ترقیاتی کاموں میں صرف پانچ ہزار گھپلے
ویسے تو سپریم کورٹ آف پاکستان اور اس کے اتباع میں ملک بھر کی اعلیٰ عدالتیں سب ہی عوام کا جی خوش کر رہی ہیں...
ویسے تو سپریم کورٹ آف پاکستان اور اس کے اتباع میں ملک بھر کی اعلیٰ عدالتیں سب ہی عوام کا جی خوش کر رہی ہیں، فیصلوں پر عمل درآمد ہو یا نہ ہو کیوں کہ حکومت کے پاس بھی ایک سے ایک بڑھ کر شریف الدین پیر زادہ پڑے ہوئے ہیں، لیکن یہ کیا کم ہے کہ عوام کے جلے دل کے پھپھولے کچھ تو پھوٹ جاتے ہیں اور یہ تو کہاوت بھی ہے کہ اپھارے کے مریض کا ڈکار سے بھی فائدہ ہو جاتا ہے، لیکن اب کے جو فیصلہ آیا ہے اس نے تو ہمارا جی خوش کر دیا۔ گرمی، روزے، لوڈ شیڈنگ اور بقول رحمٰن بابا نا اہل حاکموں کی وجہ سے گھر گور اور پشاور کے ایک جیسا ہونے کے باوجود ہم اس فیصلے پر خاصا افاقہ محسوس کرنے لگے بلکہ کچھ کچھ ویسا ہی سلسلہ ہے جیسا کہ غالب نے کہا تھا کہ
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
سپریم کورٹ نے اپنے اس حکم میں غیر شفاف ترقیاتی منصوبوں پر منظوری دینے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیتے ہوئے ہمارے منہ کی جو بات چھینی ہے وہ یہ کہ ترقیاتی کام بلدیاتی اداروں کا ہے، زیر بحث مقدمہ تو سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف چل رہا ہے لیکن اس زریں دور میں ایک سے بڑھ کر ایک راجے اور اشراف اور پرویز سرگرم بلکہ جیب گرم تھے، چنانچہ اس گرمی سے ہم بھی اتنے زیادہ متاثر ہوئے ہیں کہ رمضان المبارک کے فوراً بعد ہم بھی ایک کیس فائل کرنے والے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ جب ہم بحیثیت ووٹر اپنے منتخب نمایندوں کے خلاف کیس ڈال دیں گے تو ملک بھر سے فنڈز ترقیاتی کاموں اور منتخب نمایندوں کے ڈسے ہوئے بھی اس راہ پر چل پڑیں گے اور دنیا کو لگ پتہ جائے گا کہ ان منتخب عوامی نمایندوں اور عوامی جمہوریت کے علمبرداروں نے اس قوم کے ساتھ کیا کیا چنگیز خانیاں کی ہیں، ویسے تو ہم ملک بھر میں صوابدیدی فنڈوں، ترقیاتی کاموں اور منتخب نمایندوں کی بدعنوانیوں کے بارے میں جانتے ہیں لیکن جس حلقے کا ہم ذکر کر رہے ہیں، اس میں تو معمول کے اپنے فنڈز کے علاوہ این جی اوز اور دوسرے ممالک سے سیلاب زدہ گان کے لیے آیا ہوا نان و نفقہ بھی ایسا لوٹا گیا کہ ایسا اور اتنا بچہ سقہ نے کابل کو بھی نہیں لوٹا تھا۔
اندازہ اس سے لگائیں کہ ایسے ایسے دیہات میں بھی وطن کارڈز اور سیلاب زدگان کا حق تقسیم کیا گیا جنہوں نے ٹی وی پر بھی سیلاب کو نہیں دیکھا تھا، چلو کسی منتخب عوامی نمایندے کے فنڈ کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ حکومت نے یہ اس لیے رکھے ہیں کہ یہ لوگ اس پر دادا جی کا فاتحہ پڑھ سکیں، لیکن باہر کے ممالک سے جو خیرات آئی، اس کے ساتھ بھی وہی ہوا جو پڑوسی ملک کی ایک فلم میں ''رضیہ'' کے ساتھ ہوا تھا جو غنڈوں میں پھنس گئی تھی۔ اندازہ اس سے لگ سکتا ہے کہ جس گاؤں میں ہم رہتے ہیں ایم پی اے کے اپنے تحریری پمفلٹ کے مطابق گیارہ کروڑ روپے خرچ کیے گئے ہیں لیکن اگر کوئی اس گاؤں میں صرف ایک کروڑ کا ترقیاتی کام بھی دکھا دے تو باقی دس کروڑ ہم انعام کے طور پر بخش دیں گے۔
یہ رقم امریکا اورینٹیڈ ایک فلاحی تنظیم نے دی تھی، عام طور پر ایسی رقوم کو خرچ کرنے کے لیے کمیونٹی سے رجوع کیا جاتا ہے، کمیونٹی تنظیمیں بنا لیتی ہیں اور ان کو پراجیکٹ سونپ دیے جاتے ہیں، لیکن اس قسم کا کوئی تکلف یہاں نہیں کیا گیا تھا۔ گاؤں کے عام لوگوں حتیٰ کہ یونین کونسل کو بھی کانوں کان خبر نہیں ہوئی اور صرف ایک یونین میں تیس تنظیمیں بن گئیں اور گیارہ کروڑ روپے نہ جانے کن ترقیاتی کاموں پر صرف کیے گئے، البتہ ایک ''ترقیاتی کام'' اس میں نمایاں نظر آتا ہے کہ ان میں بعض تنظیموں کے کرتا دھرتا سائیکل سے نئی گاڑیوں پر آ گئے۔ ہم نے اس سلسلے میں اس تنظیم کے کرتا دھرتاؤں سے رجوع کیا وہاں اور تو کچھ نہ ہو سکا البتہ وہاں کے دورازے ہم پر بند ہو گئے، کوئی اس سلسلے میں بات تک کرنے کو تیار نہیں ہے۔
سب سمجھتے ہیں اور سب چپ ہیں
کوئی کہتا نہیں کہ تم سے کہیں
چنانچہ ہم ابھی گومگو کی کیفیت میں تھے کہ کیا کریں کیا نہ کریں، اب خدا جسٹس افتخار چوہدری اور سپریم کورٹ کے دوسرے جج صاحبان کو لمبی عمر عطا فرمائے کہ انھوں نے ہمیں بھی ''جائے فریاد'' کا پتہ بتا دیا اور ملک بھر کے ان تمام لوگوں کو بھی ۔۔۔۔ جن کے نام پر آئی ہوئی رقوم اور فنڈز اس ''گہرے انداز'' میں تقسیم کی گئیں جس پر پشتو کی ایک مشہور کہاوت صادق آتی ہے، کہاوت ہے
خڑے اوبہ ڑاندہ مہیان
یعنی گندا پانی اور اندھی مچھلیاں ۔۔۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ اس ملک میں عدالتیں ابھی اپنا فرض نبھا رہی ہیں، کام بے شک مشکل ہے، سپریم کورٹ کے مطابق ابھی تک پانچ ہزار اسکیمیں ایسی معلوم ہوئی ہیں جن میں شفاف کام نہیں ہوا ہے لیکن اصل تعداد کتنی ہو گی اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کیونکہ ہمارے علم میں ابھی تک کوئی ایسا منتخب نمایندہ نہیں آیا ہے جس نے اس بہتی گنگا میں پانچ سال تک مسلسل اشنان نہ کیا ہو، کام مشکل ہے بے چاری سپریم کورٹ کی حالت تو ایسی ہو گئی ہے کہ
یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے
تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے
چنانچہ سپریم کورٹ یا دوسری عدالتوں کے از خود نوٹس لینے کا انتظار نہ کیا جائے، ہر ووٹر کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے منتخب نمایندے سے فنڈز کے بارے میں پوچھے جو اس کے نام پر اسے ملتے ہیں، بے شک عدالتوں کا کام بڑھ جائے گا جو پہلے ہی سے بہت زیادہ بڑھا ہوا ہے کیونکہ ملک میں ایسا کوئی فرد چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا جس کی حکومت کے فنڈز تک رسائی ہوئی اور اس نے اس پر ہاتھ بلکہ پیر تک صاف نہ کیے ہوں، لیکن مجبوری ہے ایسا کرنا پڑے گا کیونکہ ملک، اس کی معیشت، اس کا خزانہ اور اس کے عوام ان ''فنڈ خوروں'' کے ہاتھوں گور کنارے پہنچ چکے ہیں۔ ہر ہر حلقے سے ووٹر اگر اپنے منتخب نمایندوں کے خلاف کیس دائر کر دیں گے تو کم از کم یہ تو ثابت ہو جائے گا کہ اس ملک کے عوام مظلوم تو ہیں لیکن احمق نہیں ہیں اور یہ ثابت کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ حکومتی تھیلی کے سارے چٹے بٹے چاہے وہ منتخب نمایندے ہوں یا مشیر ہوں یا سرکاری افسر یا اہلکار ہوں، ان سب کے خیال میں پاکستان کے عوام خالص احمق ہیں، بلکہ جدی پشتی احمق ہیں جو ہر الیکشن میں احمق بنتے ہیں اور ان کی آنکھوں کے سامنے یہ دلاور چور ان کا حق اڑا کر لے جاتے ہیں، یہ جن لوگوں نے صوابدیدی ڈاکہ زنی کی ہے۔
اس کا باعث یہی تو ہے کہ کون پوچھنے والا ہے، عوام تو احمق ہیں اور احمقوں کو لوٹنا ہوشیاروں کا پیدائشی حق ہوتا ہے، اس عظیم لوٹ مار کا ہلکا سا اندازہ اس سے لگائیں کہ صوبہ خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ کا ایک مشیر جو منتخب نمایندہ بھی نہیں تھا جب الیکشن میں کھڑا ہوتا ہے تو باقاعدہ اخباروں میں یہ بڑے بڑے اشتہار دیتا ہے کہ موصوف ایم این اے، ایم پی اے نہ ہونے کے باوجود اپنے حلقے میں دو ارب روپے کے ترقیاتی کام کیے، اسے ووٹ دے کر منتخب کرو گے تو آیندہ نہ جانے کتنے ارب روپے کے ترقیاتی کام کر ڈالے گا، یہ کرنا ہو گا ان منتخب نمایندوں کے منہ میں اگر لگام نہ دی گئی تو وہ دن دور نہیں جب اس ملک کو سالم نگل لیں گے اور عوام تاحیات آئی ایم ایف کے قرض دار رہ جائیں گے، بشرطیکہ ملک کی زمین بیچ نہ ڈالی گئی، اگر زمین بھی بیچ ڈالی گئی اور آثار تو بتا رہے ہیں کہ لگ بھگ آدھی تو بیچی جا چکی ہے تو پھر عوام کے لیے صرف ایک ہی آپشن رہ جائے گا کہ کنٹینروں، لانچوں اور غیر ملکی گولیوں اور جیلوں کو ذریعہ مواصلات بنا کر اگلے جہاں کو سدھار جائیں۔
اس گزر گاہ سے پہنچیں تو کہیں منزل تک
جو بھی گزرے گی گزاریں گے گزرنے والے