انڈے کٹے کسان اور کمیونٹی ڈیویلپمنٹ میں اپنا اپنا حصہ
جب قوم کے فاعلین کو اپنے حصے کی ذمہ داری کا شعور مل جائے اور وہ اسے نباہنے کی ٹھان لیں تو تبدیلی آکر رہتی ہے
یہ محض تھیوری نہیں بلکہ تجربہ شدہ حقیقت ہے کہ جب کسی قوم کے فاعلین کو اپنے اپنے حصے کی ذمہ داری کا شعور مل جاتا ہے اور وہ اسے نباہنے کی ٹھان لیتے ہیں تو تبدیلی آ کر ہی رہتی ہے۔ اگر کسان کو شعور کی دولت نصیب ہوجائے تو ملک میں زرعی انقلاب آجاتا ہے، استاد کو شعور مل جاتا ہے تو ملک میں تعلیمی انقلاب کا سویرا طلوع ہو جاتا ہے اور اگر صنعت کار شعور کی دولت سے مالامال ہوجاتا ہے تو ملک میں صنعتی انقلاب بپا ہوجاتا ہے۔ ہم بخوبی آگاہ ہیں کہ اٹھارویں صدی دنیا میں انقلابات کی صدی ہے۔ تجارتی انقلاب، زرعی انقلاب، صنعتی انقلاب تو کہیں حکومتی انقلاب۔ انقلابات کی اس صدی سے صرف ایک مثال آپ کے سامنے رکھوں گا کہ برطانیہ میں زرعی انقلاب کیسے آیا۔
آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ محض چار پانچ کسان برطانیہ میں زرعی انقلاب کی بنیاد بنے جن میں ٹاؤنشینڈ، جتھروٹل، رابرٹ بیکویل اور آرتھر ینگ شامل ہیں۔ جب انہیں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا شعور ملا تو اپنا اپنا حصہ شامل کرنے کے جذبے سے سرشار ہوکر اپنے کام میں جُت گئے اور جب سر اٹھا کر دیکھا تو برطانیہ زرعی انقلاب سے آشنا ہوچکا تھا۔
لارڈ ٹاؤنشینڈ نے ہالینڈ سے دو قیمتی فصلوں کے بیج منگوائے اور ان پر تجربات شروع کردیئے، ان بیجوں کی مدد سے وسیع پیمانے پر پیداوار حاصل کی جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ وہ اس فصل کو بطور غذا، جاڑے کے دنوں میں مویشیوں کو دیتا رہا، جب تک کہ موسم بہار نہیں آگیا۔ اس طرح مویشیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو ذبح ہو نے سے بچالیا، یعنی کٹوں کو ذبح ہونے سے بچالیا۔ (اس سے قبل ہوتا یوں تھا کہ سردیوں میں چارے کی شدید قلت کے باعث کم و بیش ایک تہائی جانوروں کو ذبح کردیا جاتا تھا۔) ساتھ ہی ساتھ اس کے تجربات سے زمین کو نائٹروجنی کھاد بھی وافر مقدار میں میسر آئی اور زمین کی پیداواری صلاحیت کئی گنا بڑھ گئی۔ یعنی اس کے تجربات کے نتیجے میں تین طرح کے فوائد حاصل ہوئے: ایک پیداوار میں زبردست اضافہ ہوا، دوسرے مویشیوں کی خاطر خواہ تعداد بچا لی گئی اور تیسرے زمین کو وافر مقدار میں کھاد میسر آگئی۔
جتھروٹل نے فرانسیسی باغبانی اور تاکستانوں کے مشقت خیز طریقوں کا مطالعہ کیا اور ان طریقوں کو اپنے بے انتہا بڑے کھیتوں میں استعمال کرکے پھلوں اور غلے کی کئی گنا زیادہ پیداوار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
رابر ٹ بیکویل نے مویشیوں کی پرورش کے سائنٹفک اصولوں کا مطالعہ کیا اور تجربات شروع کیے جس کے نتیجے میں مویشی بڑے، وزنی اور لذیذ گو شت مہیا کرنے کے قابل ہوگئے اور ان کی افزائشِ نسل میں خاطر خواہ اضافہ ہوگیا، جس کے نتیجے میں چمڑے اور اون کی صنعت نے فروغ پایا اور آہستہ آہستہ اس کے وضع کردہ طریقے ہر جگہ رائج ہوگئے اور معیشت کا پہیہ تیز تر ہوگیا۔
آرتھر ینگ زرعی تجربات کے ساتھ ساتھ طریقہ زراعت کا بہت بڑا ناشر بھی بن گیا۔ اس نے برطانیہ اور گرد و نواح میں منظم سفر کیے جن کے نتیجے میں پانچ سال میں زرعی معمولات اور ان کے اقتصادی وسائل کے متعلق درجن بھر کتابیں شائع کر ڈالیں۔ نتیجتاً ان زرعی معمولات کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہوگئی حتیٰ کہ جارج واشنگٹن، لافے ییٹ اور ملکہ کیتھرائن تک نے ان سے خط کتابت کی۔ جارج سوم شاہ انگلستان اور نپولین نے بھی اس کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔
اس طرح یہ جدوجہد ایک زرعی انقلاب کی شکل اختیار کرگئی جس نے برطانیہ کے علاوہ یورپ کے دیگر ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور پھر یہی زرعی انقلاب یورپ میں صنعتی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔
بلاشبہ آج ہماری قوم کو بھی اسی شعور کی ضرورت ہے۔ اپنے حصے کا کام، اپنے حصے کی ذمہ داری اور اپنے حصے کا شعور بانٹنے کا درد۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بے شمار لوگ اور چھوٹے بڑے ادارے ملکی ترقی کے عمل میں اپنے اپنے حصے کا کام کر بھی رہے ہیں خواہ اس کی نوعیت ''پیشہ وارانہ تعمیر و ترقی'' کا عمل ہو یا ''کمیونٹی ڈیویلپمنٹ اور ویلفیئر ورک'' ہو مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کاموں کی مناسب حوصلہ افزائی کی جائے اور اس بکھری ہوئی جدوجہد کو مزید منظم کیا جائے۔
''فرینڈز آف مارگلہ ہلز'' سوشل اینڈ کمیونٹی ورک کی ایک قابل ذکر مثال ہے جس نے ''مارگلہ ہلز ٹریلز اسلام آباد'' پرصفائی اور شجرکاری مہم کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ مہم ایک مکمل ادارے کی بنیاد بن گئی۔ یہ نہ صرف راولپنڈی اسلام آباد میں صفائی کا شعور بیدار کر رہے ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ ماحولیاتی آلودگی کے خلاف نبرد آزما ہیں اور بڑے پیمانے پر شجرکاری مہم بھی چلا رہے ہیں۔ انہوں نے درخت لگانے کے ساتھ ساتھ ''سیڈ بالز'' کا تصور پاکستان میں متعارف کرایا اور کم و بیش ایک لاکھ سیڈ بالز ''تھرو اینڈ گرو'' مہم کی صورت میں شجرکاری مہم کا حصہ بناچکے ہیں۔
اسی طرح ''سول سوسائٹی پاکستان'' ماحولیاتی آلودگی اور ''صفائی نصف ایمان ہے'' کا شعور بیدار کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ مجھے ان دونوں گروپس کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور ہر لمحہ ان کے جذبوں کو سلام پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کرنے، قومی تعمیر وترقی کےلیے اپنے آپ کو وقف کرنے اور اپنے حصے کا شعور بانٹنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ محض چار پانچ کسان برطانیہ میں زرعی انقلاب کی بنیاد بنے جن میں ٹاؤنشینڈ، جتھروٹل، رابرٹ بیکویل اور آرتھر ینگ شامل ہیں۔ جب انہیں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا شعور ملا تو اپنا اپنا حصہ شامل کرنے کے جذبے سے سرشار ہوکر اپنے کام میں جُت گئے اور جب سر اٹھا کر دیکھا تو برطانیہ زرعی انقلاب سے آشنا ہوچکا تھا۔
لارڈ ٹاؤنشینڈ نے ہالینڈ سے دو قیمتی فصلوں کے بیج منگوائے اور ان پر تجربات شروع کردیئے، ان بیجوں کی مدد سے وسیع پیمانے پر پیداوار حاصل کی جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ وہ اس فصل کو بطور غذا، جاڑے کے دنوں میں مویشیوں کو دیتا رہا، جب تک کہ موسم بہار نہیں آگیا۔ اس طرح مویشیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو ذبح ہو نے سے بچالیا، یعنی کٹوں کو ذبح ہونے سے بچالیا۔ (اس سے قبل ہوتا یوں تھا کہ سردیوں میں چارے کی شدید قلت کے باعث کم و بیش ایک تہائی جانوروں کو ذبح کردیا جاتا تھا۔) ساتھ ہی ساتھ اس کے تجربات سے زمین کو نائٹروجنی کھاد بھی وافر مقدار میں میسر آئی اور زمین کی پیداواری صلاحیت کئی گنا بڑھ گئی۔ یعنی اس کے تجربات کے نتیجے میں تین طرح کے فوائد حاصل ہوئے: ایک پیداوار میں زبردست اضافہ ہوا، دوسرے مویشیوں کی خاطر خواہ تعداد بچا لی گئی اور تیسرے زمین کو وافر مقدار میں کھاد میسر آگئی۔
جتھروٹل نے فرانسیسی باغبانی اور تاکستانوں کے مشقت خیز طریقوں کا مطالعہ کیا اور ان طریقوں کو اپنے بے انتہا بڑے کھیتوں میں استعمال کرکے پھلوں اور غلے کی کئی گنا زیادہ پیداوار حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔
رابر ٹ بیکویل نے مویشیوں کی پرورش کے سائنٹفک اصولوں کا مطالعہ کیا اور تجربات شروع کیے جس کے نتیجے میں مویشی بڑے، وزنی اور لذیذ گو شت مہیا کرنے کے قابل ہوگئے اور ان کی افزائشِ نسل میں خاطر خواہ اضافہ ہوگیا، جس کے نتیجے میں چمڑے اور اون کی صنعت نے فروغ پایا اور آہستہ آہستہ اس کے وضع کردہ طریقے ہر جگہ رائج ہوگئے اور معیشت کا پہیہ تیز تر ہوگیا۔
آرتھر ینگ زرعی تجربات کے ساتھ ساتھ طریقہ زراعت کا بہت بڑا ناشر بھی بن گیا۔ اس نے برطانیہ اور گرد و نواح میں منظم سفر کیے جن کے نتیجے میں پانچ سال میں زرعی معمولات اور ان کے اقتصادی وسائل کے متعلق درجن بھر کتابیں شائع کر ڈالیں۔ نتیجتاً ان زرعی معمولات کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہوگئی حتیٰ کہ جارج واشنگٹن، لافے ییٹ اور ملکہ کیتھرائن تک نے ان سے خط کتابت کی۔ جارج سوم شاہ انگلستان اور نپولین نے بھی اس کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔
اس طرح یہ جدوجہد ایک زرعی انقلاب کی شکل اختیار کرگئی جس نے برطانیہ کے علاوہ یورپ کے دیگر ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور پھر یہی زرعی انقلاب یورپ میں صنعتی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔
بلاشبہ آج ہماری قوم کو بھی اسی شعور کی ضرورت ہے۔ اپنے حصے کا کام، اپنے حصے کی ذمہ داری اور اپنے حصے کا شعور بانٹنے کا درد۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بے شمار لوگ اور چھوٹے بڑے ادارے ملکی ترقی کے عمل میں اپنے اپنے حصے کا کام کر بھی رہے ہیں خواہ اس کی نوعیت ''پیشہ وارانہ تعمیر و ترقی'' کا عمل ہو یا ''کمیونٹی ڈیویلپمنٹ اور ویلفیئر ورک'' ہو مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کاموں کی مناسب حوصلہ افزائی کی جائے اور اس بکھری ہوئی جدوجہد کو مزید منظم کیا جائے۔
''فرینڈز آف مارگلہ ہلز'' سوشل اینڈ کمیونٹی ورک کی ایک قابل ذکر مثال ہے جس نے ''مارگلہ ہلز ٹریلز اسلام آباد'' پرصفائی اور شجرکاری مہم کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ مہم ایک مکمل ادارے کی بنیاد بن گئی۔ یہ نہ صرف راولپنڈی اسلام آباد میں صفائی کا شعور بیدار کر رہے ہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ ماحولیاتی آلودگی کے خلاف نبرد آزما ہیں اور بڑے پیمانے پر شجرکاری مہم بھی چلا رہے ہیں۔ انہوں نے درخت لگانے کے ساتھ ساتھ ''سیڈ بالز'' کا تصور پاکستان میں متعارف کرایا اور کم و بیش ایک لاکھ سیڈ بالز ''تھرو اینڈ گرو'' مہم کی صورت میں شجرکاری مہم کا حصہ بناچکے ہیں۔
اسی طرح ''سول سوسائٹی پاکستان'' ماحولیاتی آلودگی اور ''صفائی نصف ایمان ہے'' کا شعور بیدار کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ مجھے ان دونوں گروپس کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور ہر لمحہ ان کے جذبوں کو سلام پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے حصے کی ذمہ داری پوری کرنے، قومی تعمیر وترقی کےلیے اپنے آپ کو وقف کرنے اور اپنے حصے کا شعور بانٹنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔