سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ جھوٹے گواہ کا کیس انسداد دہشتگردی عدالت کو بھیج دیا
عدالت نے پولیس رضا کار محمد ارشد کی گواہی جھوٹی قرار دیتے ہوئے وضاحت مسترد کردی
PARIS:
سپریم کورٹ نے جھوٹی گواہی کے خلاف بڑا فیصلہ کرتے ہوئے پولیس رضا کار کا کیس انسداد دہشت گردی کی عدالت کو ارسال کردیا۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے قتل کیس میں جھوٹی گواہی دینے سے متعلق کیس کی سماعت کی تو مبینہ جھوٹی گواہی دینے والا قومی رضاکار محمد ارشد پیش ہوا۔
چیف جسٹس کے سوال پر محمد ارشد نے جواب دیا کہ مجھے بازو پر چھرا لگا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیکل رپورٹ کے مطابق آپ کو گولی یا چھرا لگا ہی نہیں، آپ کی جھوٹی گواہی پر ایک شخص کو سزائے موت ہوئی، قانون کہتا ہے جھوٹے گواہ کو سزائے موت دی جائے، پولیس اہلکار کے قتل کو اشتہاری پکڑنے کا رنگ دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس کا قتل کے مقدمے میں جھوٹی گواہی کا نوٹس
محمد ارشد نے کہا کہ ایس ایچ او نے مجھے فون کرکے کہا اپنا میڈیکل سرٹیفکیٹ لے جاؤ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے قومی رضاکار رضاکارانہ طور پر گواہ بن گیا، محمد ارشد نے بالکل جھوٹی گواہی دی، پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ جھوٹے گواہ کو تحفظ نہیں دیا جا سکتا۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ عدالت نے گواہی کے حالات اور گواہ کی حیثیت بھی دیکھنا ہے، رضاکار کی حیثیت نہیں کہ ایس ایچ او کو انکار کرے۔
سپریم کورٹ نے بڑا فیصلہ کرتے ہوئے جھوٹی گواہی دینے والے پولیس رضا کار کا کیس انسداد دہشت گردی کی عدالت کو ارسال کردیا۔ عدالت نے محمد ارشد کی جھوٹی گواہی پر وضاحت مسترد کرتے ہوئے فیصلہ دیا کہ محمد ارشد نے انسداد دہشتگردی کی عدالت میں جھوٹ بولا، دہشتگردی کی عدالت جھوٹ بولنے پر سیشن کورٹ میں شکایت دائر کرے، سیشن کورٹ شکایات پر قانونی کارروائی عمل میں لائے، کیونکہ سپریم کورٹ خود ٹرائل نہیں کرسکتی۔
محمد ارشد نے کہا کہ حلفا کہتا ہوں میں نے سچ بولا، میری دو چھوٹی چھوٹی بیٹیاں ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حلف میں کہا جاتا ہے جھوٹ بولوں تو اللہ کا قہر نازل ہو، ممکن ہے اللہ کو قہر نازل کرنا منظور ہوگیا ہو، آپ نے کہا کہ چھرے آپ کی پینٹ پر بھی لگے، کیا آپ نے لوہے کی پتلون پہنی ہوئی تھی؟، بچوں کے بارے میں جھوٹا حلف اٹھاتے وقت سوچنا تھا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے چھ فروری کو اس کیس کی سماعت میں سزائے موت یافتہ ملزم کو بری کردیا تھا۔
سپریم کورٹ نے جھوٹی گواہی کے خلاف بڑا فیصلہ کرتے ہوئے پولیس رضا کار کا کیس انسداد دہشت گردی کی عدالت کو ارسال کردیا۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے قتل کیس میں جھوٹی گواہی دینے سے متعلق کیس کی سماعت کی تو مبینہ جھوٹی گواہی دینے والا قومی رضاکار محمد ارشد پیش ہوا۔
چیف جسٹس کے سوال پر محمد ارشد نے جواب دیا کہ مجھے بازو پر چھرا لگا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیکل رپورٹ کے مطابق آپ کو گولی یا چھرا لگا ہی نہیں، آپ کی جھوٹی گواہی پر ایک شخص کو سزائے موت ہوئی، قانون کہتا ہے جھوٹے گواہ کو سزائے موت دی جائے، پولیس اہلکار کے قتل کو اشتہاری پکڑنے کا رنگ دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس کا قتل کے مقدمے میں جھوٹی گواہی کا نوٹس
محمد ارشد نے کہا کہ ایس ایچ او نے مجھے فون کرکے کہا اپنا میڈیکل سرٹیفکیٹ لے جاؤ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے قومی رضاکار رضاکارانہ طور پر گواہ بن گیا، محمد ارشد نے بالکل جھوٹی گواہی دی، پنجاب حکومت کے وکیل نے کہا کہ جھوٹے گواہ کو تحفظ نہیں دیا جا سکتا۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ عدالت نے گواہی کے حالات اور گواہ کی حیثیت بھی دیکھنا ہے، رضاکار کی حیثیت نہیں کہ ایس ایچ او کو انکار کرے۔
سپریم کورٹ نے بڑا فیصلہ کرتے ہوئے جھوٹی گواہی دینے والے پولیس رضا کار کا کیس انسداد دہشت گردی کی عدالت کو ارسال کردیا۔ عدالت نے محمد ارشد کی جھوٹی گواہی پر وضاحت مسترد کرتے ہوئے فیصلہ دیا کہ محمد ارشد نے انسداد دہشتگردی کی عدالت میں جھوٹ بولا، دہشتگردی کی عدالت جھوٹ بولنے پر سیشن کورٹ میں شکایت دائر کرے، سیشن کورٹ شکایات پر قانونی کارروائی عمل میں لائے، کیونکہ سپریم کورٹ خود ٹرائل نہیں کرسکتی۔
محمد ارشد نے کہا کہ حلفا کہتا ہوں میں نے سچ بولا، میری دو چھوٹی چھوٹی بیٹیاں ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ حلف میں کہا جاتا ہے جھوٹ بولوں تو اللہ کا قہر نازل ہو، ممکن ہے اللہ کو قہر نازل کرنا منظور ہوگیا ہو، آپ نے کہا کہ چھرے آپ کی پینٹ پر بھی لگے، کیا آپ نے لوہے کی پتلون پہنی ہوئی تھی؟، بچوں کے بارے میں جھوٹا حلف اٹھاتے وقت سوچنا تھا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے چھ فروری کو اس کیس کی سماعت میں سزائے موت یافتہ ملزم کو بری کردیا تھا۔