کائنات کے نئے نقشے میں 3 لاکھ کہکشاؤں کا اضافہ
بلیک ہولز کے بارے میں ایسی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ ان کے بننے کی وجوہات کیا ہیں۔
خواجہ میر دردؔ نے تقریباً دو صدیاں پہلے سرسری انداز میں ایک بہت گہری بات کی تھی :
سرسری ہم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہان دیگر تھا
آج فرانس کی سائنسی ویب سائٹ نے حیرت انگیز انکشاف کیا ہے کہ کائنات کا جو نیا نقشہ جاری کیا گیا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں 3 لاکھ نئی کہکشائیں بھی موجود ہیں اور ایک کہکشاں میں کتنے ستارے ہوتے ہیں یہ تعداد ابھی تک صحیح طور پر گنی نہیں جا سکی اور ستاروں کا حجم سورج جتنا یا اس سے بڑا ہوتا ہے۔ ہمارے نظام شمسی میں صرف سورج ایک ستارہ ہے اور باقی زمین' چاند اور دیگر وہ سب سیارے ہیں جو سب کے سب کسی شمسی نظام کے تابع ہیں۔ فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی بتاتی ہے کہ انسان کا اپنی کائنات کے بارے میں جو علم ہے اصل میں کائنات اس سے کہیں زیادہ بڑی ہے ۔
عالمی سائنسدانوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم خلا کی وسعتوں کا ازسرنو جائزہ لے رہی ہے۔ اس ٹیم کا کہنا ہے کہ نئے جائزے میں کائنات کے گہرے ترین رازوں کے بارے میں نئی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس میں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس میں ''بلیک ہولز'' پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جن کے بارے میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ بلیک ہولز کسی نئی دنیا میں داخلے کے دروازے ہیں۔ اس اسٹڈی میں 18ملکوں کے2 سو سے زائد ماہرین فلکیات حصہ لے رہے ہیں۔
پیرس کی خلائی آبزرویٹری یا رصد گاہ سے ریڈیو ٹیلی اسکوپ پر کم فرینکوئنسی سے جو تصاویر حاصل کی گئی ہیں، ان میں سپر میسو بلیک ہولز کی نشاندہی بھی ہوتی ہے۔ یونیورسٹی آف ہیمبرگ کی اسکالر ایمٹڈا ولبر کا کہنا ہے کہ جدید ترین طریقہ کار سے سائنسدان ریڈیائی لہروں کے ذریعے نہ نظر آنے والے اجسام کے بارے میں بھی آگاہی حاصل کر سکتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ روشنی کے جن ذرایع کو دریافت کیا گیا ہے وہ سائنسدانوں کے لیے نئے دروازے کھولنے کا باعث بنیں گے ۔
بلیک ہولز کے بارے میں ایسی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ ان کے بننے کی وجوہات کیا ہیں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ بلیک ہولز کے بننے اور معدوم ہونے کا عمل لاکھوں برس پر محیط ہوتا ہے لہٰذا ان کے بارے میں سرسری طور پر کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ ترقی یافتہ دنیا سائنسی تحقیق پر اربوں ڈالر خرچ کررہی ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک کے سائنس دان نئے جہان تلاش کررہے ہیں لیکن جب ہم اپنے ملک کو دیکھتے ہیں تو یہاں کی لیڈرشپ اوسط درجے کے ایشوز پر ہی باتیں کرتی نظر آتی ہے۔
سرسری ہم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہان دیگر تھا
آج فرانس کی سائنسی ویب سائٹ نے حیرت انگیز انکشاف کیا ہے کہ کائنات کا جو نیا نقشہ جاری کیا گیا ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں 3 لاکھ نئی کہکشائیں بھی موجود ہیں اور ایک کہکشاں میں کتنے ستارے ہوتے ہیں یہ تعداد ابھی تک صحیح طور پر گنی نہیں جا سکی اور ستاروں کا حجم سورج جتنا یا اس سے بڑا ہوتا ہے۔ ہمارے نظام شمسی میں صرف سورج ایک ستارہ ہے اور باقی زمین' چاند اور دیگر وہ سب سیارے ہیں جو سب کے سب کسی شمسی نظام کے تابع ہیں۔ فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی بتاتی ہے کہ انسان کا اپنی کائنات کے بارے میں جو علم ہے اصل میں کائنات اس سے کہیں زیادہ بڑی ہے ۔
عالمی سائنسدانوں کی ایک بین الاقوامی ٹیم خلا کی وسعتوں کا ازسرنو جائزہ لے رہی ہے۔ اس ٹیم کا کہنا ہے کہ نئے جائزے میں کائنات کے گہرے ترین رازوں کے بارے میں نئی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس میں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس میں ''بلیک ہولز'' پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جن کے بارے میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ بلیک ہولز کسی نئی دنیا میں داخلے کے دروازے ہیں۔ اس اسٹڈی میں 18ملکوں کے2 سو سے زائد ماہرین فلکیات حصہ لے رہے ہیں۔
پیرس کی خلائی آبزرویٹری یا رصد گاہ سے ریڈیو ٹیلی اسکوپ پر کم فرینکوئنسی سے جو تصاویر حاصل کی گئی ہیں، ان میں سپر میسو بلیک ہولز کی نشاندہی بھی ہوتی ہے۔ یونیورسٹی آف ہیمبرگ کی اسکالر ایمٹڈا ولبر کا کہنا ہے کہ جدید ترین طریقہ کار سے سائنسدان ریڈیائی لہروں کے ذریعے نہ نظر آنے والے اجسام کے بارے میں بھی آگاہی حاصل کر سکتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ روشنی کے جن ذرایع کو دریافت کیا گیا ہے وہ سائنسدانوں کے لیے نئے دروازے کھولنے کا باعث بنیں گے ۔
بلیک ہولز کے بارے میں ایسی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ ان کے بننے کی وجوہات کیا ہیں۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ بلیک ہولز کے بننے اور معدوم ہونے کا عمل لاکھوں برس پر محیط ہوتا ہے لہٰذا ان کے بارے میں سرسری طور پر کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔ ترقی یافتہ دنیا سائنسی تحقیق پر اربوں ڈالر خرچ کررہی ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک کے سائنس دان نئے جہان تلاش کررہے ہیں لیکن جب ہم اپنے ملک کو دیکھتے ہیں تو یہاں کی لیڈرشپ اوسط درجے کے ایشوز پر ہی باتیں کرتی نظر آتی ہے۔