شام 37 ہلاک عیسائی اکثریت کے 3 علاقوں پر سرکاری فوج کا قبضہ

لبنان کے شہرطرابلس میں اپوزیشن اورصدربشارکے حامیوںمیں دوبارہ جھڑپیں شروع


AFP August 24, 2012
لبنان کے شہرطرابلس میں اپوزیشن اورصدربشارکے حامیوںمیں دوبارہ جھڑپیں شروع ،علاقے میں صورتحال معمول پرلانے کیلیے ٹینک تعینات۔ فوٹو: اے ایف پی

شام کے شمالی شہر حلب اور دارالحکومت دمشق میں حکومتی افواج اور باغیوں میں جمعرات کوبھی لڑائی جاری رہی۔سرکاری فوج نے حلب میں عیسائی اکثریت کے تین علاقوں پرقبضہ کرلیاہے۔دارالحکومت دمشق میں ہونیوالی لڑائی میں کم سے کم37 افرادہلاک ہو گئے۔حزبِ اختلاف کے کارکنوں کے مطابق صدر بشارالاسد کی حکومت کیخلاف گزشتہ برس شروع ہونے والی تحریک کے دوران اب تک 24,495 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

ادھرلبنان کے دوسرے بڑے شہر طرابلس میں جنگ بندی کے ایک دن بعد ہی شامی اپوزیشن کے حامی سنیوں اورصدربشارالاسدکے حامی علوی فرقے کے درمیان دوبارہ پرتشدد جھڑپیں شروع ہو گئی ہیں،ان میں اب تک 12افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ علاقے میں صورتحال معمول پر لانے کیلیے ٹینک تعینات کر دیے گئے ہیں۔اقوام متحدہ کے سیاسی امور کے سربراہ جیفری فلٹمین نے صورتحال کو'نازک' قرار دیا ہے۔دوسری جانب لبنان کے صدر مائیکل سلیمان نے غیر متوقع طور پر ایک سخت بیان میں کہا ہے کہ لبنان ہمیشہ شام کے سائے میں نہیں رہ سکتا ہے۔

ادھر انقرہ میں ترک اورامریکی حکام کے درمیان صدر بشارالاسدکے اقتدارکوختم کرنے کے سلسلہ میں پہلی آپریشنل میٹنگ ہوئی ہے جس میںفوجی ،انٹیلی جنس اورسیاسی معاملات کو مربوط بنانے پرتبادلہ خیالات کیاگیا۔ برطانیہ اور امریکا نے شام کی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ اس کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی صورت میں دونوں ممالک شام کے مسئلے پر اپنے لائحہ عمل پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

برطانیہ کی جانب سے یہ تنبیہہ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اور امریکی صدر اوباما کے درمیان فون پر ہونے والی بات چیت کے بعد سامنے آئی۔دریں اثنا برطانوی وزیرِ اعظم نے فرانس کے صدر فرانسوا اولاند سے بھی فون پر شام کے مسئلے پر بات کی۔تینوں ممالک نے شام کی حزب مخالف جماعتوں کے ساتھ مزید تعاون بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔اس سے پہلے چین کے سرکاری میڈیا نے الزام عائد کیا تھا کہ امریکی صدر اوباما شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے بہانے شام میں فوجی مداخلت کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں