سرحدوں پر طبل جنگ۔ ملک میں اتفاق رائے کی ضرورت

بھارت نے چین پر دبائو بڑھانا شروع کر دیا ہے تاہم چین کے تازہ سرکاری بیان میں اس نے بھارت کے دبائو کو مسترد کر دیا ہے۔

msuherwardy@gmail.com

پاکستان کی سرحدوں سے پار بھارت میں اس وقت جنگ کا طبل سنائی دے رہا ہے۔بھارت پر جنگی جنون سوار ہو گیا ہے۔ ہر روز سرحد پار سے ایسے اقدامات کی آوازیں آرہی ہیں جو بھارت کے جنگی جنون اور پاگل پن کو ظاہر کر رہی ہیں۔ دنیا تماشا دیکھ رہی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں قومی یکجہتی کی کمی نظر آ رہی ہے ۔

بھارت میں انتخابات کا شور ہے۔ وہاں انتخابی طبل جنگ بھی بج چکا ہے۔ لیکن پھر بھی اس موقع پر وہاں کی سیاسی جماعتیں اکٹھی بیٹھی ہیں۔ بھارتی حکومت نے تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینے کے لیے ایک آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی ہے۔ اس کا مشترکہ اعلامیہ بھی جاری ہوا ہے۔ گو اس میں براہ راست پاکستان کا نام نہیں لیکن ہمسایہ ملک لکھا گیا ہے۔ لیکن اس کے مقابلے میں پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔

یہاں ایک دوسرے کو گالیاں نکالنے کے سوا کسی کو کوئی کام ہی نہیں ہے۔ سرحدوں پر جنگ کے بادل چھا رہے ہیں اور ہم آپس میں لڑنے مرنے میں مصروف ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں سرحدوں پر کشیدگی کے حوالے سے فوری طور پر ایک آل پارٹیز کانفرنس منعقد کی جائے جس میں عسکری قیادت ساری صورتحال کے حوالے سے ملک کی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لے۔ اس کی روایت پہلے موجود ہے۔ پہلے بھی اہم مواقعے پر ایسی آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوتی رہی ہیں۔ اور ان کے نتیجے میں اتفاق رائے پیدا ہوا ہے۔

نیشنل ایکشن پلان بھی ایسی ہی ایک کانفرنس کے نتیجے میں بنا تھا۔ نیشنل سیکیورٹی کونسل کا اجلاس بھی فوری طور پر بلانے کی ضرورت ہے۔ اور اس میں قائد حزب اختلاف کو بھی بلایا جائے تا کہ اپوزیشن کی نمایندگی ہو سکے۔ ایسے نازک مواقع پر اپوزیشن کے بغیر بڑے فیصلے ملک کے مفاد میں نہیں ہیں۔ موجودہ حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ اس کا کام صرف گالم گلوچ کی سیاست کرنا نہیں ہے بلکہ اس کا کام ملک میں اتفاق رائے پیدا کرنا بھی ہے۔

بھارت نے پاکستان پر سفارتی محاذ پر جنگ کا اعلان کیا ہے۔ بھارت پاکستان کے دوستوں پر دبائو ڈال رہا ہے کہ وہ ہم سے دور ہو جائیں۔ بھارت پاکستان کو سفارتی محاذ پر تنہا کرنے کی سازش کر رہا ہے۔ ایسے میں ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمیں چین کی بہت ضرورت ہوگی۔ بھارت نے چین پر دبائو بڑھانا شروع کر دیا ہے تاہم چین کے تازہ سرکاری بیان میں اس نے بھارت کے دبائو کو مسترد کر دیا ہے ۔


خبریں یہ بھی ہیں کہ امریکا بھی پاکستان پر دبائو بڑھا رہا ہے ۔خیر سے ہم سعودی ولی عہد کے ساتھ مصروف تھے اور دوسری طرف بھارت نے سفارتی محاذ پر جنگ تیز کر دی تھی۔ بھارت کے محکمہ خارجہ نے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے ممبر ارکان کے سفیروں کو بریفنگ دی ہے۔ وہ عالمی سطح پر سب سے بات کر رہا ہے۔ عالمی سطح پر وفود بھیج رہا ہے۔ لیکن ہم متحرک نہیں ہیں۔ اس خاموشی نے پہلے بھی ہمیں نقصان میں رکھا اور خطرہ ہے کہ کہیں اب بھی نقصان نہ ہو جائے۔ بھارت کے وزیر اعظم مودی روز پاکستان کے خلاف بول رہے ہیں۔ اس کا سفارتی سطح پر موثر جواب دینے کی ضرورت ہے۔ شائد اب مفاہمانہ رویہ کی کوئی ضرورت نہیں۔

پاکستان کو سفارتی محاذ پر بھارت کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے جارحانہ حکمت عملی بنانی ہو گی۔ دنیا کے سامنے سچ لانا ہو گا۔ عالمی طاقتوں سے بات کرنی ہو گی۔ اسلام آباد میں موجود تمام ممالک کے سفیروں کی کانفرنس منعقد کرنی چاہیے۔ دوست ممالک کو ساتھ ملانا ہو گا۔ بھارت کے پراپیگنڈہ کا جواب دینا ہو گا۔ سستی سمجھ سے بالاترہے۔ امریکا کو طالبان سے مذاکرات کے لیے پاکستان کی ضرورت ہے لیکن چند دن سے امریکی بیانات میں بھارتی اثر نظر آ رہا ہے۔

پاکستان کے تین ہمسائے اس وقت پاکستان سے ناراض ہیں۔ ایران ناراض ہے۔ افغانستان ناراض ہے۔ بھارت ناراض ہے۔ بھارت کی ناراضی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ایران سے ناراضی ملکی مفاد میں نہیں ہے۔ ایران کے ساتھ موثر سفارتکاری کی ضرورت ہے۔

افغان حکومت پہلے بھی پاکستان سے ناراض ہی رہی ہے۔ لیکن درمیان میں برف پگھلی تھی۔ تا ہم اب دوبارہ حالات کشیدہ ہو گئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ پاکستان امریکا اور طالبان کے درمیان مفاہمت میں کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کردار کو عالمی سطح پر سراہا جا رہا ہے لیکن ہم نے پہلے بھی خود کو طالبان تک محدود کر لیا تھا جس کی وجہ سے ہم افغانستان میں سیاسی طور پر تنہا ہو گئے تھے۔ ہم آج دوبارہ خود کو محدود کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم جو بھی کر رہے ہیں اس میں افغانستان کے باقی سیاسی دھڑے بھی ہمارے ساتھ شریک ہوں۔ صرف طالبان کے سر پر ہاتھ رکھ کر گیم کھیلنے کے پہلے بھی نقصان ہوئے تھے۔ اب بھی نقصان کا خدشہ ہے۔

یہ درست ہے کہ اس حکومت کو زندہ رہنے کے لیے عالمی سطح پر امداد مل گئی ہے۔ یہ امداد ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں ملتی رہی ہے۔ ہر حکومت یہ حاصل کرتی رہی ہے۔ اس لیے اس کو کوئی بہت بڑی کامیابی نہیں کہا جا سکتا۔ تا ہم سرحدوں پر جنگ کے بادل ایک مختلف صورتحال ہے۔ سیاسی دانشوروں کا پہلے ہی خیال تھا کہ کرتار پور کی ٹائمنگ ٹھیک نہیں تھی اس کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو گا۔ وقت ثابت کر رہا ہے کہ بھارت سے تعلقات بہتر ہونے کے بجائے خراب ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان برف پگھلنے کے بجائے ماحول کشیدہ ہو گیا ہے۔

بھارت کو غصہ ہے کہ افغانستان میں اس قدر سرمایہ کاری کے بعد اسے افغان عمل سے مکھن سے بال کی طرح نکال کر باہر پھینک دیا گیا ہے۔ نہ امریکا اس کو شریک کرنے کو تیار ہے اور نہ ہی ماسکو بھارت کو شریک کرنے کو تیار ہے۔ بھارت نے افغانستان کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے بہت بڑی سرمایہ کاری کی ہے ۔ یہ سارا سرمایہ ڈوب رہا ہے۔ اس لیے بھارت کے ساتھ سنبھل کر ڈیل کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ بہانہ کی تلاش میں ہے۔ کلبھوشن کے کیس نے بھی بھارت کو پریشان کیا ہوا ہے۔ اس لیے ملک میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ گالم گلوچ بند کرنے کی ضرورت ہے۔ اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن کون سمجھائے۔
Load Next Story