے دیگر ممالک میں خون کا عطیہ دینے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن افسوس کہ ہمارے ملک میں صرف 1 سے 2 فیصد ایسے افراد ہیں جو رضاکارانہ طور پر خون کا عطیہ باقاعدگی سے دیتے ہیں جبکہ دیگر افراد حادثات یا دیگر سنگین صورتوں میں خون عطیہ کرتے ہیں۔ حالانکہ ہر وہ شخص جس کی عمر 17 سے 50 سال اور وزن تقریباً 50 کلو سے زائد ہو، وہ خون کا عطیہ دے سکتا ہے۔
اس کے علاوہ عطیہ شدہ خون کی جدید مشینوں پر 7 طرح کی ٹیسٹنگ بھی کی جاتی ہے جن میں ہیپاٹائٹس بی اور سی، ایڈز، ملیریا اور آتشک کے ٹیسٹ شامل ہیں؛ اور اس کی مکمل رپورٹ مع ہیموگلوبن اور بلڈ گروپ کے مہیا کی جاتی ہے جس کی وجہ سے ڈونر اپنی کسی بھی پوشیدہ بیماری کے لاعلاج ہوجانے سے پہلے ہی آگاہ ہو جاتا ہے۔ اگر عام حالات میں یہ ٹیسٹ کسی معیاری لیبارٹری سے کروائے جائیں تو ان کا معاوضہ ہزاروں روپے ہوتا ہے، جبکہ خون عطیہ کرتے وقت یہ ٹیسٹ بلامعاوضہ ہوجاتے ہیں۔
گزشتہ دنوں انڈس اسپتال اور حکومت پنجاب کے اشتراک سے ملتان میں قائم جدید ترین کمپیوٹرائزڈ ریجنل بلڈ سینٹر جانے کا موقعہ ملا اور یہاں کے صاف ستھرے ماحول، بلامعاوضہ خدمات اور ٹیم کی محنت اور صلاحیت کو دیکھ کر دلی طور پر بہت خوشی ہوئی۔
یہاں یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ کس قدر باریک بینی سے بلڈ ڈونر کی میڈیکل ہسٹری، وزن اور طبی جانچ، اور جدید ترین مشینوں پر تمام ضروری ٹیسٹوں کے بعد خون کے عطیات ڈونرز سے مریضوں کو منتقل کیے جاتے ہیں۔ ریجنل بلڈ سینٹر ملتان کے ساتھ قائم وسیع و عریض کمپیوٹرائزڈ کڈنی سنٹر بھی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت قائم ہے جہاں پوری عزت نفس کے ساتھ مریضوں کا علاج معالجہ، ہر قسم کے ٹیسٹ مکمل بلامعاوضہ ہوتے ہیں۔ ڈائیلیسس ایک مہنگا علاج ہے، متوسط طبقہ بھی اس کا خرچ برداشت نہیں کرسکتا جبکہ یہاں وہ بالکل مفت ہے۔
ایسے دور میں جب سرکاری اسپتالوں میں علاج کی سہولیات اور معیار انتہائی کم اور اخراجات روز افزوں ہیں۔ کسی ایسے اسپتال کا تصور کہ جس میں داخلے کے بعد مریض اور اس کے لواحقین سے ایک پیسہ بھی نہ لیا جاتا ہو، اگر ناممکن ہے تو انڈس اسپتال بنانے اور چلانے والوں نے اسے ممکن کر دکھایا ہے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت، خدمت خلق کے جذبے سے سرشار، بغیر نفع کام کرنے والے اس ادارے کی کارکردگی شاندار ہے، جس پر یہ ادارہ خراج تحسین کا مستحق ہے۔
خدمت خلق کی ایسی روشن اور حوصلہ افزا مثال وطن عزیز میں کم کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے فارمولے کے تحت حکومت خدمات کی فراہمی کے بجائے نگرانی اور رہنمائی کے فرائض پر فوکس رکھتی ہے، یہی وجہ سے کہ یہاں بہترین نتائج کےلیے انتظامات میں سیاسی مداخلت کو قطعاً برداشت نہیں کیا جاتا۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ غریب و ترقی پذیر ممالک میں نجی شعبے کی ریگولیشن ایک اہم مسئلہ رہا ہے۔ لیکن جن ممالک نے نجی شعبے کی ریگولیشن پر سختی سے عمل کیا ہے، وہ ممالک ترقی پذیر سے ترقی یافتہ بننے کی منازل تیزی سے طے کرتے جا رہے ہیں۔
پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے طریقہ کار سے انڈیا، جنوبی افریقا اور سینیگال جیسے ممالک اپنے ملک میں صحت عامہ کی صورتحال کو مستحکم کرچکے ہیں جبکہ مسلم معاشرے نے بہت سے ایسے ادارے بنائے جو ہر طرح کی سیاسی وابستگی یا مالی مفادات سے بالاتر خدمت انسانیت کا جذبہ رکھتے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک ''انڈس ہیلتھ کیئر'' حکومت پاکستان، انتظامیہ اور مخیر حضرات کے ساتھ مل کر تمام شعبوں میں مثالی خدمات انجام دے رہا ہے جس کا صلہ صرف دعائیں ہے۔
یہاں واضح رہے کہ عام بلڈ بینکوں میں معیاری اسکریننگ نہ ہونے کی وجہ سے بچے ہیپاٹائٹس کے مرض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ خون کی منتقلی سے قبل اسکریننگ انتہائی ضروری ہے تاکہ خون کے ذریعے منتقل ہونے والی بیماریوں کو روکا جاسکے اور ضرورت مند کو معیاری اور صاف خون فراہم ہوسکے۔ ماہرین صحت کے مطابق ہمارے معاشرے میں ہیموفیلیا کے مریضوں کی تعداد بہت بڑھ رہی ہے، مریضوں میں ہیموفیلیا اے اور بی کثرت سے پایا جاتا ہے۔ خون کا عطیہ کرنے والے میں اگر ہیموفیلیا اے اور بی جیسا کوئی وائرس نکل آئے تو اس سے مریض متاثر ہوسکتا ہے۔ ریجنل بلڈ سینٹر کے ڈاکٹرز جدید ترین مشینوں پر تمام وائرسوں کی مکمل اسکریننگ یقینی بناتے ہیں، جس کے بعد کسی وائرس کی منتقلی کا شبہ تک نہیں رہتا۔ اس ادارے کے منتظمین خون کے معیاری عطیات کے حصول کےلیے یونیورسٹیز، کالجز اور دیگر تعلیمی اداروں اور کاروباری مراکز میں بلڈ کیمپ لگاتے ہیں اور لوگوں کو خون کے عطیات کی اہمیت سے آگاہی فراہم کرتے ہیں جبکہ ڈونر کے کسی بیماری میں مبتلا ہونے کی صورت میں اسے مرض کی رپورٹ اور ڈاکٹرز اس مرض کے علاج کے بارے میں مکمل معلومات بھی فراہم کرتے ہیں۔
ماہرین صحت کے مطابق ہمارے جسم میں خون کی زندگی محض 120 دن ہوتی ہے۔ تو کیوں نہ ہم وہ خون ضائع ہونے سے بچائیں، اپنے اندر خدمت خلق کا جذبہ بیدار کریں، خون کا عطیہ دیں اور کسی کی زندگی بچائیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔