سعودی ولی عہد کا کامیاب دورہ معاشی اور سیاسی استحکام بڑھے گا

حکومت کو بڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہئیے تھا اوراس اہم دورے پر یکجہتی کا واضح پیغام جانا چاہیے تھا۔


Irshad Ansari February 20, 2019
حکومت کو بڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہئیے تھا اوراس اہم دورے پر یکجہتی کا واضح پیغام جانا چاہیے تھا۔ فوٹو : فائل

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا تاریخی دورہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی بہت بڑی سیاسی و سفارتی کامیابی ہے جو آگے چل کر اقتصادی کامیابی کی راہیں ہموار کرے گا، اس دورے میں وزیراعظم عمران خان نے سعودی ولی عہد کے سامنے سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کا مقدمہ جس بہترین انداز میں لڑا ہے وہ قابل فخر ہے اور عمران خان کو اس پر جتنی داد دی جائے وہ کم ہے۔

سعودی ولی عہد نے بھی عملدرآمد میں ذرا دیر نہیں کی اور پاکستان میں موجودگی کے دوران ہی سعودی جیلوں میں قید دو ہزار سے زائد پاکستانیوں کی رہائی کا حکم دیدیا ہے اور سعودی شہزادے نے خود کو پاکستان کا سفیر کہہ کر تو پاکستانیوں کے دل جیت لیے۔

اس اقدام سے وزیراعظم عمران خان کے قد میں تو یقینی طور پر اضافہ ہوا ہے مگر اس کے ملکی معیشت پر بھی دور رس اثرات پڑیں گے اور اوورسیز پاکستانیوں کا کپتان پر اعتماد بڑھے گا جس سے آنیوالے دنوں اور مہینوں میں یقینی طور پر نہ صرف سعودی عرب بلکہ دنیا بھر میں مقیم اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے بھجوائی جانیوالی ترسیلات زر میں نمایاں اضافہ ہوگا جس سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھوتری ملے گی اور معیشت کو استحکام دینے میں مدد ملے گی۔

ویسے تو پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دیرینہ تعلقات ہیں اورقیام پاکستان سے ہی سعودی عرب کے ساتھ تعلقات پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک مخصوص جواز ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ شاید امریکہ اور برطانیہ کے باہمی تعلقات کی نوعیت اتنی گہری نہیں جتنی پاکستان اور سعودی عرب کی ہے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان رشتے اور تعلقات کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بنیاد یا وجہ تو بدل سکتی ہے لیکن ان کی گہرائی بڑھتی ہی رہی ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے نئے دور کی داغ بیل پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے تقریباً چھ ماہ قبل دورہ سعودی عرب کے موقع پر سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ ہونیوالی اہم ملاقات میں ڈالی گئی اوراس ملاقات کے بعد دونوں ممالک کی سیاسی قیادت کے درمیان ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو سعودی عرب نے وزیراعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب کے دوران سات ارب ڈالر سے زائد کے پیکج کا اعلان کیا جو مسائل کے بھنور میں گھری معیشت کیلئے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا اور اب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے تاریخی دورہ پاکستان سے پاک سعودی اسٹریٹجک تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہوا ہے لیکن اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس کا کریڈٹ ملک کی سیاسی و عسکری قیادت کو جاتا ہے کیونکہ عالمی و خطے کی پاکستان مخالفت طاقتوں نے سعودی ولی عہد کے اس دورے کو سبوتاژ کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور اس کیلئے پلوامہ دھماکہ اور ایران میں دھماکہ جیسے گھناونے کھیل رچا کر ملک میں دوبڑی فالٹ لائنز کو چھیڑنے کی کوشش کی گئی مگر ہمیشہ کی طرح ملک دشمن قوتوں کو مُنہ کی کھانا پڑی اور سعودی ولی عہد نہ صرف پاکستان آئے بلکہ اکیس ارب ڈالر کے لگ بھگ مالیت کی سرمایہ کاری کے ایم او یوز کرکے دشمنوں کے سینے پر مونگ بھی دل کر گئے۔

محمد بن سلمان کا پاکستان آنا ایک تاریخی دورہ تصور کیا جا رہا ہے۔ اپریل 2017 میں ولی عہد کا درجہ ملنے کے بعد محمد بن سلمان کا یہ پہلا باضابطہ غیر ملکی دورہ تھا اور سعودی ولی عہد ایسے وقت میں پاکستان آئے ہیں جب پاکستان معاشی طور پر اپنے قریب ترین اتحادیوں کی مدد چاہتا ہے، دونوں ممالک کے درمیان بہت مضبوط عسکری تعلقات ہیں اس وقت دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے ان کا یہ دورہ خطے کی تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال میں عالمی سطح پرخصوصاً خطے کے ممالک کیلئے واضحغ پیغام ہے اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مسلسل کوششوں سے سعودی عرب کی نوجوان اور پرگریسو قیادت پاکستان کے ساتھ گرم جوش اسٹریٹجک تعلقات استوار کرنے جا رہی ہے لیکن ملک کی سیاسی قیادت کا امتحان اب شروع ہونے جا رہا ہے اور اس دورے میں ہونیوالے ایم او یوز کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے اور خطے کے دوسرے ہمسایہ ممالک کے ساتھ غلط فہمیاں پیدا کرنے کی ملک دشمن قوتوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے تمام سیاسی پارٹیوں کو سیاسی اختلافات سے بالاتر ہوکر یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

اس دورے میں اگرچہ اپوزیشن کو دور رکھنے پر حکومتی جماعت پر تنقید ہو رہی ہے مگر یہ عمران خان کی حکومت کیلئے ایک بہت بڑا شو تھا اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ یہ اپوزیشن کے ہاتھوں ہائی جیک ہو یا اپوزیشن کو اس کریڈٹ میں شامل کیا جا سکے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت کو بڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہئیے تھا اوراس اہم دورے پر یکجہتی کا واضح پیغام جانا چاہیے تھا کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت کو ن لیگ کی حکومت سے اختلافات اپنی جگہ مگر یہ بات ماننا پڑے گی کہ سعودی ولی عہد نے نام لئے بغیر مسلم لیگ(ن)کی حکومت کی کاوشوں کا اعتراف کیا ہے اور اپنے دورے کے دوران ہونیوالی افتتاحی تقریب میں بھی اور دورہ کے اختتام پر وزیراعظم عمران خان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں بھی گذشتہ مالی سال کے دوران پاکستان کی پانچ فیصد سے زائد رہنے والی جی ڈی پی گروتھ کا ذکر کئے بغیر وہ نہیں رہ سکے۔

دوسری جانب یہ بھی اطلاعات ہیں کہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی سربراہی میں سعودی ولی عہد سے ملاقات کرنے والے پارلیمانی وفد سے گفتگو کے دوران جب سینٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق اور پاکستان مسلم لیگ(ن)کے رہنما مشاہداللہ کی جانب سے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف اور قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کا نیک خواہشات کا پیغام سعودی ولی عہد کو پہنچایا گیا تو سعودی ولی عہد نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میاں نوازشریف اور شہباز شریف ان کے دل میں رہتے ہیں اور شریف برادران کے ساتھ ان کے دیرنہ تعلقات ہیں، تاہم واقفان حال کا کہنا ہے کہ سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جو احتساب کا پراسیس ہو رہا ہے وہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت کی جانب سے اپوزیشن کوکنارہ کش کرنے کے باوجود اگر واقفان حال کے یہ دعوے درست ہیں تو یہ واقعہ تحریک انصاف کیلئے قومی اسمبلی کے بعد ایوان بالا میں بھی مزید مسائل پیدا کرے گا، کیونکہ اس سارے دورے میں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اس طرح متحرک دکھائی نہیں دیئے جس طرح چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی تھے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں