فضائل و مناقب سیدنا علی المرتضیٰ ؓ
حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کی ذاتِ گرامی بے شمار کمال و خوبیوں کی جامع ہے...
حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کی ذاتِ گرامی بے شمار کمال و خوبیوں کی جامع ہے۔
آپ شیر خدا بھی ہیں اور داماد مصطفیؐ بھی، حیدر کرار بھی اور صاحب ذوالفقار بھی ، حضرت فاطمۃ الزہرا کے شوہر نام دار بھی اور حسنین کریمین کے والد بزرگوار بھی، صاحب سخاوت بھی اور صاحب شجاعت بھی، عبادت و ریاضت والے بھی اور فصاحت و بلاغت والے بھی، علم والے بھی اور حلم والے بھی، فاتح خیبر بھی اور میدان خطابت کے شہسوار بھی، غرض یہ کہ آپ بہت سی کمال و خوبیوں کے جامع ہیں اور ہر ایک میں ممتاز و یگانۂ روزگار ہیں، اسی لیے دنیا آپ کو ''مظہر العجائب و الغرائب'' سے یاد کرتی ہے اور قیامت تک اسی طرح یاد کرتی رہے گی۔
آپؓ کی فضیلت میں اتنی حدیثیں وارد ہیں بلکہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جتنی حدیثیں آپؓ کی فضیلت میں ہیں کسی اور صحابی کی فضیلت میں اتنی حدیثیں نہیں ہیں۔ بخاری اور مسلم میں حضرت سعد بن وقاصؓ سے روایت ہے کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر جب رسول اللہﷺ نے حضرت علیؓ کو مدینہ طیبہ میں رہنے کا حکم فرمایا اور اپنے ساتھ نہ لیا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! آپ مجھے یہاں عورتوں اور بچوں پر اپنا خلیفہ بنا کر چھوڑے جاتے ہیں تو سرکار دو عالمؐ نے فرمایا: '' کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ میں تمہیں اس طرح چھوڑے جاتا ہوں کہ جس طرح حضرت موسیٰؑ حضرت ہارونؑ کو چھوڑ گئے، البتہ فرق صرف اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔
مطلب یہ ہے کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور پر جاتے وقت چالیس دن کے لیے اپنے بھائی حضرت ہارونؑ کو بنی اسرائیل پر اپنا خلیفہ بنایا تھا اسی طرح جنگ تبوک پر روانگی کے وقت میں تم کو اپنا خلیفہ اور نائب بنا کر جا رہا ہوں۔ لہٰذا جو مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نزدیک حضرت ہارون علیہ السلام کا تھا وہی مرتبہ ہماری بارگاہ میں تمہارا ہے۔ اس لیے اے علی! تمہیں خوش ہونا چاہیے، تو ایسا ہی ہوا کہ اس خوش خبری سے حضرت علیؓ کو تسلی ہو گئی۔
حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمؐ نے فرمایا علی سے منافق محبت نہیں کرتا اور مومن علی سے بغض و عداوت نہیں رکھتا۔ (ترمذی)حضرت ام سلمہؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: '' جس نے علی کو برا بھلا کہا تو تحقیق اس نے مجھ کو برا بھلا کہا۔'' (مشکوٰۃ) یعنی حضرت علیؓ کو حضور نبی اکرمؐ سے اتنا قرب اور نزدیکی حاصل ہے کہ جس نے ان کی شان میں گستاخی و بے ادبی کی تو گویا کہ اس نے حضور نبی اکرمؐ کی شان میں گستاخی و بے ادبی کی۔ خلاصہ یہ ہے کہ ان کی توہین کرنا حضور نبی اکرمؐ کی توہین کرنا ہے۔حضرت ابوطفیلؓ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت علیؓ نے ایک کھلے میدان میں بہت سے لوگوں کو جمع کرکے فرمایا کہ میں اللہ کی قسم دے کر تم لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے یوم غدیر خُم میں میرے متعلق کیا ارشاد فرمایا تھا؟ تو اس مجمع سے 30 آدمی کھڑے ہوئے اور ان لوگوں نے گواہی دی کہ حضور نبی اکرمؐ نے اس روز فرمایا تھا: '' میں جس کا مولیٰ ہوں علی بھی اس کے مولیٰ ہیں۔ یا الٰہ َ العالمین! جو شخص علی سے محبت رکھے تو بھی اس سے محبت رکھ اور جو شخص علی سے عداوت رکھے تو بھی اس سے عداوت رکھ۔'' (تاریخ الخلفاء )
طبرانی حضرت جابرؓ سے اور ترمذی و حاکم حضرت علیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے فرمایا: '' میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔''علامہ جلال الدین سیوطیؒ تحریر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے اور جنہوں نے اس کو موضوع کہا ہے انہوں نے غلطی کی ہے۔'' (تاریخ الخلفاء)حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: '' جس نے علی سے محبت کی تو اس نے مجھ سے محبت کی۔ جس نے علی سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی اور جس نے مجھ سے دشمنی کی اس نے اللہ سے دشمنی کی۔'' (تاریخ الخلفاء)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم علم کے اعتبار سے بھی بہت اونچا مقام رکھتے ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ کے سامنے جب حضرت علیؓ کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: '' علی سے زیادہ مسائل شرعیہ کا جاننے والا کوئی نہیں ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ مدینہ طیبہ میں علم، فرائض اور مقدمات کے فیصلے کرنے میں حضرت علیؓ سے زیادہ علم رکھنے والا کوئی دوسرا نہیں تھا اور حضرت سعید بن مسیبؓ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرمؐ کے صحابہ میں سوائے حضرت علیؓ کے کوئی یہ کہنے والا نہیں تھا کہ جو کچھ پوچھنا ہو مجھ سے پوچھ لو۔'' (تاریخ الخلفاء)