میگا منی لانڈرنگ کیس کیا رخ اختیار کرے گا سب کو انتظار
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری امریکا گئے ہوئے ہیں اور وہ بھی وہاں سے حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
سندھ کی سیاست میں اس وقت ٹھہراؤ ہے، سیاسی جماعتیں خصوصاً سندھ کی اپوزیشن سیاسی جماعتیں اس بات کا انتظار کر رہی ہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف مبینہ جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کیا رخ اختیار کرتا ہے۔
قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کراچی بینکنگ کورٹ میں درخواست دائر کی ہے کہ میگا منی لانڈرنگ کیس راولپنڈی منتقل کیا جائے۔ سندھ میں پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے ابھی تک وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی حکومت کے خلاف تحریک انصاف کی مہم کی واضح حمایت کا عندیہ نہیں دیا ہے لیکن وہ سندھ میں مختلف ایشوز پر اپنی سیاست کی کوشش کر رہی ہیں۔ انہوں نے ''دیکھو اور انتظار کرو'' کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی روشنی میں گزشتہ ماہ نیب کے چیئرمین نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس اور میگا منی لانڈرنگ کیس نیب راولپنڈی کے حوالے کردیا تھا۔ نیب راولپنڈی کے ڈائریکٹر جنرل عرفان ان مقدمات میں تحقیقات کی نگرانی کریں گے۔ عرفان منگی اس جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کے بھی رکن تھے، جس نے پانامہ پیپرز کیس کی تحقیقات کی تھی۔ اس کیس میں سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو سزا ہوئی تھی۔ اب عرفان منگی سابق صدر آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماؤں اور اہم شخصیات کے خلاف اس مقدمے کی نگرانی کریں گے۔
نیب نے عرفان منگی کی سربراہی میں جو ٹیم تشکیل دی ہے، اسے کمبائنڈ انویسٹی گیشن (سی آئی ٹی) کا نام دیا گیا ہے جبکہ تین روز قبل چیئرمین نیب نے کراچی بینکنگ کورٹ میں دائر کی ہے کہ جعلی بینک اکاؤنٹس کیس بھی نیب راولپنڈی کو منتقل کیا جائے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری پاکستان میں ہیں اور وہ اپنے سیاسی رابطے تیز کر رہے ہیں۔ خصوصاً سندھ میں ان کی سرگرمیوں میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری امریکا گئے ہوئے ہیں اور وہ بھی وہاں سے حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کا سندھ میں مخالف سیاسی اتحاد گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے) ابھی تک کوئی واضح سیاسی حکمت عملی نہیں بنا سکا ہے۔ گزشتہ پیر کو حروں کے روحانی پیشوا اور جی ڈی اے کے سربراہ پیر پگارا کی زیر صدارت جی ڈی اے میں شامل سیاسی جماعتوں کی مرکزی قیادت کا اجلاس کنگری ہاؤس کراچی میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ جی ڈی اے کی سیاسی جماعتیں آئندہ بلدیاتی انتخابات اور عام انتخابات کے لئے ابھی سے تیاری شروع کر دیں گی ۔
اجلاس میں پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کی مختلف پالیسیوں پر اگرچہ تنقید کی گئی لیکن سندھ حکومت کے خلاف کسی سیاسی لائحہ عمل کا اعلان نہیں کیا گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ جی ڈی اے نے 18 ویں آئینی ترمیم کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اسے برقرار رکھنے کے لیے اپنے عزم کا اظہار کیا ہے۔
دوسری طرف ایم کیو ایم پاکستان بھی سندھ کی سیاست کے حوالے سے تحریک انصاف کے مؤقف کی کھل کر حمایت نہیں کر رہی ہے۔ اس کی قیادت مرکز میں اپنی اتحادی جماعت تحریک انصاف سے شکوے شکایات بھی کرتی رہتی ہے اور سندھ کے منصوبوں کے لیے وفاقی حکومت سے وسائل مہیا کرنے کا مطالبہ کرتی رہتی ہے۔ اس نے اپنے حلقہ اثر میں مختلف ایشوز پر سیاست بھی شروع کردی ہے۔
اگلے روز ایم کیو ایم پاکستان کے عارضی مرکز بہادرآباد میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے رابطہ کمیٹی کے ارکان سید فیصل سبزواری اور کنور نوید جمیل نے کہا کہ کوٹہ سسٹم پر عدالتی کمیشن بنایا جائے، شہری سندھ کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ نہ رکا اور ہمیں خود مختار بلدیاتی نظام نہ دیا گیا تو الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ انہوں نے ایک اہم بات یہ کی کہ ہمیں یہ احساس نہ دلایا جائے کہ ہم نے 18 ویں ترمیم کا ساتھ دے کر غلطی کی۔
اس بات سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ جی ڈی اے کے برعکس ایم کیو ایم 18 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے تحریک انصاف کا ساتھ دے سکتی ہے۔ بہرحال سب لوگ آئندہ متوقع سیاسی اور عدالتی فیصلوں کا انتظار کر رہے ہیں۔
قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کراچی بینکنگ کورٹ میں درخواست دائر کی ہے کہ میگا منی لانڈرنگ کیس راولپنڈی منتقل کیا جائے۔ سندھ میں پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے ابھی تک وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی حکومت کے خلاف تحریک انصاف کی مہم کی واضح حمایت کا عندیہ نہیں دیا ہے لیکن وہ سندھ میں مختلف ایشوز پر اپنی سیاست کی کوشش کر رہی ہیں۔ انہوں نے ''دیکھو اور انتظار کرو'' کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی روشنی میں گزشتہ ماہ نیب کے چیئرمین نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس اور میگا منی لانڈرنگ کیس نیب راولپنڈی کے حوالے کردیا تھا۔ نیب راولپنڈی کے ڈائریکٹر جنرل عرفان ان مقدمات میں تحقیقات کی نگرانی کریں گے۔ عرفان منگی اس جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کے بھی رکن تھے، جس نے پانامہ پیپرز کیس کی تحقیقات کی تھی۔ اس کیس میں سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو سزا ہوئی تھی۔ اب عرفان منگی سابق صدر آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماؤں اور اہم شخصیات کے خلاف اس مقدمے کی نگرانی کریں گے۔
نیب نے عرفان منگی کی سربراہی میں جو ٹیم تشکیل دی ہے، اسے کمبائنڈ انویسٹی گیشن (سی آئی ٹی) کا نام دیا گیا ہے جبکہ تین روز قبل چیئرمین نیب نے کراچی بینکنگ کورٹ میں دائر کی ہے کہ جعلی بینک اکاؤنٹس کیس بھی نیب راولپنڈی کو منتقل کیا جائے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری پاکستان میں ہیں اور وہ اپنے سیاسی رابطے تیز کر رہے ہیں۔ خصوصاً سندھ میں ان کی سرگرمیوں میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری امریکا گئے ہوئے ہیں اور وہ بھی وہاں سے حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کا سندھ میں مخالف سیاسی اتحاد گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے) ابھی تک کوئی واضح سیاسی حکمت عملی نہیں بنا سکا ہے۔ گزشتہ پیر کو حروں کے روحانی پیشوا اور جی ڈی اے کے سربراہ پیر پگارا کی زیر صدارت جی ڈی اے میں شامل سیاسی جماعتوں کی مرکزی قیادت کا اجلاس کنگری ہاؤس کراچی میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ جی ڈی اے کی سیاسی جماعتیں آئندہ بلدیاتی انتخابات اور عام انتخابات کے لئے ابھی سے تیاری شروع کر دیں گی ۔
اجلاس میں پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کی مختلف پالیسیوں پر اگرچہ تنقید کی گئی لیکن سندھ حکومت کے خلاف کسی سیاسی لائحہ عمل کا اعلان نہیں کیا گیا۔ اہم بات یہ ہے کہ جی ڈی اے نے 18 ویں آئینی ترمیم کی نہ صرف حمایت کی بلکہ اسے برقرار رکھنے کے لیے اپنے عزم کا اظہار کیا ہے۔
دوسری طرف ایم کیو ایم پاکستان بھی سندھ کی سیاست کے حوالے سے تحریک انصاف کے مؤقف کی کھل کر حمایت نہیں کر رہی ہے۔ اس کی قیادت مرکز میں اپنی اتحادی جماعت تحریک انصاف سے شکوے شکایات بھی کرتی رہتی ہے اور سندھ کے منصوبوں کے لیے وفاقی حکومت سے وسائل مہیا کرنے کا مطالبہ کرتی رہتی ہے۔ اس نے اپنے حلقہ اثر میں مختلف ایشوز پر سیاست بھی شروع کردی ہے۔
اگلے روز ایم کیو ایم پاکستان کے عارضی مرکز بہادرآباد میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے رابطہ کمیٹی کے ارکان سید فیصل سبزواری اور کنور نوید جمیل نے کہا کہ کوٹہ سسٹم پر عدالتی کمیشن بنایا جائے، شہری سندھ کو نظر انداز کرنے کا سلسلہ نہ رکا اور ہمیں خود مختار بلدیاتی نظام نہ دیا گیا تو الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ انہوں نے ایک اہم بات یہ کی کہ ہمیں یہ احساس نہ دلایا جائے کہ ہم نے 18 ویں ترمیم کا ساتھ دے کر غلطی کی۔
اس بات سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ جی ڈی اے کے برعکس ایم کیو ایم 18 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے تحریک انصاف کا ساتھ دے سکتی ہے۔ بہرحال سب لوگ آئندہ متوقع سیاسی اور عدالتی فیصلوں کا انتظار کر رہے ہیں۔