اس وقت سر ہلانا ہی عقل مندی ہے
ایسے موقع پر کون سا میزبان اپنے مہمان کو یاد دلا سکتا ہے کہ بھائی جان آپ تو کچھ دیر میں گھر روانہ ہو جائیں گے۔
جب تک یہ کالم آپ کی نگاہ میں آئے گا۔تنبو قناتیں بینڈ باجہ لپٹ چکے ہوں گے اور انتظار ہو گا کہ کب اکیس ارب ڈالر مالیت کی سرمایہ کارانہ مفاہمتی یادداشتیں (میمورنڈم آف انڈر اسٹینڈنگ۔ایم او یو)باقاعدہ معاہدے کا عملی جامہ پہنتی ہیں۔
یہ وضاحت یوں ضروری ہے کہ ایم او یو منگنی کی طرح ہوتا ہے۔جب ایم او یو باقاعدہ معاہدے کی شکل اختیار کر لے، تب اسے اقتصادی، سماجی یا سیاسی نکاح کہا جا سکتا ہے۔مثلاً نوے کی دہائی میں بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت نے بجلی کی قلت پر قابو پانے کے لیے نجی بین الاقوامی توانائی کمپنیوں (آئی پی پیز)سے لگ بھگ تیس ارب ڈالر کے ایم او یوز پر دستخط کیے مگر ان میں سے صرف تین ارب ڈالر کے ایم او یوز ہی عملی سرمایہ کاری کی شکل اختیار کر سکے۔ان میں ہانک کانگ کے سرمایہ کار گورڈن وو بھی شامل تھے جنہوں نے تھر کے کوئلہ ذخائر سے بجلی پیدا کرنے کے لیے دس ارب ڈالر کے ایم او یو پر دستخط کیے۔مگر بجلی کی قیمت پر اختلاف کے سبب وہ پیچھے ہٹ گئے۔
یعنی منگنی کی طرح ایم او یوز کو بھی توڑا جا سکتا ہے مگر جب کوئی ایم او یو معاہدے کی شکل اختیار کرتا ہے تو پھر اسے توڑنے کے بدلے نکاح کے بعد طلاق کی طرح کسی ایک فریق کو ہرجانہ بھرنا پڑتا ہے۔جیسے سی پیک کے سمجھوتے ایم او یوز کی حد سے نکل کر معاہدات کی حدود میں داخل ہو چکے ہیں اور ان سے کوئی ایک فریق یونہی کوئی ٹھوس وجہ بتائے بغیر دستبردار نہیں ہو سکتا۔مگر سعودی عرب کے ساتھ جن آٹھ ایم او یوز پر دستخط ہوئے ہیں ان سے کوئی بھی فریق پکا نکاح ہونے سے پہلے نکل سکتا ہے یا نظرِ ثانی و شرائط میں ردو بدل کر سکتا ہے۔
مگر یہ شرائط کیا ہیں ؟ فی الحال نہ کوئی یہ سوال اٹھانا چاہتا ہے نہ کوئی جواب دے گا۔بلوچستان اسمبلی نے پہلے یہ قرار داد منظور کی کہ بھائی سی پیک کی کیا شرائط طے ہوئی ہیں کم ازکم اس صوبے کو تو بتا دو جہاں سے یہ منصوبہ شروع ہو رہا ہے۔اسی بلوچستان اسمبلی نے دو روز پہلے یہ قرار داد بھی منظور کی کہ بھائی گوادر میں سعودی سرمایہ کاری کن شرائط پر طے ہونا پائی ہے اور اس میں بلوچستان کی حیثیت و مقام کیا ہے؟ امید ہے کہ اس کا جواب بھی نظراندازانہ خاموشی کی صورت ہی میں ملے گا۔ویسے بھی جب پارلیمنٹ کو ایسی چھان پھٹک سے دلچسپی نہیں تو کسی صوبائی اسمبلی کی کیا حیثیت ہے۔بار بار ایسے سوالات پوچھنے کی صورت میں سوال پوچھنے والے کی قومی نیت پر شک ہونے لگتا ہے۔
یہ محض حسنِ اتفاق ہے کہ سعودی ولی عہد کے دورے سے چار دن قبل پاک ایران سرحد سے متصل ایرانی صوبے سیستان میں خاش زاہدان روڈ پر پاسداران کی بس پر خود کش حملے میں ستائیس محافظ مارے اور تیرہ زخمی ہو گئے۔اس حملے کی ذمے داری ایک مقامی گروہ جیش العدل نے قبول کی۔ جیش کو ایرانی سیستان میں متحرک سابق جند اللہ کا نیا روپ تصور کیا جاتاہے۔جنداللہ کے بارے میں ایرانی اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ اسے سی آئی اے، موساد اور سعودی خفیہ کی حمایت حاصل ہے اور یہ ایران پر حملوں کے لیے بلوچستان کی سرزمین استعمال کرتی ہے۔لیکن جب دو ہزار دس میں پاکستان کی مدد سے جنداللہ کا سربراہ عبدالمالک ریگی پکڑا گیا اور اسے ایرانیوں نے سزائے موت دے دی تو کچھ عرصے تک ایران اور پاکستان کے درمیان سرحدی امور کے انتظامات کے تعلق سے شکوک و شبہات کم ہو گئے۔
مگر دو برس بعد جنداللہ کے تتر بتر عناصر پھر یکجا ہو کر جیشِ العدل کے نام سے متحرک ہو گئے۔اس کے بعد ایرانی سرحدی محافظوں کو اغوا کرنے کی کئی وارداتیں ہوئیں۔ پاکستانی حکام نے ان محافظوں کی بازیابی میں تعاون بھی کیا۔
چاہ بہار بندرگاہ منصوبے میں ایران بھارت تعاون، گوادر میں سی پیک اقتصادی سرگرمیاں ، جیش العدل کی سرگرمیاں ، بلوچستان اور ایرانی سرحدی علاقوں میں متعدد خفیہ ایجنسیوں کی دلچسپیاں ، کلبھوشن کا پکڑا جانا ، امریکا ، خلیجی اتحادیوں اور اسرائیل کی جانب سے ایران کو گھیرنے کی کوششیں ، افغانستان سے امریکی انخلا اور ایران کے خلاف ممکنہ محاذ میں پاکستان کو شامل کرنے کے لیے بھاری ترغیبات۔یہ سب کچھ علاقے میں ایک نئی دھما چوکڑی کی جانب اشارے کر رہا ہے۔ممکن ہے کہ یہ محض اتفاقی تانے بانے ہوں مگر آج کل کی دنیا میں حسنِ اتفاق کا تسلسل بھی ایک سائنس بن چکا ہے۔
پاکستان کے لیے یہ سب محض علمی اندازے یا ڈرائنگ روم تجزیے نہیں ہیں۔پاکستان پچھلی چار دہائیوں میں کئی علاقائی و طفیلی جنگیں بھگت چکا ہے۔وہ ایک ڈالر حاصل کرنے کے چکر میں اپنا دس ڈالر کا نقصان کروا چکا ہے۔ لہذا اس کہاوت پر دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ اگر میں ایک بار دھوکا کھاؤں تو دھوکا دینے والے پر تف اور بار بار ایک ہی دھوکا کھاؤں تو پھر مجھ پر تف۔
پچھلے چھ روز میں جو کچھ ہوا۔وہ ترتیب وار کچھ یوں ہے۔
چودہ فروری۔زاہدان کے نزدیک ستائیس ایرانی سرحدی محافظ خود کش حملے میں ہلاک۔
پندرہ فروری۔پاسداران کے سربراہ میجر جنرل محمد عملی جعفری نے الزام لگایا ہے کہ حملہ آور جیش العدل کے ٹھکانے پاکستان میں ہیں۔اگر پاکستان نے اپنی ذمے داریاں پوری نہ کیں تو ایران بین الاقوامی قانون کے تحت کارروائی کرے گا۔تہران میں پاکستانی سفیر رفعت مسعود کو دفترِ خارجہ طلب کر کے احتجاج کیا گیا۔اسلام آباد میں ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست نے جی ایچ کیو میں پاکستانی فوجی قیادت سے ملاقات کی۔ایرانی پارلیمنٹ کی امورِ خارجہ کمیٹی کے سربراہ نجفی خسروی نے کہا کہ اگرچہ د ہشتگرد پاکستانی سرزمین استعمال کر رہے ہیں مگر ایران کو پاکستان مشکلات کا بھی احساس ہے۔
ایرانی صدر حسن روحانی کے مشیر حسام الدین نے ٹویٹ کیا کہ جنھیں ایرانی سلامتی کی پروا نہیں انھیں اپنی سلامتی کی فکر کرنی چاہیے۔ایران کے اعلی ترین رہنما علی خامنہ ای نے پاسداران پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ علاقے سے باہر اور علاقے کی کچھ انٹیلی جینس ایجنسیوں کی کارستانی ہے۔
سولہ فروری۔بھارتی وزیرِ خارجہ شسما سوراج نے بلغاریہ جاتے ہوئے تہران میں مختصر قیام کیا۔اس کے بعد ایرانی نائب وزیرِ خارجہ سید عباس ارگیچی نے ٹویٹ کیا کہ پچھلے دنوں بھارت اور ایران دو بھیانک دہشت گرد حملوں کا نشانہ بنے ۔آج بھارتی وزیرِ خارجہ سشما سوراج سے ملاقات میں طے ہوا کہ علاقائی دہشتگردی سے نمٹنے کے لیے قریبی تعاون کیا جائے گا۔اب بہت ہوچکا۔
سترہ فروری۔ایک جانب پاکستان سعودی ولی عہد کی میزبانی میں مصروف رہا مگر ایرانی غصہ ٹھنڈا کرنے کی اپنی سی سفارتی کوششیں بھی جاری رکھیں۔ایک ایسے وقت جب اسلام آباد سے بھارتی سفیر دلی اور پاکستان سفیر دلی سے اسلام آباد واپس جا چکے ہیں اور افغان سرحدی حالات بھی حسبِ معمول غیر یقینی ہیں۔پاکستان اپنی تیسری سرحد پر اضافی ابال روکنا چاہے گا۔ چنانچہ وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاکستان کی پوزیشن سمجھانے کے لیے ایک وفد تہران روانہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
اٹھارہ فروری۔وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور سعودی وزیرِ خارجہ عادل الجبیر نے اسلام آباد میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔پاسداران کی ہلاکت کے بعد پاک ایران سرحدی و سفارتی کشیدگی کے تناظر میں ایک سوال کے جواب میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں نے ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف کو یقین دلایا ہے کہ پاکستان کوئی دہشتگرد سرگرمی برداشت نہیں کرے گا۔ایران ہمارا ہمسائیہ ہے اور ہم اس کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کریں گے۔دونوں ممالک ایک دوسرے کی علاقائی سالمیت کا احترام کرتے ہیں اور سرحدی معاملات میں پاکستان نے پہلے بھی تعاون کیا ہے، آیندہ بھی کرتا رہے گا۔
شاہ محمود قریشی کے اس رسمی و مفاہمانہ بیان کے بعد بات ختم ہو جانی چاہیے تھی۔مگر مہمان سعودی وزیرِ خارجہ نے میزبان کے جواب کو شافی نہ جانتے ہوئے یہ اضافہ کرنا مناسب سمجھا کہ ایران جو بذات خود سب سے بڑا دہشتگرد ہے وہ کس منہ سے کسی اور پر دہشتگردی کا الزام لگا سکتا ہے۔ ایران انیس سو اناسی کے انقلاب کے بعد سے ہی دہشتگردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔اس نے لبنان میں حزب اللہ اور یمن میں حوثیوں کو شہہ دی۔وہ امریکا اور سعودی عرب میں دہشتگرد حملوں میں ملوث رہا۔اس نے اپنے ہاں اسامہ بن لادن کے بیٹے سیمت القاعدہ کے دہشتگردوں کو پناہ دی وغیرہ وغیرہ۔۔۔
ایسے موقع پر کون سا میزبان اپنے مہمان کو یاد دلا سکتا ہے کہ بھائی جان آپ تو کچھ دیر میں گھر روانہ ہو جائیں گے، مجھے تو یہیں انھی ہمسائیوں کے ساتھ اسی محلے میں رہنا ہے۔اور جب مہمان انتہائی مالدار اور میزبان نہایت سفید پوش ہو تو پھر تو ہر بات پر خاموش رہ کر سر ہلانا ہی عقل مندی ہے۔بھلے بعد میں گھروالوں اور محلے پر کچھ بھی بیتے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)